1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اچھی تربیت ، باپ کااپنے بچوں کو بہترین تحفہ ... قاسم علی شاہ

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏13 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    اچھی تربیت ، باپ کااپنے بچوں کو بہترین تحفہ ... قاسم علی شاہ

    یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے عجائبات اور تخلیقات کا مرکز ہے۔یہاں جتنی بھی مخلوقا ت ہیں وہ دو طرح کی ہیں ۔ ایک قسم وہ ہے جوایک مخصوص کام کے لیے پیدا ہوتی ہے،وہ اپنی ذمہ داری کو پورا کرتی ہے اور مرجاتی ہے ۔آپ شہد کی مکھی کو دیکھیں صبح سورج طلوع ہونے پر وہ اپنے چھتے سے نکلتی ہے۔پھولوں کو تلاش کرتی ہے او ر ان سے رَس لے کر واپس اپنے چھتے میں آجاتی ہے ۔سیکڑوں مکھیوں کی محنت سے شہد پیدا ہوتا ہے اور یوں وہ انسانیت کے کام آتا ہے۔اسی طرح پرندے ، کیڑے مکوڑے،جانور اور سمندری مخلوقات ۔یہ تمام وہ مخلوقات ہیں جن کو اللہ نے ایک مخصوص جینز کے ساتھ پیداکیا ہے ۔یہ جینز پہلے سے متعین(Coded) ہوتے ہیں، البتہ بعض جانوروں کے جینزمیں تربیت کی گنجائش ہوتی ہے اور جب ان کو تربیت دی جائے توپھر وہ ا س کے مطابق کام کرتے ہیں جیسا کہ کتا اور طوطا۔

    بچے کے ذہن پر اگر ابتداء ہی سے منفی باتیں نقش ہونا شروع ہوجائیں تو وہ ساری عمر اسی مزاج کے ساتھ گزارے گا
    مشترکہ خاندان میں رہنے والے بچے اپنے دادا، دادی اور خاندان کے دیگر افرادکی عادات اور باتوں سے بھی مسلسل سیکھتے رہتے ہیں

    دوسری قسم انسانوں کی ہے ۔ انسان وہ مخلوق ہے جس کو ’’اشرف المخلوقات‘‘ کا اعزاز ملا ہے اور اس اعزاز کی وجہ سے اس کے جینزمتعین(Coded)نہیں ہیں بلکہ اِن کوآزاد رکھاگیا ہے۔اس کو عقل و شعور کی دولت دی گئی ہے جس کی بدولت وہ اچھے برے میں امتیاز کرتا ہے اور اپنے لیے بہترین چیزوں کا انتخاب کرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس کوبا اختیاربھی بنایا گیا ہے اور اسی اختیار کا حساب بھی لیا جائے گا۔
    بچہ کن افراد سے سیکھتا ہے؟
    انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے لاشعور کی پروگرامنگ شروع ہوجاتی ہے ۔ وہ سیکھنے کے سفر کا آغاز کرتا ہے ۔ابتدائی سالوں میں وہ ماں باپ کے حرکات و سکنات اور ان کے جذبات کابھرپور اثر لیتا ہے ۔بول چال سن سن کر وہ بھی آہستہ آہستہ بولنا شروع کرتا ہے ۔ تین چار سال کی عمرتک پہنچنے کے بعد وہ اپنے والدین کی عادات ، جذبات اور گفتگو کومزید بہتر انداز میں سمجھنے لگ جاتا ہے ۔اس کے ساتھ اگروہ مشترکہ خاندان میں رہتا ہو تو اپنے دادا، دادی وغیرہ کی عادات اور باتوں سے بھی مسلسل سیکھ رہاہوتا ہے۔
    والدین کے بعد دوسرا نمبر ’’ٹیچرز‘‘ کا آتا ہے ، جن سے بچہ بہت زیادہ سیکھتا ہے ۔آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ کھیل کھیل میں بھی بچہ اپنے ٹیچر کی نقل اتار رہا ہوتا ہے۔وہ گھر میں اپنی والدہ کو اس رنگ کے کپڑے پہننے کو کہتا ہے جیسے اس کی ٹیچر نے پہنے ہوتے ہیں۔
    تیسرے نمبر پر اس کے دوست ہوتے ہیں،جن کی عادات سے وہ سیکھ رہا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بچہ اکثر اسی چیزکی ضد کرتا ہے جو وہ اپنے کسی دوست کے پاس دیکھتا ہے۔ا س کے دوست جس طرح کا لب ولہجہ استعمال کرتے ہیں ، وہ بھی لاشعوری طورپر وہی لہجہ اختیارکرلیتا ہے۔
    چوتھے نمبر پر ’’شوبز ہیرو‘‘ ہیں ۔بچہ ٹی وی یا انٹرنیٹ پر جن لوگوں کو دیکھتا ہے ،اب چاہے وہ منفی ہوں یا مثبت ، ان سے اثرضرورلیتا ہے اور ان ہی کی طرح لباس اور بول چال شروع کردیتا ہے۔
    والدین کیا کریں؟
    بچپن کی عمر میں بچہ ایک سلیٹ کی مانند ہوتا ہے جس پر کچھ بھی لکھا جاسکتا ہے ۔اس پر اگر ابتدا ء ہی سے منفی باتیں نقش ہونا شروع ہوگئیں تو بچہ ساری عمر اسی مزاج کے ساتھ گزارے گا۔ایسے میں والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس عمر کی حساسیت کو سمجھیں اور بچوں کی تربیت میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں۔
    ۔1۔اچھا عقیدہ
    اچھا عقیدہ دینا بچوں کا بنیادی حق ہے۔بچوں کو اللہ کی ذات پر یقین دِلانااورانہیں حلال حرام کا بنیادی تصوردینا بہت ضروری ہے۔
    ۔2۔محنت کی ترغیب
    بچوں کو ہر کام محنت کے ساتھ کرنے کی ترغیب دیں اور انہیں بتائیں کہ کامیابی محنت کے راستے پر چلنے سے ملتی ہے ،کسی شارٹ کٹ سے نہیں۔
    ۔3۔بچوں کو جینے دیں
    بچوں پر اپنے ان خوابوں کو لادنے کی کوشش نہ کریں جن کو پورا کرنے سے آپ محروم رہیں۔ہر بچے میں اپنی قابلیت ،اپناکمال اور اپنا شوق ہوتا ہے ، اسی کے مطابق انہیں جینے دیں۔
    ۔4۔پروفیشن
    بچوں کے سامنے کسی پروفیشن یا پیشے کی برائی نہ کریں۔ممکن ہے آپ کو جو پیشہ پسند نہ ہو اسی میں آپ کا بچہ کامیابی کے جھنڈے گاڑ دے۔
    ۔5۔نفع مندانسان
    بچوں کو ہر وقت یہ احساس دِلائیں کہ چاہے وہ کسی بھی فیلڈ کو اختیار کریں لیکن ہمیشہ ایک نفع مند انسان رہیں اور لوگوں کے لیے خیر کا باعث بنیں۔
    کامیاب شخصیات کا بچپن
    جب ہم کامیاب شخصیات کی زندگی پر نظر دوڑاتے ہیں تو ایک چیز واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی کامیابی کے سفر کا آغازان کے بچپن سے ہی ہوگیا تھا۔بیشتر شخصیات ایسی ہیں جنہیں اپنے والد، استاد یا کسی معروف شخصیت سے انسپائریشن مل گئی اور اِن کے اندر ان ہی کی طرح بننے کا شوق پید ا ہوگیا۔یہ شوق جدوجہد میں بدلااور دِن رات کی محنت کے بعد بالآخر اس نے وہ مقام پالیا ،جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے گھریلو حالات اس قدر سخت تھے جنہوں نے ان کو کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔انہوں نے ایک فیصلہ کیا اور پھر آنکھیں بند کرکے محنت شروع کردی۔محنت کی بھٹی میں جل کر وہ کندن ہوئے اور پھر ایک دِن آیا کہ زمانہ ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔
    ابراہم لنکن
    کامیاب شخصیات میں ایک بڑا نام ’’ابراہم لنکن‘‘ کا بھی ہے۔ان کی زندگی میں دو باتیں بڑی اہم ہیں۔ایک یہ کہ ان پر پے درپے بڑی سخت مشکلات آن پڑی تھیں لیکن انہوں نے بڑی جوانمردی کے ساتھ ان کو برداشت کیا۔دوسری خصوصیت یہ تھی کہ ان کاوالد ایک غریب انسان تھا جو لوگوں کے جوتے سیتا تھااور جس کے پاس اپنا مکان بھی نہیں تھا لیکن ابراہم لنکن خود امریکہ کے صد ر بن گئے ۔
    ابراہم لنکن نے اپنی زندگی میں وہ کچھ کردِکھایا جو بظاہر ناممکن تھا۔بچپن میں اس کی ماں فوت ہوگئی ۔اس کو پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن اس کے پاس پیسے نہیں تھے۔چنانچہ اس نے قرض لے کر پڑھنا شروع کیا ۔وہ دِن کو کام کرتا اور رات کو پڑھائی۔ایک دفعہ اس کو معلوم ہو اکہ دریا پار ایک وکیل رہتا ہے جس کے پاس کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے ۔وہ اسی وقت وکیل کے پاس پہنچ گیا ۔وکیل نے کہا کہ میرا ملازم چھٹی پرہے،تم میرے پاس نوکری کرلو ۔ابراہم نے ہامی بھری اور کتابوں کی محبت میں نوکری شروع کردی۔ا س وقت امریکہ میں انسانوں کو غلام بناکر بیچااور فروخت کیا جاتا تھا ۔ایک دفعہ اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ سیاہ فام غلاموں پر تشدد کررہے ہیں ۔ بس یہ منظر اس سے برداشت نہ ہوااوراس نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ میں اس ظلم کو ختم کرکے رہوں گا،لیکن وسیع پیمانے پر پھیلے اس نظام کو ختم کرنے کے لیے اس کو ایک طاقتور شخص بننا ضروری تھا، چنانچہ اس نے سیاست کا آغاز کیا ۔پہلی دفعہ وہ الیکشن لڑا لیکن ناکام ہوا۔پھر دوسری اور تیسری بار بھی ناکام ہوا ۔اس نے دو دفعہ بزنس بھی کیا، اس میں بھی ناکام رہا ،لیکن اس کا عزم ابھی ٹوٹا نہیں تھا ۔البتہ شادی کے بعد پے در پے تین بیٹوں کی وفات نے اس کو ہلاکر رکھ دیا۔وہ مایوسی کی انتہائوں پر تھا ۔ دوستوں نے اس کے گھر سے چاقو چھری ہٹالی تھی کہ کہیں وہ خودکشی نہ کرلے لیکن اس کا کہناتھا:
    ’’ابھی میں نے تاریخ رقم نہیں کی ، جس دِن تاریخ لکھ لوں گا،اس کے بعد مروں گا۔‘‘
    ایک صبر آزما اور طویل جدوجہد کے بعد جب وہ اقتدار میں آیا تو اس نے غلامی کے اس نظام کو ختم کرنے کافیصلہ کیا،لیکن اس وقت کے بڑے بڑے سیٹھ اس کے مخالف ہوگئے اور اس نظام کو ختم کرنے سے انکار کردیا کیونکہ ان کا سارا کاروبار اسی کے بل پرچلتا تھا ۔نتیجتاً جنگ چھڑگئی جو چار سال تک جاری رہی اور اس میں سات لاکھ لوگ جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔اتنے بھاری نقصان کے بعد ابراہم لنکن نے یہ اٹل فیصلہ کرلیا کہ میں نے اس نظام کو ختم کرکے رہنا ہے ۔وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہوگئے اور امریکی سرزمین سے غلامی کا قبیح کاروبار بند ہوگیالیکن اس فیصلے پر اس کے بہت سارے دشمن بھی پیدا ہوگئے اور اسی دشمنی کانتیجہ تھا کہ موقع ملنے پر ایک شخص نے انہیں گولی ماردی اور بھا گ گیا۔ چار ڈاکٹروں نے فوری طورپر ان کا علاج شروع کیا مگرگولی چونکہ سر میں لگی تھی ، اس لیے وہ جانبر نہ ہوسکے اور15اپریل 1865ء کو زخم کی تاب نہ لاکر فوت ہوگئے ۔ابراہم لنکن کی جدوجہد بھری ا س زندگی پر 14ہزار کتابیں اور سیکڑوں ڈرامے اور فلمیں بن چکی ہیں۔
    ابرا ہم لنکن کا اپنے بیٹے کے استاد کو خط
    بچپن کی اہمیت اور اپنے بیٹے کی تربیت کااحساس ابراہم لنکن کو بھی تھا۔انہوں نے پوری زندگی مسلسل مشکلات اور مصائب میں گزاری تھی اور پھر ایک طویل انتظار کے بعد امریکہ کی ایک طاقتور ترین شخصیت بن گئے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بیٹے کی تربیت کا بھرپور احساس رکھتے تھے اور بچپن کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ایک دفعہ انہوں نے اپنے بیٹے کے استاد کو خط لکھااور ان سے گزارش کی کہ میرے بیٹے کو یہ باتیں سکھائیں۔
    ۔(1)لوگوں کی باتوں کو سچائی کی کسوٹی پر پر کھو اور جو درست ہو اس کو مان جائو ۔
    ۔(2)جہاں دشمن ہو تے ہیں وہاں دوست بھی ہو تے ہیں ،اپنے دوستوں کے لیے قربانی دینا سیکھو۔
    ۔(3)اس کو بتائیں کہ اداسی میں کیسے مسکر ایا جا سکتا ہے۔
    ۔(4)آنسو میں کو ئی شرم نہیں ہے ۔
    ۔(5)منفی سوچ رکھنے والے اور خوشامدی لوگوں سے دور رہو۔
    ۔(6)اس کو بتائو کہ تمہارے ہاتھ مفت آنے والے پانچ ڈالرسے وہ ایک ڈالر زیادہ قیمتی ہے جو کمایا گیا ہو۔
    ۔(7)اس کو کتاب ضرور پڑھائیں لیکن اس کو قدرت کے کرشمے (سورج،پھول ،شہد کی مکھیا ں اور پہاڑ وغیر ہ) دیکھنے کا بھی موقع دیں۔
    ۔(8)جہاں ولن ہو تا ہے وہاں ہیرو بھی ہو تا ہے ۔
    ۔(9)اس کے ساتھ شفقت کریں لیکن اس کو دلاسہ نہ دیں کیونکہ آپ کی تربیت کی یہ سختی اس کو کندن بنادے گی۔
    ۔(10)پر شور ہجوم کاحصہ نہ بنو بلکہ اپنی رائے بنائو ،اگر تم سچے ہو۔
    ۔(11) اسے سکھائیں کہ نقل کرکے پاس ہو نے کی بہ نسبت ناکام ہو نا اعزاز کی بات ہے ۔
    ۔(12)اس کو بتائیں کہ تمام سیاست دان خود غرض نہیں ہو تے ، ان میں ایک پر خلوص لیڈر بھی ہو تا ہے ۔
    ۔(13)اس کو بتائیں کہ آدمی کو اس کی طبیعت کے مطابق ڈیل کریں۔
    ۔(14)اپنے ذہن اور علم کا بہترین استعمال کرو لیکن اپنے دل اور روح کو کبھی نہ بیچو۔
    ۔(15)اس کو اپنے اوپر یقین کرنا سکھائیں تاکہ وہ انسانیت پر یقین کر سکے ۔
    دنیا کا ہرباپ اپنی اولاد کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے ۔ابراہم لنکن بھی یہی چاہتا تھا۔ان کی نصیحتوں پر اگر غور کیا جائے تو یہ سب اچھے اخلاق ، کردار سازی ، معاشرتی آداب ، فطرت سے محبت اورخود یقینی پر مشتمل نظر آتی ہیں۔وہ بھی اگر چاہتے تو استاد سے کہہ سکتے تھے کہ محنت کرکے میرے بیٹے کو زیادہ نمبر دلوادیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیاکیونکہ انہیں معلوم تھا کہ زندگی گزارنے کے لیے صرف اچھے نمبر لینا کافی نہیں ،بلکہ سب سے بنیادی چیز بچے کی تربیت ،شخصی تعمیراور ایک بہترین انسان بنانا ہے ۔
    آپ بھی اپنے بچوں کو نمبر ، جی پی اے اور ڈگریوں کی دوڑ سے نکالیں اور ان کی تربیت پر توجہ دیں، کیونکہ کائنات کے سب سے ذہین اور دانا انسان حضرت محمد ﷺنے فرمایاہے ’’ کسی باپ نے اپنے بیٹے کو حسنِ ادب سے بہترتحفہ نہیں دیا۔‘‘
    (سنن الترمذی:1952)




     

اس صفحے کو مشتہر کریں