1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایمان اور دلیل!…….. ڈاکٹر اظہر وحید

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏19 اپریل 2019۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    کچھ لوگ ایمان بالغیب کو دلیل، منطق، سائنس اور فلسفے سے مربوط سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ قوی ایمان والا زیادہ بڑی دلیل کی وجہ سے ایمان لاتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ’’انما یخشیٰ اللّٰہ من عبادہ العلما‘‘۔۔۔ بے شک اللہ سے وہی ڈرتے ہیں جو اس کے بندوں میں عالم ہیں۔۔۔ سے مراد یہ ہے کہ جو سائنسدان ہیں وہی عالم ہیں اور اس آیت کی رُو سے وہی لوگ گویا اللہ سے ڈرتے ہیں۔ تقویٰ کے معنی اگر خدا سے ڈرنے والا ( یہ ڈرنا محبت سے ہو یا خوف سے) اور پرہیزگار (یعنی نفس کی ترغٰیبات سے نکلنے والا ) لیے جائیں تو اس کلیے کے مطابق یہی سائنسدان ہی متقی اور پرہیزگار ہیں۔ دورِ حاضر میں سائنس کی دنیا میں ایک بڑا نام سٹیفن ہاکنگ ہے، سائنس کی دنیا میں سٹیفین صاحب کے معرکے سائنسدان بہتر جانتے ہیں لیکن ایمانیات کے میدان میں موصوف تمام عمر ببانگ دہل خدا کے انکار پر قائم رہے۔ فلسفے کی دنیا میں برٹرینڈ رسل کا نام گونجتا ہے، اس کا فلسفہ بھی خدا کے نہ ہونے کا اعلان کرتا رہا، اٹھانوے برس کی عمر پانے والا یہ کہنہ مشق فلسفی جوانی میں ایک فضائی حادثے میں بچ جانے والا واحد مسافر تھا، لیکن یہ شخص اسے بھی خدا کی قدرت کی بجائے قدرتی حادثہ ہی سمجھتا رہا۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے‘ دلیل کی دنیا کے بادشاہ ایمان کی کسی گلی میں نظر نہیں آتے۔ کیا دلیل اور ایمان کا ربط ہم پر غیر ضروری طور پر تو نہیں لاد دیا گیا؟

    ہر ذہین اور فطین شخص دلیل کی طاقت کو مانتا ہے، اگر دلیل ایمان میں داخل کرنے پر قادر ہوتی تو دنیا کا ہر ذہین و فطین شخص کلمہ پڑھ چکا ہوتا۔ ناسا میں بیٹھے ہوئے ماہرینِ فلکیات اب تک چھ کے چھ کلمے حفظ کر چکے ہوتے اور ان کے تقویٰ کا یہ عالم ہوتا کہ وہ کسی بھی قسم کا خلائی اور مہلک ہتھیار بنانے سے انکار کر چکے ہوتے۔ اب تک ناسا اور پینٹاگان میں پھوٹ پڑ چکی ہوتی، وہ وحدتِ آدم کے قائل ہو جاتے، گوری اور کالی چمڑی کے امتیاز سے، پہلی اور تیسری دنیا میں تفریق سے قطعاً فارغ باشد ہو چکے ہوتے۔ لیکن مشاہدہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ایک سائنسدان سفاک ہو سکتا ہے، خدا سے باغی بھی ہو سکتا ہے، ایک کم پڑھا لکھا شخص خدا خوفی کا مظاہرہ کر سکتا ہے، خلقِ خدا پر مہربان بھی ہو سکتا ہے۔

    دراصل دلیل ہماری عقل کی انا ہے۔ دلیل کی دنیا ہماری عقلی انا کی دلیل ہے۔ ’’ہم بغیر دلیل کیوں مانیں‘‘۔۔۔ اس جملے میں عقل کا گھمنڈ بولتا ہے۔ جو شخص صرف اور صرف دلیل کو مانتا ہے وہ درحقیقت صرف اور صرف اپنی عقل کو مانتا اور عقل ہی کی مانتا ہے۔ اپنی عقل کی اطاعت کے زعم میں کی گئی اطاعت کیا اطاعت کہلا سکے گی۔ کسی حکم کی حکمت جاننے کے بعد حکم ماننا دراصل ایک مشورہ ماننے کے مترادف ہے۔

    اگر ایمان لانے کیلئے عقل، دلیل اور منطق کا سرمایہ کافی ہوتا تو انبیاء کی بعثت معاذاللہ عبث ٹھہرتی۔ ایمانیات کے باب میں جس شخص کا دل چاہتا وہ دلیل کی سیڑھی لگاتا اور غیب کے عالم کی خبر لے آتا۔ اگر ہم واقعی کسی خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو خدا کی شان تو یہ ہے کہ وہ کوئی شے عبث پیدا نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے‘ کیا انبیاء ؑ پر ایمان لانے والے سب لوگ بڑے ذہین و فطین تھے؟ کیا انکار کرنے والے عقل سے پیدل تھے۔ ابوجہل بعثتِ رسولِ کریمؐ سے قبل ابوالحکم کہلاتا تھا، چراغ مصطفویؐ سے الجھنے کے باعث ابوجہل قرار پایا۔۔۔ اس کی ذہانت، فطانت اور لسانیات کے علوم میں اس کی دسترس اسے ایمان کی دولت نہ دلا سکی۔ کیا ہر عقل مند شخص انبیاء ؑ پر ایمان لے آیا تھا؟ کیا کفر کے دائرے کے عقلا ایمان والوں کو سفہا (بیوقوف) نہیں کہتے تھے؟ عقل کا جو بھی سکہ اس زمانے میں رائج الوقت ہو گا، اس کے مطابق منکرین خود کا عقل کا رسیا اور ایمان والوں کو روسیا تصور کرتے تھے۔ ایمان کا سودا عقل کی میزان پر نہیں تولا جا سکتا۔ منطق کا کوئی باٹ ایسا نہیں بن سکا جو ایمان کی ایک بات کا وزن ہی کر سکے۔ کلمے کا وزن میزانِ دنیا میں نہیں‘ میزانِ آخرت میں معلوم ہو گا۔

    ایمان بالغیب کیا ہے؟ ایمان بالغیب کا صاف صاف مطلب ایمان باالرسولؐ ہے، کیونکہ غیب کے عالم کی خبر صرف مخبرِ صادقؐ ہی دے سکتے ہیں۔ غیب وہ عالم ہے جہاں ہمارے حواسِ خمسہ عقل، دلیل اور سائنسی ایجادات سمیت بے دست و پا ہو جاتے ہیں۔ سائنسی آلات اور ایجادات ہماری سمع و بصر کو تیز کرتے ہیں ، قلب و بصیرت کو نہیں۔ غیب کی دنیا کو دلیل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دلیل منطق اور سائنس کا تعلق اسی عالم محسوسات کے ساتھ ہے۔ دلیل سبب اور نیتجے کا ربط قائم کرتی ہے۔۔۔ ایسی دنیا کا تصور کریں جہاں واقعات سبب اور نتیجے کے تعلق کے بغیر وقوع پذیر ہو رہے ہوں ۔۔۔اب وہاں دلیل کا کیا کام رہ جاتا ہے۔ عالم امر میں عالمِ خلق کے قوانین نہیں ہوتے۔ ہمارے منطقی دلائل تو بلیک ہول کے کنارے پر پہنچ کر ختم جاتے ہیں، کُن سے پہلے اور حشر کے بعد کی دنیا میں یہ دلائل کا جھنجھنا کیا کام کرے گا۔

    ایمان بالتوحید ایمان بالرسالتؐ کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔۔۔ اور ایمان بالرسالتؐ کسی دلیل کا محتاج نہیں۔ دلیل کی دنیا صفاتِ رسولؐ سے آشنا تو کروا سکتی ہے، ذاتِ رسولؐ سے نہیں۔ صفات کے عالم میں محمدؐ بن عبداللہ کو کفار بھی صادق اور امین کہتے تھے، مانتے تھے، اپنی امانتیں رکھواتے تھے۔۔۔ بس فقط یہ بات کہ وہ آپؐ کی ذات کو نہیں مانتے تھے، کہ آپؐ کی ذات رسول اللہ ہے ۔۔۔ اللہ ر ب العالمین کا رسول ہونا آپؐ کا ذاتی تعارف ہے۔ آج بھی غیر مسلم نعت کہتے ہیں لیکن انہیں کلمے کی خوشبو میسر نہیں۔ ہاشمی و مطلبی ہونے کی حیثیت سے بنی ہاشم آپؐ کی بہت قدر کرتے تھے، آپؐ کو اپنے فیصلوں میں حَکم تسلیم کرتے تھے، جنگوں کے معاہدوں میں آپ ؐکو منصف مانتے تھے، حجرِ اسود کی تنصیب میں آپؐ ہی کا حکم سر آنکھوں پر رکھتے تھے۔۔۔ لیکن بس یہ کہ وہ نہیں مانتے تھے کہ محمد ؐبن عبداللہ بن عبدالمطلب خالق کائنات کے مبعوث کیے ہوئے رسول ہیں، اب خدا کا حکم وہی ہوگا جو یہ رسولؐ ارشاد فرمائیں گے۔ رسول۔۔۔ خالق اور مخلوق کے درمیان ایک رابطہ ، واسطہ اور وسیلہ ہوتا ہے۔ اس کی بات خالق کی بات ہوتی ہے، اس کی اطاعت خالق کی اطاعت ہوتی ہے، اس کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے ، اس کا پھینکا ہوا اللہ کا پھینکا ہوا ہوتا ہے۔ لطف یہ ہے کہ اس رابطے، واسطے اور وسیلے پر ایمان کسی دلیل کے سب سے نہیں ہے۔۔۔ یہ دل کا فیصلہ ہے، دلیل کا نہیں۔ ایمان دلیل کا نہیں دل کا سودا ہوتا ہے۔ جس نے مانا‘ سو مانا۔ ماننے والے شعب ابی طالب میں بھی آپؐ کو اللہ کا رسول مانتے ہیں اور اْحد کے میدان میں بھی۔۔۔ نہ ماننے والوں کے دل شق القمر کے بعد بھی شق نہ ہوئے، خوارج اور منافقین فتح مکہ کے بعد بھی مفتوح نہ ہوئے، ان کی سنگ دلی اور انکار تاریخ میں پینترے بدلتا رہا۔

    قلب ذات کا آئینہ ہے۔ ذات کو ماننا ہمارا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے، اس لیے ذات سے تعلق بھی ذاتی ہوتا ہے۔ ذاتِ رسولؐ سے اگر قلب کی سطح پر تعلق نہیں تو باہر کی دنیا میں دین صرف نظریہ اور نظام ہے، قاعدے، کلیے اور کلیات ہیں۔ دلیل صرف عقل کو متاثر کرتی ہے اور عقل پر دلیل کا تاثر جز وقتی ہوتا ہے۔ عقل پر دلیل کا تصرف صرف اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک کوئی تازہ دلیل پہلی دلیل کی جگہ نہیں لے لیتی۔

    کلمہ صرف قول و اقرار ہی نہیں‘ تصدیق بھی ہے۔ ایمان اجمالاً بھی ہو تو اقرار باللسان و تصدیق بالقلب کا تقاضا کرتا ہے۔ اقرار زبان اور ذہن کی سطح پر بھی ممکن ہے، تصدیق صرف قلب میں قرار پاتی ہے۔ قلب کی تصدیق کسی دلیل کے واسطے کے بغیر ہوتی ہے۔ عقل کو فیصلہ کرنے میں دلیل کی احتیاج ہوتی ہے۔۔۔ دل دلیل کا محتاج نہیں۔۔۔ دل آنِ واحد میں تسلیم کرتا ہے۔ دل سے ماننا ہمیشہ ہمیشہ کیلیے ماننا قرار پاتا ہے۔ اقبالؒ کا اقبال بلند ہو، کتنے سہل انداز میں سمجھا گئے:

    ترے سینے میں دم ہے، دل نہیں ہے
    ترا یہ دم گرمئ محفل نہیں ہے
    گذر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
    چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:

    ڈاکٹر اظہر وحید
    [​IMG]
     

اس صفحے کو مشتہر کریں