1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایک افسانہ

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از احتشام محمود صدیقی, ‏28 فروری 2012۔

  1. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    ہمارے پرانے گھر کے سامنے محمود احسن رہا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں ان کی شادی ہوئی اور زرینہ خانم ان کی دلہن بن کر آگئیں۔ محلہ کی لڑکیاں انہیں دیکھنے گئیں ۔ انہوں نے بتایا کہ زرینہ خانم مشرقی معاشرت کا نمونہ ہیں۔ وہ عمدہ غرارہ سوٹ میں سرپر سنہرا دوپٹہ اوڑھ کر اورگھونگٹ نکال کر خواتین سے ملیں ان کے سرپر جھومر ، کانوں میں آویزے اور ہاتھوں میں جڑاؤ کنگن چمک رہے تھے۔ لڑکیوں نے ان کا نام شہزادی زیب النساء رکھ دیا۔ ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ محمود اپنی بیگم کو لے کر امریکہ چلے گئے۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ دس سال بعد مجھے امریکہ جانے کا موقع ملا یاد آیا کہ ملواکی میں محمود رہتے ہیں ۔ میں پتہ نکال کر ان کی بیگم سے دفتر ہی ملنے گئی۔ جب میں نے ان کو کام پر دیکھا تو میرے منہ سے چیخ نکل گئی ’’زیب النساء تم ‘‘ میری حیرت کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ کہنے لگیں ’’بیٹھ جاؤ آج میں تم کو اپنی کہانی سناتی ہوں‘‘۔
    ’’تمہارے گھر کے سامنے محمود کا بڑا سا گھر تھا اس کا صحن بہت بڑا تھا ۔ جس میں ہم نے ایک چمن لگایا تھا مجھے گلاب بہت پسند تھا صبح صبح اٹھ کر میں اپنے چمن میں پانی دیتی تھی ۔ تازہ پھولتوڑکر اپنا گلدان سجاتی تھی۔ ہماری تھوڑی سی زمین تھی جس کی آمدنی سے ہمارا سال بھر کا خرچہ چل جاتا تھا۔ اچانک محمود کو دوسروں کی دیکھا دیکھی باہر جانے کی ہوس سوار ہوگئی ۔ میں نے منع بھی کیا لیکن محمود نے ایک نہ مانی اور گھر زمین سب بیچ کر ہم دونوں امریکہ کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ یہاںآکر ہم نے کچھ روپے اپنے اور کچھ قرض لیکر ایک چھوٹا سا مکان لے لیا اور محمود نے اسی کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی۔آپ کو یاد ہوگا میں کبھی بغیر برقعہ کے باہر نہیں نکلتی تھی افسوس میرا برقعہ کراچی ائیرپورٹ پر ہی رہ گیا۔
    ایک دن کمپنی کے پروڈکشن منیجر نے ہم دونوں کو چائے پر بلایا اور بہت تپاک سے ملے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے مجھ سے کہا آپ بھی تھوڑی دیر کیلئے فیکٹری آجایا کیجئے۔ ہمیں ایک سپروائزر کی ضرورت ہے۔ آپ کو محمود سے زیادہ ڈالر ملیں گے۔ بس برا ہو اس ہوس کا ۔ میں نے حامی بھرلی۔ دوسرے دن صبح ہی منیجر صاحب کی کار مجھے لینے آگئی۔ میں نے اپنا مشرقی لباس پہنا ، اس پر مصری برقعہ اوڑھا اور فیکٹری چلی گئی۔
    منیجرصاحب نے اپنے کمرے میں بلایا اور سمجھایا کہ کام کچھ نہیں بس آپ ہر گھنٹہ کے بعد فیکٹری میں ایک چکر لگالیا کیجئے ۔ آپ کا دفتر سامنے اوپر ہے جہاں سے آپ ورکرز کو دیکھ سکتی ہیں اور پھر مسکراتے ہوئے کہا اور ورکرز آپ کو دیکھ سکتے ہیں۔خیر میں اپنے دفتر چلی گئی اور کام شروع کردیا۔ دوپہر کے لنچ بریک میں منیجر صاحب نے چائے کافی اور برگر بھیجے ہیں میں حیران رہ گئی۔ جب دیکھا کہ انہوں نے پان کی دو گلوریاں بھی کسی سے منگاکر بھیجی تھیں۔ منیجر صاحب بہت ہوشیار آدمی تھے اپنا کام نکالنا خوب جانتے تھے۔
    ابھی مہینہ پورا ہی ہوا تھا کہ میرے سامنے دو ہزار ڈالر کا چیک آگیا۔ میں نے دل میں سوچا یہ تو خوب مزیدار سروس ہے۔ وقت گزرتا گیا کام بڑھتا گیا، ڈالر گھٹتے گئے۔ بڑے منیجر صاحب ریٹائر ہوگے ۔ محمود کا انتقال ہوگیا۔ بس اب میں فیکٹری میں ایک مزدور ہوں۔ مشین کا ایک پرزہ ہوں۔ انسان کی شکل میں ایک روبوٹ ہوں۔ یہ میرے سامنے ایک آٹومیٹک مشین ہے جو ہر دس سیکنڈ کے بعد کیل ٹھونک دیتی ہے مجھے ایک پلیٹ اس کے سامنے رکھ کر فوراً ہاتھ ہٹانے ہوتے ہیں۔ اگر ذرا سی دیر ہوجائے تو یہ مشین میرے ہاتھوں میں کیل ٹھونک دے گی‘‘۔
    زرینہ خانم نے میرے چہرے کی طرف دیکھا تو چونک پڑیں ’’ارے! آپ رورہی ہیں، یہ آنسو کس بات کے ،یہ تو اپنے کئے کی سزا ہے۔ اگر ہم نے قناعت کی ہوتی تو اپنے گلاب کے باغیچہ میں رہتے ۔ برقعہ اوڑھتے ، پان کی گلوریا ں کھاتے ۔ اب پہننے کو جین، کھانے کو پیزااور پینے کو ....... بس زرینہ بس !میں نے دیکھا اس کی مشین آٹومیٹک چل رہی ہے۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پڑی ہوئی ہیں۔ جنہیں کھینچ کر مشین اس کے ہاتھوں کو کچلنے سے بچادیتی ہے۔ میں نے پوچھا زرینہ یہ کیا ہے؟ زرینہ نے جواب دیا یہ ہوس کی ہتھکڑی ہے کبھی ان ہاتھوں میں میری اماں نے سونے کے کڑے پہنائے تھے۔ اب ہاتھوں میں لوہے کی ہتھکڑی ہے ۔ کاش میں نے برقعہ نہ اتارا ہوتا۔

    ابو طارق حجازی کی تحریر
     
  2. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ایک افسانہ

    بہت خوب۔۔۔۔۔بہت ہی تلخ حقیقت بیان کی گئی ہے۔۔
    شکریہ شئیرنگ کے لیے
     
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ایک افسانہ

    پرائے لکھ توں اپنا ککھ چنگا
     
  4. سانا
    آف لائن

    سانا ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    49,685
    موصول پسندیدگیاں:
    317
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ایک افسانہ

    شکریہ احتشام صاھب بہت ہی اچھی شئیرینگ کی ہے آپ نے
     
  5. سارا
    آف لائن

    سارا ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2011
    پیغامات:
    13,707
    موصول پسندیدگیاں:
    176
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ایک افسانہ

    :a165::a180:بہت ہی اچھی تحریر ہے شیرینگ کے لیے :n_TYTYTY:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں