1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار ۔۔۔۔۔ رؤف کلاسرا

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏30 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار ۔۔۔۔۔ رؤف کلاسرا

    ندیم بابر صاحب کی پریس کانفرنس نے پرانے زخم ہرے کر دیے ہیں۔
    اگرچہ ندیم بابر جی آئی ڈی سی سکینڈل کے مرکزی کردار ہیں‘ گیس بجلی اور دیگر معاملات میں ان پر سوالات اٹھتے رہے ہیں لیکن انہوں نے ایل این جی ٹرمینل کے حوالے سے درست کہا ہے کہ وزیر پٹرولیم کے طور پر شاہد خاقان عباسی نے دو پرائیویٹ پارٹیوں کے ذریعے ٹرمینل لگوائے‘ جن کی روزانہ پانچ لاکھ ڈالر ہمیں ادائیگی کرنا پڑتی ہے‘ حالانکہ یہ کام حکومت خود ایک ہی دفعہ پانچ چھ ارب روپے میں کر سکتی تھی۔مطلب ڈیڑھ کروڑ ڈالرز ماہنامہ‘ اٹھارہ کروڑ ڈالرز سالانہ اور پندرہ برس میں 2.7 ارب ڈالرز۔
    ہر دفعہ کوئی خبر بریک ہوتی ہے تو سوچتا ہوں کہ اس سے زیادہ برا اس ملک کے ساتھ کیا ہوگا؟ اور ہر دفعہ میں ہی غلط نکلتا ہوں۔ جب پیپلز پارٹی اور نواز شریف دور میں بڑے سکینڈلز بریک کرتے تھے تو سوچتا تھا‘ اب مزید کیا کرپشن ہوگی۔ عباسی صاحب نے جو کام کیا‘ یہ قوم تادیر بھگتے گی کہ جو کام چند ارب میں وہ خود کر سکتی تھی اس کے لیے کراچی اور لاہور کی پارٹیوں کو ایل این جی ٹرمینل کا کنٹریکٹ دیا گیا اور دونوں کو اب پندرہ برس تک ہر روز پانچ لاکھ ڈالرز دینا ہوں گے‘ اور 2014 سے دے رہے ہیں۔ ندیم بابر درست کہہ رہے تھے کہ اب ان ٹرمینل کو استعمال کریں یا نہ کریں ہر روز آپ نے پانچ لاکھ ڈالرز انہیں دینے ہیں۔ جب یہ معاہدہ کیا گیا تھا‘ اس وقت ڈالر سو روپے سے بھی کم تھا۔ آج ایک سو ساٹھ کا ہے۔ اگر چھ سال پہلے ان کمپنیوں کو پانچ کروڑ روپے پاکستانی کرنسی کے مطابق مل رہا تھا تو آج انہیں آٹھ کروڑ روپے کے برابر مل رہا ہے۔
    عباسی صاحب سمری لے کر ای سی سی میں گئے کہ ایک ایل این جی ٹرمینل لگنا ہے جس پر تین ارب کی لاگت آئے گی۔ پھر کچھ خیال آیا کہ نہیں اس پر تیرہ ارب کی لاگت آئے گی۔ اب طے کرنا تھا کہ اس کمپنی کو کیا منافع دیا جائے۔ قطر سے گیس آنا تھی اور اسے پورٹ قاسم پر جہاز سے سیدھا اس چھوٹے سے ٹرمینل میں ری گیسیفائی کرکے مین سسٹم میں ڈالنا تھا۔ اس پر حیران کن ڈیل دی گئی۔ 44 فیصد منافع اس کمپنی کو دیا گیا حالانکہ آئل گیس میں عالمی ریٹرن یا منافع 16 سے 18 فیصد ہوتا ہے۔
    یوں ایک کمپنی کی 130 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری دکھا کر 1.5 ارب ڈالرز منافع طے ہوا۔ ہر روز دو لاکھ بہتر ہزار ڈالرز اس کمپنی کو پندرہ سال تک ملنے ہیں۔ طے کیا رقم ڈالروں میں ادا ہوگی اور روز ہوگی‘ چاہے ٹرمینل مہینوں استعمال نہ ہو۔ اس کے بعد دوسری پارٹی کے ساتھ بھی روزانہ دو لاکھ چوبیس ہزار ڈالرز پر یہی ڈیل دی گئی۔ اب دونوں ٹرمینل بے شک خالی پڑے رہیں لیکن ان کو ڈالروں میں ادائیگیاں ہورہی ہیں۔ نیب کے ہاتھ لگے توطاقتور لوگوں کو اپنی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے نواز لیگ کے ووٹوں کی ضرورت پڑ گئی یوں وہ باہر نکل آئے۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا جو کام تیرہ ارب روپے میں ہوسکتا تھا وہ انہوں نے ڈیڑھ ارب ڈالرز میں کیسے طے کیا؟ عمران خان کے دور کا تو آپ دور دور تک سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ اس میں کوئی سکینڈل ہوگا۔ ایک نیا طریقۂ واردات ڈھونڈا لیا گیا ہے کہ سکینڈل کی تعریف ہی بدل دی ہے۔ خود بڑا اربوں کا چینی‘ گندم‘ ادویات کا سکینڈل کرتے ہیں۔ ان کے اے ٹی ایمز ڈٹ کر مال بناتے ہیں اور پھر وہ خود اس کی انکوائری کرکے خود کو داد دیتے ہیں کہ دیکھا ہم نے اپنا سکینڈل پکڑ لیا۔
    جی آئی ڈی سی سکینڈل اپنی نوعیت کا عجیب سکینڈل تھاکہ کمپنیوں نے چار سو ارب روپے پاکستانی کسانوں اور عوام سے ٹیکس اکٹھا کر لیا تھا‘ لیکن ادا کرنے سے انکاری ہو گئیں۔ اسد عمر نے وزیر خزانہ ہونے کے ناتے یہ فیصلہ کیا کہ دو سو ارب روپے یہ بڑے کاروباری رکھ لیں اور دو سو ارب حکومت کو دے دیں۔ جو عمران خان نواز شریف کو پانامہ پر مطعون کرتے تھے‘ انہوں نے خود بیٹھے بٹھائے کاروباری دوستوں کو دو سو ارب معاف کر دیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اکٹھا کیا گیا سارا چار سو ارب روپے ٹیکس وصول کریں تو ارشد شریف کو عمران خان صاحب نے انٹرویو میں کہا: بہترہوتا ہم یہ کیس ہار جاتے۔ یہ بات ملک کا وزیراعظم کہہ رہا تھا۔
    اب نئی واردات سن لیں۔ سپریم کورٹ میں پانامہ کی سماعت دوران ایف بی آر سے رپورٹ مانگی گئی تو انکشاف ہوا بہت سارے پاکستانی ایکسپورٹرز نے بیرون ملک خفیہ جائیدادیں خرید رکھی ہیں اور ان سب کی آف شور کمپنیاں تھیں۔ قانون کے تحت انہیں اجازت تھی کہ ایکسپورٹ سے جتنے ڈالرز کماتے ہیں‘ اس کا دس فیصد وہ بیرون ملک اپنے اخراجات یا ایجنٹ کمیشن نام پر خرچ کر سکتے ہیں یا باہر رکھ سکتے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا اس دس فیصد سے وہ ایکسپورٹرز اخراجات کے نام پر جھوٹے بل بنا کر بیرون ملک خفیہ جائیدادیں خرید رہے تھے جو پاکستان میں ڈکلیئر بھی نہیں تھیں۔ اندازہ کریں کہ حکومت اور عوام ایکسپورٹرز کو سستی بجلی‘ سستی گیس‘ ٹیکس ریفنڈ اور روپے کا ریٹ گرا کر مہنگائی بھگت کر فائدے دے رہے ہیں کہ یہ ایکسپورٹ بڑھائیں‘ ملک میں ڈالرز آئیں اور ہم مہنگے قرضے نہ لیں‘ لیکن سب کچھ لے کر وہی ایکسپورٹرز ان ڈالروں سے باہر خفیہ جائیدادیں خرید رہے تھے۔
    اب ایک نئی واردات کے بارے میں سنیں بلکہ بہت بڑا ڈاکا اور قانونی منی لانڈرنگ کا نیا طریقہ۔ سٹیٹ بینک نے پچھلے ماہ ایک فیصلہ کیا۔ یہ کہ اب پاکستانی ایکسپورٹرز دس فیصد کے بجائے 35 فیصد تک فارن کرنسی اکائونٹس میں سے بیرون ملک خرچ کر سکتے ہیں۔ مطلب اگر آپ نے ایک ارب ڈالرز ایکسپورٹ سے کمایا ہے تو سرکاری طور پر اجازت دی گئی ہے کہ آپ 350 ملین ڈالرز بیرون ملک لے جا سکتے ہیں‘ بس آپ کو رسیدیں دینا ہوں گی کہ آپ نے کہاں کہاں خرچ کیا۔ کوئی ایجنٹ، کوئی کنسلٹنٹ ہائر کیا وغیرہ وغیرہ؟ مطلب اب آپ جعلی انوائس بنوا کر جمع کراکے ساڑھے تین سو ملین ڈالر باہر بھجوا سکتے ہیں۔ جیسے پہلے دس فیصد رعایت کے نام پر جعلی بل دکھا کر جائیدادیں خریدیں اب وہی کام بڑے پیمانے پر ہوگا۔ مطلب پاکستان کی کل ایکسپورٹ اس وقت اگر 23 ارب ڈالر ہے تو سات آٹھ ارب ڈالر اب آپ آرام سے پاکستان سے باہر سچے جھوٹے خرچے شو کرا کے لے جا سکتے ہیں۔
    اب اندازہ کریں کہ یہ قوم دنیا بھر سے ڈالرز کی بھیک مانگ رہی ہے اور بینک نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ آئندہ دس کے بجائے آپ 35 فیصد فارن کرنسی بیرون ملک خرچ کر سکتے ہیں۔ یہ نواز شریف کے اکنامک ایکٹ 1992 سے بھی بڑا کام کیا گیا ہے۔ کوئی ملک ہوگا جو سو ڈالرز پر 35 ڈالرز بیرون ملک اخراجات کے نام پر آپ کو ایکسپورٹ کا پیسہ واپس بیرون ملک لے جانے دے۔ جو ایکسپورٹر اس دس فیصد فارن کرنسی پالیسی سے بھی جعلی بل دکھا کر بیرون ملک جائیدادیں خرید رہے تھے وہ اب 35 فیصد اضافے کی رعایت ساتھ کیا کچھ نہیں کر گزریں گے؟ سوال یہ ہے کیا حفیظ شیخ اور گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان، کابینہ یا ای سی سی کی منظوری لی؟
    کیا اس اقدام سے منی لانڈرنگ کو قانونی شکل نہیں مل جائے گی؟ اگر آٹھ ارب ڈالرز یہ ایکسپورٹرز بیرون ملک خرچ کر سکتے ہیں تو کل ایکسپورٹ کی وصولی تو 15 ارب ڈالرز تک آ جائے گی۔ یہ آٹھ ارب ڈالرز جو یہ ایکسپورٹرز سٹیٹ بینک کے نئے قانون کے نام پر باہر لے جائیں گے تو ہم ہر سال وہ آٹھ ارب ڈالرز کہاں سے لائیں گے تاکہ ہمارا خسارہ پورا ہو؟
    لگتا ہے اس ملک کا کوئی وارث نہیں رہا۔ پہلے اگر شک تھا تو سٹیٹ بینک کے اس ناقابل یقین فیصلے بعد یقین ہو گیا ہے کہ یہ ملک یتیم ہے۔ اب سرکار کی سرپرستی میں اربوں ڈالرز کی منی لانڈرنگ ہو گی۔ ایک اور بڑا ڈاکا تیار ہے اور وہ بھی سارا قانونی!

     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سپریم کورٹ کی جانب سے جی آئی ڈی سی سکینڈل فیصلے میں ڈیفالٹر کمپنیوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ دس برس سے جو چار سو ارب روپے سے زائد دبائے بیٹھی ہیں وہ واپس کریں گی۔
    اس سکینڈل کی وجہ سے مجھے اور عامر متین کو ذاتی قربانیاں دینا پڑیں۔ ہمیں دباو کی وجہ سے چینل کی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ہمارا ٹی وی شو بند کرا دیا گیا۔ ارشد شریف، محمد مالک، سہیل بھٹی، شہباز رانا اور دیگر نے بھی فالو اپ شوز کیے لیکن نزلہ میرے اور عامر متین پر گرا کیونکہ سٹوری ہم نے بریک کی تھی۔ میرا اور عامر متین کا اپنے پروگرامز میں یہ موقف تھا:
    کیسے ممکن ہے کہ ایک ٹیکس لگایا گیا اور اس حوالے سے جو اربوں روپے متعلقہ کمپنیوں نے عوام سے بجلی، گیس، کھاد کی مد میں وصول کئے‘ حکومت وہ محض اس لئے معاف کر دے کہ خیر ہے اگر یہ کمپنیاں دو سو ارب روپے ہڑپ کرنا چاہتی ہیں تو کرنے دیں‘ باقی رقم تو مل رہی ہے۔ یہ بات ہمیں ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ کس اصول کے تحت قوم کے دو سو ارب روپے معاف کر دیئے گئے۔
    جب ہم نے اس معاملے کو اٹھایا تو حکومت کی طرف سے شدید ردعمل آیا‘ جس کی ہمیں توقع نہ تھی۔ وزیر اعظم کو بتایا گیا تھا کہ برسوں سے یہ مقدمات عدالتوں میں پڑے ہیں اور کسی صورت یہ پیسے ریکور نہیں ہوں گے لہٰذا دو سو ارب معاف کر دیں اور دو سو ارب لے لیں۔ یہ ڈیل اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر نے ای سی سی کے اجلاس میں منظور کی تھی۔
    اندازہ کریں‘ متعلقہ ساری کمپنیاں دس برس400 ارب روپے استعمال کرتی رہیں‘ اور حکومت دنیا بھر سے بھاری سود پر قرضے لیتی رہی۔ وہ کمپنیاں 400 ارب بینک میں رکھ کر منافع کماتی رہیں یا کسی اور کاروبار میں لگا کر اربوں مزید کمائے۔
    خبر بریک کی تو اس پر ری ایکشن آیا۔ وزیر اعظم نے وزیروں کو کہا کہ وہ اینکرز کو بلا کر سمجھائیں کہ ان کاروباری لوگوں کو دو سو ارب روپے معاف کر کے دو سو ارب روپے نکلوانا کتنا نیک کام ہے۔ عمر ایوب، ندیم بابر نے بریفنگ دی۔ اس وقت تک آرڈیننس جاری ہو چکا تھا۔ اس موقع پر محمد مالک نے کہا:
    جس سمری پر دو سو ارب روپے معاف کرنے کی منظوری کابینہ نے دی تھی‘ اس میں تو وزارت قانون سے رائے ہی نہیں لی گئی تھی کہ ہم یہ کرنے جارہے ہیں‘ غلط یا درست؟
    عمر ایوب نے جواب دیا:
    ہم نے سوچا جنہوں نے رائے دینا ہو گی وہ کابینہ اجلاس میں دے دیں گے۔
    ہم سب حیران کہ چار سو ارب روپے کا فیصلہ ہو رہا تھا اور وزارت قانون سے رائے لینے کی زحمت ہی نہیں کی گئی۔ میں نے عمر ایوب سے کہا:
    آپ کا خاندان دہائیوں اقتدار میں رہا ہے‘ آپ نے اس سمری کی منظوری کیسے دے دی جس میں وزارت قانون سے رائے تک نہیں لی گئی تھی؟ آپ پر نیب کا کیس بنے گاکہ دو سو ارب روپے کمپنیوں کو معاف کر دیا جو عوام کا پیسہ تھا اور وزارت قانون کی رائے تک اس میں شامل نہ تھی۔
    میں نے مزید کہا:
    آپ نے وزیر اعظم کے خلاف مضبوط مقدمے کی بنیاد بنا دی ہے۔ نواز شریف، گیلانی یا زرداری اور راجہ پرویز اشرف پر یہی مقدمات بنتے آئے ہیں کہ انہوں نے اختیارات سے تجاوز کیا اور عوامی پیسے کا ضیاع کیا۔ ان پر تو چند ارب کے الزامات تھے یہاں تو پورا دو سو ارب روپیہ معاف کر دیا گیا تھا۔ اگلی حکومت وزیر اعظم پر دو سو ارب روپے اپنے دوستوں کی کمپنیوں کو معاف کرنے کا مقدمہ بنائے گی‘ یہ تو بنا بنایا نیب کا مقدمہ ہے‘ جس میں آپ سب لوگ پھنس جائیں گے۔
    عامر متین نے اس پر تڑکا لگایا:
    آپ کے ساتھ جو ندیم بابر صاحب بیٹھے ہیں‘ ایک تو ان کا غیر ملکی پاسپورٹ ہے‘ دوسرے یہ سپیشل اسسٹنٹ ہیں۔ ان کے کسی سمری پر دستخط نہیں ہیں۔ انہوں نے بیگ اٹھانا ہے اور اڑ جانا ہے۔ پکڑے آپ کے وزیر اعظم اور کابینہ کے وزیروں نے جانا ہے۔
    عمر ایوب نے میری طرف دیکھا۔ ان کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور دوسرا جارہا تھا۔ ان کے منہ سے صرف اتنا نکلا:
    جی روف بھائی آپ کی بات سمجھ رہا ہوں۔
    میں نے کہا: آپ بار بار کہہ رہے ہیں‘ سینکڑوں سٹے آرڈرز عدالتوں نے ان کمپنیوں کو دے رکھے ہیں‘ لہٰذا مجبوری ہے ہم ڈیل کر لیں‘ حکومت نے دو سو ارب روپے معاف کرنے سے پہلے سپریم کورٹ کو خط لکھا؟ چیف جسٹس صاحب سے بات کی کہ چار سو ارب روپے عدالتوں میں سٹے کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں‘ لہٰذا فیصلہ دیں یا آپ نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ وہ یہ معاملہ چیف جسٹس کے سامنے اٹھائیں یا پھر وزارت قانون نے صوبوں میں ایڈووکیٹ جنرلز کے ذریعے صوبائی عدالتوں میں اس معاملے کو اٹھایا؟
    عمر ایوب بولے:
    جی نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میں نے کہا: پھر تو یہ ڈاکا ہے کہ بغیر عدالتوں سے رابطہ کیے آپ لوگوں نے دو سو ارب روپے محض سٹے آرڈر کے ڈر سے معاف کر دیا ہے۔ یہ تو فراڈ ہے۔ یہ سکینڈل ہے۔ یہ دھوکا ہے قوم کے ساتھ اور آپ سب لوگ اس میں پھنسیں گے۔
    اس پریس بریفنگ کے بعد عمر ایوب اور ندیم بابر وزیر اعظم سے ملے تو ان تک رپورٹ پہلے پہنچ چکی تھی کہ وزیروں نے اینکرز کو کیا مطمئن کرنا تھا‘ الٹا انہوں نے تو وزیروں کے رنگ اڑا دیے ہیں۔ جب وزیر اعظم تک یہ باتیں پہنچیں کہ کیسے یہ دو سو ارب روپے معاف کرنے کا ان پر مقدمہ بن سکتا ہے تو انہوں نے فوراً کہا:
    یہ آرڈیننس واپس لے لو؛
    تاہم وہ سخت ناراض تھے کہ میڈیا نے دباو ڈالا ہے۔ اگلے دن آرڈیننس واپس لے کر ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ حکومت سپریم کورٹ جا رہی ہے‘ لیکن ساتھ ہی خبردار کیا گیا کہ وہ کیس ہار بھی سکتی ہے اور اس صورت میں یہ دو سو ارب روپے بھی نہیں ملیں گے۔ مطلب یہ تھا کہ کیس ہار گئے تو سب ملبہ میڈیا پر ڈال دیا جائے گا۔ تب میں نے ایک شو میں کہا تھا:
    یہ تو ہارنے کے لیے عدالت جا رہے ہیں۔ وہی ہوا عدالت میں جس طرح بے دلی سے کیس لڑا گیا‘ اس پر ججوں نے بھی ریمارکس دیے۔ کبھی پیشیوں سے غائب تو کبھی دلائل دینے کی پوری تیاری نہ تھی۔
    یہ تو اللہ بھلا کرے جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مشہیر عالم کا جنہوں نے چار سو ارب روپے واپس دلوائے ورنہ حکومت خوش نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا‘ حکومت کی طرف سے چار سو ارب روپے کا فیصلہ حق میں آنے پر خوشی منائی گئی ہو؟ وزیر اعظم نے رسماً ایک ٹویٹ کرکے فیصلے کو ویلکم کیا۔ تین ارب ڈالرز کے لگ بھگ پیسہ واپس ملا لیکن لگتا ہے جیسے افسوسناک واقعہ ہو گیا ہو۔ وجہ وہی تھی کہ چندہ دینے والے دوستوں کو اربوں معاف کر دیے گئے تھے‘ لیکن میڈیا کی وجہ سے عدالت جانا پڑا اور حکومت مقدمہ جیت گئی۔ حکومت یہ مقدمہ جیتنے پر جتنی افسردہ ہے اس پر حیرانی ہے۔
    خوشی اس بات کی ہے کہ اللہ نے عزت رکھ لی۔ ہمارا موقف عدالت نے درست قرار دیا۔ جو بات دو تین ٹی وی اینکرز اور سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کو سمجھ آرہی تھی وہ وزیر اعظم اور کابینہ کے پچاس وزیروں کو کیوں نہیں آ رہی تھی؟ اگر وہ یہ سامنے کی باتیں بھی نہیں سمجھ سکتے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ ویسے قوم کے دس برسوں سے ڈوبے 400 ارب روپے کی واپسی کے لیے مجھے اور عامر متین کو زیادہ نہیں بس اپنی نوکریوں ،لاکھوں کی تنخواہوں ، ٹی وی شوز اورکیریئرز کی قربانی دینا پڑی۔
    حکمران نااہل ہیں یا جانتے بوجھتے دو سو ارب روپے ڈاکے میں شریک تھے، دونوں صورتوں میں یہ جرم ہے۔ نااہلی بھی بڑا جرم ہے۔ ویسے اللہ کی شان ہے وہی لوگ اس فیصلے کو ویلکم کر رہے ہیں جو میڈیا پر برس رہے تھے۔ مجھے اور عامر متین کو نوکریوں سے فارغ اور ہمارے ٹی وی شوز بند کرا رہے تھے۔
    اوئے کون لوگ او تُسی؟​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں