1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 87

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از پاکستانی55, ‏29 نومبر 2018۔

  1. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    news-1533029492-3452.jpg
    یہ تاتاری سپاہی تھے۔ ان کے بال لمبے تھے اور کمر بند کے ساتھ چھرے لٹک رہے تھے۔ فائقہ کی والدہ کی آواز نہیں آرہی تھی۔ شاید وہ جھونپڑی کے اندر صدمے سے بے ہوش ہوچکی تھیں۔ یہ بڑا نازک لمحہ تھا۔ تاتاریوں کے لئے کسی حسین عورت کو اغوا کرنا یا اسے قتل کر ڈالنا بڑی معمولی بات تھی۔
    ضرور پڑھیں: علامہ خادم رضوی کی رہائی کیلئے درخواست کس وجہ سے مسترد کردی گئی؟ جان کر آپ کو بھی ہنسی آجائے گی
    مجھے فائقہ کو ہر حالت میں بچانا تھا۔ وہ تاتاریوں کے چنگل میں پھنسی تڑپ رہی تھی۔ تاتاری سپاہی قہقہے لگالتے اسے گھوڑوں کی طر ف گھسیٹے لئے جارہے تھے۔ یہ وقت سوچنے اور مصلحت انگیزی کانہیں تھا۔ میں ٹیلے سے نکل کر تاتاری سپاہیوں کے سامنے آگیا۔ وہ خون آشام درندوں کی مانند غرا رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر فائقہ نے مدد کے لئے پکارا۔ ایک تاتاری میری طرف چھرا لے کر لپکا۔ اس کے سامنے میں نہتا کھڑا تھا۔ اس لئے مجھے ہلاک کرنا کوئی مشکل بات نہیں تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھ پر حملہ کرتا میں نے اس پر چھلانگ لگادی اور اسے اپنے ساتھ ہی زمین پر گرالیا۔ تاتاری سپاہی کا چھرا میرے پیٹ کے آر پار ہوگیا تھا اور میرے ہاتھوں کا دباؤ اس کی گردن پر بڑھتا جارہا تھا۔
    اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 86 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
    ضرور پڑھیں: حکومت نے پہلے 100 دنوں میں کتنا قرضہ لے لیا؟ ایسے اعدادوشمار سامنے آگئے کہ آپ سابقہ حکومتوں کو بھول جائیں گے
    دوسرا تاتاری سپاہی فائقہ کو گھوڑے پر ڈال رہا تھا کہ میں اس کی طرف دوڑا۔ مجھے اتنا بھی ہوش نہ رہا کہ کم از کم اپنے پیٹ میں اترا ہوا چھرا ہی کھینچ کر باہر نکال لوَ چھرا اسی طرح میرے پیٹ کے آر پار تھا اور میں نے لپک کر دوسرے تاتاری کو پیچھے سے نیچے کھینچ لیا۔ اس نے میرے پیٹ میں چھرے کو دستے تک اندر گئے دیکھا تو ایک پل کے لئے ٹھٹکا مگر اس کے ساتھ ہی اپنے چھرے کا وار کردیا۔ یہ وار میں نے اپنے ہاتھ پر لے لیا اور چھرا اس کے ہاتھ سے چھین کر پرے پھینک دیا۔ اس نے مجھے اٹھا کر زمین پر پٹخنا چاہا مگر میں اس کے لئے ایک چٹان بن گیا تھا۔ وہ مجھے اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلاسکا اور میں نے اپنے پیٹ سے چھرا نکال کر اس کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ تاتاری سپاہی نے دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑ لیا اور لڑکھڑاتا ہوا نیچے گرا۔
