1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایمان اور مثبت سوچ

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد اجمل خان, ‏3 جون 2020۔

  1. محمد اجمل خان
    آف لائن

    محمد اجمل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اکتوبر 2014
    پیغامات:
    209
    موصول پسندیدگیاں:
    181
    ملک کا جھنڈا:
    ایمان اور مثبت سوچ

    دیکھو! کوّے کو دیکھو!
    کوّے کوئی قید نہیں کرتا کیونکہ کوّا نہ ہی دیکھنے میں خوبصورت ہے اور نہ ہی آواز اچھی نکالتا ہے۔
    لیکن جو خوبصورت پرندے ہوتے ہیں اور جن کی آواز پیاری ہوتی ہیں، انہیں لوگ پنجروں میں قید کرکے اپنی گھروں کی زینت بناتے ہیں۔

    اسی طرح تم بھی خوبصورت ہو اور تمہارے اوصاف بھی اچھے ہیں، اس لئے تمہیں بھی بیڑیاں پہنا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ بیڑیاں تمہیں نظر تو نہیں آتی کیونکہ اسے تمہارے پیروں میں نہیں بلکہ تمہارے ذہنوں میں پہنائی گئی ہیں۔

    کہنے کو تو تم آزاد ہو لیکن تم آزاد نہیں ہو بلکہ تم بدترین ذہنی غلامی کے اسیر ہو۔ انگریز تمہارے ملک سے جاتے جاتے تمہیں ایسی بدترین ذہنی غلامی میں جکڑ گیا ہے جس سے تم آذادی کا سوچتے بھی نہیں۔

    میری باتوں سے شاید تم اتفاق نہ کرو اور سوچو کہ تمہارے آباؤ اجداد نے تو بے شمار قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی اور آزاد ہوئے۔ اب تم آزاد ماں باپ کے آزاد اولاد ہو۔ نہیں! تم آزاد ماں باپ کے آزاد اولاد نہیں ہو۔ بلکہ تم غلام ماں باپ کے غلام اولاد ہو اور ہمیشہ غلام ہی رہو گے کیونکہ تمہیں تمہاری غلامی نظر نہیں آتی کیونکہ تم ذہنی غلام ہو بالکل ایک ہاتھی کی طرح۔

    تمہیں معلوم ہے ہاتھی خشکی پر سب سے بڑا اور طاقت ور جانور ہے، جس کا وزن 5 – 7 ٹن ہوتا ہے لیکن ایک چھوٹی سی رسی سے بندھا رہتا ہے کیونکہ جب وہ پیدا ہوتا ہے تب سے اس کا مالک اسے ایک چھوٹی سی رسی باندھے رکھتا ہے۔ پھر بڑا ہوکر طاقت ور ہونے کے باوجود وہ اس رسی کو نہیں توڑتا کیونکہ اس کا ذہن اسی رسی میں بندھا رہتا ہے۔

    اسی طرح تمہارے اذہان بھی بندھے ہوئے ہیں اور تم سب غلام ہو، ذہنی غلام۔

    آج دنیا میں مسلمانوں کے 50 سے زائد ممالک ہیں۔ اس کے ساتھ دولت بھی ہے، طاقت بھی ہے، اٹم بم بھی ہے اور استڑیٹیجک لوکیشنز بھی ہیں لیکن ہاتھی کی طرح بڑے جسم اور طاقتور ہونے کے باوجود سب ہی اپنے مغربی آقاؤں کے غلام ہیں اور غلام بنے رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔

    لعنت ہے ایسی عافیت اندیشی پر۔
    اس غلامی سے نکلو!

    جان لو کہ تم خوبصورت پرندوں جیسے ہو،
    اور اپنی ظاہری و باطنی اوصاف کی وجہ کر ہی تم غلام بنے ہوئے ہو۔

    اس غلامی سے نکلو!

