1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آپ ٹھیک تو ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔ میگہن مارکل ڈچز آف سسیکس

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    آپ ٹھیک تو ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔ میگہن مارکل ڈچز آف سسیکس

    یہ جولائی کی روایتی صبح تھی۔ میں نے ناشتہ بنایا، کتوں کو خوراک ڈالی، پھر وٹامنز لئے، اپنی جرابیں ڈھونڈیں، پھر اپنے بیٹے کو پنگھوڑے سے نکالنے سے پہلے بالوں کی پونی کی۔ بیٹے کا ڈائپر تبدیل کرنے کے بعد مجھے اتنا شدید اکڑائو محسوس ہوا کہ میں بچے سمیت فرش پر گر گئی۔ اپنے بیٹے اور خود کو پُرسکون رکھنے کے لئے میں اسے لوری سنانے لگی۔ اس دوران مجھے لگ رہا تھا کہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے۔ پہلا بیٹا میرے ہاتھوں میں تھا اور مجھے پتا چل گیا تھا کہ میں اپنے دوسرے بچے سے محروم ہونے والی ہوں۔ کئی گھنٹے بعد میں ہسپتال کے ایک بیڈ پر لیٹی تھی اور میرے شوہر کا ہاتھ میرے ہاتھوں میں تھا۔ مجھے اس کی ہتھیلیوں کا لمس محسوس ہو رہا تھا اور میں اس کی انگلیوں کی پوروں کو چومنے لگی جو میرے آنسوئوںسے تر ہو گئی تھیں۔ میری نظریں مسلسل سفید دیوار پر تھیں اور میں سوچ رہی تھی کہ میں کیسے تندرست ہوں گی۔ پھر مجھے یاد آیا کہ گزشتہ سال میں اور ہیری جنوبی افریقہ کے ٹور پر تھے۔ میں مسلسل فیڈنگ کی وجہ سے نڈھال ہو چکی تھی مگر میں نے عوام کی نظروں میں خود کو ہمیشہ ایک بہادر خاتون کے طور پر پیش کیا۔ ایک صحافی نے تومجھ سے پوچھ بھی لیا ’’آپ ٹھیک تو ہیں؟‘‘ میں نہیں جانتی تھی کہ میرے جواب کی بازگشت ان نئی اور پرانی مائوں کے کانوں میں اتنی دیر تک گونجتی رہے گی جنہوں نے اپنا یہ دکھ کبھی کسی سے بیان نہیں کیا۔ میرے غیر معمولی جواب نے اور لوگوں کو بھی اپنا دکھ بیان کرنے کا حوصلہ دیا۔ میں نے صحافی کے سوال کے جواب میں کہا ’’مجھ سے وہ سوال پوچھنے کا شکریہ جو بہت سے لوگ نہیں پوچھتے کہ کیا میں ٹھیک تو ہوں؟‘‘۔ ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے ہوئے جب میرے شوہر ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ مجھے سنبھالنے میں مصروف تھے‘ مجھے خیال آیا کہ تندرست ہونے کیلئے سب سے پہلے یہ پوچھنا ضروری ہے ’’آپ ٹھیک تو ہیں؟‘‘۔

    کیا ہم سب ٹھیک ہیں؟ 2020ء کا یہ سال ہم سب کے لئے بڑے دکھ اور غم لایا ہے۔ ہم بہت سی کہانیاں سن چکے ہیں۔ ایک عورت عام عورتوں کی طرح اپنے دن کا آغاز کرتی ہے کہ اچانک اسے خبر ملتی ہے کہ اس کی ماں کا کورونا کی وجہ سے انتقال ہو گیا ہے۔ ایک مرد صبح ٹھیک ٹھاک اٹھتا ہے تو کچھ سستی محسوس کرتا ہے اور پھر پتا چلتا ہے کہ اس کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور پھر دوسرے سینکڑوں لوگوں کی طرح ایک دن وہ بھی مر جاتا ہے۔ ایک نوجوان خاتون حسبِ معمول رات کو سونے کیلئے جاتی ہے اور اسے اگلی صبح دیکھنا نصیب نہیں ہوتی کیونکہ پولیس نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا تھا اور وہ یہ خوف اور صدمہ برداشت نہیں کر سکی۔ جارج فلائیڈ ایک سٹور سے باہر نکلتا ہے تو اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ایک پولیس والے کے گھٹنے کے بوجھ کی وجہ سے سانس نہ لے سکے گا اور آخری لمحات میں اپنی ماں کو پکارتے پکارتے موت کے منہ میں چلا جائے گا۔ اس کی موت پر ہونے والے پُرامن احتجاج پُر تشدد ہنگاموں میں بدل جائیں گے۔ صحت تیزی سے بیماری کی صورت اختیارکر لے گی۔ جہاں لوگ مل جل کر رہ رہے تھے‘ اب نفاق اور انتشار کا دور دورہ ہو گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ سچ کیا ہے۔ ہم حقائق پر اپنی رائے کی وجہ سے ہی ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نہیں ہیں بلکہ ہم اس بات پر بھی معذرت خواہ ہیں کہ کیا سچ‘ سچ بھی ہے یا نہیں۔ ہم اس بات پر لڑ رہے ہیں کہ کیا سائنس ایک حقیقت ہے۔ ہم ا س بات پر لڑرہے ہیں کہ الیکشن میں ہمیں کامیابی ملی ہے یا ناکامی۔ اس نفاق اور انتشار کے عالم میں ہمیں کورونا وائرس کی وجہ سے ایک دوسرے سے سماجی دوری بھی اختیار کرنا پڑی تو ہم مزید تنہائی کا شکار ہو گئے۔ جب میں نوجوان تھی تو ایک دن مین ہیٹن کے پُررونق علاقے میں ایک ٹیکسی پر سفر کر رہی تھی۔ میں نے ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے باہر دیکھا کہ ایک عورت فون پر بات کرتے ہوئے زار و قطار رو رہی تھی۔ وہ ایک فٹ پاتھ پرکھڑی تھی اور سرعام فون پر اپنے دکھڑے بیان کر رہی تھی۔ میں اس وقت اس شہر میں نئی نئی آئی تھی۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا ہمیں رک کر اس عورت سے پوچھنا نہیں چاہئے کہ کیا اسے کسی مد د کی ضرورت ہے؟ ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ نیویارک کے شہری اپنے دکھ و تکالیف سرعام بیان کرنے کے عادی ہیں۔ ’’ہم محبت بھی سرعام کرتے ہیں اور اپنے دکھ بھی سڑکوں پرکھڑے ہو کر بیان کرتے ہیں۔ ہماری کہانیاں اور جذبات ہر کوئی سن بھی سکتا ہے اور محسوس بھی کر سکتا ہے۔ آپ پریشان نہ ہوں ابھی کسی کونے سے کوئی شخص نکلے گا اور آ کر اس سے پوچھ لے گا کہ کیا تم ٹھیک ہو؟‘‘۔ اب اپنے بچے کے کھونے کے غم اور کورونا وائرس کی وجہ سے سماجی تنہائی سہتے سہتے مجھے نیویارک کی وہ عورت یاد آ رہی ہے۔ اگر کوئی شخص نہ رکا ہوا تو؟ اگر کسی نے اس کا دکھ اور کرب نہ محسوس کیا تو؟ اگر کسی نے اس کی مدد نہ کی تو؟ کاش میں واپس جا سکتی اور اپنی ٹیکسی کے ڈرائیور سے کہہ سکتی کہ وہ کچھ دیر کیلئے گاڑی روک لے۔ دکھ اور تنہائی کے ان لمحات میں کوئی نہیں جو رک کر یہ پوچھ لے کہ تم ٹھیک تو ہو؟

    اپنے بچے سے محروم ہو جانا ایک ایسا اذیتناک تجربہ ہے جسے کوئی بیان نہیں کرتا۔ اپنے دکھ اور اذیت کی اس گھڑی میں مَیں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہر100 میں سے بیس عورتیں اس اذیت سے گزر چکی ہوں گی، مگر اس پر بات کرنا معیوب اور باعثِ شرمندگی سمجھا جاتا ہے اور یہ غم اکیلے ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کچھ خواتین نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا یہ دکھ دوسروں کے ساتھ شیئر کیا ہے اور اس طرح ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ جب ایک شخص بات کرتا ہے تو پھر دوسروں کیلئے بھی وہی بات کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جب لوگ ہم سے حال چال پوچھتے ہیں اور وہ دل کھول کر ہمارا جواب بھی سنتے ہیں تو ہمارے دکھ کی اذیت کم ہو جاتی ہے۔ جب ہمیں دوسروں کے ساتھ اپنا دکھ شیئر کرنے کا موقع ملتا ہے تو ساتھ ہی ہمارا صحت یابی کا عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔ اس سال ہم ’’تھینکس گیونگ‘‘ ایسے موقع پر منا رہے ہیں جب ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہو چکے ہیں، لوگ تنہائی، بیماری، خوف اور انتشار کا شکار ہیں اور شکر گزار ہونے کیلئے کوئی موقع تلاش کر رہے ہیں تو آئیں! یہ عہدکرتے ہیں کہ ہم سب ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ ’’تم ٹھیک تو ہو؟‘‘

    ہم ایک دوسرے کے ساتھ جتنا اختلافِ رائے رکھیں گے یا جسمانی طور پر ایک دوسرے سے دور رہیں گے‘ سچی با ت یہ ہے کہ ہم اتنا ہی ایک دوسرے کے زیادہ قریب محسوس کریں گے کیونکہ اس سال ہم سب نے اکیلے اور مل کر بہت سے دکھ سہے ہیں۔ ہم خود کو ایک نئے ماحول میں ڈھال رہے ہیں جس میں ہم نے اپنے چہرے ماسک سے ڈھانپ رکھے ہیں مگر ہم ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانک رہے ہوتے ہیں‘ جو کبھی گرم جوشی اور کبھی آنسوئوں سے بھری ہوتی ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ہم بطور انسان واقعی ایک دوسرے سے مل رہے ہیں۔ آپ ٹھیک تو ہیں؟ یقینا ہم سب ٹھیک ہوں گے۔

    (بشکریہ: نیو یارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد حسین رامے)


     

اس صفحے کو مشتہر کریں