    میں نے فائقہ کو اٹھایا۔ اس کی والدہ کے بارے میں پوچھا۔ فائقہ نے میرے پیٹ میں اترے ہوئے چھرے کو دیکھ لیا تھا۔ وہ حیران تھی کہ میں ابھی تک زندہ کس طرح ہوں اور میرے پیٹ سے خون کیوں نہ بہا۔ اس نے جھونپڑی کی طرف اشارہ کیا۔ فائقہ کی والدہ بے ہوش پڑی تھی۔ بڑی مشکل سے اسے ہوش آیا تو اپنی بیٹی کو اپنے پاس دیکھ کر اس سے لپٹ گئی۔ میں نے جلدی سے باہر نکل کر تاتاریوں کے دونوں گھوڑوں پر قبضہ کیا کہ کہیں وہ بھاگ نہ جائیں۔ فائقہ نے بتایا کہ وہ جھونپڑی میں جاکر بیٹھی ہی تھیں کہ یہ دونوں تاتاری سپاہی چھرے لہراتے ہوئے آگئے اور مجھے گھسیٹ کر لے جانے لگے۔
    ضرور پڑھیں: فلیگ شپ مقدمہ ثابت کرنے کیلئے شہادتیں مکمل ہوگئیں،ملزم کابیان لیاجائے،نیب
    میں نے کہا ’’اب ہمیں یہاں نہیں رکنا چاہیے۔ ہمارے پاس اتفاق سے دو گھوڑے بھی آگئے ہیں۔‘‘ میں نے ایک گھوڑے پر فائقہ اور اس کی والدہ کو بٹھایا، دوسرے گھوڑے پر خود سوار ہوا اور ہم موصل کی طرف روانہ ہوگئے۔
    یہ سفر کافی دشوار گزار تھا۔ راستے میں فائقہ نے میری کرامت کے بارے میں دو ایک بار مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی مگر میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ایک بزرگ کی دعا سے ایسا ہو اہے۔ چار راتوں کے تکلیف دہ سفر کے بعد ہم موصل پہنچ گئے۔ ہم ایک کارواں سرائے میں اترے جہاں سے تین دن بعد سمر قند اور بخارا کی جانب ایک قافلہ روانہ ہونے والا تھا۔ یہاں میں نے ایک اور ہیرا فروخت کیا اور اس کی والدہ کا سمرقند تک کا کرایہ ادا کیا اور انہیں راستے کے لئے کچھ ضروری چیزیں خرید کر دیں۔ فائقہ میری طرف احسان مند نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ ان نگاہوں میں مجھے محبت کی برق ریزیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ لیکن یہ محبت ہماری منزلوں کی سمت تبدیل نہیں کرسکتی تھی۔ فائقہ اپنی ماں کے ہمراہ قافلے میں شامل ہوکر سمرقند کی طرف روانہ ہوگئی۔
    ضرور پڑھیں: ’طاہر داوڑ کو بھوکا پیاسا رکھا گیا، تشدد بھی ہوا‘پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار
    بغداد کی تباہی اور عباسیوں کے زوال نے مجھے دل برداشتہ کردیا تھا۔ چنانچہ میں بھی ایک قافلے میں شامل ہوکر ملک ہند کی طرف روانہ ہوگیا کہ ایک بار اس خطے کی سیر کرلوں جہاں سندھ کی وادی کے سب سے بڑے شہر موہنجوداڑو میں مَیں شاہی کاہن اعظم کی حیثیت سے کچھ عرصہ سیر کرچکا تھا۔ اس وقت موہنجوداڑو ایک کھنڈر میں تبدیل ہوگیا تھا۔ منزلوں پر منزلیں طے کرتا میں غزنی پہنچا تو معلوم ہوا کہ امیر اسماعیل بن امیر ناصرالدین سبکتگین کا بیٹا سلطان محمود غزنوی بت پرستوں کے سب سے بڑے مندر سومنات پر حملے کی تیاریاں کررہا ہے۔ غزنی کے ایک قہوہ خانے میں میری ملاقات اس وقت کے سب سے بڑے شاعر اسدی طوسی سے ہوئی جو ’’شاہنامے‘‘ کے شاعر فردوسی کا استاد تھا اور جس کی عمر اس وقت ستربرس کی ہوچکی تھی۔

    https://dailypakistan.com.pk/29-Nov-2018/888337
     

اس صفحے کو مشتہر کریں