:titli:شرافت سوز تصویروں کی عریانی نہیں جاتی ادب کی آڑ میں ترغیبِ رومانی نہیں جاتی خدا معلوم نسلِ نو کا کیا انجام ہوتا ہے! وطن سے فحش نغموںکی فراوانی نہیں جاتی عذاب آئے تو اُس میں انسانوں کی جان جاتی ہے نہیں جاتی تو شیطانوںکی شیطانی نہیں جاتی کہیں بستی کی بستی بوند پانی کو ترستی ہے کہیں بارش برستی ہے تو طغیانی نہیںجاتی جہاں کے ذرے ذرے سے نمایاں ہے جلال اُس کا مگر ہم سے خدا کی ذات پہچانی نہیں جاتی:titli:
جواب: ایک خاص نظم بہت خوب صدیقی صاحب اللہ آپکے سخن میں اور ترکی دے جہاں کے ذرےذرے سے نمایاں ہے جلال اس کا مگر ہم خدا کی ذات پہچانی نہیں جاتی