1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایڈز کا عالمی دن

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏2 دسمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ایڈز کا عالمی دن
    upload_2019-12-2_0-52-21.jpeg
    رضوان عطا
    یکم دسمبر کو ایڈز کا عالمی دن منانے کا سلسلہ 1988ء سے جاری ہے۔ اس دن ایچ آئی وی انفیکشن سے پھیلنے والی ایڈز کی وبا کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے خصوصی تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے اور اس سے مرنے والوں کو یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں، صحت پر کام کرنے والے ادارے، غیرسرکاری تنظیمیں اور افراد ایڈز سے تحفظ اور اس کے کنٹرول کے حوالے سے مختلف سرگرمیاں منظم کر کے یہ دن مناتے ہیں۔ اس مرتبہ ایڈز کی روک تھام کے لیے کمیونٹیوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ایڈز کے عالمی دن کا موضوع یا تھیم ’’کمیونٹیز میک دی ڈفرنس‘‘ یعنی کمیونٹی کی شمولیت سے فرق پڑتا ہے، رکھا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق کمیونٹیاں ایڈز کے خلاف مؤثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس نئی حکمت عملی کی ایک وجہ دنیا میں صحت اور فلاح کے شعبے میں فنڈنگ کی کمی کا پیدا ہونا بھی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2018ء کے آخر تک ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد تین کروڑ 79 لاکھ تھی۔ 2018ء میں جنہیں ایچ آئی وی انفیکشن ہوئی وہ 17 لاکھ تھے اور اس برس سات لاکھ 70 ہزار افراد ایچ آئی وی کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے۔ 2018ء کے آخر میں ایچ آئی وی میں مبتلا ان تین کروڑ 79 افراد میں سے 79 فیصد کے ٹیسٹ ہوئے، 62 فیصد کو علاج کی سہولت میسر آئی اور 53 فیصد میں ایچ آئی وی وائرس کو علاج سے دبا دیا گیا جس کے باعث ان کے دیگر انفیکشنز میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہو گیا۔ ایچ آئی وی ’’ہیومن ایمونوڈیفی شنسی وائرس‘‘ کا مخفف ہے جو نظام مدافعت کے خلیوں کو ہدف بناتا ہے۔ انہیں سی ڈی4 خلیے کہا جاتا ہے جو کسی انفیکشن کی صورت میں جسمانی ردعمل میں معاونت کرتے ہیں۔ سی ڈی4 خلیوں کے اندر ایچ آئی وی اپنی نقول بناتے ہیں جس سے ان خلیوں کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ تباہ ہو جاتے ہیں۔ اینٹی ریٹرووائرل ادویات کے امتزاج سے اگر مؤثر علاج نہ کیا جائے تو قوت مدافعت کا نظام اس حد تک کمزور ہو جاتا ہے کہ وہ انفیکشن اور بیماری کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ ایچ آئی وی اور ایڈز میں فرق ہے۔ ’’ایکوائرڈ ایمونوڈیفی شنسی سینڈروم‘‘ (ایڈز) وہ اصطلاح ہے جو ایچ آئی وی کے آخری مرحلے کے لیے استعمال ہوتی ہے، جب قوتِ مدافعت کی کمی کے باعث زندگی ختم کرنے والے کینسر یا فوراً ہو جانے والی انفیکشنز مریض کو گھیر لیتی ہیں۔ شروع میں جب ایچ آئی وی پھیلا تو ایڈز عام تھی کیونکہ تب اینٹی ریٹرووائرل تھراپی (اے آر ٹی) دستیاب نہیں تھی۔ اب اس تھراپی کی وجہ سے ایچ آئی وی میں مبتلا زیادہ تر افراد ایڈز کے مرحلے تک نہیں جاتے۔ ایڈز انہیں ہوتی ہے جن میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص بہت تاخیر سے ہو یا وہ اے آر ٹی کے استعمال سے گریز کریں۔ اگر ایچ آئی وی انفیکشن ہو جائے اور اس کا پتا نہ چلے یا اے آر ٹی استعمال نہ کی جائے تو ایچ آئی وی سے متعلقہ بیماریوں کے ظاہر ہونے میں پانچ سے 10 سال کا عرصہ لگتا۔ بعض اوقات عرصہ اس سے کم ہوتا ہے۔ ایچ آئی وی کی انفیکشن کے بعد ایڈز کا مرحلہ آنے میں 10 سے 15 برس کا عرصہ لگتا ہے۔ بعض افراد میں اس سے بھی زیادہ وقت لگتا ہے۔ ایچ آئی وی جسم کے بہت سے سیال مادوں میں پایا جاتا ہے۔ ان میں خون، مادہ منویہ، مبہلی و مستقیمی سیال اور چھاتی کا دودھ شامل ہیں۔ ایچ آئی وی غیرمحفوظ ملاپ، خون کے انتقال ( سرنج، آلاتِ جراحی، بلیڈ وغیرہ کے ذریعے) اور متاثرہ ماں سے بچے کو ( دورانِ حمل، دوران پیدائش یا اپنا دودھ پلانے سے) ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ایچ آئی وی کا ابھی تک علاج دریافت نہیں ہو سکا لیکن اینٹی ریٹرووائرل ادویات، جو وائرس کی نقول بننے یا افزائش کے عمل کو روکتی ہیں، اسے دبا دیتی ہیں۔ اے آر ٹی سے وائرس کی سطح جسم میں اتنی کم ہو جاتی ہے کہ قوتِ مدافعت کا نظام اپنے افعال درست طور پر انجام دینے لگتا ہے۔ یوں ایچ آئی وی میں مبتلا افراد صحت مند زندگی گزارنے لگتا ہے۔ تھراپی یا علاج کرانے والے افراد میں ایچ آئی وی انفیکشن دوسروں کو منتقل کرنے کی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے۔ اگرچہ اے آر ٹی سے فرد کا قوت مدافعت کا نظام مضبوط ہو جاتا ہے لیکن ایچ آئی وی میں مبتلا افراد ماہرین کی مشاورت اور نفسیاتی معاونت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں تاکہ وہ اچھی زندگی بسر کر سکیں۔ ایچ آئی وی زندگی بھر رہتی ہے، یہ امر ذہنی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔ اچھی زندگی گزارنے کے لیے اچھی غذا، صاف پانی اور ذاتی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور صحت مندانہ طرزِزندگی اپنانا چاہیے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں