1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایک حقیقت ایک افسانہ

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از غوری, ‏17 مئی 2015۔

  1. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    میرا قد آور آئیڈیل

    جب جذبے انگڑائیاں لینا شروع کردیں، شعور بیدار ہوتا محسوس ہو اور دل و دماغ میں ہلچل پیدا ہونے لگے تو جان لیجئے کہ آپ کے اندر کا انسان جاگنے کیلئے کروٹیں لے رہا ہے۔ درحقیقت ایسی کیفیت انسان کی ذہنی اور جسمانی بلوغت کے آغاز کی آئینہ دار ہوتی ہے۔

    سن بلوغت کو دور شباب کا نام دیا جاسکتا ہے۔ جب دل میں نت نئی امنگیں سر اٹھانا شروع کردیتی ہیں، ذہن خیالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ شوخی منہ چڑھاتی محسو س ہوتی ہے۔ رنگ و بو اور نغمے طبعیت کو سرور دینے لگتے ہیں ۔

    عالم شباب میں دل و دماغ کے اندر احساسات اور خیالات کا سیل رواں ہمہ وقت موجزن رہتا ہے۔ اپنی تسکین اور قرار کے لئے دونوں ہی نجانے کیا کیا سامان پیدا کرتے رہتے ہیں۔

    [​IMG]

    تکمیل تمنا کی کی جستجو میں بہت سے حسین لمحات وقوع پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ چند ایک ناخوشگوار حادثات بھی رونما ہوتے ہیں ، جو انسانی زندگی پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ حادثات اور ناخوشگوار واقعات کے پیش نظر نوخیز جوان ہر نئے چہرے کو مسیحا سمجھتے ہوئے بہت سے تجربات کر گزرتے ہیں۔ مگر تلخیوں، الجھنوں اور پریشانیوں میں اضافہ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

    ناتجربہ کاری، لاابالی پن، خود داری و غیرت، اپنی ہستی کو منوانے کا زعم، خود اعتمادی کا گھمنڈ اور اسی قسم کے دوسرے محرکات کے باعث اکثر نوجوان بزرگوں کے مشوروں کو نظر انداز کرنے میں اپنی بڑائی سمجھتے ہیں۔ مگر اپنی کم علمی اور ناسمجھی کی بناء پر خجلت، ندامت اور پشیمانی سے دوچار ہوتے ہیں۔

    [​IMG]

    جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
     
    Last edited: ‏17 مئی 2015
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    پیہم انسانی تجربات میں ناکامی کے سبب تمام رشتے بے حس اور بیکار دکھائی دیتے ہیں؛ مگر دل کے نہاں خانوں میں ایک ایسی ہستی ضرور موجود ہوتی ہے جو اس بات کی نفی کررہی ہوتی ہے کہ مسیحائی ابھی ناپید نہیں ہوئی کہ نظر بینا پیدا کر۔ دل و دماغ میں جو شخصیت گھر کئے ہوتی ہے اسے آئیڈیل کہتے ہیں۔ اس لفظ میں نجانے کیا سحر ہے کہ آئیڈیل کا خیال آتے ہی ذہن میں طراوت، دل میں خوشی کی لہر اور آنکھوں میں چمک پیدا ہونے لگتی ہے۔
    [​IMG]

    انسانی زندگی میں تعلیمی دور بہت دلکش اور بے شمار خوابوں کی تعبیر کا پیش خیمہ ہوتا ہے اس دورانیے میں بیسیوں خواب بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ ہرنئی صبح اک نیا پیام لاتی ہے۔ زندگی کا ہر ہر لمحہ نہایت قیمتی اثاثہ محسوس ہوتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ بھر پور طریقے سے زندگی کے مزے لوٹیں۔ اور پھر عہد شباب کی منزلیں طے کرتے ہوئے انسان جب عملی زندگی کا آغاز کرتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی بہت بڑی تجربہ گاہ میں قدم رکھ دیا ہو۔ جہاں ہر روز اک نیا تجربہ، نئی سوچ، نئی ڈگر اور نئی منزل کا تعین کرتا ہے۔ اور اخلاقیات کے وہ اصول و ضوابط ، جو اساتذہ کرام نے درس گاہوں میں نہایت ذمہ داری سے پڑھائے تھے ایک ایک کرکے آئینہ بہ زد سنگ محسوس ہونے لگتے ہیں۔
    [​IMG]