    تم مسلم ہو!
    اللہ تعالٰی نے تمہیں بہترین امت ہونے کا شرف بخشا ہے:

    كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ ۗ - - - (110) سورة آل عمران

    ’’تم بہترین امت ہو جسے لوگوں (کی راہنمائی) کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘ - - - (110) سورة آل عمران

    لہذا تم اپنی سوچ کو مثبت بناؤ، اپنی طاقت کو مجتمع کرو، بہترین امت بنو اور بہترین امت والا کام کرو۔
    آج دنیا میں فساد ہی فساد ہے جسے ختم کرنے کیلئے تمہیں بہترین امت کا کردار ادا کرنا ہے:

    (1) نیکی کا حکم دینا ہے اور
    (2) برائی و فساد کو مٹانا ہے​

    لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ تم پہلے ایمان والے بنو، اللہ پر ایمان لاؤ جیسا کہ ایمان لانا اللہ کو منظور ہے جیسا کہ صحابہ کرامؓ نے ایمان لایا تھا۔ یہ ایمان ہی تو ہے جو تمہیں دوسرے اقوام سے ممتاز بناتی ہے۔ لیکن افسوس کہ آج ہم مسلمانوں کا ایمان ہی کمزور ہے، اس لئے ہم مسلمان اپنی تمام تر طاقت کے باوجود ہاتھی کی طرح طاغوت کی غلامی میں بندھے ہوئے ہیں۔ جب مسلمانوں کا ایمان مضبوط تھا تب بے سروسامانی کے باوجود 313 کو فتح ملی تھی۔ مدینہ کی صرف ایک ریاست ساری دنیا کی ریاستوں پر بھاری تھی۔ آج 50 سے زائد مسلمانوں کی ریاستیں بھی خاک کا ڈھیر کے سوا کچھ نہیں۔

    اے مسلمانو! ایمان لاؤ اللہ پر اور طاقت پکڑو۔ دنیاوی طاقت اللہ تعالٰی نے تمہیں دے رکھی ہے، بس ایمان کی طاقت کی تم میں کمی واقع ہوگئی ہے، جو مثبت سوچ، سعی و مجاہدہ سے مضبوط ہو سکتی ہے۔

    لہذا اپنے ایمان کو مضبوط کرنے اور بڑھانے کیلئے:
    قرآن میں دل لگاؤ، آیاتِ قرآنی میں غور و فکر کرو اور ان سے سبق لو،
    سیرت النبی ﷺ اور سیرت صحابہ کرامؓ کا مطالعہ کرو،
    اسلامی تاریخ اور تاریخ اقوامِ عالم سے عبرت پکڑو،
    اور اپنی سوچ کو مثبت بناؤ۔

    جب تمہارا اللہ پر ایمان مضبوط ہو گا تب ہی تم اغیار کی غلامی سے نجات پا سکو گے۔
    لہذا اپنا ایمان مضبوط کرنے میں جلدی کرو۔

    اللہ تعالٰی ہمیں اور تمہیں اس کی توفیق دے۔ آمین۔
    اصول: اللہ پر ایمان مثبت سوچ کیلئے ضروری ہے۔
    تحریر: #محمد_اجمل_خان
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بہت ہی عمدہ مضمون ہے جزاک اللہ
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم

    محترم ایمان اور مثبت سوچ پر آپ کی خوبصورت تحریر کے دو پہلو ہیں . پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے آپ کواور آباؤ اجداد کو ماں باپ کو غلام تصور کرنا مثبت سوچ نہیں ہے
    مثبت سوچ تو یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام کی کوئی حد نہیں ہے اسلام کسی ملک یا بارڈر کا محتاج نہیں تو ہم اسلامی طور پر آزاد ہیں اگر ہم پابند ہیں تو ان اصولوں کے جو اللہ رب کریم نے ہمارے لیے مرتب فرمائی ہیں اور نبی پاک ﷺ کے ذریعے ہم تک پہنچائی ہیں یہ بالکل اسی طرح ہے کہ ایک آزاد وطن کے رہنے والے اپنے ملک کو آئین و قانون پر عمل درآمد کرتے ہیں تو اس قانون کے اندر رہنے کو قید نہیں کہا جائےگا.
    پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور ہم آزادی سے ہر عمل جاری رکھے ہوئے ہیں چاہے وہ نماز ہو یا قربانی ، چاہے وہ سفر ہو یا رہائش ، چاہے وہ کاروبار ہو یا رہن سہن ہم آزاد ہیں بس معاشرے کے مطابق کچھ قوانین میں بندھے ہیں جو خوبصورتی ہے معاشرے کی.

    محترم اس تحریر میں آپ نے پہلے آپ نے پرندوں کی خوبصورتی و دلفریب آوازوں سے متاثر لوگوں کا ذکر کیا کہ وہ ان پرندوں کو قید رکھتے ہیں کیوں کہ وہ خوبصورت ہیں تو ایسے لوگ حسن پرستی کا شکار ہو کر صیاد بن جاتے ہیں اور قفس کی نذر کر لیتے ہیں . بے شک ہم پر اغیار کی نظر ہے وہ ہمارے دینی معاشرے اور دین اسلام کی خوبصورتی سے حسد و بغض کا شکا ر ہیں وہ مغرب میں اسلام کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہیں اور وہ ہمارے معاشرے کو بگاڑنے کے درپے ہیں اس پر غور کرنا ضروری ہے مگر ہم اسے ذہنی غلامی سے تشبیہہ نہیں دے سکتے.

    پھر ہاتھی کی ذہنی غلامی کا ذکر کر کے آپ نے 50 مسلم ممالک کے بارے میں لکھا ہے تو اس بات سے میں متفق ہوں کہ اگر تمام مسلم ممالک اپنی ایک اسلامی کرنسی جاری کرتے اور باہم عسکری تعاون جاری رکھتے اور کمزور ممالک کی فلاح کے لئے کام کرتے تو شاید دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا.

    کالم کے آخری سطور سے مجھے مکمل اتفاق ہے

    بہت بہت شکریہ
     
  4. محمد اجمل خان
    آف لائن

    محمد اجمل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اکتوبر 2014
    پیغامات:
    209
    موصول پسندیدگیاں:
    181
    ملک کا جھنڈا:
    سب سے بڑی ذہنی غلامی تو جمہوریت کا طوق ہے ، پھر ملک میں رائج انگریزوں کا قانون اور عدالتی نظام پھر تعلیمی نظام ہے۔ اگر ہمارے آباؤ اجداد اور ہم ذہنی غلام نہیں ہوتے تو کم از کم اپنا تعلیمی نظام ہی بنا لیتے۔ 73 سال میں ایک یہی کام کر لیتے لیکن نہیں کیا۔ پھر کیوں ہم ذہنی غلام نہیں؟
     
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آزادی کے بعد قربانیوں کے بعد یہ تو انتخاب ہے ان عوامل کا جو ہم نے یا ہمارے بڑوں نے پسند کیا ہے اپنے لیے اور وطن کے لیے
    اگر چاہتے تو کر سکتے تھے لیکن انہوں نے حالات اور اطراف کے ساتھ چلنے کو ترجیح دی

    جیسا کہ آپ کی تصویر دیکھی تو آپ کوٹ اور ٹائی میں نظر آئے تو یہ آپ کا اپنے لیے انتخاب ہے کہ آپ حالات اور ماحول کے مطابق کپڑے پہننا پسند کرتے ہیں
    اگر آپ چاہتے تو شلوار قمیص بھی پہن سکتے تھے آپ آزاد ہیں اپنے فیصلوں میں.

    اور محترم آپ کی تحریر بہت اچھی تھی اس لیے مجھے ایک عادت ہے
    جو چیز پسند آجائے تو اس پر بحث ضرور کرتی ہوں
    برا مت مانئے میں ایک طالبہ ہوں اور سیکھنے اور سمجھنے کی جستجو ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں