1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اُردو اور ہم

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از نایاب شاہ, ‏23 اکتوبر 2009۔

  1. نایاب شاہ
    آف لائن

    نایاب شاہ ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    38
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ہمارا میڈیا اور ہماری زبان
    نایاب شاہ۔ اسلام آباد

    کسی بھی ملک کی زبان وثقافت اسکی اصل شناخت ہواکرتی ہے ۔ہمارے پاکستان کی شناخت بھی ہماری قومی زبان اردو ہے جو اپنے دامان وسعت میں پاکستان کے ہر خطے اور علاقے کی زبان کے الفاظ کو قدرتی اور غیر محسوس انداز میں یوں سمو لیتی ہے کہ جیسے یہ پاکستانی زبانیں ازل سے اردو زبان کا حصہ ہوں ۔پاکستانی زبان و ثقافت کا یہی قدرتی سنگم اسکی خوبی اور خوب صورتی ہے ۔کرئہ ارض پر جدت طراری کی بدولت تیزی سے بدلتی صورت حال جہاں دنیا کی تہذیب و ثقافت کو ایک دوسرے کے ساتھ تیزی سے ہم آہنگ کررہی ہے وہیں دنیا کی زبانیں بھی ایک دوسرے پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ دو عشروں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے تمام سرحدیں گرادی ہیں۔ دنیا میںجدید ترین کمپیوٹر ، موبائل اور سیٹلائٹ رابطوں نے ایک انقلاب برپا کر کے رکھ دیا ہے۔ جس سے اقوام عالم کی تہذیبوں اور زبانوں کی شناخت کو ایک دوسرے سے خطرات لاحق ہوگئے ہیں ۔ اب چوبیس گھنٹے گھر اور باہر سینکڑوں ٹی وی چینلز کا راج ہے۔ا وران چینلز پر اطلاعت کی باہم رسانی کا ذریعہ مختلف زبانیں ہیں ۔ ایک وقت تھا جب صرف پی ٹی وی ہوتا تھا ،ہر جگہ ریڈیو بولتا تھا جہاں نپے تلے انداز میں اُردو زبان بولی جاتی تھی اور جو پاکستان بھر کے شہروں اور دیہاتوں میں یکساں طور پر سمجھی جاتی تھی مگر جب سے نت نئے ٹی وی چینل آئے ہیں ، ہماری اردو زبان پر گویا ٹِڈی دل نے حملہ کردیا ہو اورٹِڈی دل کے حملے کے بعد اناج کی فصل کا جو حال ہوتا ہے وہی حال آج کل ہماری اردو زبان کا ہوگیا ہے ۔ ملک کے سنجیدہ حلقے پریشان ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اپنی زبان کے تشخص اور اسکی بقاءکا ساماں کیا جائے ۔ اس پر دوسری زبانوں کے اثرات کی قبولیت کے پیمانے مقرر کیے جائیں۔ اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے معیارات طے کیے جائیں تاکہ زبان اپنا تشخص برقرار رکھتے ہوئے بدلتے وقت کاساتھ دے سکے۔
    چنانچہ مقتدرہ قومی زبان نے فیصلہ کیا ہے کہ اکتوبر 2009ءمیں”ہمارا میڈیا اور ہماری زبان “کے حوالے سے ایک قومی سیمینار منعقدا کرایا جائے ۔ اس سیمینار کے انعقاداور مختلف معاملات پر گفت وشنید کے لئے مقتدرہ کے کانفرنس ہال میں ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلا س میں ذرائع ابلاغ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے احباب کو پیشہ وارانہ مشاورت اور راہ نمائی کیلئے اکٹھا کیا گیا تا کہ آئندہ سیمینار میں اردو زبان کو درپیش مسائل اورمختلف سوالات کا بہتر انداز میں حل تلاش کیا جاسکے۔
    اجلاس کی صدارت مقتدرہ کے صدر نشین، افتخار عارف نے کی ، دیگر شرکاءمیںمرکز فضیلت برائے اردو اطلاعیات کے ناظم منصوبہ ڈاکٹر عطش درانی ، ریڈیو پاکستان کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر ظفر خان نیاز ی ،سکرپٹ رائٹر اقبال فہیم جوزی ، جیوٹی وی کے ایاز گل ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے صدر عبدالسراج ،صحافی محترمہ فریدہ حفیظ اور معروف ٹی وی کمپیئر شمعون ہاشمی شامل تھے۔
    اجلاس کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے صدرنشین مقتدرہ قومی زبان ، افتخار عارف نے کہا کہ ہم ایک کثیر اللسانی معاشرے میں رہتے ہیں اس لئے ہماری کاوشوں کے باجود اردو زبان آلودہ ہوتی جارہی ہے۔ اردوزبان پر انگریزی کا اثر جتنا آج ہے پہلے کبھی نہ تھا ۔ چنانچہ انتشار کے اس دور میں اردو کی معیار بندی اشد ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہمارے دور میں اردوزبان کو میڈیا ہی نے رواج دیا اور اسے ایک عام شخص کی زبان بنایا لیکن اب یہی میڈیا اُردو زبان کو بُری طرح متاثر کررہا ہے ۔ اس وقت ہم یہاں اس لئے اکٹھے ہوئے ہیں تا کہ با ہم مشاورت سے اردو کے حق میں راستے ہم وار کرنے کے لیے ایک سیمینار کروائیں ۔ میں جانتا ہوں کے میڈیا میں غلط العام کا مسئلہ ہمیشہ رہا ہے مثلاً ”عوام کہتی ہے “ مسلسل استعمال ہوتا ہے کوئی یہ نہیں کہتا کہ ” عوام کہتے ہیں “ اگر کسی پروگرام میں مہمان غلط بول رہا ہے تو کم از کم میزبان کو غلط نہیں بولنا چاہیے ۔ ہمارے میڈیا میں زبان کی کوئی معیار بندی نہیں ۔آج کل اردو انٹر نیٹ اور ایس ایم ایس کی وجہ سے خاصی متاثر ہورہی ہے۔ افتخار عارف نے بتایا کہ میں نے ریڈیو سے آغاز کیا تھااور اس وقت ریڈیو اسٹیشن پر ایک مُصلح تلفظ ہوتا تھا جو اردو تلفظ کی درستگی کا خیال رکھتا تھا۔ انہوں نے کہا میں سمجھتا تھا کہ اُردو صرف شہروں میں بولی جانے والی زبان ہے مگر ہماری فلموں نے اسے دیہاتوں میں بھی متعارف کرادیا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ پہلے علاقائی زبانوں کو صوبائی زبانیں کہا جاتا تھا مگر میں نے ان کے لیے پہلی بار ”پاکستانی زبانیں“ لکھا جس سے یکتائی کا احساس ہوتا ہے۔ڈاکٹر عطش درانی نے بتایاکہ وہ کس طر ح اُردو کی ترویج کے لیے کوشاں ہیں انہوں نے حاضرین کو دعوت دی کہ وہ اُردو زبان کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے اپنی تجاویز دیں تا کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو اُردو کی جانب واپس لاسکیں ۔انہوں نے کہا کہ پہلے ہماری نوجوان نسل کچھ الفاظ کو اردش کہتی تھی مگر اب اردش سے بھی بدل کریہ اینگلو اُردو بن گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا کہ ہمارے اُردو کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بنیادی کام روز مرہ پیغامات کی ترسیل ہے۔ جو کہ اُردو زبان میں ہونا ضروری ہے ۔ انہوں نے سوال اُٹھایاکہ اگر انگریزی میڈیا انگریزی میں ہوتا ہے اس میں اُردو کا کوئی لفظ نہیں ہوتا تو پھر اُردو میڈیا خالصتاً اُردو میں کیوں نہیں ہوسکتا ؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے میڈیا پر اپنی زبان کو رواج دیں اور میزبان کو پابند کریں کہ وہ خالص اُردو بولیں ۔ہمارے ہاں اُردو بولنے والے کو وہ عزت یا مقام نہیں ملتا جو انگریزی بولنے والے کو ملتا ہے۔ اگر کوئی شخص سوٹ پہن کر آتا ہے اس سے توقع کی جاتی کہ وہ انگریزی میں بات کرے گا۔ گفت گو میں شریک ہوتے ہو ئے ایاز گل نے کہا کہ ہمیں انگریزی زبان کے تسلط کی فکر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ زبان اپنا راستہ خود بنالیتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں جب فلم کے بارے میں پڑھاتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ 62سال کی تاریخ پڑھاﺅں اور اس بات پر کوئی شک نہیں کہ اُردو زبان و ادب کی ترقی میںفلم نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
    ظفر خان نیازی نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دور میں ریڈیو کی زبان کو سند کا درجہ حاصل تھا اگر آپ اُردو کا معیار بڑھانا چاہتے ہیں تو اسے اشرافیہ کی زبان بنائیں کیونکہ ایک طرف تو ہم اُردو کی حمایت کرتے ہیں مگر دوسری طرف اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکول بھیجنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ اس لئے اگر اُردو کواسکا مقام دلانا ہے تو اسے اشرافیہ کی زبان بنانا ہوگا۔ اسی طرح کچھ الفاظ ایسے ہیں جو اُردو میں ختم ہوچکے ہیں ان کا تعین بھی کرنا ہے کہ آیا وہ اُردو کا حصہ ہیں یا نہیں بعض الفاظ کو لوگوں نے کچھ خاص باتوں سے جوڑ دیا ہے اور اس کے اصل معنی بھول گئے ہیں مثلا ً 74ءکے ایک سروے میںلوگوں سے عازِم کا مطلب پوچھا گیا تو عازمین حج کوذہن میں رکھتے ہوئے لوگوں نے عازم کا مطلب حاجی بتایا۔ انہوں نے کہا کہ مقتدرہ قومی زبان کی معیار بندی میں صرف ایک سیمینار نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے لئے تسلسل کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
    اقبال فہیم جوزی نے کہا کہ مستقبل کی گلوبل ورلڈ میں ہم اپنی زبا ن اورثقافت سے ہی شناخت کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے کسی ایسی پوسٹ کے لئے انٹرویو لینا ہے جہاں انگریزی بولنی اور سمجھنی ضروری ہے تو ہم امیدوار کا انگریزی بولنے اور لکھنے کا ٹیسٹ لیتے ہیں مگر جہاں ہم نے اُردو سے متعلق کسی شعبے میں بھرتی کرنی ہوتی ہے خاص طور پر میڈیا میں نیوز کاسٹر اور کمپیئر کا اُردو کاٹیسٹ نہیں لیا جاتا کہ وہ اُردو کو درست لب و لہجے میں پیش کرتے ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ آج کل اُردو میڈیا نے ایک نئی ٹرم بناکر کہ سب کچھ نیچرل انداز میں ہونا چاہیے ، کمپیئر کو بالکل آزاد کردیا ہے۔ اسے اجازت ہوتی ہے کہ وہ جہاں چاہے جس زبان کا لفظ استعمال کرسکتا ہے۔ اس لئے یہ مکمل پابند ہونی چاہے کہ یا تو مکمل اُردو میں گفتگو کریں یا مکمل انگریزی میں ہمارے ہاں لوگ اپنی برتری جتلانے کے لیے اپنی گفتگو میں جان بوجھ کر انگریزی کے الفاظ شامل کرتے ہیں۔
    عبدالسراج نے کہا کہ ہماری نوجوان نسل نے روز مرہ بول چال میں انگریزی اور جدید ذرائع ابلاغ کی نئی اختراعات کو نہ صرف تسلیم کرلیا ہے بلکہ زور و شور سے استعمال بھی کررہی ہے ، اگرچہ میں خودار دو زبان میں اس قدر ماہر نہیں ہوں سمجھتا ہوں کہ موبائل اور انٹر نیٹ نے ہماری زبان کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارے ڈراموں میں بھی نوجوان نسل کو ہر زبان بولتے ہوئے دکھا یا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے اُردو ڈرامے میں صرف اُردو بولی جانی چاہیے اور کئی الفاظ ایسے ہیںجو استعمال نہ ہونے کی وجہ سے ہماری روز مرہ کی بول چال سے مستروک ہوئے جارہے ہیں۔
    فریدہ حفیظ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہ دنیا میں جس ملک کی ثقافت غالب ہوتی ہے ، اسی کی زبان بھی غلبہ حاصل کرتی ہے۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا میں اُردو زبان کا غلط استعمال ہورہا ہے، میں ایک مثال بس سٹاف کی دینا چاہتی ہوں کہ بس سٹاپ پر امیر لوگ نہیں بلکہ عام لوگ اور سکول و کالج کے طلبہ و طالبات ہوتے ہیں اس لئے اگر ہم نے نوجوان نسل کو اُردوکی جانب راغب کرنا ہے تو ہمیں چاہے کہ ان مقامات پر سرکاری پیغامات اُردو کے ذریعے رائج کریں اسی طرح ٹی وی اشتہارات میں بھی اُردو کا استعمال کریںجب ہم نے صحافت میں قدم رکھا تو اس وقت نیوز ڈیسک پر اُردو بولنے والے لوگوں کو رکھا جاتا جبکہ رپورٹر کسی بھی زبان میں ہوتا ایک مرتبہ ایڈیٹر سے کسی نے اس کی وجہ پوچھتی تو انہوں نے کہا رپورٹر کا کام خبر لانا ہے چاہے وہ جس بھی زبان میں لائے مگرنیوز ڈیسک کے لوگوں نے اسے درست اُردو میں تحریر کرنا ہوتا ہے سو میں سمجھتی ہوں اب بھی اس بات پر دھیان دیا جائے کہ ہمارے ڈیسک پر اور سکرپٹ رائٹر اُردو دان ہوں۔
    شمعون ہاشمی نے اپنی گفت گو میں اشتہارات کو زیر بحث لائے ہوئے کہا کہ اشتہاری کمپنیوں کے کاپی رائٹر اور ایف ایم ریڈیو کے میزبان اُردو زبان کو بہت نقصان پہنچارہے ہیںجس سے اس کی شناخت کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 80ءکی دہانی میںتو لفظ ”میڈیا“ کا وجودہی نہیں تھا بلکہ اس کی جگہ ذرائع ابلاغ کا لفظ استعمال ہوتا تھا مگر میں سمجھتا ہوں کہ صرف چینلز اور کمپیئر زکی زبان بدلنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ہمیں سکول اور کالج میں بھی اُردو زبان کی ترویج پر دھیان دینا چاہیے، خاص طور پر کالج میں چھپنے والے میگزین کے ذریعے کیونکہ ہماری اُردو زبان کونئی نسل نے بچانا ہے۔ ہندی اور سنسکرت کے متحروک الفاظ میڈیا کی بدولت اب تک نوجوان نسل کے ساتھ ہیں اس لئے اگر اُردوکو پاکستان کی قومی زبان کے طور زندہ رہنا ہے تو صوبائیت کو چھوڑا یک زبان پر توجہ دیں مزید یہ کہ لہجے پر تو جہ دینے کے بجائے تلفظ پر دھیان دیں کیونکہ ہر شخص کا لہجہ اس کے علاقے کی نمائندگی کرتا ہے مگر زبان ایک رابطہ کا ذریعہ ہے مثلاً سوات کا شخص پنجابی سے صرف اُردو زبان میں گفت گو کے قابل ہوگا مزید یہ کہ آج کی اُردو زبان سے مراد قدیم لکھنﺅی زبان نہیں( دیکھیے، لیجیے، کھایئے، وغیرہ) جس کے بارے میں سوچ کہ ہی لوگ خوفزدہ ہوجاتے ہیں بلکہ اُردو ہماری روز مرہ کی عام فہم زبان ہے۔
    افتخار عارف نے اجلاس کے اختتام پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ہم باہمت مشاورت سے جلد مجوزہ سیمینار کے انعقاد کے قابل ہوجائیں گے۔ آپ لوگ نہ صرف سیمینار کے لیے عنوان تجویز کریں بلکہ تمام پاکستانی زبانوںکے نمائندہ شرکاءکے نام اور سیمینار میں پڑھے جانے والے مقالات کے عنوانات اور انکے لکھنے والوں کے نام بھی تجویز کریں تاکہ سیمینار کے انعقاد کو بر وقت ممکن بنایا جاسکے۔
    اجلاس میں مقتدرہ قومی زبان کے افسران محمد اسلام نشتر، سید سردار احمد پیر زادہ، حمید قیصر اور سید تجمل شاہ نے بھی شرکت کی اجلاس میں طے پایا کہ اس اجلاس کے شرکاءمشتمل ذرائع ابلاغ کی ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو مسلسل رابطے میں رہے گی اور آئندہ سیمینار کے لئے سفارشات کو حتمی شکل دے گی۔
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
     
