1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایک قبیلے نے623 برس کیسے حکمرانی کی ؟ ... خاور نیازی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏18 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ایک قبیلے نے623 برس کیسے حکمرانی کی ؟ ... خاور نیازی

    ترک قبائل جن کا نسب حضرت نوح ؑ کے بیٹے یافث سے جا ملتا ہے، قدیم اقوام کی فہرست میں شامل ہیں ۔نفاذ اسلام سے قبل کے ادوار میں ترکوں نے وسط ایشیاء سے نکل کر دنیا کے اکثر حصوں میں عظیم ریاستیں تشکیل دیں ۔جب ترکوں میں ایمان کا نور داخل ہوا تو ان کی روحانی و ایمانی طاقت میں بھی اضافہ ہو گیا جس کے بعد بہت کم عرصے میں انہوں نے خود کو شہرت و عظمت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اس قوم میں سینکڑوں علماء ، شعرا، سلاطین و فاتحین پیدا ہوئے ۔
    ترکوں کی ان عظیم شخصیات میں ایک نام سلیمان شاہ کا آتا ہے ۔یہ قائی قبیلے کے سردار تھے جو دو ہزار نوجوانوں پر مشتمل تھا ۔یہ ترک قبائل میں سب سے بڑا قبیلہ تصور کیا جاتا تھا۔سلیمان شاہ 1178 میں پیدا ہوئے۔یہ قتلمش کے بیٹے اور ارطغرل کے باپ تھے ۔ اس زمانے میں ترکی روایات کے مطابق اسلام کی سربلندی کی خاطر ارطغرل اور دیگر عثمانی سلاطین کو مجاہدانہ سرگرمیوں کی بنا پر ان کے نام کے ساتھ عموماََ '' غازی ‘‘ کا لقب لگایا جاتا تھا۔
    سلیمان شاہ تیرہویں صدی عیسوی میں ہجرت کر کے ایران آئے اور وہاں سے اپنے قبیلے کے ساتھ اناطولیہ کی جانب روانہ ہوئے ۔جہاں اس وقت سلجوقی سلطنت قائم تھی ۔سلیمان شاہ منگولوں کے دشمن ملک میں پناہ لینے کے خواہش مند تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہاں پناہ لینا ان کے لئے سودمند تھا ۔ سلیمان شاہ مشرقی اناطولیہ کے شہر اخلاط پہنچے ۔ وہ خود اور ان کے قبیلے والے اپنے اعلیٰ اوصاف کی وجہ سے مشہور تھے ۔ اخلاط کے حکمران سے بھی تعلقات اچھے تھے لیکن جب منگولوں کی طرف سے خطرہ ہوا تو 1221 ء میں قبیلے والوں کے ساتھ اخلاط بھی چھوڑنا پڑا ۔
    مورخ سٹینفورڈ جے شا اپنی کتاب ''سلطنت عثمانیہ کی تاریخ اور جدید ترکی‘‘میں لکھتا ہے ،
    ''عثمانیوں کے جد امجد سلیمان شاہ تھے جو قائی قبیلے کے سربراہ تھے ۔ایک روایت کے مطابق منگولوں کے حملے کے پیش نظر دیگر بہت سارے ترک قبائل کی طرح یہ قبیلہ بھی غلامی اورتباہی سے بچنے کے لئے نئے علاقوں کی طرف روانہ ہوا۔ جے شا کے مطابق سلیمان شاہ شام میں داخل ہوتے ہوئے دریائے فرات میں ڈوب گیا۔ اور اس کے بعد اس کے دو بیٹے واپس چلے گئے۔جبکہ ارطغرل نے اپنا سفر مغرب کی جانب جاری رکھا۔ اور چار سو خیموں پر مشتمل اپنے قافلے کے ہمراہ اناطولیہ پہنچ کر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور بہت کم عرصے میں ہزاروں کی تعداد میں غازیان اسلام کا لشکر جمع کر کے تاتاریوں اور بازنطینیوں کے خلاف قابل قدر خدمات سر انجام دیں ۔اگرچہ ارطغرل غازی کانام عثمانی سلاطین و خلفاء میں نہیں آتا لیکن ارطغرل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی اولاد سے 37 سلاطین پیدا ہوئے جو 1299 سے 1922 تک یعنی 623 سال تک3 براعظموں اور7 سمندروں پر حاکم رہے‘‘۔ امیر غازی ارطغرل ترک اوغور کی شاخ قائی قبیلہ کے سردار سلیمان شاہ کے بیٹے اور سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والدتھے ۔ارطغرل کی ولادت 1191 میں ہوئی۔ارطغرل غازی ایک بہادر، نڈر، ذہین ،ایماندار اور بارعب سپاہی تھے ۔وہ ساری عمر سلجوقی سلطنت کے وفادار رہے ۔
    ارطغرل ترک زبان کا لفظ ہے جو دو الفاظ ''ار ‘‘ اور''طغرل ‘‘ سے ملکر بنا ہے ۔''ار ‘‘کے معنی انسان ، سپاہی یا ہیرو کے ہیں جبکہ '' طغرل ‘‘ کے معنی عقاب پرندے کے ہیں جو مضبوط شکاری پرندے کی شہرت رکھتا ہے ۔یوں ''ارطغرل‘‘کے معنی عقابی شخص ، عقابی سپاہی یا ہیرو وغیرہ کے بنتے ہیں ۔
    عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل اپنے باپ سلیمان شاہ کی وفات کے بعد اپنے رفقاء کو لیکر حلب کے امیر کے پاس گئے۔اور ان سے زمین کا مطالبہ کیا چنانچہ انہوں نے سوغوت کی زمین ارطغرل کے حوالے کر دی ۔جو اس زمانے میں بازنطینی سلطنت کی سرحد پر واقع تھی ، ارطغرل کو اس علاقے کا باقاعدہ طور پر سردار مقرر کر دیاگیا ۔بعد ازاں اس سر زمین پر کچھ ایسے واقعات پیش آئے جو آگے چل کر سلطنت عثمانیہ کی بنیاد کا سبب بنے ۔ارطغرل عمر بھر سلجوقی سلطنت کے وفادار رہے لیکن بدقسمتی سے ان کی زندگی کے آخری ایام میں سلجوقی سلطنت آخری سانس لے رہی تھی۔ اور منگول سلطنت نے پورے اناطولیہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ جو اس کے لئے تشویش کا باعث تھا ۔ارطغرل کی آرزو تھی کہ وہ ایک عظیم الشان اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں لائے لیکن حالات اور زندگی نے وفا نہ کی چنانچہ ان کے چھوٹے بیٹے غازی عثمان اول نے ان کا یہ خواب پورا کیا اور ایک عظیم الشان سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔
    مشہور مورخ لیسلی پی پیرس نے اپنی کتاب ''دی امپیریل حرم ویمن اینڈ سوورینٹی ان دی اوٹومن ایمپائر‘‘میں لکھا ہے ،
    ''سلطنت عثمانیہ کے بارے میں سب سے زیادہ سنی جانے والی روایت کے مطابق عثمان نے اپنی ابتدائی کامیابیوں کے بعد ایک خواب دیکھا تھا ۔اس خواب میں انہوں نے دیکھا کہ ایک درویش شیخ ادیبان کے سینے سے چاند نمودار ہوتا ہے اور اس کے اپنے سینے میں داخل ہو جاتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی اس کے پیٹ سے ایک بہت بڑا درخت نکلتا ہے جس کا سایہ پوری دنیا پر چھا جاتا ہے ۔اس درخت کی شاخوں کے نیچے چشمے بہتے ہیں جن سے لوگ پانی پیتے ہیں اور کھیت سیراب کرتے ہیں ۔عثمان نے جب شیخ ادیبان سے اس خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے کہا کہ ان کے سینے سے نکل کر عثمان کے سینے میں داخل ہونے والا چاند اسکی بیٹی ہے اور جو اس خواب کے بعد عثمان کی اہلیہ بن گئیں ۔
    اس خواب کے بارے فنکل لکھتی ہیں کہ اس خواب کے واقعہ کے حق میں سلطنت عثمانیہ کے ابتدائی دور کے زمینوں کے کاغذات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عثمان کے دور میں ادیبالی نامی بزرگ موجود تھے اور اس بات کی شہادت بھی کتابوں میں موجود ہے کہ انکی بیٹی عثمان کی دو بیویوں میں سے ایک تھی‘‘۔ارطغرل کو خدا نے نہ صرف بہادری اور ذہنی بصیرت سے نوازاہوا تھا بلکہ ان کی عقابی نگاہیں انسانوں کو پرکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت سے مالا مال تھیں ۔ ایسے میں ان کی دوررس نگاہیں ان کے چھوٹے بیٹے عثمان کو کسی اونچے مقام پر دیکھ رہی تھیں چنانچہ ارطغرل کی آخری نصیحت اپنے اس بیٹے کے نام تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ سنہری الفاظ میں یاد رکھی جائے گی جو یوں ہے،
    ''میرے بیٹے عثمان !جو اپنے ماضی سے ناواقف ہو وہ اپنے مستقبل سے بھی بے خبر رہتا ہے ۔اپنی تاریخ سے آگاہی حاصل کرو تاکہ تم مطمئن ہو کر آگے کی طرف قدم رکھ سکو ۔ہمیشہ یاد رکھنا کہ تم کہاں سے آئے اور تم نے کہاں جاناہے‘‘۔
    کیا عجیب داستان ہے کہ چرواہوں کا ایک خانہ بدوش قبیلہ جو جاڑے کے بے رحم موسموں میں قحط سے بچنے کے لئے حلب کے امیر سے ایک زرخیز پناہ گاہ میں قیام کا مطالبہ کرتا ہے جو آگے چل کر ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھتا ہے جو 7 صدیوں تک دنیا کی مضبوط ترین سلطنت کا رتبہ سنبھالے رکھتی ہے ۔ارطغرل جومنگولوں سے بھی لڑتا ہے اور صلیبیوں سے بھی نبر آزما رہتا ہے وہ اغور ترک قبائل کو یوں ایک لڑی میں سموتا ہے کہ پھر چرواہوں کے اس قبیلے کی اپنی ایک سلطنت ہوتی ہے اور غازی ارطغرل کا بیٹا عثمان اس سلطنت کا پہلا بادشاہ بنتا ہے ۔
    سلطنت عثمانیہ کا دائرہ دن بدن بڑھتا جا رہا تھا ۔ عثمانی سلطنت کے تیسرے سلطان مراد اول نے یورپ میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے جبکہ ساتویں عثمانی سلطان ، محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کر کے گیارہ سو سال سے قائم بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کر کے فتح قسطنطنیہ کے حوالے سے پیش گوئیوں کی تصدیق کر دی ۔ ایک وہ وقت بھی تھا جب دارلسلطنت قسطنطنیہ (استنبول)تھا ۔مصر ، اردن ، عراق، شام اور حجاز مقدس کے علاوہ اکثر عربی علاقے خلافت عثمانیہ کے زیر نگیں تھے ۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں