1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایک ناکام نظام؟ ۔۔۔۔۔ سعد رسول

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ایک ناکام نظام؟ ۔۔۔۔۔ سعد رسول

    پاکستان ایک جمہوری 'آئینی جمہوریہ‘ ہے۔ آسان الفاظ میں، پاکستان ایک جمہوریت ہے جس کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین کے تحت وضع کردہ ادارہ جاتی فریم ورک کے مطابق کام کرنا ہے۔ اس ڈھانچے کی کامیابی‘ جیسا کہ آئین میں تصور کیا گیا ہے‘ کی پیش گوئی کچھ بنیادی مفروضوں پر کی گئی ہے: (i) یہ کہ تمام تر قانون سازی اور پالیسیوں کی تیاری میں عوام کی مرضی کا خیال رکھا جائے گا۔ (ii) بنیادی حقوق کی سلطنت کو دور دراز کے علاقوں اور سماج کے نچلے ترین طبقوں تک وسعت دی جائے گی۔ یہ کہ (iii) لا اینڈ آرڈر‘ بشمول فرد اور پراپرٹی کے تحفظ‘ کو ریاست کی طاقت کے ذریعے یقینی بنایا جائے گا۔ (iv) جاگیر اور جائیداد کے انتخاب کے برعکس 'عوامی بھلائی‘ گورننس کے سانچے کا مرکزی نکتہ ہو گی۔ (v) خدمت کی فراہمی کے طریقہ ہائے کار کا فوکس مظلوم کی داد رسی پر مرکوز رہے گا۔ (vi) نظامِ عدل فتنہ گروں اور بدمعاشوں کو سزا دے گا اور مظلوم کے نقصان کی تلافی کرے گا‘ اور (vii) نمائشی بیوروکریٹک رکاوٹیں یا جدید عدالتی طریقہ ہائے کار کو آزادی یا انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔
    افسوسناک امر یہ ہے کہ حکمرانی، نظم و نسق‘ خدمات کی فراہمی، یہاں تک کہ انصاف کی فراہمی کا نظام... 1973 کے آئین کے تحت... ہمارے جمہوری آئینی وعدے کے مینڈیٹ کو پورا نہیں کر رہا ہے۔
    آئیے اس دعوے کی تحقیقات کریں۔
    کسی بھی جمہوری ریاست کے ڈھانچے کی پہلی اور اہم ترین ذمہ داری 'امن و امان‘ کے قیام کو یقینی بنانا ہے، خاص طور پر شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے سلسلے میں۔ کیا 1973 کے آئین کے تحت ریاستی ڈھانچہ یہ وعدہ پورا کر پایا ہے؟ زینب انصاری کے والدین اس بارے میں کیا کہیں گے؟ کیا ہمارے معاشرے میں، بچے کسی نقصان اور چھیڑ چھاڑ کے خوف کے بغیر، اپنے گھر یا گلی کی حدود کو عبور کر سکتے ہیں؟ کیا وہ اپنی بائیک پر سوار ہو کر مقامی سکول جا سکتے ہیں، اور کسی عوامی پارک میں بڑوں کی نگرانی کے بغیر کھیل سکتے ہیں؟ یہاں تک کہ بچوں سے الگ، کیا بالغ لوگ ایسے جمہوری معاشروں جیسے تحفظ اور آزادیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جن کی ہم مثال دیتے ہیں۔ کیا لاڑکانہ کے عوام بھٹو خاندان کے خلاف نعرے بازی کر سکتے ہیں اور پھر ہراساں کیے جانے کے خطرے کے بغیر اپنے گھروں میں رہ سکتے ہیں؟ کیا ہزارہ لوگ کوئٹہ کی سڑکوں پر مسلسل چوکنا رہے بغیر چل سکتے ہیں؟ کیا ڈیرہ بگٹی کے نوجوان اپنے قبائلی سرداروں کے گھر کے باہر احتجاج کر سکتے ہیں؟ کیا پشاور میں کوئی عورت‘ بے دخل کئے جانے یا اس سے بھی کچھ بدتر کے بغیر‘ قبائلی عمائدین کے درمیان سیٹ کا مطالبہ کر سکتی ہے؟
    اس سے بھی بدتر‘ کیا ہم اس سسٹم میں نہیں رہتے جہاں سرکاری مشینری کچھ استثنیٰ کے ساتھ گھنائونے جرائم کو دوام بخشتی یا ان کے جاری رہنے کی اجازت دیتی ہے۔ کیا سرکاری اداروں نے ماڈل ٹاؤن کی سڑکوں پر دن کی روشنی میں چودہ افراد کا قتل نہیں کیا تھا؟ اس قتل عام کے براہ راست ٹیلی کاسٹ ہونے کے باوجود، کیا اس سلسلے میں کسی سرکاری اہلکار (یا ذمہ دار سیاستدان) کو سزا دی گئی؟ کیا عزیر بلوچ نے لیاری کی سڑکوں پر کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال نہیں کھیلا تھا؟ کیا سی سی پی او کراچی نے عزیر بلوچ کو پیپلز پارٹی کے مخالفین کو نشانہ بنانے کی ہدایت نہیں کی تھی؟ کیا ایم کیو ایم نے حکومت میں رہتے ہوئے کراچی کے قلب میں ''نو گو ایریاز‘‘ نہیں بنائے؟ کیا انہوں نے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں دو سو ساٹھ انسانوں کو نذر آتش نہیں کیا تھا؟ کیا بلوچستان میں لاپتہ افراد نہیں ہیں؟ کیا یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ ہے کہ 1973 کے آئین کے سائے میں گزشتہ پچاس برسوں کے دوران، شہریوں کے جان و مال کو کافی حد تک تحفظ حاصل ہے؟
    اس کے بعد‘ ہماری سیاست کے غالب معاملات میں 'عوام کی مرضی‘ کے اس خیال کا جائزہ لیتے ہیں کہ؛ عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے لئے‘ کیا ہماری جمہوری سیاست اس وعدے کو پورا کر رہی ہے؟ کیا گزشتہ کئی دہائیوں میں دو بڑی جمہوری جماعتوں نے عوام کی بھلائی کے لئے انتھک محنت کی؟ کیا عوام کے دکھوں کو دور کرنے کے لئے سیاسی طاقت کا استعمال کیا گیا؟ کیا بلاول بھٹو زرداری صحت عامہ کے بہتر نظام کی حمایت میں گلگت بلتستان میں حمایت حاصل کرنے کے خواہاں ہیں؟ یا تعلیمی اصلاح کے لئے؟ یا ہماری ریاستی مشینری کی بیوروکریٹک اوورہالنگ کے لئے؟ کیا ''ووٹ کو عزت دو‘‘ بریگیڈ کے پاس مظلوم شہریوں کی ترقی کے لئے کوئی منصوبہ ہے؟ کیا ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کسی اللہ دتہ کی خدمت کیلئے بنائے گئے تھے؟ کیا مریم نواز ماڈل ٹاؤن میں قتل ہونے والوں کو انصاف دلانے کیلئے عوامی تقریریں کر رہی ہیں؟ کیا سلمان شہباز کی کارپوریٹ سلطنت بے گھر لوگوں کو منافع دے گی؟ کیا انہوں نے غریبوں کی فلاح و بہبود کے لئے خصوصی ٹیکس مراعات کا دعویٰ کیا؟ یا، اس کے بجائے، یہ لوگ محض اپنی ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کی حفاظت پر اپنی توجہ مرتکز کئے ہوئے ہیں اور خود کو مزید نمایاں کرنے اور اپنی سیاسی طاقت بڑھانے کی نہ ختم ہونے والی پیاس بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
    کیا یہی جمہوریت کا وعدہ ہے؟ کیا یہی 'عوام کی مرضی‘ ہے کہ دو خاندان ہی ہمیشہ ہم پر حکمرانی کریں‘ بے انتہا دولت اکٹھی کریں اور بیرونِ ملک اپنے کھاتوں میں جمع کراتے رہیں۔ کیا واقعی یہ ہمارے عوام کی جمہوری مرضی ہے؟ یا کیا ہمارا 'نظام‘ اس طرح وضع کیا گیا ہے کہ جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری ذاتی خواہشات کی تکمیل کیلئے عوامی جذبات کو انگیخت کیا جا سکے؟
    ''ووٹ کو عِزت دو‘‘ کے آئیڈیا میں کچھ بھی غلط نہیں ہے‘ لہٰذا، آئیے اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ آگے کیا؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ احتساب کے عمل کو ختم کر دیا جائے؟ کوئی بھی شہنشاہ سے نہیں پوچھ سکتا کہ اس نے لباس کیوں نہیں پہنا ہوا ہے؟ کیا اس بات پر جشن منانا چاہئے کہ ''ووٹ‘‘ کے پاس ''عزت‘‘ ہے، چاہے قائد کے مزار کو یہ حاصل نہیں ہے؟ کیا ووٹوں کی ''عزت‘‘ ہمارے بچوں کو تعلیم فراہم کرے گی؟ جب مسلم لیگ (ن) اقتدار میں تھی، تو کیا اس ''عزت‘‘ نے پی آئی اے کو دیوالیہ پن سے بچایا؟ سٹیل ملز کو بحال کر دیا؟ـ یا پاکستان ریلوے میں کوئی انقلاب برپا کیا جا سکا؟
    کیا نظامِ عدل کارگر ہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ سالوں اللہ دتہ کی ضمانت کی درخواست نہیں سنی جا سکتی، جبکہ حمزہ شہباز کو فوری ریلیف مل جاتا ہے؟
    کیا مقننہ، موجودہ آئینی تقسیم کے تحت عوام کے مفاد میں قوانین بنا رہی ہے؟ کیا کوئی سیاسی جماعت ہماری سول بیوروکریسی میں اصلاحات کیلئے کوئی قانون نافذ کر سکتی ہے؟ کیا ہماری سیاست میں کسی کو سول پروسیجر کوڈ1908 یا کریمینل پروسیجر کوڈ 1898 کو جدید بنانے کی خواہش ہے؟ کیا چند برس قبل قومی اسمبلی نے پارلیمانی امیدواروں کیلئے اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کرنے کی ضرورت کو ختم کرنے کیلئے نیا انتخابی قانون نافذ نہیں کیا تھا؟ کیا پنجاب اسمبلی نے تنخواہوں میں اضافہ کرنے کیلئے (متفقہ طور پر) ووٹ نہیں دیا تھا؟ کیا یہ سب عوامی فلاح و بہبود کیلئے کیا گیا تھا؟
    واقعی یہ کہنے کا کوئی محدود یا دائرہ بند طریقہ نہیں ہے کہ ہمارا 'نظام‘ کام نہیں کر رہا ہے۔ اور قانون سازی اور انتظامی معاملات کے سلسلے میں جو پیچ ورک کیا وہ ہمارے جمہوری ڈھانچے کے مرکز میں ہونے والی سڑن کو ٹھیک نہیں کر سکا ہے۔ ہمیں ایک نیا نظام درکار ہے۔ ایسا نظام جو مغرب کی مستعار حکمتوں پر قابو پائے اور مقامی حقائق اور دیسی دانش کے سائے میں وضع کیا گیا ہو۔ وہ جو اللہ دتہ کو محض ووٹ کیلئے نہیں بلکہ فرد ہونے کے ناتے ''عزت‘‘ دیتا ہو۔ جو سندھ میں بچوں کو ریبیز ویکسین مہیا کرتا ہو۔ جو تھر میں خوراک اور پانی مہیا کرتا ہو۔ جو ماڈل ٹاؤن کے مجرموں کو سزا دیتا ہو۔ جس سے عزیر بلوچ اور اس کو سنبھالنے والوں کو سزا ملتی ہو‘ اور جو اس خستہ حال قوم کے لوٹے گئے وسائل کو واپس لانے میں مددگار ثابت ہوتا ہو۔



     

اس صفحے کو مشتہر کریں