  2. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    نایاب شاہ یہ مضمون ہم تک پہنچانے کے لیے شکریہ۔
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم

    بہت ہی اچھی معلومات فراہم کی شکریہ
     
  4. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    نایاب شاہ بہت شکریہ کہ آپ نے ایک ایسے اجلاس کی کاروائی ہم تک پہنچائی کہ جس کے بارے میں اخبارات یا ٹی وی میں اس کی رپورٹنگ نہ کی ہو ( اگر ہوئی ہو تو میری نظر سے نہیں گزری ! واقعی آج یہ ایک اہم توجہ طلب مسٔلہ ہے قومیں اپنی زبان پر ہمیشہ فخر کرتی ہیں اور اس زبان کی ہی بدولت سارا معاشرہ ایک ہی لڑی میں مخلف دانوں کی صورت جڑا نظر آتا ہے اردو زبان میں جتنی زیادہ امیزش انگریزی کی ہو شخصیت کو اتنا ہی زیادہ معتبر گردانا جاتا ہے فارسی و عربی زبان کے استعمال کرنے والے کو ایسی پزیرائی معاشرہ دینے کو شائد نامناسب خیال کرتا ہے ہر علاقہ کی اپنی ماں بولی ایک دلکشی رکھتی ہے مگر ان تمام رشتوں کو ایک بندھن میں باندھنے کا فریضہ اردو زبان کے سر ہے مگر کیا کریں ہمارے معاشرے میں موجود ایسے عناصر جو اپنے قد کاٹھ کو بڑھانے کے لئے طرح طرح سے نت نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں کبھی لباس سے تو کبھی زبان کے اثر سے ممتاز رہنے کی پیش بندی کی جاتی ہے لباس کا اثر تو لنڈا بازاروں کی وجہ سے اب وہ انفرادیت کا خمار اتر چکا ہے مگر مہنگی زریعہ تعلیم کے سبب اب بھی زبان اپنے حصار میں قومیت کو پنپنے نہیں دے رہی یہ بہت ہی خوش آئند ہے کہ ذرائع ابلاغ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے احباب کو پیشہ وارانہ مشاورت اور راہ نمائی کیلئے اکٹھا کیا گیا
    خدا کرے کہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہوں! آمین
     
  5. نایاب شاہ
    آف لائن

    نایاب شاہ ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    38
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    محبوب صاحب آپ کی حوصلہ افزائی کا شکریہ
     
  6. نایاب شاہ
    آف لائن

    نایاب شاہ ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    38
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    شکریہ کوشش ہے کہ اردو کی ترویج کے لیے یوں ہی اپنا حصہ ڈالتی رہوں جس قدر ممکن ہو
     
  7. نایاب شاہ
    آف لائن

    نایاب شاہ ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    38
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    اپنی سی کوشش تو ہم کر رہے ہیں مگر امید کرتے ہیں کہ ساری قوم اردو کی ترقی کے لیے ہمارا ساتھ دے کیونکہ کوئی بھی کام تنہا ناممکن ہوتا ہے کم از کم آپ کی حوصلہ افزائی بھی مل جائے تو خوشی ہو گی
     
  8. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    نایاب جی مضمون ہم تک شیئر کرنے کا شکریہ
     
  9. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    نایاب بہن
    بحیثیت پاکستانی ہماری ترجیحات میں اردو زبان ہی ایک قومیت میں ہم سب کو پرونے کا سبب ہو سکتی ہے اردو کی ترقی و ترویج کے لئے کی جانے والی ہر کوشش کی حوصلی افزائی ہمارا قومی فریضہ ہے اپنے تئیں ہم سب کو اس کا ساتھ دینا چاہئیے اللہ تعالی آپ کو اپنے اس نیک مقصد میں کامیاب کرے آمین

    محمودالحق
     
  10. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    اسلام علیکم نایاب بہن جزاک اللہ اللہ آپ کو نیک مقصد میں کامیاب کرے آمین ثم آمین
    انشااللہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اس نیک مقصد کے لیے
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    نایاب بہن۔ اردو زبان کی خدمت کے عظیم جذبے کا عملی اظہار واقعی لائق صد تعریف ہے۔
    اردو زبان بولنا ، اسکی ترویج و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا بذات خود حب الوطنی کا بیّن ثبوت ہے۔

    معلومات فراہم کرنے کے لیے بہت سا شکریہ ۔
     
  12. نایاب شاہ
    آف لائن

    نایاب شاہ ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    38
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ایک پاکستانی ہونے کے ناطے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی زبان کی ترویج و ترقی کے کام میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں کیونکہ ہمیں ہمارے ڈاکٹر صاحب (ڈاکٹر عطش دُرانی) نے یہی سکھایا ہے کہ صلے کی توقع کیے بغٰر اپنا حصہ ڈالتے جائو تمہیں ثمر خود بخود مل جائے گا:suno:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں