1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

انقلابی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از افضال اَمر, ‏4 دسمبر 2007۔

  1. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    یہ غزل میرے سب سے پیارے دوست اظہار احمد کی ہے ویسے تو اُن کی سبھی شاعری بے مثال ہے میں اُس میں سے ایک انقلابی غزل آپ لوگوں‌کی اور ہماری اردو کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔ امید ہے آپ کو بہت پسند آئے گی۔
    سبھی منتظر ہیں

    سبھی منتظر ہیں کہ آئے کوئی
    قیدِ دوراں سے ہم کو چھڑائے کوئی

    ہم ہیں محرومِ ذوقِ تماشا سبھی
    غیر کے آگے دھرتے ہیں کاسہ سبھی

    ہم کہ مجبور ہیں ، نارسا تو نہیں
    زخم گہرا سہی ، لادوا تو نہیں

    قید میں ہے زباں ، بے صدا تو نہیں
    قفس تاریک ہے ، بے صدا تو نہیں

    اِن ہواوں‌پہ تحریریں لکھ چھوڑءیے
    اپنی آہوں سے زنجیریں سب توڑئیے

    آندھیوں‌ کے گلے میں قبا ڈالئے
    خرمنِ بے بسی اب جلا ڈالئے

    خود سہارا بنیں‌ اپنا پھر بات ہے
    غیرتِ ہستی کی یہی سوغات ہے

    تیز رَو کارِ‌دنیا چلا جاتا ہے
    ہم پہ قرضِ‌زمانہ بڑھا جاتا ہے


    اظہار احمد​
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب اور واقعی انقلابی کلام ہے۔

    میں لفظ “ آہوں “ کی جگہ “جذبوں“ کو ترجیح دوں گا۔

    اِن ہواؤں‌ پہ تحریریں لکھ چھوڑئیے
    اپنے جذبوں سے زنجیریں سب توڑئیے

    کیونکہ آہیں بھرنا اور ٹسوے بہانا بےحوصلہ لوگوں کا کام ہے۔ جبکہ حوصلہ مند لوگ جذبہ سے سرشار ہوتے ہیں۔
     
  3. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    نعیم بھائی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔

    بہت خوب! افضال بھائی!
     
  4. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناوں


    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
    دہقان تو مرکھپ گیا اب کس کو جگاؤں
    ملتا ہے کہاں خوشہٰ گندم کہ جلاؤں
    شاہین کا ہے گنبدشاہی پہ بسیرا
    کنجشک فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں
    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

    ہر داڑھی میں تنکا ہے،ہر ایک آنکھ میں شہتیر
    مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
    توحید کی تلوارسے خالی ہیں نیامیں
    اب ذوق یقیں سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر
    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
    شاہیں کا جہاں آج گرگس کا جہاں ہے
    ملتی ہوئی ملاّ سے مجاہد کی اذاں ہے
    مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
    شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے
    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

    مرمر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے
    رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
    کہنے کو ہر اک شخص مسلمان ہے،لیکن
    دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

    بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
    مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
    جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈرہو
    وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

    پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے
    اس بندہ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے
    وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو!
    اک بار تھا ہم چھٹ گئے اس بارگراں سے
    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

    جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے
    اگتے ہیں تہ سایہٰ گل خار غضب کے
    یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
    اس کے تن خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

    محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
    جمہور سے سلطانی جمہور ڈرے ہے
    تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پر جو خودی کا
    مرمرکے جئے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے
    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

    دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر
    شمشیر و سناں رکھی ہیں طاقوں پہ سجا کر
    آتے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے
    تقدیر امم سو گئی طاوٰس پہ آ کر
    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

    مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
    اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
    قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو!
    اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

    کردار کا گفتار کا اعمال کا مومن
    قائل نہیں ایسے کسی جنجال کامومن
    سرحد کا ہے مومن کوئی بنگال کا مومن
    ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
    اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں​
     
  5. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    کبھی رحمتیں تھیں نازل

    میں یہ کس کے نام لکھّوں جو الم گزر رہے ہیں
    مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں

    کوئی غنچہ ہو کہ گُل ہو کوئی شاخ ہو شجر ہو
    وہ ہوائے گُلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

    کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطّہء زمیں پر
    وہی خطہء زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں

    وہی طائروں کے جھرمٹ جو ہَوا میں جھولتے تھے
    وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں

    بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
    سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

    کوئی اور تو نہیں ہے پس ِ خنجر آزمائی
    ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہیں​
     
  6. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اسے انقلابی شاعری کی بجائے مرثیہ نگاری کہنا چاہیئے

    اسے انقلابی شاعری کی بجائے مرثیہ نگاری کہنا چاہیئے کیونکہ اس میں افراداور قوم کی ناکامی کا رونا رویا گیا ہے۔
     
  7. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    عرفان بھائی آپ کی بات میں کچھ وزن تو لگتا ہے(بلکہ حب الوطنی کا عنصر بھی نظر آتا ہے کہ آپ شاید شکایت کی بجائے عمل پر توجہ دلانے والی کاوشوں کو دیکھنے کے خواہاں ہیں) مگر ہماری ناقص رائے میں مرثیہ ان پر کہا جاتا ہے جو گزر چکے ہوں اور ان پر رونے اور ان کی خوبیاں بیان کرنے کے سوا اب کوئی چارہ نہ ہو۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم بحیثیتِ قوم بالکل فنا ہو چکے ہیں‌ اور عبیداللہ علیم کا یہ کلام ہمارے مقبرے پر پڑھا جا رہا ہے تو پھر واقعی یہ مرثیہ ہو گا۔ بصورتِ دیگر،کسی انقلاب کے پیچھے جو احساسِ زیاں کار فرما ہو سکتا ہے اس احساس کو اجاگر کرنے والی (بلکہ اس کی طرف اشارہ تک کرنے والی) تمام کاوشوں کو انقلابی کہنا شاید اتنا غلط نہ ہو گا۔

    وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
    کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

    (یہ صرف ہماری رائے ہے، آپ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
     
  8. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    ہر آمر کے دماغ میں گونجنے والی خرافات

    میں نے اس سے یہ کہا
    یہ جو دس کروڑ ہیں
    جہل کا نچوڑ ہیں
    ان کی فکر سو گئی
    ہر امید کی کرن
    ظلمتوں میں کھو گئی
    یہ خبر درست ہے
    ان کی موت ہوگئی
    بے شعور لوگ ہیں
    زندگی کا روگ ہیں
    اور تیرے پاس ہے
    ان کے درد کی دوا

    میں نے اس سے یہ کہا
    تو خدا کا نور ہے
    عقل ہے شعور ہے
    قوم تیرے ساتھ ہے
    تیرے ہی وجود سے
    ملک کی نجات ہے
    ہے مہرِ صبح نو
    تیرے بعد رات ہے
    بولتے جو چند ہیں
    سب یہ شرپسند ہیں
    ان کا گھونٹ دے گلا

    میں نے اس سے یہ کہا
    جن کو تھا زباں پہ ناز
    چُپ ہیں وہ زباں دراز
    چین ہے سماج میں
    بے مثال فرق ہے
    کل میں اور آج میں
    اپنے خرچ پر ہیں قید
    لوگ تیرے راج میں
    آدمی ہے وہ بڑا
    در پہ جو رہے پڑا
    جو پناہ مانگ لے
    اُس کی بخش دے خطا

    میں نے اس سے یہ کہا
    ہر وزیر ہر سفیر
    بے نظیر ہے مشیر
    واہ کیا جواب ہے
    تیرے ذہن کی قسم
    خوب انتخاب ہے
    جاگتی ہے افسری
    قوم محوِ خواب ہے
    یہ ترا وزیر خاں
    دے رہا ہے جو بیاں
    پڑھ کے ان کو ہر کوئی
    کہہ رہا ہے مرحبا

    میں نے اس سے یہ کہا
    چین اپنا یار ہے
    اس پہ جاں نثار ہے
    پر وہاں ہے جو نظام
    اس طرف نہ جائیو
    اس کو دور سے سلام
    دس کروڑ یہ گدھے
    جن کا نام ہے عوام
    کیا بنیں گے حکمراں
    تُو ‘یقین‘ ہے یہ ‘گماں‘
    اپنی تو دعا ہے یہ
    صدر تو رہے سدا
    میں نے اس سے یہ کہا

    حبیب جالب​
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    حبیب جالب مرحوم نے جس وقت یہ کلام کہا تھا اس وقت ہم “دس کروڑ “ ہی ہوں گے۔
    لیکن ہماری اعلی قومی تعلیم یافتگی ، مستقبل بینی، دوراندیشی اور قومی بصیرت کے پیش نظر چند ہی برسوں میں ہم بےتحاشہ آبادی میں ترقی کرتے ہوئے سولہ کروڑ ہوچکے ہیں۔

    اس لیے حبیب جالب مرحوم کی روح سے عرض ہے کہ تصحیح کردیں۔شکریہ
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
    وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
    ہم دیکھیں گے
    جو لوحِ ازل پہ لکھا ہے
    ہم دیکھیں گے

    جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
    روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
    ہم محکوموں کے پاؤں تلے
    یہ دھرتی دھڑ دھڑ‌ دھڑکے گی
    اور اہلِ حطم کے سروں پر
    اک بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
    ہم دیکھیں گے
    لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

    جب ارضِ خدا کے کعبے سے
    سب بت اٹھوائے جائیں گے
    ہم اہلِ صفا ، مردودِ حرم
    مسند پہ بٹھائے جائیں گے
    سب تاج اچھالے جائیں گے
    سب تخت گرائے جائیں گے
    ہم دیکھیں گے
    لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

    بس نام رہے گا اللہ کا
    جو غائب بھی ہے حاضر بھی
    جو منظر بھی ہے ناظر بھی
    اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
    جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
    اور راج کرے گی خلقِ خدا
    جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

    ہم دیکھیں گے
    لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے


    (شاعر کا نام معلوم نہیں۔ اگر کسی کو معلوم ہوتو پلیز لکھ دیجئے۔ شکریہ )
     
  11. ہٹلر
    آف لائن

    ہٹلر ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اپریل 2008
    پیغامات:
    134
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    انشاءاللہ
    واہ واہ نعیم بھیا۔ نظم پڑھ کر جی خوش ہو گیا :a165:
     
  12. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    یہ فیض احمد فیض کا کلام ہے

    میں اس کو اس طرح لکھنا پسند کروں گا
    ارضِ خدا کے کعبے سے
    جب سب بت ہم اٹھوائیں گے
    ہم اہلِ صفا ، منظورِ حرم
    مسند پر منصف دیکھیں گے
    انقلاب کے رستے سے جیتیں گے
    شارٹ کٹ کوئی نیہں ماریں گے
    تخت یا تختہ کردیں گے
    ہم دیکھیں گے
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    احمد ندیم قاسمی کی ایک غزل ابھی ابھی کسی اور لڑی میں‌بھی پوسٹ کی ہے۔ لیکن مجھے لگا کہ یہ انقلابی لڑی اسکے لیے زیادہ موزوں ہے۔

    [center:27i578gc]اندھیری رات کو یہ معجزہ دکھائیں گے ہم
    چراغ اگر نہ جلا تو دل کو جلائیں گے ہم

    ہماری کوہ کنی کے ہیں مختلف معیار
    پہاڑ کاٹ کے رستے نئے بنائیں گے ہم

    جنونِ عشق پہ تنقید اپنا کام نہیں
    گلوں کو نوچ کے کیوں تتلیاں اڑائیں گے ہم

    بہت نڈھال ہیں سستا تو لیں گے پل دوپل
    الجھ گیا کہیں دامن تو کیوں چھڑائیں گے ہم

    اگر ہے موت میں کچھ لطف تو بس اتنا ہے
    کہ اسکے بعد خدا کا سراغ پائیں گےہم

    ہمیں تو قبر بھی تنہا نہ کرسکے گی ندیم
    کہ ہرطرف سے زمیں کو قریب پائیں گےہم


    (احمد ندیم قاسمی)[/center:27i578gc]
     
  14. وجدان
    آف لائن

    وجدان ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2008
    پیغامات:
    131
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    [dropshadow=blue:296q6r9y]
    چلو ساری زمیں کھودیں
    اور اس میں اپنے دل بو دیں
    کریں‌سیراب اسکو آرزووں کے پسینے سے
    کہ اس بے رنگ جینے سے
    نا میں‌خوش ہوں
    نا تم خوش ہو
    نا ہم خوش ہیں۔​
    [/dropshadow:296q6r9y]
     
  15. وجدان
    آف لائن

    وجدان ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2008
    پیغامات:
    131
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    نہ ڈرو کہ ضرورت پڑی
    تو ہم دیں گے
    جگر کا خون
    چراغوں میں جلانے کے لئے

    پاکستان زندہ باد
     
  16. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    بہت خوب!!! اللہ تعالی ہمیں توفیق دے۔ جیسے کسی نے کہا تھا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ یہ ملک کیسے چلے گا، مجھے یہ فکر ہے کہ کہیں ایسے ہی نہ چلتا رہے۔
     
  17. وجدان
    آف لائن

    وجدان ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2008
    پیغامات:
    131
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    بھائ جی اللہ تعا لٰی وہی دیتا ہے جو انسان مانگتا ہے اسلئے ہمیں‌ہمیشہ خیر اور بھلائی کی توقع کرنی چاہئے، اور جہاں تک اس ملک کی بات ہے، تو یہ ملک کوئی نہیں صرف اللہ رب العزت چلا رہے ہیں اپنی رحمت سے اور جو کچھ یہاں‌ہو رہا ہے یہ سب ہمارے اپنے اعمال اور نا شکری کا نتیجہ ہے۔

    حالات کے قدموں میں
    قلندر نہیں‌گرتا
    ٹوٹے جو ستارہ تو
    زمیں پر نہیں گرتا
    گرتے ہیں‌بڑے شوق سے
    سمندر میں‌دریا
    لیکن کسی دریا میں سمندر
    نہیں گرتا


    :titli: :titli: :titli: :titli: :titli: :titli:
     
  18. لاحاصل
    آف لائن

    لاحاصل ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2006
    پیغامات:
    2,943
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    اچھی بات کہی
    شاعری بھی اچھی ہے :a165:
     
  19. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    بہت خوبصورت بات کہی، وجدان بھائی۔ بے شک، حالات کے قدموں میں قلندر نہیں گرتا۔
     
  20. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    حسن مجتبییٰ کے بلاگ سے ماخوذ

    کچھ شاعر جیتے جی عظیم ہوتے ہیں۔ انکی شاعری لوک شاعری بن جاتی ہے۔ احمد فراز بھی عہد حاضر کے ایک ایسے شاعر ہیں۔ میں جب ٹین ایج میں تھا تو انکی ایک نظم "اسمگل" ہوکر پاکستان کے کونے کھدرے میں خوشبو کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ پاکستان پر ضیاءالحق سوار تھے اور فراز کی اس نظم کو کوئی 'پیشہ ور قاتلوں سے خطاب' کا عنوان دیتا تھا تو کوئی کچھ اور۔

    احمد فراز مرحوم کی اس احتجاجی یا باغیانہ نظم کے کچھ بند اسطرح ہیں:

    میں نے اکثر تمہارے قصیدے لکھے
    اور آج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں
    پابہ زنجیر یاروں سے نادم ہوں میں
    اپنے گیتوں کی عظمت سے شرمندہ ہوں
    سرحدوں نے کبھی جب پکارا تمہیں
    آنسووں سے تمہیں الوداعیں کہیں
    تم ظفرمند تو خير کیا لوٹتے
    ہار کر بھی نہ جی سے اتارا تمہیں
    جس جلال و رعونت سے وارد ہوئے
    کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے
    تیغ در دست وکف در دہاں آئے تھے
    طوق در گردنوں پابہ جولاں گئے
    سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے
    جنکا خوں منہ کو ملنے کو تم آئے تھے
    مامتائوں کی تقدیس کو لوٹنے
    یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے
    انکی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
    انکی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے
    جیسے برطانوی راج میں ڈوگرے
    جیسے سفاک گورے تھے ویتنام میں
    تم بھی ان سے ذرا مختلف تو نہیں
    حق پرستوں پہ الزام انکے بھی تھے
    وحشیوں سے چلن عام انکے بھی تھے
    رائفلیں وردیاں نام انکے بھی تھے
    آج سرحد سے پنجاب و مہران تک
    تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو
    اتنی غارتگری کس کے ایما پر ہے
    کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو
    کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے
    کس کے آگے ہو تم سرنگوں غازیو
    آج شاعر پہ ہی قرض مٹی کا ہے
    اب قلم ميں لہو ہے سیاہی نہیں۔
    آج تم آئینہ ہو میرے سامنے
    پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں- '
     
    ساتواں انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    بہت خوب۔
     
  22. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    فیض کا انقلابی کلام پیش ہے


    یہ گلیوں کے آوارہ بےکار کُتے
    کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی

    زمانے کی پھٹکار سرمایہ اُن کا
    جہاں بھر کی دھتکار ، ان کی کمائی

    نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
    غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے

    جو بِگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو
    ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو

    یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
    یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے

    یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
    تو انسان سب سرکشی بھول جائے

    یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
    یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں

    کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے
    کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے

    ۔۔۔ فیض احمد فیض ۔۔۔
     
  23. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
  24. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    واہ بہت خوب منّے۔ :a165:
     
  25. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
  26. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ ۔ بہت خوب طنزیہ کلام ہے۔
    کاش ہم بطور قوم اپنی اہمیت و وقعت کا احساس کرلیں۔
     
  27. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    نیا سال اچھا ہے

    ا ک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
    نئے وعدوں کا جو ڈالا ہے وہ جال اچھا ہے

    ظلم کی رات بہت جلد ڈھلے گی
    آگ چولہوں میں ہر ا ک روز جلے گی

    بھوک کے مارے کوئی بچہ نہیں روئے گا
    چین کی نیند ہر ا ک شخص یہاں سوئے گا

    آندھی نفرت کی چلے گی نہ کہیں اب کے برس
    پیار کی فصل اگائے گی زمیں اب کے برس

    ہے یقیں اب نہ کوئی شور شرابہ ہو گا
    ظلم ہو گا نہ کہیں ، خون خرابہ ہو گا

    اوس اور دھوپ کے صدمے نہ سہے گا
    کوئی اب میرے دیس میں بے گھر نہ رہے گا

    را ہنماؤں نے کہا ہے کہ یہ سال اچھاہے
    دل کے بہلانے کوغالب یہ خیال اچھاہے


    شاعر : صابر دت​
     
  28. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    اچھا کلام ھے
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    یہ ڈھونگ اہل سیاست رچائے رکھیں گے
    "گھروں* میں آگ ہمارے لگائے رکھیں گے

    کبھی تو مرتبہ سچ کا بھی جان لیں گے لوگ
    لبوں پہ جھوٹ کو کب تک سجائے رکھیں گے

    جو آگ اہل سیاست لگا رہے ہیں بھلا
    "گھروں* کو اپنے وہ کب تک بچائے رکھیں گے

    اسی سے ہم نے سنواری ہے زندگی اپنی
    تمھارے درد کو دل سے لگائے رکھیں گے

    کسی کی یاد میں سلوک دنیا کا
    بھلائے رکھا ہے ہم بھلائے رکھیں گے

    نڈھال ہوکے بھی رنج و الم سے [highlight=#FFFFFF:3akro8a4]اے فرح[/highlight:3akro8a4]
    خوشی کے ہاتھ میں پرچم اٹھائے رکھیں گے
     
  30. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    اچھی شاعری ھے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں