1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

'گوشہء خواتین' میں موضوعات آغاز کردہ از تانیہ, ‏6 دسمبر 2012۔

  1. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا بنت جحش
    نام و نسب:۔
    زینب نام، ام الحکیم کنیت، قبیلہ قریشکے خاندان اسد بن خزیمہ سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے، زینب بنت جحش بن رباب بن یعمر بن صبرة بن مرة بن کثیر بن غنم بن دودان بن سعد بن خزیمہ، والدہ کا نام امیمہ تھا جو عبدالمطلب جد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر تھیں، اسی بنا پر حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پھوپھی زاد بہن تھیں۔
    اسلام:۔
    نبوت کے ابتدائی دور میں اسلام لائیں، اسد الغالبہ میں ہے۔
    "شروع دور اسلام میں اسلام قبول کیا تھا"[اسدالغابہ ج5ص463]
    نکاح:۔
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ تعالی عنہ بن حارثہ کے ساتھ و آپکے آزاد کردہ غلام اور متبنی تھے انکا نکاح کر دیا، اسلام نے مساوات کی جو تعلیم رائج کی ہے اور پست و بلند کو جسطرح ایک جگہ لاکھڑا کر دیا ہے، اگرچہ تاریخ میں اسکی ہزاروں مثالیں موجود ہیں، لیکن یہ واقعہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت رکھتا ہے کیونکہ اسی سے عملی تعلیم کی بنیاد قائم ہوتی ہے، قریش اور خصوصا خاندان ہاشم کو تولیت کعبہ کی وجہ سے عرب میں جو درجہ حاصل تھا، اسکے لحاظ سے شاہان یمن بھی انکی ہمسری کا دعوی نہیں کر سکتے تھے لیکن اسلام نے محض"تقوی" کو بزرگی کا معیار قرار دیا اور فخروادعاء کو جاہلیت کا شعار ٹھہرایا ہے، اس بنا پر اگرچہ حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ بظاہر غلام تھے تاہم وہ چونکہ (مسلمان اور مرد صالح تھے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انکے ساتھ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کا عقد کر دینے میں کوئی تکلف نہیں ہوا) تعلیم مساوات کے علاوہ اس نکاح کا ایک اور مقصد بھی تھا جو اسدالغابہ میں مذکور ہے اور وہ یہ ہے۔
    "یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکا نکاح زید رضی اللہ تعالی عنہ سے اسلیے کیا تھا کہ انکو قرآن و حدیث کی تعلیم دیں۔"[اسد الغابہ ج5ص463]
    تقریباً ایک سال تک دونوں کا ساتھ رہا، لیکن پھر تعلقات قائم نہ رہ سکے اور شکر رنج پڑھ گئی، حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ نے بارگاہ نبوت میں شکایت کی[صحیح ترمذی ص531] اور طلاق دے دینا چاہا۔
    "زید(رضی اللہ تعالی عنہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ زینب(رضی اللہ تعالی عنہا) مجھ سے زبان درازی کرتی ہیں اور میں انکو طلاق دینا چاہتا ہوں۔"[فتح الباری ج8ص403 تفسیر سورة احزاب]
    لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بار بار انکو سمجھاتے تھے کہ طلاق نہ دیں، قرآن مجید میں ہے"اور جبکہ تم اس شخص سے جس پر خدا نے اور تم نے احسان کیا تھا، یہ کہتے تھے کہاپنی بیوی کو نکاح میں لیے رہو اور خدا سے خوف کرو۔"
    لیکن یہ کسی طرح صحبت برآ نہ ہو سکے، اور حضرت زیدرضی اللہ تعالی عنہ نے انکو طلاق دے دی حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہن تھیں۔ اور آپ ہی کی تربیت میں پلی تھیں، آپکے فرمانے سے انہوں نے یہ رشتہ منظور کر لیا تھا۔ جو انکے نزدیک انکے خلافِ شان تھا(چونکہ زید رضی اللہ تعالی عنہ غلام رہ چکے تھے، اس لیے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو یہ نسبت گوارہ نہ تھی) بہرحال وہ مطلقہ ہو گئیں تو آپ نے انکی دلجوئی کے لیے خود ان سے نکاح کر لینا چاہا، لیکن عرب میں اس وقت تک متبنی اصلی بیٹے کے برابر سمجھا جاتا تھا، اس لیئے عام لوگوں کے خیال سے اپ تامل فرماتے تھے، لیکن چونکہ محض یہ جاہلیت کی رسم تھی اور اسکو مٹانا مقصود تھا، اس لیے یہ آیت نازل ہوئی۔
    "اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپاتے ہو جسکو خدا ظاہر کر دینے والا ہے، اور تم لوگوں سے ڈرتے ہو حالانکہ ڈرنا خدا سے چاہیے،"
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کہ تم زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس میرا پیغام لیکر جاؤ، زید رضی اللہ تعالی عنہ انکے گھر آئے تو وہ آٹا گوندھنے میں مصروف تھیں، چاہا انکی طرف دیکھیں لیکن پھر کچھ سوچ کر منہ پھیر لیا اور کہا"زینب(رضی اللہ تعالی عنہا) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لایا ہوں"جواب ملا"میں بغیر استخارہ کیے کوئی رائے قائم نہیں کرتی"یہ کہا اور مصلیٰ پر کھڑی ہو گئیں، ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی۔ فلمازید منھا وطرازوجناکھا، اور نکاح ہو گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان پر تشریف لائے اور بلا استیذان اندر چلے گئے۔
    دن چڑھے ولیمہ ہوا جو اسلام کی سادگی کی اصل تصویر تھا اس میں روٹی اور سالن کا انتظام تھا۔ انصار میں حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ اور حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ تھیں، مالیدہ بھیجا تھا۔ غرض سب چیزیں جمع ہو گئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کو لوگوں کے بلانے کے لیے بھیجا۔ 300 آدمی شریک ہوئے۔ کھانے کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دس دس آدمیوں کی ٹالیاں کر دیں تھیں، باری باری آتے اور کھانا کھا کر واپس جاتے تھے۔
    اسی دعوت میں آیت حجاب اتری، جسکی وجہ یہ تھی کہ چند آدمی مدعو تھے، کھا کر باتیں کرنے لگے اور اس قدر دیر لگائی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرط مروت سے خاموش تھے، باربار اندر جاتے اور باہر آتے تھے، اسی مکان میں حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا بھی بیٹھی ہوئی تھیں، اور انکا منہ دیوار کی طرف تھا۔
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدورفت کو دیکھ کر بعضوں کو خیال ہوا اور اٹھ کر چلےگئے۔
    حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دوسری ازواج کے مکان میں تھے، اطلاع دی، آپ باہر تشریف لائے تو وحی کی زبان اسطرح گویا ہوئی۔
    "اے ایمان والو! نبی کے گھروں پر مت جایا کرو، مگر جس وقت تمکو کھانے کے لے اجازت دی جائے، ایسے طور پر کہ تم اسکی تیاری کے منتظر نہ رہو لیکن جب تمکو بلایا جائے تب جایا کرو، پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو۔ اور باتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو اس بات سے نبی کو ناگواری پیدا ہوتی ہے، سو وہ تمھارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ تعالےٰ صاف بات کہنے سے لحاظ نہیں کرتا ہے اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردہ سے باہر مانگو۔"
    آپ نے دروازہ پر پردہ لٹکا دیا، اور لوگوں کو گھر کے اندر جانے کی ممانعت ہو گئی یہ ذوالعقدہ سن پانچ ہجری کا واقعہ ہے۔
    حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح کی چند خصوصیتیں ہیں جو کہیں اور نہیں پائی جاتیں، انکے نکاح سے جاہلیت کی ایک اور رسم کہ متبنی اصلی بیٹے کا حکم رکھتا ہے، مٹ گئی، مساوات اسلامی کا وہ عظیم الشان منظر سامنے آیا کہ آزاد کردہ غلام کی تمیز اٹھ گئی، پردہ کا حکم ہوا۔ نکاح کے لیے وحی الہی آئی۔ ولیمہ میں تکلف ہوا، اسی بنا پر حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہ اور ازواج کے مقابلہ میں فخر کیا کرتی تھیں۔[ترمذی ص561، اسد الغابہ ج5ص464]
    ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن میں جو بیبیاں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ہمسری کا دعوی رکھتی تھیں، ان میں حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا خصوصیت کے ساتھ ممتاز تھیں، خود حجرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں۔
    "ازواج میں سے وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں عزت و مرتبہ میں میرا مقابلہ کرتی تھیں،"[صحیح مسلم باب فضل عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا]
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی انکی خاطرداری منظور رہتی تھی، یہی وجہ تھی کہ جب چند ازواج نے حجرت فاطمہ زہرارضی اللہ تعالی عنہا کو سفیر بنا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، اور وہ ناکام واپس آئیں، تو سب نے اس خدمت(سفارت) کے لیے حجرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کا انتخاب کیا کیونکہ وہ اس خدمت کے لیے زیادہ موزوں تھیں، انہوں نے بڑی دیدہ دلیری سے پیغام ادا کیا، اور بڑے زور کے ساتھ یہ ثابت کرنا چاہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اس رتبہ کی مستحق نہیں ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا چپ ہو کر سن رہی تھیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کی طرف دیکھتی جاتی تھیں، حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا جب تقریر کر چکیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا مرضی پا کر کھڑی ہوئیں اور اس زور شور کے ساتھ تقریر کی کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا لاجواب ہو کر رہ گئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "کیوں نہ ہو ابوبکر(رضی اللہ تعالی عنہ) کی بیٹی ہے"[صحیح مسلم فضل عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا]
    وفات:۔
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن سے فرمایا تھا۔
    "تم میں مجھ سے جلد وہ ملیں گی جسکا ہاتھ لمبا ہوگا۔"
    یہ استعارةً فیاضی کی طرف اشارہ تھا، لیکن ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن اسکو حقیقت سمجھیں چنانچہ باہم اپنے ہاتھوں کو ناپا کرتی تھیں۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا اپنی فیاضی کی بنا پر اس پیشن گوئی کا مصداق ثابت ہوئیں، ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن میں سب سے پہلے انتقال کیا،کفن کا سامان خود تیار کر لیا تھا۔ اور وصیت کی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی کفن دیں تو ان میں سے ایک کو صدقہ کر دینا، چنانچہ یہ وصیت پوری کی گئی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی، اسکے بعد ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن سے سے دریافت کیا کہ کون قبر میں داخل ہو گا، انہوں نے کہا وہ شخص جو انکے گھر میں داخل ہوا کرتا تھا، چنانچہ اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ، محمد بن عبداللہ بن جحش، عبداللہ بن ابی احمد بن جحش نے انکو قبر میں اتارا اور بقیع میں سپردخاک کیا،[صحیح بخاری ج1ص191، مسلم ص341ج2، اسد الغابہ ص465ج5]
    حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے سن بیس ہجری میں انتقال کیا اور 53 برس کی عمر پائی، واقدی نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جس وقت نکاح ہوا اس وقت 35 سال کی تھیں لیکن یہ عام روایت کے خلاف ہے، عام روایت کے مطابق انکا سن 38 سال کا تھا۔
    حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے مال متروکہ میں صرف ایک مکان یادگار چھوڑا تھا، جسکو ولید بن عبدالمالک نے اپنے زمانۂ حکومت میں پچاس ہزار درہم پر خرید کیا اور مسجد نبوی میں شامل کر دیا گیا،[طبری ص2449ج13]
    حلیہ:۔
    حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کوتاہ قامت لیکن خوبصورت اور موزوں اندام تھیں۔[زرقانی ص283]
    فضل و کمال:۔
    روائتیں کم کرتی تھیں، کتب حدیث میں ان سے صرف گیارہ روائتیں منقول ہیں، راویوں میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا، زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ، محمد بن عبداللہ بن حجش(برادرزادہ) کلثوم بنت طلق اور مذکور(غلام) داخل ہیں۔
    اخلاق:۔
    حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں۔
    "یعنی حضرت زینب( رضی اللہ تعالی عنہا) نیک خو، روزہ دار و نماز گزار تھیں۔"[زرقانی بحوالہ ابن سعد]
    حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں۔
    "میں نے کوئی عورت زینب( رضی اللہ تعالی عنہا) سے زیادہ دیندار، زیادہ پرہیزگار، زیادہ راست گفتار، زیادہ فیاض، مخیر اور خدا کی رضا جوئی میں زیادہ سرگرم نہیں دیکھی فقط مزاج میں ذرا تیزی تھی جس پر انکو بہت جلد ندامت بھی ہوتی تھی۔"[مسلم ج2ص335(فضل عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا)]
    حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کا زہدوتورع میں یہ حال تھا۔ کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر اتہام لگایا گیا اور اس اتہام میں خود حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی بہن حمنہ شریک تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اخلاقی حالت دریافت کی تو انہوں نے صاف لفظوں میں کہدیا۔
    "مجھکو عائشہ( رضی اللہ تعالی عنہا) کی بھلائی کے سوا کسی چیز کا علم نہیں۔"
    حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو انکے اس صدق و قرار حق کا اعتراف کرنا پڑا۔
    عبادت میں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ مصروف رہتی تھیں، ایک مرتبہ آپ مہاجرین پر کچھ مال تقسیم کر رہے تھے، حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا اس معاملہ میں کچھ بول پڑیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ڈانٹا، آپ نے فرمایا ان سے درگزر کرو یہ اَواہ ہیں[اصابہ ج8ص93](یعنی خاشع و متضرع ہیں۔)
    نہایت قانع و فیاض طبع تھیں، خود اپنے دست و بازو سے معاش پیدا کرتی تھیں اور اسکو خدا کی راہ میں لٹا دیتی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ جب حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کا انتقال ہوا، تو مدینہ کے فقراء کو مساکین میں سخت کھلبلی پیدا ہو گئی اور وہ گھبرا گئے[اصابہ113ج8بحوالہ ابن سعد] ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے انکا سالانہ نفقہ بھیجا، انہوں نے اس پر ایک کپڑا ڈال دیا اور بزرہ بنت رافع کو حکم دیا کہ میرے خاندانی رشتہ داروں اور یتیموں کو تقسیم کدو۔ بزرہ نے کہا آخر ہمارا بھی کچھ حق ہے؟ انہوں نے کہا کپڑے کے نیچے جو کچھ ہو وہ تمھارا ہے، دیکھا تو پچاسی درہم نکلے جب تمام مال تقسیم ہو چکا تو دعا کی کہ خدایا اسی سال کے بعد عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے عطیہ کے فائدہ نہ اٹھاؤ، دعا قبول ہوئی اور اسی سال انتقال ہو گیا۔[ابن سعد ج8ص78]
     
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    جزاک اللہ
    --------------
     
  3. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا
    نام و نسب:۔
    جویریہ نام، قبیلہ خزاعہ کے خاندان مصطلق سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے، جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت حارث ابی ضرار بن حبیب بن عائد بن مالک بن جذیمہ(مصطلق) بن سعد بن عمرو بن ربیعہ بن حارثہ بن عمرومزیقیاء۔
    حارث بن ابی ضرار حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا کے والد بنو مصطلق کے سردار تھے۔[طبقات ج2 ق1ص45]
    نکاح:۔
    حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا کا پہلا نکاح اپنے ہی قبیلہ میں مسافع بن صفوان(ذی شفر) سے ہوا تھا۔
    غزوہ مریسیع اور نکاح ثانی:۔
    حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا کا باپ اور شوہر مسافع دونوں دشمن اسلام تھے چنانچہ حارث نے قریش کو اشارے سے یا خود سے مدینے پر حملہ کی تیاریاں شروع کی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تو مزید تحقیقات کے لیے بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ بن حصیب اسلمی کو روانہ کیا، انہوں نے واپس آ کر خبر کی تصدیق کی اپ نے صحابہ کو تیاری کا حکم دیا، 2 شعبان سن پانچ ہجری کو فوجیں مدینہ سے روانہ ہوئین اور مریسیع میں جو مدینہ منورہ سے نو منزل ہے پہنچ کر قیام کیا، لیکن حارث کو یہ خبریں پہلے سے پہنچ چکی تھیں، اس لیے اسکی جمیعت منتشر ہو گئی اور وہ خود بھی کسی طرف نکل گیا، لیکن مریسیع میں جو لوگ آباد تھے، انہوں نے صف آرائی کی اور دیر تک جم کر تیر برساتے رہے مسلمانوں نے دفعتہً ایک ساتھ حملہ کیا تو انکے پاؤں اکھڑ گئے، 11 آدمی مارے گئے اور باقی گرفتار ہو گئے، جنکی تعداد تقریباً 600 تھی، مال غنیمت میں دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں ہاتھ آئیں۔
    لڑائی میں جو لوگ گرفتار ہوئے۔ ان میں حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی تھیں، ابن اسحاق کی روایت ہے جو بعض حدیث کی کتابوں میں بھی ہے کہ تمام اسیران جنگ لونڈی و غلام بنا کر تقسیم کر دیئے گئے۔ حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہ ثابت بن قیس کے حصہ میں آئیں۔ انہوں نے ثابت سے درخواست کی کہ مکاتبت کر لو یعنی مجھ سے کچھ روپیہ لیکر چھوڑ دو، ثابت نے 9اوقیہ سونے پر منظور کیا حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس روپیہ نہ تھا، چاہاکہ لوگوں سے روپیہ مانگ کر یہ رقم ادا کریں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی آئیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی وہاں موجود تھیں۔
    ابن اسحٰق نےحضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی زبانی روایت کی ہے جو یقینا انکی ذاتی رائے ہے کہ چونکہ جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا نہایت شیریں ادا تھیں، میں نے انکو آنحضرت صلی اللہ علہ وسلم کے پاس جاتے دیکھا تو سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی انکے حسن و جمال کا وہی اثر ہو گا جو مجھ پر ہوا۔ غرض وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمکو اس سے بہتر چیز کی خواہش نہیں؟ انہوں نے کہا وہ کیا چیز ہے؟آپ نے فرمایا کہ" تمھار ی طرف سے میں روپیہ ادا کر دیتا ہوں اور تم سے نکاح کر لیتا ہوں" حضرت جویریہ راضی ہو گئیں آپ نے تنہا وہ رقم ادا کر دی، اور ان سے شادی کر لی۔
    لیکن دوسری روایت میں اس سے زیادہ واضح بیان مذکور ہے۔
    اصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا کا باپ(حارث) رئیس عرب تھا۔ حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا جب گرفتار ہوئیں، تو حارث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ میری بیٹی کنیز نہیں بن سکتی، میری شان اس سے بالا تر ہے میں انے قبیلے کا سردار اور رئیس عرب ہوں آپ اسکو آزاد کر دیں، آپ نے فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے، حارث نے جا کر جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے تیری مرضی پر رکھا ہے دیکھنا مجھکو رسوا نہ کرنا، انہوں نے کہا"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنا پسند کرتی ہوں۔" چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کر لی۔
    ابن سعد نے طبقات میں یہ روایت کی ہے کہ حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا کے والد نے انکا زرفدیہ کیا اور جب وہ آزاد ہو گئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔
    حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہ سے جب نکاح کیا تو تمام اسیران جنگ جو اہل فوج کے حصہ میں آ گئے تھے، دفعتہً رہا کر دیئے گئے، فوج نے کہا کہ جس خاندان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کر لی وہ غلام نہیں ہو سکتا،[ابوداؤد کتاب العتاق ج2ص105طبقاتج2ق1ص46صحیح مسلم ص61]
    حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کسی عورت کو جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بڑھکر اپنی قوم کے حق میں مبارک نہیں دیکھا، انکے سبب سے بنو مصطلق کے سینکڑوں گھرانے آزاد کر گیئے گئے،[اسد الغابہ ج5ص420]حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نام برہ تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا رکھا کیونکہ اس میں بدفالی تھی۔[صحیح مسلم ج2ص231]
    وفات:۔
    حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ربیع الاول سن 50 ہجری میں وفات پائی، اس وقت انکا سن 65 برس کا تھا، مروان نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں،
    حلیہ:۔
    حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا خوبصورت اور موزوں اندام تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں۔
    کانت امرٔة حلوة ملاحة لا یراھااحدالااخذت نبفسہ۔[اسد الغابہ ج5ص420]
    فضل و کمال:۔
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند حدیثیں روایت کیں، ان سے حسب ذیل بزرگوں نے حدیث سنی ہے، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ، جابر رضی اللہ تعالی عنہ، ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ، عبید بن السباق، طفیل، ابو ایوب مراغی، کلثوم، ابن مصطلق، عبداللہ بن شدادبن الہاد، کریب۔
    اخلاق:۔
    حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا زاہدانہ زندگی بسر کرتی تھیں، ایکدن صبح کو مسجد میں دعا کر رہیں تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گزرے اور دیکھتے ہوئے چلے گئے، دوپہر کے قریب آئے تب بھی انکو اسی حالت میں پایا۔[صحیح ترمذی ص590]
    جمعہ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انکے گھر تشریف لائے تو روزہ سے تھیں، حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ کل روزہ سے تھیں؟بولیں، "نہیں"فرمایا"تو کل رکھو گی؟" جواب ملا"نہیں" ارشاد ہوا"تو پھر تمکو افطار کر لینا چاہیے۔"[صحیح بخاری ج1ص267]
    دوسری روائتوں میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینہ میں تین دن روزہ رکھتے تھے ان تین دنوں میں ایک دن جمعہ کا ضرور ہوتا تھا۔ اس لیے تنہا جمعہ کے دن ایک روزہ رکھنے میں علماء کا اختلاف ہے، آئمہ حنفیہ کے نزدیک جائز ہے، امام مالک سے بھی جواز کی روایت ہے۔ بعض شافعیہ نے اس سے روکا ہے، تفصیل کے لیے ملاحضہ ہو فتح الباری جلد 4صفحہ 204۔
    امام ابو یوسف کے نزدیک احتیاط اس میں ہے کہ جمعہ کے روزہ کے ساتھ ایک روزہ اور ملا لیا جایا کرے(بذل المجہور جلد صفحہ 169) یہ بحث صرف جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے متعلق ہے اور دنوں سے اسکا تعلق نہیں ہے۔
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے محبت تھی۔ اور انکے گھر آتے جاتے تھے ایک مرتبہ آکر پوچھا کہ "کچھ کھانے کو ہے؟"جواب ملا۔"میری کنیز نے صدقہ کا گوشت دیا تھا وہی رکھا ہے اور اسکے سوا اور کچھ نہیں" فرمایا"اسے اٹھا لاؤ، کیونکہ صدقہ جسکو دیا گیا تھا اسکو پہنچ چکا"[صحیح مسلم ج1ص400]
     
  4. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    جزاک اللہ
    --------------
     
  5. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    قرین قیاس یہ ہے کہ درج ذیل درست ہے:


    اصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا کا باپ(حارث) رئیس عرب تھا۔ حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا جب گرفتار ہوئیں، تو حارث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ میری بیٹی کنیز نہیں بن سکتی، میری شان اس سے بالا تر ہے میں انے قبیلے کا سردار اور رئیس عرب ہوں آپ اسکو آزاد کر دیں، آپ نے فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے، حارث نے جا کر جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے تیری مرضی پر رکھا ہے دیکھنا مجھکو رسوا نہ کرنا، انہوں نے کہا"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنا پسند کرتی ہوں۔" چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کر لی۔

    ابن سعد نے طبقات میں یہ روایت کی ہے کہ حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا کے والد نے انکا زرفدیہ کیا اور جب وہ آزاد ہو گئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔

    اس کے علاوہ حضور :saw: دنیا سے ظلم کے خاتمے کیلئے مبعوث کئے گئے تھے اور آپ غلاموں کو آذاد کروانے والے تھے اس لئے اسیروں کو رہا کرنے کیلئے مناسب طریقہ تلاش کیا جاتا تھا جیسے جنگ بدر کے اسیروں کو کہا گیا کہ مسلمانوں کو تعلیم دے دیں تو انھیں آذاد کردیا جائے گا۔ وغیرہ۔۔۔۔۔

    واللہ عالم بالثواب۔۔۔۔۔۔۔


     
  6. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    جزاک اللہ
    --------------
     
  7. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    ماشاء اللہ۔۔۔جزاک اللہ تانیہ جی
    آپ مبارکباد کی مستحق ہیں کہ اتنی پیاری اور ایمان افروز معلومات ہم سے بانٹنے کا۔۔۔
    اللہ پاک آپ پر اپنا خصوصی رحم و کرم فرمائے۔۔۔
     
  8. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    حضرت اُمِ حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا

    نام و نسب:۔
    رملہ نام، ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے، رملہ بنت ابی سفیان صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس، والدہ کا نام صفیہ بنت ابو العاص تھا، جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی حقیقی پھوپھی تھیں،
    حضرت ام حبیبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے 17 سال پہلے پیدا ہوئیں۔[اصابہ ج8ص84]
    نکاح:۔
    عبید اللہ بن جحش سے کہ حرب امیہ کے حلیف تھے، نکاح ہوا۔[(ایضاً) زرقانی ج3ص276بحوالہ ابن سعد]
    اسلام:۔
    اور ان ہی کے ساتھ مسلمان ہوئیں، اور حبش کو ہجرت کی، حبش میں جا کر عبید اللہ نے عیسائی مذہب اختیار کیا، ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بھی کہا لیکن وہ اسلام پر قائم رہیں، اب وہ وقت آ گیا کہ انکو اسلام اور ہجرت کی فضیلت کے ساتھ ام المومنین بننے کا شرف حاصل ہو۔ عبید اللہ نے عیسائی ہو کر بالکل آزادانہ زندگی بسر کرنا شروع کر دی، مے نوشی کی عادت ہو گئی، آخر انکا انتقال ہو گیا،
    نکاح ثانی:۔
    عدت کے دن ختم ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمروبن امیہ ضمیری کو نجاشی کی خدمت میں بغرض نکاح بھیجا، جب وہ نجاشی کے پاس پہنچے تو اس نے ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنی لونڈی ابرہہ کے ذریعہ پیغام دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھکو تمھارے نکاح کے لیے لکھا ہے، انہوں نے خالد بن سعید اموی کو وکیل مقرر کیا اور اس مژدہ کے صلہ میں ابرہہ کو چاندی کے دو کنگن اور انگوٹھیاں دیں، جب شام ہوئی تو نجاشی نے جعفر رضی اللہ تعالی عنہ بن ابی طالب اور وہاں کے مسلمانوں کو جمع کرکے خود نکاح پڑھایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چار سو دینار مہر ادا کیا، نکاح کے بعد حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا جہاز میں بیٹھکر روانہ ہوئیں اور مدینہ کی بندرگاہ میں اتریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خیبر میں تشریف رکھتے تھے۔ یہ سن 6 ہجری کا واقعہ ہے[مسندج6ص427وتاریخ طبری واقعات سن 6 ہجری] اس وقت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر 36 یا 37 سال کی تھی،
    حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح کے متعلق کئی رووائتیں ہیں، ہم نے جو روایت لی ہے وہ مسند کی ہے اور مشہور روائتوں کے مطابق کی ہے، البتہ مہر کی تعداد میں کچھ غلطی معلوم ہوتی ہے، عام روایت یہ ہے اور مسند میں بھی ہے کہ ازواج مطہرات اور صاحبزادیوں کا مہر چار چار سو درہم تھا، اسی بنا پر چار سو دینا راوی کا سہو ہے، اس موقع پر ہمکو صحیح مسلم کی ایک روایت کی تنقید کرنا ہے،
    صحیح مسلم میں ہے کہ لوگ ابو سفیان کو نظر اٹھا کر دیکھنا اور انکے پاس بیٹھنا ناپسند کرتے تھے اس بنا پر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین چیزوں کی درخواست کی جن میں ایک یہ بھی تھی کہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا سے شادی کر لیجیئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی درخواست منظور فرمائی۔[صحیح مسلم ج2ص361] اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو سفیان کے مسلمان ہونے کے وقت حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا ازواج مطہرات میں داخل نہیں ہوئی تھیں لیکن یہ راوی کا وہم ہے چنانچہ ابن سعد، ابن حزم، ابن جوزی۔ ابن اثیر، بیہقی اور عبدالعظیم منذری نے اسکے خلاف روائتیں کی ہیں، اور ابن سعد کے سوا سب نے اس روایت کی تردید کی ہے۔
    وفات:۔
    حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنے بھائی امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت میں سن 44 ہجری میں انتقال کیا اور مدینہ میں دفن ہوئیں، اس وقت 73 برس کا سن تھا۔ قبر کے متعلق اس قدر معلوم ہے کہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان میں تھی، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بن حسین سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ میں نے مکان کا ایک گوشہ کھدوایا تو ایک کتبہ برآمد ہوا کہ"یہ رملہ بنت صخر کی قبر ہے"چنانچہ اسکو میں نے اسی جگہ رکھ دیا،[استیعاب جلد2ص750]
    وفات کے قریب حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حجرت عائشہ و حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما کو اپنے پاس بلایا اور کہاکہ سوکنوں میں باہم جو کچھ ہوتا ہے وہ ہم لوگوں میں بھی کبھی ہو جایا کرتا تھا، اس لیے مجھکو معاف کر دو، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے معاف کر دیا اور انکے لیے دعائے مغفرت کی تو بولیں تم نے مجھکو خوش کیا خدا تمکو خوش کرے،[اصابہ ج8ص85بحوالہ ابن سعد(ابن سعد جزءنساءص71)]
    اولاد:۔
    پہلے شوہر سے دو لڑکے پیدا ہوئے، عبداللہ اور حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہ، حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آغوش نبوت میں تربیت پائی ، اور داؤد بن عروہ بن مسعود کو منسوب ہوئیں، جو قبیلہ ثقیف کے رئیس اعظم تھے۔
    حلیہ:۔
    خوبصورت تھیں، صحیح مسلم میں خود ابوسفیان کی زبانی منقول ہے۔[صحیح مسلم جلد2ص361]
    "میرے ہاں عرب کی حسین تر اور جمیل تر عورت موجود ہے۔"
    فضل وکمال:۔
    حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا سے حدیث کی کتابوں میں 65 روائتیں منقول ہیں، راویوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے، بعض کے نام یہ ہیں، حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا(دختر) معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور عتبہ رضی اللہ تعالی عنہ پسران ابو سفیان عبداللہ بن عتبہ، ابو سفیان بن سعید ثقفی(خواہرزادہ) سالم بن سوار(مولی) ابو الجراح، صفیہ بنت شیبہ، زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ، عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ، ابو صالح السمان، شہر بن حوشب۔
    اخلاق:۔
    حجرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کے جوش ایمان کا یہ منظر قابل دید ہے کہ فتح مکہ سے قبل جب انکے باپ ابو سفیان کفر کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچھونے پر بیٹھنا چاہتے تھے، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا نے یہ دیکھ کر بچھونا الٹ دیا، ابوسفیان سخت برہم ہوئے کہ بچھونا اس قدر عزیز ہے۔ بولیں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرش ہے۔ اور آپ مشرک ہیں اور اس بناء پر ناپاک ہیں،
    ابوسفیان نے کہا کہ تو میرے پیچھے بہت بگڑ گئی،[اصابہ ج8ص85بحوالہ ابن سعد]
    حدیث پر بہت شدت سے عمل کرتی تھیں۔ اور دوسروں کو بھی تاکید کرتی تھیں۔ انکے بھانجے ابوسفیان بن سعید بن المغیرہ آئے اور انہوں نے ستو کھا کر کلی کی تو بولیں تمکو وضوکرنا چاہیے کیونکہ جس چیز کو آگ پکائے اس کے استعمال سے وضو لازم آتا ہے۔[مسندج2ص326] یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔
    (یہ حکم منسوخ ہے، یعنی پہلے تھا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو باقی نہیں رکھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام آگ پر پکی ہوئی چیزیں کھاتے تھے اور اگر پہلے سے وضو ہوتا تو دوبارہ وضو نہیں کرتے تھے۔ بلکہ پہلے ہی وضو سے نماز پڑھ لیا کرتے تھے اس قسم کی ایک حدیث حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حالات میں آئندہ ملے گی۔)
    ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہوا۔ تو خوشبو لگا کر رخساروں پر ملی اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تین دن سے زیادہ غم نہ کیا جائے، البتہ شوہر کے لیے 4 مہینہ 10 دن سوگ کرنا چاہیے۔[صحیح بخاری ج2ص803]
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ سنا تھا کہ جو شخص بارہ رکعت روزانہ نفل پڑھے گا، اسکے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا، فرماتی ہیں فما برحت اصلیھن بعد! میں انکو ہمیشہ پڑھتی ہوں، اسکا یہ اثر ہوا کہ انکے شاگرد اور بھائی عتبہ اور عتبہ کے شاگرد عمروبن اویس اور عمر کے شاگرد نعمان بن سالم سب اپنے اپنے زمانہ میں برابر یہ نمازیں پڑھتے رہے۔[مسندج6ص327]
    فطرةً نیک مزاج تھیں، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میری بہن سے آپ نکاح کر لیجیئے فرمایا"کیا تمہیں یہ پسند ہے۔" بولیں"ہاں میں ہی آپ کی تنہا بیوی نہیں ہوں، اس لیے میں یہ پسند کرتی ہوں کہ آپ کے نکاح کی سعادت میں میرے ساتھ میری بہن بھی شریک ہو۔"[صحیح بخاری ج2ص764](وامھاتکم اللاتی ارضعنکم و یحرم من الرضاعة مایحرم من النسب)
     
  9. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    تانیہ جی اگر مناسب سمجھیں تو ترتیب کا نمبر بھی لکھ دیں۔
     
  10. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    جزاک اللہ آپکی توجہ و دلچسپی کے لیے غوری جی ۔۔۔۔۔میں جس طرح‌سے یہاں‌شیئر کر رہی صحابیہ کرام کے بارے یہی ترتیب کتاب میں‌بھی ہے اور اس میں امہات المومنین انکے بعد بنات طاہرات اور پھر اکابر صحابیات ہیں کل پنتالیس صحابیہ کرام ہیں جنکے بارے شیئرنگ ہو گی باقی ہر صحابیہ کے نام کے ساتھ آپ نمبرنگ چاہیں‌ترتیب میں تو ابھی ام المومنین حضرت اُمِ حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے میں لکھا اور یہ نویں نمبر پہ ہیں باقی ترتیب آپ خود کر سکتے ہیں جیسے ترتیب میں یہاں‌شیئرنگ ہو رہی ۔۔۔۔شکریہ
     
  11. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    تانیہ جی
    اسلام علیکم
    بہت بہت شکریہ۔
    آج آپ نے بہت اچھی خبر دی۔
    یہ لڑی تو پھر بہت متبرک ہوجائے گی۔
    میرا کہنے کا مطلب تھا کہ آپ امہات مومنین کے نام کے ساتھ نمبر لکھ دیتں تو کیسا تھا۔
    یہ بہت ضروری بھی نہیں بس ایک خیال آیا۔
    بقیہ کا انتظار رہے گا۔۔۔۔۔
    والسلام علیکم
    غوری
     
  12. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    جزاک اللہ
    ---------------
     
  13. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا
    نام و نسب:۔
    میمونہ نام، قبیلہ قریش سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے، میمونہ بنت حارث بن حزن ابن بحرین ہزم بن روبتہ بن عبداللہ بن ہلال بن عامر بن صعصہ بن معاویہ بن بکر بن ہوازن بن عکرمتہ بن خصیفتہ بن قیس بن عیلان بن مضر، والدہ قبیلہ حمیر سے تھیں اور انکا نام و نسب حسبِ ذیل ہے،
    ہند بنت عوف بن زہیر بن حارث بن حماطتہ بن جرش۔
    نکاح:۔
    پہلے مسعود بن عمرو ب، عمیر ثقفی سے نکاح ہوا،[زرقانی ص288ج3] لیکن کسی وجہ سے علہدگی اختیار کرنا پڑی، پھر ابورہم بن ربدالعزی کے نکاح میں آئیں، ابورہم نے سن 7 ہجری میں وفات پائی تو لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انتساب کی کوشش کی،
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذوالعقدہ سن 7 ہجری میں عمرہ کی نیت سے مکہ روانہ ہوئے تھے اسی احرام کی حالت میں حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح ہوا،[بخاری ص611ج2] حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہا نکاح کے متولی ہوئے تھے،[نسائی ص513] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ سے فارغ ہو کر جب مدینہ واپس ہوئے تو سرف میں جو مدینہ کے راستہ پر مکہ سے دس میل ہے۔[تہذیب 453ج12] قیام فرمایا، ابورافع(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام) حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کو لیکر سرف پہنچے اور یہیں رسم عروسی ادا ہوئی،[ابن سعد ص89ج2ق1] یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نکاح تھا،[ذیل المذیل طبری ج13ص2453] اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا سب سے آخری بیوی تھیں۔
    وفات:۔
    یہ عجیب اتفاق ہے کہ مقام سرف میں انکا نکاح ہوا تھا اور سرف ہی میں انہوں نے انتقال بھی کیا۔[صحیح بخاری ج2ص611، مسند ابن حنبل ج6ص333] حضرت ابن عباس نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور قبر میں اتارا، صحاح میں ہے کہ جب انکا جنازہ اٹھایا گیا تو حضرت ابن عباس نے کہا"یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں جنازہ کو زیادہ حرکت نہ دو۔ باادب آہستہ لے چلو۔"[صحیح بخاری ج2ص758] سال وفات کے متعلق اگرچہ اختلاف ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ انہوں نے سن اکاون ہجری میں وفات پائی۔
    فضل و کمال:۔
    حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا سے 46 حدیثیں مروی ہیں، جن میں بعض سے انکی فقہ دانی کا پتہ چلتا ہے۔
    ایک ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ پراگندہ ہوئے تو کہا بیٹا! اسکا کیا سبب ہے،؟ جوابدیا ام عمار میرے کنگھا کرتی تھیں (اور آجکل انکے ایام کا زمانہ ہے) بولیں کیا خوب! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہماری گود میں سر رکھ کر لیٹتے تھے۔ اور قرآن پڑھتے تھے، اور ہم اسی حالت میں ہوتے تھے، اسی طرح ہم چٹائی اٹھا کر مسجد میں رکھ آتے تھے، بیٹا! کہیں یہ ہاتھ میں بھی ہوتا ہے۔
    حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا سے جن بزرگوں نے روایت کی ہے انکے نام یہ ہیں۔
    حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بن شداد بن الہاد، عبدالرحمن بن السائب، یزید بن اصم(یہ سب انکے بھانجے تھے) ابراہیم بن عبداللہ بن معبد بن عباس، کریب(ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے غلام) عبیدہ بن ساق، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، عالیہ بنت سبیع،
    اخلاق:۔
    حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں۔[اصابہ ج8ص192بحوالہ ابن سعد]
    "میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا خدا سے بہت ڈرتی اور صلہ رحمی کرتی تھیں۔"
    احکام نبوی کی تعمیل میں ہر وقت پیش نظر رہتی تھیں، ایک دفعہ انکی کنیز بدیہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر گئی تو دیکھا کہ میاں بیوی کے بچھونے دور دور بچھے ہیں، خیال ہوا کہ شائد کچھ رنجش ہو گئی ہے لیکن دریافت سے معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ (بیوی کے ایام کے زمانہ میں) اپنا بستر ان سے الگ کر لیتے ہیں۔ آکر حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کیا تو بولیں، ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ ولیہ وسلم کے طریقہ سے اس قدر کیوں اعراض ہے؟ اپ برابر ہم لوگوں کے بچھونوں پر آرام فرماتے تھے،[مسندج6ص332] ایک عورت بیمار پڑی تو اس نے منت مانی کہ شفا ہونے پر بیت المقدس جا کر نماز پڑھے گی، خدا کی شان وہ اچھی ہو گئی اور سفر کی تیاریاں شروع کیں، جب رخصت ہونے کے لیے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس آئی، تو بولیں تم یہیں رہو، اور مسجد نبوی میں نماز پڑھ لو کیونکہ یہاں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں کے ثواب سے ہزار گنا زیادہ ہے۔[ایضاً ص333]
    حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کو غلام آزاد کرنے کا شوق تھا، ایک لونڈی کو آزاد کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تمکو اسکا اجر دے۔[ایضاً332]
    حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کبھی کبھی قرض لیتی تھیں، ایک بار زیادہ رقم قرض لی تو کسی نے کہا کہ آپ اسکو کسطرح ادا کرینگی؟ فرمایا"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے خدا خود اسکا قرض ادا کر دیتا ہے۔"[ایضاً]
     
  14. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    تانیہ جی
    اسلام علیکم
    جب آپ امہات مومنین کا باب مکمل کرلیں گی تو میں ایک تجزیہ پیش کروں کروں گا جو سب کو پسند آئے گا۔ لیکن میں ارسال کرنے سے پہلے مشاورت کرلوں گا۔۔۔۔
    والسلام علیکم
     
  15. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    جزاک اللہ
    --------------
     
  16. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    وعلیکم السلام
    جی ضرور مجھے انتظاررہیگا۔
     
  17. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا
    نام و نسب:۔
    اصلی نام زینب تھا لیکن وہ چونکہ جنگ خیبر میں خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ میں آئی تھیں اور عرب میں غنیمت کے ایسے حصے کو جو امام یا بادشاہ کے لیے مخصوص ہوتا ہے صفیہ کہتے تھے اس لیے وہ بھی صفیہ کے نام سے مشہور ہو گئیں، یہ زرقانی کی روایت ہے۔
    حضرت صفیہ کو باپ اور ماں دونوں کی طرف سے سیادت حاصل ہے۔ باپ کا نام حیی بن اخطب تھا۔ جو قبیلہ بنو نضیر کا سردار تھا۔ اور حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل میں شمار ہوتا تھا۔ ماں جسکا نام ضرو تھا، سموال رئیس قریظہ کی بیٹی تھی۔ اور یہ دونوں خاندان(قریظہ اور نضیر) بنو اسرائیل کے ان تمام قبائل سے ممتاز سمجھے جاتے تھے، جنہوں نے زمانہ دراز سے عرب کے شمالی حصوں میں سکونت اختیار کر لی تھی۔
    نکاح:۔
    حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی پہلے سلام بن مشکم القریظی سے ہویی تھی۔ سلام نے طلاق دی تو کنانہ بن ابی لحقیق کے نکاح میں آئیں۔ جو ابورافع تاجر حجاز اور رئیس اور خیبر کا بھتیجا تھا۔ کنانہ جنگ خیبر میں مقتول ہوا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے باپ اور بھائی بھی کام آئے اور خود بھی گرفتار ہوئیں جب خیبر کے تمام قیدی جمع کیے گئے تو وحیہ کلبی رضی اللہ تعالی عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لونڈی کی درخواست کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتخاب کرنے کی اجازت دی، انہوں نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو منتخب کیا، لیکن ایک صحابی نے آپکی خدمت میں آکر عرض کی کہ اپ نے رئیسہ بنو نضیر و قریظہ کو وحیہ کو دے دیا، وہ تو صرف آپکے لیے سزاوار ہے، مقصودیہ تھا کہ رئیسہ عرب کے ساتھ عام عورتوں کا سا برتاؤ مناسب نہیں۔ چنانچہ حضرت وحیہ رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ نے دوسری لونڈی عنایت فرمائی اور صفیہ کو آزاد کر کے نکاح کر لیا،[صحیح بخاری کتاب الصلوٰة باب مایذکرنی الفحذ، صحیح مسلمج1ص546] خیبر سے روانہ ہوئے تو مقام صہبا میں رسم عروسی ادا کی،[اصابہ ج8ص126] اور جو کچھ سامان لوگوں کے پاس تھا۔ اسکو جمع کر کے دعوت ولیمہ فرمائی، وہاں سے روانہ ہوئے تو آپ نے انکو خود اپنے اونٹ پر سوار کر لیا اور اپنی عبا سے ان پر پردہ کیا، یہ گویا اس بات کااعلان تھا کہ وہ ازواج مطہرات میں داخل ہو گئیں۔[طبقات ج8جزءالنساص86]
    عام حالات:۔
    حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مشہور واقعات میں حج کا سفر ہے، جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا۔
    حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ایام محاصرہ میں جو سن 35 ہجری میں ہوا تھا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انکی بےحد مدد کی تھی، جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ پر ضروریات زندگی مسدود کر دی گئیں، اور انکے مکان پر پہرہ بٹھا دیا گیا۔ تو وہ خود خچر پر سوار ہو کر انکے مکان کی طرف چلیں، غلام ساتھ تھا، اشتر کی نظر پڑی تو انہوں نے آکر خچر کو مارنا شروع کیا، حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا مجھکو ذلیل ہونے کی ضرورت نہیں میں واپس جاتی ہوں تم خچر کو چھوڑ دو۔ گھر واپس آئیں تو حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو اس خدمت پر مامور کیا،وہ انکے مکان سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس کھانا اور پانی لے جاتے تھے۔[اصابہ ج1ص127بحوالہ ابن سعد]
    وفات:۔
    حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے رمضان 50 ہجری میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں، اس وقت انکی عمر ساٹھ سال کی تھی۔ ایک لاکھ ترکہ چھوڑا، اور ایک ثلث کے لیے اپنے یہودی بھانجے کے لیے وصیت کر گئیں،[زرقانی ج3ص296]
    حلیہ:۔
    کوتاہ قامت اور حسین تھیں۔[صحیح مسلم ج1ص548]
    فضل و کمال:۔
    حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے چند حدیثیں مروی ہیں، جنکو حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ، اسحاق بن عبداللہ بن حارث، مسلم بن صفوان، کنانہ اور یزید بن معتب وغیرہ نے روایت کیا ہے، دیگر ازواج کی طرح حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی اپنے زمانہ میں علم کا مرکز تھیں، چنانچہ حضرت صہیرہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت جیفر حج کر کے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس مدینہ آئیں تو کوفہ کی بہت سی عورتیں مسائل دریافت کرنے کی غرض سے بیٹھی ہوئی تھیں، صہیرہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بھی یہی مقصد تھا۔ اس لیے انہوں نے کوفہ کی عورتوں سے سوال کرائے اور ایک فتوی نبیذ کے متعلق تھا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے سنا تو بولیں اہل عراق اس مسئلہ کو اکثر پوچھتے ہیں،[مسندج6ص377]
    اخلاق:۔
    حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا میں بہت سے محاسن اخلاق جمع تھے، اسد الغابہ میں ہے،[اسد الغابہ ج5ص490]
    "وہ عقلمند عورتوں میں نہایت عقلمند تھیں۔"
    زرقانی میں ہے۔[زرقانی ج3ص296]
    یعنی صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا عقل والی، فاضلہ اور حلم والی تھیں۔
    حلم و تحمل انکے باب فضائل کا نہایت جلی عنوان ہے، غزوہ خیبر میں جب وہ اپنی بہن کے ساتھ گرفتار ہو کر آ رہی تھیں تو انکی بہن یہودیوں کی لاشوں کو دیکھ کر چیخ اٹھتی تھیں، حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا اپنے محبوب شوہر کی لاش سے قریب ہو کر گزریں لیکن اب بھی اسی طرح پیکر متانت تھیں اور انکی جبین تحمل پر کسی قسم کی شکن نہیں آئی،
    ایک مرتبہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انکو یہودیہ کہا، انکو معلوم ہوا۔ تو رونے لگیں، حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس ایک کنیز تھی، جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے جا کر انکی شکایت کیا کرتی تھی، چنانچہ ایکدن کہا ان میں یہودیت کا اثر آج تک باقی ہے، وہ یوم السبت کو اچھا سمجھتی ہیں۔ اور یہودیوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے تصدیق کے لیے ایک شخص کو بھیجا،
    حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جوابدیا کہ یوم السبت کو اچھا سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں، اسکے بدلے خدا نے ہمکو جمعہ کا دن عنایت فرمایا ہے۔ البتہ میں یہود کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہوں، وہ میرے خویش و اقارب ہیں اسکے بعد لونڈی کو بلا کر پوچھا کہ تم نے میری شکایت کی تھی؟بولی"ہاں مجھے شیطان نے بہکا دیا تھا۔" حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا خاموش ہو گئیں اور اس لونڈی کو آزاد کر دیا،[اصابہ ج8ص127وزرقانی ج3ص296]
    حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی، چنانچہ جب آپ علیل ہوئے تو نہایت حسرت سے بولیں"کاش آپکی بیماری مجھکو ہو جاتی۔" ازواج نے انکی طرف دیکھنا شروع کیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سچ کہہ رہی ہیں۔[زرقانی ج3ص296 بحوالہ ابن سعد](یعنی اس میں تصنع کا شائبہ نہیں ہے۔)
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی انکے ساتھ نہایت محبت تھی۔ اور ہر موقع پر انکی دلجوئی فرماتے تھے۔ ایک بار آپ سفر میں تھے، ازواج مطہرات بھی تھیں، حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا اونٹ سوئے اتفاق سے بیمار ہو گیا۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس اونٹ ضرورت سے زیادہ تھے،آپ نے ان سے فرمایا کہ ایک اونٹ صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو دیدو۔ انہوں نے کہا، کیا میں اس یہودیہ کو اپنا اونٹ دے دوں؟ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اس قدر ناراض ہوئے کہ دو مہینے تک انکے پاس نہ گئے،[اصابہ ج8ص126بحوالہ ابن سعدوزرقانی ج3ص296] ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انکی قدوقامت کی نسبت چند جملے کہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر سمندر میں چھوڑ دی جائے تو اس میں مل جائے[ابوداؤد ج2ص193](یعنی سمندر کو بھی گدلا کر سکتی ہے۔)
    ایک بار آپ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس تشریف لے گئے، دیکھا کہ رو رہی ہیں آپ نے رونے کی وجہ پوچھی، تو انہوں نے کہا کہ "عائشہ و حفصہ(رضی اللہ تعالی عنہما) کہتی ہیں کہ ہم تمام ازواج میں افضل ہیں، ہم آپ کی زوجہ ہونے کے ساتھ آپکی چچا زاد بہنیں بھی ہیں۔" آپ نے فرمایا کہ تم نے یہ کیوں نہ کہدیا کہ"ہارون میرے باپ، موسی میرے چچا اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) میرے شوہر ہیں اسلیے تم لوگ کیونکر مجھ سے افضل ہو سکتی ہو،"[صحیح ترمذی ص638باب فضل ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم،]
    سفر حج میں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا اونٹ بیٹھ گیا تھا۔ اور و ہسب سے پیچھے رہ گئی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو دیکھا کہ زاروقطار رو رہی ہیں، آپ نے رداء اور دست مبارک سے انکے آنسو پونچھے، آپ آنسو پونچھتے جاتے تھے اور وہ بےاختیار روتی جاتی تھیں۔[زرقانی ج3ص296]
    حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سیر چشم اور فیاض واقع ہوئی تھیں، چنانچہ جب وہ ام المومنین بن کر مدینہ میں آئیں تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کو اپنی سونے کی بجلیاں تقسیم کیں۔[زرقانی ج3ص296]
    کھانا بہایت عمدہ پکاتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تحفتہً بھیجا کرتی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انہوں نے پیالہ میں جو کھانا بھیجا تھا اسکا ذکر بخاری اور نسائی وغیرہ میں آیا ہے۔
     
  18. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    جزاک اللہ
    ---------------
     
  19. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    بنات طاہرات رضی اللہ تعالی عنہن

    حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا

    نام و نسب:۔
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں بعثت سے دس برس پہلے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تیس سال کی تھی پیدا ہوئیں۔
    نکاح:۔
    ابوالعاص بن ربیع لقیط سے جو حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے خالہ زاد بھائی تھے نکاح ہوا۔
    عام حالات:۔
    نبوت کے تیرہویں سال جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی تو اہل و عیال مکہ میں رہ گئے تھے، حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا بھی اپنی سسرال میں تھیں، غزوہ بدر میں ابو العاص کفار کی طرف سے شریک ہوئے تھے، عبداللہ بن حیر رضی اللہ تعالی عنہ انصاری نے انکو گرفتار کیا۔ اور اس شرط پر رہا کیے گئے کہ مکہ جا کر حضرت زینب کو بھیج دینگے۔(طبقات ج8ص20)
    ابوالعاص نے مکہ جا کر حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنے چھوٹے بھائی کنانہ کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ کیا، کیونکہ کفار کے تعرض کا خوف تھا۔ کنانہ نے ہتھیار ساتھ لے لیئے تھے۔ مقام ذی طوی میں پہنچے تو قریش کے چند آدمیوں نے تعاقب کیا، ہبار بن اسود نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو نیزہ سے زمین پر گرا دیا، وہ حاملہ تھیں، حمل ساقط ہو گیا، کنانہ نے ترکش سے تیر نکالے اور کہا کہ"اب اگر کوئی قریب آیا تو ان تیروں کا نشانہ ہو گا۔"لوگ ہٹ گئے تو ابوسفیان سرداران قریش کے ساتھ آیا اور کہا"تیر روک لو ہمکو کچھ گفتگو کرنی ہے۔" انہوں نے تیر ترکش میں ڈال دیئے، ابوسفیان نے کہا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہاتھ سے جو مصیبتیں پہنچی ہیں تمکو معلوم ہیں۔ اب اگر تم اعلانیہ انکی لڑکی کو ہمارے قبضہ سے نکال لے گئے لوگ کہیں گے کہ ہماری ہے۔ ہمکو زینب(رضی اللہ تعالی عنہا) کو روکنے کی ضرورت نہیں جب شوروہنگامہ کم ہو جائے اسے چوری چھپے لے جانا۔ کنانہ نے یہ رائے تسلیم کی اور حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو لیکر مکہ واپس آ گیا۔چند روز کے بعد انکو رات کے وقت لیکر روانہ ہوئے، زید بن حارثہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے بھیج دیا تھا۔ وہ بطن یا جج میں تھے۔ کنانہ نے زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو انکے حوالے کیا، وہ انکو لیکر روانہ ہو گئے۔(زرقانی ج3ص223)
    حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا مدینہ میں آئیں اور اپنے شوہر ابوالعاص کو حالت شرک میں چھوڑا۔ جمادی الاول سن چھ ہجری میں ابوالعاص قریش کے ایک قافلہ کے ساتھ شام کیطرف روانہ ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کو 170 سواروں کے ساتھ بھیجا، مقام عیص قافلہ ملا، کچھ لوگ گرفتار کیے گئے اور مال و اسباب لوٹ میں آیا، انہی میں ابو العاص بھی آئے تو حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے انکو پناہ دی اور انکی سفارش سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےانکا مال بھی واپس کرا دیا۔ ابوالعاص نے مکہ جا کر لوگوں کی امانتیں حوالہ کیں اور اسلام لانے کے بعد ہجرت کر کے مدینہ آئے، حجرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے انکو حالت شرک میں چھوڑا تھا، اس لیے دونوں میں باہم تفریق ہو گئی تھی، وہ مدینہ آئے تو حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا دوبارہ انکے نکاح میں آئیں، ترمذی وغیرہ میں روایت ہے کہ کوئی تجدید نکاح نہیں ہوا، لیکن دوسری روایت میں تجدید نکاح کی تصریح ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے اس روایت کو اگرچہ اسناد کے لحاظ سے دوسری روایت پر ترجیح ہے۔ لیکن فقہا نے دوسری پر عمل کیا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کی یہ تاویل کی ہے کہ نکاح جدید کے شرائط وغیرہ میں کسی قسم کا تغیر نہ ہوا ہو گا اسی لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اسکو نکاح اول سے ہی تعبیر کیا ورنہ بعد تفریق نکاح ثانی ضروری ہے۔
    ابوالعاص نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ نہایت شریفانہ برتاؤ کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے شیریفانی تعلقات کی تعریف کی،(طبقات ابن سعدج8ص21)
    وفات:۔
    نکاح جدید کے بعد حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا بہت کم زندہ رہیں۔ اور سن آٹھ ہجری میں انہوں نے انتقال کیا۔ حضرت ام ایمن ، حضرت سودہ، حضرت ام سلمہ اور حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہن نے غسل دیا جسکا طریقہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی، خود قبر میں اترے اور اپنے نوردیدہ کو خاک کے سپر دیا۔ اس وقت چہرہ مبارک پہ حزن و ملال کے آثار نمایاں تھے۔(طبقات ج8ص24وصحیح بخاری ج1ص167وصحیح مسلم ج1ص346واسد الغابہ ج5ص468)
    اولاد:۔
    حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے دو اولاد چھوڑی، علی اور امامہ رضی اللہ تعالی عنہا علی کی نسبت ایک روایت ہے کہ بچپن میں وفات پائی، لیکن عام روایت یہ ہے کہ سن رشد کو پہنچے، ابن عساکر نے لکھا ہے کہ یرموک کے معرکہ میں شہادت پائی، فتح مکہ میں یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے، امامہ رضی اللہ تعالی عنہا عرصہ تک زندہ رہیں، انکے حال آگے تک آئے گا۔
    اخلاق و عادات:۔
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی تھیں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے انکو ریشمی چادر اوڑھے دیکھا تھا، جس پر زرد دھاریاں پڑی ہوئی تھیں۔(طبقات ج8ص22)
     
  20. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    جزاک اللہ العظیم
     
  21. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    جزاک اللہ
    --------------
     
  22. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا

    نام و نسب:۔
    مشہور روایت کے مطابق یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادی ہیں جو سن 33 قبل نبوت میں پیدا ہوئیں۔
    نکاح:۔
    پہلے ابولہب کے بیٹے عتبہ سے شادی ہوئی، یہ قبل نبوت کا واقعہ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی ابولہب کے دوسرے لڑکے عتبہ سے ہوئی تھی۔
    اسلام:۔
    جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور آپ نے دعوت اسلام کا اظہار فرمایا تو ابولہب نے بیٹوں کو جمع کر کے کہا"اگر تم محمد کی بیٹیوں سے علہدگی اختیار نہیں کرتے تو تمھارے ساتھ میرا اٹھنا بیٹھنا حرام ہے۔" دونوں بیٹوں نے باپ کے حکم کی تعمیل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کر دی۔
    عام حالات:۔
    نبوت کے پانچویں سال حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے حبش کی طرف ہجرت کی، حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی ساتھ گئیں، جب واپس آئیں تو مکہ کی سرزیمن پہلے سے زیادہ خونخوار تھی۔ چنانچہ دوبارہ ہجرت کی مدت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انکا کچھ حال معلوم نہ ہوا۔ ایک عورت نے آکر خبردی کہ "میں نے ان دونوں کو دیکھا ہے۔" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی اور فرمایا کہ"ابراہیم علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کے بعد عثمان(رضی اللہ تعالی عنہ) پہلے شخص ہیں جنہوں نے بی بی کو لیکر ہجرت کی ہے۔"(اسدالغابہ ج5ص457)
    اس مرتبہ حبش میں زیادہ عرصہ تک مقیم رہیں، جب یہ خبر پہنچی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے والے ہیں تو چند بزرگ جن میں حضرت عثمان اور حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہما بھی تھیں مکہ آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے مدینہ منورہ کو ہجرت کی، جہاں انہوں نے حضرت حسان کے بھائی اوس بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر قیام کیا۔
    وفات:۔
    سن دو ہجری میں غزوہ بدر کا سال تھا۔ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے دانے نکلے اور نہایت سخت تکلیف ہوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانہ میں بدر کی تیاریاں کررہے تھے، غزوہ کے لیے روانہ ہوئے تو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو تیماداری کے لیے چھوڑ دیا۔(بخاری ج1ص442) عین اسی دن جس دن زید رضی اللہ تعالی عنہ بن حارثہ نے مدینہ میں آکر فتح کا مژدہ سنایا حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے وفات پائی، آنحضرت غزوہ کی وجہ سے انکے جنازہ میں شریک نہ ہو سکے لیکن جب واپس آئے اور اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو نہایت رنجیدہ ہو کر قبر پر تشریف لائے اور فرمایا"عثمان ابن مظعون پہلے جا چکے اب تم بھی انکے پاس چلی جاؤ"اس فقرہ نے عورتوں میں کہرام برپا کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کوڑا لیکر مارنے کے لیے اٹھے اپ نے ہاتھ پکڑ لیااور فرمایا"رونے میں کچھ حرج نہیں لیکن نوحہ و بین شیطانی حرکت ہے اس سے قطعا بچنا چاہیے۔" سیدہ عالم حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئیں، وہ قبر کے پاس بیٹھکر روتی جاتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کپڑے سے انکے آنسو پونچھتے جاتے تھے،
    اولاد:۔
    حبش کے زمانہ قیام میں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جسکا نام عبداللہ تھا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی کنیت ابو عبداللہ اسی کے نام پر تھی، چھ سال تک زندہ رہا، ایک مرتبہ ایک مرغ نے اسکے چہرہ پر چونچ ماری اور جاں بحق تسلیم ہو گیا، یہ جمادی الاول سن 4 ہجری کا واقعہ ہے، عبداللہ کے بعد حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی،
    حلیہ:۔
    حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا خوبرو اور موزوں اندام تھیں، زرقانی میں ہے۔(دیکھو استیعاب ج2ص47، طبقات ج8ص24واسد الغابہ ج5ص456، 457 و زرقانی ج3ص226)
     
  23. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    تانیہ جی
    اسلام علیکم
    آپ نے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کاذکر نہیں کیا؟
     
  24. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    [​IMG]

    اس گراف سے امہات المومنین کی طبعی عمر اور حضرت محمہد :saw: سے رفاقت کا دورانیہ ظاہر کیا گیا ہے۔

    آپ سے درخواست ہے کہ اگر اصلاح کی گنجائش ہوتو ضرور مطلع فرمائیں۔۔۔۔۔

    شکریہ

    غوری
     

    منسلک کردہ فائلیں:

  25. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    جزاک اللہ
    -----------------
     
  26. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    وعلیکم السلام محترم!
    روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی 9 سے 13 بیویاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے کے بعد وہ کسی دوجے سے شادی نہیں کر سکتی تھیں۔ ان بیویوں کو امہات المؤمنین اور ازواج مطہرات کہا جاتا ہے۔
    میں نے جس کتاب کا لکھنا شروع کیا اس میں مجھے صرف گیارہ امہات المومنین کے بارے معلومات ملیں باقی میں کوشش کرونگی کہ اس کتاب سے الگ کہیں دوسری کسی کتاب میں مجھے ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے معلومات ملیں‌تو انہیں ضرور پیش کرونگی۔۔۔۔آپکی دلچسپی کے لیے بہت شکریہ
     
  27. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    [​IMG]

    اس گراف میں امہات المومنین کی اولاد کے بارے میں ذکر ہے۔۔۔۔۔

    آپ سے درخواست ہے کہ اگر اصلاح کی گنجائش ہوتو ضرور مطلع فرمائیں۔۔۔۔۔

    شکریہ

    غوری
     

    منسلک کردہ فائلیں:

  28. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا


    نام و نسب:۔
    یہ تیسری صاحبزادی ہیں اور کنیت ہی کے ساتھ مشہور ہیں۔
    نکاح:۔
    سن تین ہجری میں جب حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا انتقال ہوا تو ربیع الاول میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ نکاح کر لیا، بخاری میں ہے کہ جب حضرت حفصہ بیوہ ہوئیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے تامل کیا لیکن دوسری روایت میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر معلوم ہوئی تو آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا"میں تمکو عثمان سے بہتر شخص کا پتہ دیتا ہوں۔ اور عثمان کے لیے تم سے بہتر شخص ڈھونڈتا ہوں اپنی لڑکی کی شادی مجھ سے کر دو اور میں اپنی لڑکی کی شادی عثمان سے کر دیتا ہوں"بہرحال نکاح ہوا، نکاح کے بعد حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا 6 برس تک حضرت عثمان کے ساتھ رہیں۔
    وفات:۔
    شعبان سن نو ہجری میں وفات پائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت صدمہ ہوا، آنکھوں سے آنسو جار ی تھے، آپ نے نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ علی رضی اللہ تعالی عنہ، فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اور اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ بن زید نے قبر میں اتارا۔[1]
    اولاد:۔
    کوئی اولاد نہیں ہے۔
     
  29. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    جزاک اللہ
    -----------------
     
  30. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

    جزاک اللہ
    ،
     

اس صفحے کو مشتہر کریں