    عملی زندگی کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ احکام بالا کو اعتماد میں لے کر کوئی فرد کیسا ہی غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام کرگزرے ؛ وہ جائز اور ناقابل گرفت فعل تصور ہوتا ہے۔ مثلا افسران بالا اپنے پروردہ اور چہتوں کو کیسی بھی مراعات سے نوازیں، کوئی پر نہیں مار سکتا۔ کیونکہ ماتحتوں کو نوکری اور اوپر والوں کو مال چاہیے۔ اور اگر کوئی باہمت فرد حق و انصاف کے لئے جرات کا اظہار کردے تو اسے منہ کی کھانا پڑتی ہے۔ جگ ہنسائی اور رسوائی علیحدہ۔ جس کے مقابلے میں قانون شکن، تہذیب، اخلاقیات، قانون اور شریعت کی تمام حدوں سے تجاوز کرنے والے دندناتے اور آنکھوں میں ٹھیکریاں رکھ کے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

    ایسے ناگفتہ بہ ماحول میں بھی کچھ لوگ کردار کو متزلزل نہیں ہونے دیتے بلکہ لبوں پہ خامشی کی مہر ثبت کئے صبر کا دامن تھامے چیرہ دستوں کی ناانصافیوں پر اس لئے ملول رہتے ہیں کہ تھوڑے سے فائدے کے لئے کیونکر یہ لوگ انسانیت کے مقام سے گرنا گوارہ کرلیتے ہیں؟

    کتابوں اور رسالوں میں جتنے بھی کردار بیان ہوتے ہیں وہ ذریعہ تعلیم تو ہوسکتے ہیں مگر ایسے کرداروں سے قاری کی تسلی نہیں ہوتی۔ کیونکہ کتابی کردار قاری کے سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔
    [​IMG]

    انسان کی عظمت چونکہ اس کے کردار میں پنہاں ہے، اس لئے معاشرے کے ہیرو اور زندہ و جاوید کردار ہمیشہ عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ اور کردار کی تعمیر کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے انسان اپنے اندر کی منفی قوتوں کو فتح کرکے انھیں مثبت صفات میں اجاگر کرے۔ اپنی سوچ کو روائتی اور سماجی بندھنوں سے آذاد کرکے منطقی اور کائنات قدرت کے قوانین کے تابع کرتے ہوئے انقلابی تبدیلیوں سے مرسع ، خیر و سلامتی اور انسانی فلاح و بہبود کے لئے پروان چڑھائے۔

    اسی لئے باکردار اور باضمیر افراد میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ شاید ضمیر کو بیدار کرنے اور تعمیر کردار تک کے تمام مراحل انسان کو اس قدر کھرا اور باشعور بنا دیتے ہیں کہ کوئی لالچ ان کے قدموں میں لغزش پیدا نہیں ہونے دیتی۔ مزید برآں اگر کوئی فرد اپنے فن اور پیشے میں ملکہ حاصل کرلے تو پھر انسان کے کردار میں وہ چونچالی نہیں رہتی جو عموما عقلی طور پر نابالغ لوگوں میں پائی جاتی ہے۔

    جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔​
     
    Last edited: ‏17 مئی 2015
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    انسان کے قرب و جوار میں موجود تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر چاہنے والا، عزت و وقار کوبڑھانے والا، دکھ سکھ میں تسلی دینے و دلجوئی کرنے والا، احساسات و جذبوں کی قدر کرنے والا، علم و فن کا پیکر اور جسے دیکھ دیکھ کر آنکھ روشن ہونے لگے، آئیڈیل کہلانے کے لائق ہوتا ہے جس کی پذیرائی کے لئے لوگ آنکھیں بچھائے رہتے ہیں۔ مجھے بھی بہت سے کرداروں نے متاثر کیا مگر میری تشفی نہ ہوسکی اور میں ہمیشہ عظیم کرداروں کی تلاش میں سرگرداں ہی رہا۔ کئی عالمی شہرت کی حامل کمپنیوں میں کام کیا، مختلف شہروں اور ممالک کا سفر کیا، دینی میلان کے سبب بہت سے علماء (مولانا سید ابوالاعلی مودودی صاحب اور حضرت علی میاں – ابولحسن علی حسنی ندوی صاحب) سے بھی براہ راست استفادہ حاصل کیا مگر میرا آئیڈیل مجھ سے ہمیشہ اوجھل ہی رہا۔
    [​IMG]

    کوشش بسیار کے باوجود بھی میں اپنے آئیڈیل کو نہ پا سکا۔ تاہم میں نے اپنی جستجو، جذبہ بیکراں کو کسی مقام پر بھی سرد خانے کی نظر نہ ہونے دیا۔ بلکہ ماضی کے تمام تجربوں سے سبق لیتے ہوئے نئے نئے زاویوں اور نئے نئے انداز سے اپنے آئیڈیل کو تراشتا رہا۔

    تلاش یار کے دشوار گزار ، کٹھن اور مشکل مراحل نے مجھے ایسی جلا بخشی کہ انسانوں کو پرکھنے اور جانچنے کا ہنر آنے لگا، اور مجھے یقین ہونے لگا کہ میرا انتخاب جو بھی ہوا وہ یقینا آئیڈیل کہلوانے کا حقدار ہوگا۔ اور پھر دنیا کے جھمبیلوں سے فرصت پاکر جب میری ملاقات ان سے ہوئی تو ایسا محسوس ہوا کہ اللہ نے میری سن لی۔
    [​IMG]
    میری جستجو اور کاوشیں بالآخر بار آور ثابت ہوئیں۔ دل خوشی سے جھومنے لگا۔ بلاشبہ جب جستجو تمام ہوجائے اور کامیابی قدم چومے تو حوصلے جواں ہونے لگتے ہیں۔ آنکھوں میں نور جھلکنے لگتا ہے، مشکلیں دور ہوجاتی ہیں اور راہیں ہموار و آسان محسوس ہوتی ہیں، منزل کا نشاں واضح اور قریب تر دکھائی دیتا ہے۔
    [​IMG]

    بیک نظر طائر وہ سراپا انتہائی منکسر متحمل اور سادہ دکھائی دیئے، دین اور دنیا دونوں کے پیامبر، خلیق، مخلص، ملنسار اور ایمانداری کی اپنی مثال آپ۔ تساہل سے اجتناب کے قائل، فرائص منصبی اخلاص، محنت، عمدگی اور ذمہ داری سے انجام دینے والے۔

    کام سے لگن اور مسلسل محنت نے انھیں فن کی معراج پہ پہنچادیا۔ میں نے ہمیشہ انھیں مشغول ہی پایا۔ ان کے نزدیک وقت سب سے بڑا سرمایہ ہے، اس سے بھر پور استفادہ حاصل کرنا چاہیے اور کسی طور اسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔

    وہ ہمیشہ فرماتے کہ وقت کو محض انتظار میں نہ گزارو بلکہ اپنے وسائل کو دیکھتے ہوئے عمر رفتہ کو خوشی و شادمانی سے گزارنا چاہیے۔ ان کے بقول، کسی کام کو انجام دینے کیلئے لوازمات، ترکیب اور وقت درکار ہوتے ہیں۔ ان تینوں عوامل کو کمال ہنر مندی سے مجتمع کرنے سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

    ان کی یہ منطق جب میری دانست میں نہ سما سکی تو میرے استفسار پر انھوں نے چائے تیار کرنے کی مثال دی۔ اچھی چائے بنانے کے لئے خوشبو اور ذائقے دار چائے کی پتی، چینی، دودھ اور پانی درکار ہوتے ہیں، جنھیں لوازمات کہتے ہیں اور اگر 4 کپ چائے بنانا مقصود ہوں تو اس کے لئے ان تمام لوازمات کی ایک خاص مقدار درکار ہے، اس خاص مقدار کو اجزائے ترکیبی کہتے ہیں۔ لوازمات اور ترکیب جان لینے کے بعد باری آتی ہے وقت کی، یعنی ان لوازمات اور اجزائے ترکیبی کو کتنا دیر چولہے پر گرم کرنا ہے۔ وقت اگرچہ دکھائی نہیں دیتا مگر اس کے بغیر کوئی بھی کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس لئے وقت کو بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے۔ پھر انھوں نے فرمایا کہ وقت کے صحیح استعمال نے انھیں اپنے پیشے میں ایک بڑی اکائی بنا دیا۔

    شہر کے چھوٹے بڑے سبھی کاریگر انھیں استاد کہہ کر پکارتے۔ ایک مرتبہ مجھے ذاتی طور پر اس یگانہ روزگار شخص کے ساتھ شہر کی سب سے بڑی آٹوورکشاپ میں جانے کا اتفاق ہوا، وہاں موجود ہر خاص و عام حتی کہ مالکان بھی انھیں عزت و اکرام سے ملے اور سبھی انھیں استاد جی کے نام سے مخاطب کر رہے تھے۔ دولہا کے ساتھ شہ بالا بھی اکرام و توقیر سے نوازا جاتا ہہے۔ بعینہ مجھ خاکسار کو بھی استاد جی کے نام سے مخاطب کیا گیا۔
    [​IMG]

    جاری ہے۔۔۔
     
    Last edited: ‏17 مئی 2015
  4. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی۔۔۔

    وہ لوگ جو اعلی تر کی جستجو میں سرگرداں ہوتے ہیں ان کے اذہان تو بہت تیزی سے مصروف بہ عمل ہوتے ہیں مگر زبانیں گنگ رہتی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے اعلی اوصاف کے حامل افراد کم گو اور خاموش طبع ہوتے ہیں۔

    [​IMG]

    کام کسی بھی نوعیت کا ہو مگر اس میں ملکہ حاصل کرنے کا اعزاز انسان کو ایسے مقام پہ پہنچا دیتا ہے کہ پھر کوئی آرزو، تمنا اور ارمان باقی نہیں رہتے۔ اس پیکر فن کی آؤ بھگت دیکھ کر میری نظروں میں ان کی عزت اور وقار بہت بڑھ گیا۔ انھیں ملنے پر دل میں سرور کی سی کیفیت پیدا ہونے لگتی تھی۔ آہستہ آہستہ جب قربت بڑھی تو ان کی مزید خوبیوں اور خصوصیات کا انکشاف ہوا۔

    اپنی تعریف کرنا اپنے منہ میاں مٹھو بننا کہلاتا ہے مگر میری اصطلاح میں اپنی تعریف کے پل باندھنا شور مچانے کے مترادف ہے۔۔ جبکہ یہ شور اگر دوسرے لوگ برپا کریں تو یہ چرچے کے زمرے میں آتا ہے۔

    [​IMG]

    چرچا قابل ستائش اور بڑے اعزاز کا حامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کمزور مالی حالت اور ادنی پوزیشن کے باوجود بڑے بڑے عہدے اور رتبے والے ان کے مداحوں میں شامل تھے۔ وجہ یہ نہ تھی کہ لوگ صرف ان کے کام سے متاثر تھے بلکہ ان کی شخصیت میں اخلاص، ایمان داری، کام سے لگن اور حسن سلوک کی وجہ سے گرویدہ تھے۔ کام کرنے کیلئے تو سینکڑوں کاری گر مل جاتے ہیں مگر جہاں دل و دماغ دونوں مطمئن ہوں تو پھر کسی دوسرے کی حاجت نہیں رہتی۔

    [​IMG]

    دیرینہ تعلقات کیوجہ سے مجھے ان کے مداحوں کی طویل فہرست کا علم ہوا تو مجھے ان میں وہ تمام خوبیاں محسوس ہونے لگیں جو یقینا صرف ایک آئیڈیل میں ہی ممکن ہوسکتی ہیں۔ ان کے قدر دانوں میں صوبائی اہلیت کی حامل معروف شخصیات اور علاقے کے اعلی ترین مناصب پر فائز افسران شامل تھے۔ اور یہ سب لوگ استاد جی کا اس درجہ احترام اور لحاظ کرتے تھے کہ اگر کوئی سائل استاد جی کی معرفت اپنی گزارشات لے کر حاضر ہوجائے تو اسے بھی وہی توقیر اور احترام میسر ہوتا تھا جو استاد جی کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔

    یہ اعزاز کسی کردار کی عظمت کے لئے بہت بڑی سند ہے کہ برسوں پہلے ریٹائرڈ ہونے کے بعد، آج بھی اعلی عہدوں پر فائز اہم شخصیات استاد جی کے حوالے سے ملاقات کے لئے آنے والے کو وہی عزت و اکرام عنایت فرمائیں جو استاد جی کو مرحمت فرماتے رہے۔

    قصہ کوتاہ کمال پیدا کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا کمال کی معراج کو پہنچنا اور پھر کمال درجے سے اس مقام پر اکائی بن کر قائم رہنا۔ میں نے اپنی دانست میں انھیں جس قدر پرکھا مجھے ہرہر زاویے سے وہ میرے آئیڈیل ہی دکھائی دیئے۔اپنے قرار و سکوں، چاہت و دلربائی اور آئیڈیل کو پانے کے لئے لوگ ہمیشہ قربانیاں دیتے ہیں سو میں نے بھی رسم وفا نبھانے کے لئے فیصلہ کیا کہ بقیہ زندگی اپنے آئیڈیل کے ساتھ گزاروں، تاکہ میں بھی اپنے آئیڈیل کے خواص اپنا سکوں کہ مجھے بھی کوئی آئیڈیل تصور کرنے کی خواہش ظاہر کرے۔

    میں جس آئیڈیل کے ساتھ زندگی گزارنے کا ارادہ کرچکا ہوں وہ عظیم انسان مجھے جان پدر کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بقول شاعر

    جنہیں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
    وہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں میں
    (علامہ اقبال)

    [​IMG]

    نوٹ: یہ مضمون ماہنامہ رابطہ کی طرف سے فرمائش پر لکھا گیا تھا۔

    تحریر: عبدالقیوم خان غوری - ینبع الصناعیہ، سعودی عرب
     
    Last edited: ‏17 مئی 2015
  5. نظام الدین
    آف لائن

    نظام الدین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2015
    پیغامات:
    1,981
    موصول پسندیدگیاں:
    2,049
    ملک کا جھنڈا:
    واہ جناب ۔۔۔۔۔۔ بہت ہی زبردست تحریر ہے ۔۔۔۔۔ ڈھیروں داد و تحسین
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ بھائی
    آپ کی حوصلہ افزائی کے لئے ممنون ہوں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں