1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اندھے قتل!

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از m aslam oad, ‏5 فروری 2011۔

  1. m aslam oad
    آف لائن

    m aslam oad ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2010
    پیغامات:
    224
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    ریمنڈ ڈیوس کے متعلق بہت سی کہانیاں گردش میں ہیں مگر میری ایک ہی کہانی ہے، وہ کہانی انگریزی ادب جسے tragedy کہتا اور اردو ادب جسے المیہ قرار دیتا ہے۔ وہ جو صدیوں سے ہمارے لئے دیوار گریہ بن چکی اور جس نے ہماری ہڈیوں سے ہمت اور حمیت چوس لی۔ وہ کہ جس نے ہماری مردانگی کو چوڑیاں پہنا دیں اور وہ کہ جسے ہماری کم ہمتی، کم کوشی اور کج فہمی نے اور زیادہ تاریک اور کہیں زیادہ دراز کر دیا ہے۔ سوچتا ہوں تو دماغ مائوف ہونے لگتا اور دل میں دھماکے گونجنے لگتے ہیں۔کم مائیگی کا احساس زہر بجھی آری کی طرح مجھے کاٹتا ہے تو تاریخ ہتھوڑوں کی طرح مجھ پر برسنے لگتی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی کہانی دراز ہو سکتی ہے مگر میری کہانی نہیں کہ میں خود کہوں تو میری داستاں دراز نہیں، قرآن نے جس کی تفصیلات دیں، حدیث نے جس کو آشکار کیا اور اک شاعر و فلسفی نے جسے دو مصرعوں میں یوں سمیٹ دیا…؎
    تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
    ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
    میں اپنی کمین گاہ سے پتھر پھینکوں تو وہ مزنگ چونگی میں جا گرے۔ جی ہاں اے قارئین! اسی معروف چونگی اور اسی مصروف چورا ہے پر میرا سکون، میری غیرت، میرا رعب اور میری قیمتی ترین متاع حیات لٹ گئی۔ فیضان حیدر اور فہیم دو نوجوانانِ رعنا، لاہور کے زندہ دلان، تندرست و توانا، خوش و خرم، اپنی بائیک کی ریس کو اپنے خون کی گردش سے ہم آہنگ کرتے یہی رواں تھے۔ اپنے گھر کے پاس، اپنے شہر میں، اپنی ہی گزر گاہ، پہ … مگر وہ کہ اپنے ہی گھر میں غیروں سے لٹ جانا جن کا مقدر تھا اور اپنے ہی چوراہے پہ ایک امریکی کے ہاتھوں خون ہو کے جذب ہو جانا جن کی قسمت تھا۔
    بہانے بہت ہیں اور قصے بے شمار مگر تلخ حقیقت صرف ایک ہے کہ وہ پاکستانی تھے، ان کی پشت پہ سات گولیاں برسائی گئیں۔ اسلحہ ممنوعہ بور کا تھا اور خون پاکستانیوں کا۔ گورا ریمنڈ ڈیوس تھا یا یہ نام جعلی تھا مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ پاکستانی نہ تھا امریکی تھا، امریکی تھا سو قتل کے بعد بھی کسی عجلت میں نہ تھا۔ گاڑی سے نکل کے اس نے گولیاں برسائیں اور پھر وائر لیس پہ اپنے لئے امریکی کمک طلب کی اور خود گرتے لاشوں کی ویڈیو بنانے میں مصروف ہو گیا۔ آنے والی گاڑی نے یہاں کھڑے اک اور نوجوان عباد الرحمن کے گوشت کا قیمہ اور ہڈیوں کا سرمہ بنا ڈالا اور اب امریکہ ان قاتلوں کی پشت پہ کھڑا ہے۔
    اخبارات کے مطابق یہ تین لاشیں مزنگ چونگی میں گریں مگر مجھے محسوس ہوتا ہے یہ لاشیں سڑک پر نہیں کہیں میرے وجود میں آگری ہیں۔ ایک اذیت بن کے میرے احساس سے چپک گئی ہیں اور ان لاشوں نے یکدم میرے سر سے سائبان اور میرے پائوں سے زمین کھینچ لی ہے۔ ہونا ہی تھا تو کاش یہ واقعہ واشنگٹن کے کسی چوک یا نیو یارک کے کسی چوراہے میں ہوا ہوتا، یوں ہوتا تو مجھ کو گھر میں لٹنے کا احساس تو نہ ہوتا۔ یہ لاشیں کیا گریں میرے اردگرد کے بے شمار حصار گر گئے۔ میرا خیال تھا میں پاکستان کی سرحد میں رہتے ہوئے حکمرانوں کی زد پہ تو ہوں مگر کسی امریکی وبھارتی درندے سے بہرحال محفوظ ہوں۔ میرا خیال تھا آئی ایس آئی، ایف بی آئی اور ایم آئی سمیت بے شمار دفاعی ایجنسیوں نے میرے گرد غیر ملکیوں سے حصار کھینچ رکھا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ اندھا بجٹ کھا جانے والی یہ بے شمار دیواریں میرے گرد ہیں۔ میرا خیال تھا کہ صابن کی ٹکیہ سے لے کر ننھی سوئی تک پر ٹیکس دے دے کر میں نے جو حکومت پال رکھی ہے، وہ اور نہیں تو غیروں سے تو میری حفاظت کر رہی ہے۔ مجھے تسلی تھی کہ شریف و زردار اور گیلانی و کیانی اس لئے حکمران ہیں کہ میں اپنی کسی مزنگ و قرطبہ چونگی یا کسی مال وہال روڈ پر جا کر زندہ سلامت گھر آ سکوں… مگر مزنگ چونگی میں گرتی ان لاشوں نے میرے سارے یقین گرا دیئے اور میرے ان نظریات کی بنیاد ہلا ڈالی ہے۔ ان لاشوں نے مجھے بتایا کہ میرے ان خیالات کا طلسم صرف کسی امریکی کے اسلحہ لہرانے تک قائم رہ سکتا ہے۔ یوں اب میری نفسیات میں دراڑیں آ گئی ہیں۔ میں کہ ایک پاکستانی ہوں، میرے دماغ میں امریکی گولیاں پھنس گئی ہیں اور تین لاشوں سے بہتا لہو میرے دماغ کی حساس تاروں میں آ کے جم گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے ہی کسی چوک، چوراہے یا گلی میں کسی بھی وقت کسی امریکی کے ہاتھوں مارا جائوں گا۔ مجھے مرنے سے ڈر نہیں لگتا، جب مرنا ہی ہے تو پھر مجھے اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ وہ گولی کسی امریکی کی ہے یا بھارتی کی، مگر اپنی ہی سرزمیں پر کسی امریکی سے مرنے کا سوچ کے ہی میرے دل کا غبارہ پھٹنے لگتا ہے۔
    اے میرے سپہ سالارو! وہ بلیک واٹر کا کارندہ ہے یا سی آئی اے کے ایجنٹوں پر مشتمل قانون کی دھجیاں بکھیرتے سفارتخانے کا نمائندہ، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں، حکمرانو! یہ سوال آپ سفارتخانے سے کیجئے، امریکہ سے کیجئے، آپ سوال کیجئے کہ 20 جنوری کو جس ریمنڈ ڈیوس کے متعلق ہماری وزارت خارجہ کو لیٹر موصول ہوا کہ اسے غیر سفارتی کارڈ جاری کر دیا جائے، وہ دو قتل کرتے ہی یکدم سفارتکار کیسے بن گیا؟ کیا امریکی سفارت کاری کے لئے واحد اہلیت قاتل ہونا ہے؟ پوچھیے، وہ جو ایک سوشل سکیورٹی ورکر ہے اور امریکہ میں جس کا سکیورٹی نمبر 277-29-2744 ہے، ایک لاکھ پچھتر ہزار ڈالر سالانہ کے عوض جس سے امریکیوں کا ایگریمنٹ ہوا ہے۔ جو افغانستان کے بعد اسلام آباد، پشاور اور لاہور میں خفیہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا، قتل کرتے ہی یکدم وہ سفارتکار کیسے بن گیا ہے؟ ریمنڈ ڈیوس سے پوچھیے کہ اس نے یہ کیسے ڈاکو مارے جو مصروف ترین سڑک پر خالی ہاتھوں اس سے گاڑی چھین رہے تھے اور یہ کیسے ڈاکو تھے جو چھینی جانے والی گاڑی کی طرف پشت کر کے کھڑے تھے۔ امریکیوں سے پوچھیے کہ اپنے دفاع میں تمہارے بقول صرف اسلحہ اٹھانے والی عافیہ کی سزا اگر 86 سال کی قید ہے تو تین لاشے گرانے والے کو چھوڑ دینے کا دبائو کیوں؟ حکمرانو! ہمیں ان سوالوں سے کوئی غرض نہیں، یہ آپ پوچھیے کہ آپ کی ذمہ داری ہے مگر اس ماں کو جواب دیجیئے جس کی کائنات لٹ گئی اور جو سادہ مگر درد میں ڈوبے لہجے میں صرف ایک سوال کرتی ہے کہ مجھے صرف اتنا بتا دو کہ جس ماں کا جوان بیٹا یوں لٹ جائے وہ زندہ کیسے رہتی ہے؟ وہ پوچھتی ہے کہ کیا ہمارا گناہ صرف یہ ہے کہ ہم امریکی نہیں پاکستانی ہیں۔ وہ پوچھتی ہے کہ کیا امریکہ اس لئے سب کچھ ہے کہ اس کے پاس پیسے ہیں اور کیا ہم اس لئے کچھ بھی نہیں کہ ہم غریب ہیں۔ حکمرانو! فیضان کی والدہ پروین اختر تم سے سوال کرتی ہے۔ دل کی مریضہ تم سے پوچھتی ہے اور ہر پاکستانی سراپا سوال ہے۔
    اور اے شریفو اور شہبازو! خدا کے لئے ہماری غیرت پہ کوڑے مت برسایئے، ہمیں مت بتایئے کہ پاکستانیوں کا خون ارزاں نہیں۔ تم لوگوں کے جذبوں کی تمازت اور حب الوطنی کی آنچ اپنی جگہ مگر ہمیں بتائو ایمل کانسی کو امریکہ کے حوالے کس نے کیا؟ کیا وہ پاکستانی نہیں تھا ڈاکٹر عافیہ پاکستانی نہیں تھی؟ ڈرون حملوں کی نت نئی خوراک بنتے لوگوں کا لہو پاکستانی نہیں ہے؟ اللہ کی قسم! تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا خون ارزاں ہو گیا، پانی سے سستا اور خاک سے زیادہ بے وقار ہو گیا اور اللہ کی قسم تم جیسے حکمرانوں اور اندھے نگہبانوں کی وجہ سے ارزاں ہو گیا۔ پاکستان کی سڑکوں پہ بہتے لہو کو تم لوگوں نے ارزاں کیا۔ڈالر کی چمک، پیٹ کے گہرے کنویں اور منصب و لالچ کی اندھی ہوس نے ارزاں کیا۔ یہ ارزاں نہ تھا، یہ خون مسلم تھا اور اس سے بیش قیمت خون کوئی نہ تھا۔ یہ وہ خون تھا کہ جو زمین پہ گرتا تو سارے گناہوں کو دھوکر گرتا، یہ جسم پہ جمتا تو کستوری بن جاتا، غضب کی گھڑی محشر میں اسے میرا مولا دیکھتا تو مسکرا اٹھتا، یہ خون سرحدوں پہ گرتا تو کسی ماں کی ردا، کسی دوشیزہ کا حیا اور میری قوم کی بقا بن جاتا، تمہاری حکمرانی کے باعث مگر…ع
    خون خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
    آج پاکستانیوں کی آنکھ میں اشک ہیں، دل پہ زلزلے ہیں اور لبوں پہ سسکاریاں ہیں، وہ شرمندہ ہیں کہ انہوں نے تم جیسے حکمران چنے، بے حمیت، بے وقار اور بے بس حکمران۔ امریکہ سے ڈرنے اور ڈالر پہ بکنے والے حکمران! کاش تم سیکھتے اور جانتے کہ تم کس غیرت مند لڑی اور کس جرأت وجہاد رکھنے والی نسل کا تسلسل ہو۔
    محمد کریم کے ماننے والے ہو… ربیع الاول میں جس کی سیرت پہ چلنے کا عوام کو درس دیتے ہو اور خود امریکہ سے ڈرتے ہو…
    کون سے رسول؟… بدر میں مفلسوں اور نہتوں کو وقت کی فوت کے مقابل لاکھڑے کرنے والے رسول، احد میں دانت مبارک شہید کروا کے اغیار کے تسلط کو پاش پاش کرنے والے رسول… احزاب میں پیٹ پہ پتھرباندھ کر اتحادیوں کے مقابل ڈٹ جانے والے رسول… اور پھر صدیق اکبر کے جانشیں… وہ مرد مجاہد کہ ایک طرف دلوں پہ وفات رسول کا کوہ گراں تھا تو دوسری طرف سلطنت بغاوت کا شکار مگر اس لمحے بھی لشکر اسامہ کو دشمن کی راہیں دکھانے والے یہ مردِ باکمال صدیق تھے اور تم اس کے جانشین… اور عثمانؓ کے کہ جنہوں نے اپنا خوں بہا کر رعایا کے خون کی قیمت آشکار کی… جناب علیؓ کے، جن کے خیبر شکن واقعات آج بھی جرأت وجہاد کا استعارہ ہیں۔ اور جناب عمرؓ کے… میری جان اس پر فدا میری روح اس پر نثار، وہ میرے اشکوں کی نمکینی اور میرے خون کی رنگینی کے حقدار عمر، غیرت مند اور جرأت مند عمر کہ جس نے سکھایا ایک مسلمان ریاست کو غیر ملکیوں سے کیسے سلوک کرنا چاہئے، جس نے سکھایا یہودیوں اور عیسائیوں کی ایک مسلمان کے مقابل کیا حیثیت ہے۔
    اس وقت میرے سامنے تاریخ دمشق میں موجود وہ شرائط ہیں جو غیرملکیوں نے حضرت عمر کو پیش کیں۔ نہایت لجاجت اور عاجزی سے پیش کیں۔ اس لئے پیش کیں کہ وہ جانتے تھے یہ پاکستان کا، وہن کا شکار کوئی حکمران نہیں، یہ عمر ہے، غیرت مند اور جذبہ جہاد سے سرشار عمر، اپنوں کے خون کی تقدیس سے آشنا عمر…
    عبدالرحمن بن غنم راوی ہیں، وہ عیسائیوں کی طرف معاہدہ لے کر حضرت عمر کی خدمت میں پیش ہوئے۔ شرائط یہ تھیں، ہم تم سے امان چاہتے ہیں، اپنی جانوں کی، اپنی اولادوں کی اور اپنے غلاموں کی امان… ہم قبول کرتے ہیں کہ شہروں یا اس کے مضافات میں کوئی گرجا، کوئی کنسیہ کوئی چرچ یا کسی پوپ پادری کا امتیازی شان و شکت والا گھر تعمیر نہیں کریں گے…
    ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جو بوسیدہ ہو جائیں، پرانے ہو جائیں ان گرجوں کی تعمیر و مرمت نہیں کریں گے۔ مسلمان جب بھی گرجا گھروں میں آنا چاہیں، وہ دن ہو یا رات …آئیں ہم ان کا استقبال کریں گے، ہم ان کی تین دن تک مہمان نوازی کریں گے، کوئی راہ پوچھے تو منزل کا رستہ بتائیں گے۔ ہم دن رات اپنے دروازے مسلمانوں کے لئے کھلے رکھیں گے۔ ہم انہیں پناہ دیں گے۔ گرجا گھروں میں ناقوس اور گھنٹیاں باآواز بلند نہ بجائیں گے۔ شرک ظاہر نہ کریں گے، نہ اس کی تبلیغ کریں گے۔ نہ کسی عزیز رشتے دار کو اسلام میں داخل ہونے سے روکیں گے۔ مسلمانوں کا لباس، ان کا شعار اختیار نہ کریں گے۔ ان جیسے جوتے اور ان جیسی پگڑیاں نہ پہنیں گے، اس جیسی مانگ نہیں نکالیں گے، ان جیسی کنیت اور نام نہیں رکھیں گے۔ ان کا طرز کلام نہیں اپنائیں گے۔ تلواریں نہیں لٹکائیں گے، گھوڑے کی پشت پہ زین کس کے نہیں بیٹھیں گے، اسلحہ نہیں بنائیں گے، گلیوں کوچوں میں دندناتے نہیں پھریں گے، انگوٹھیوں پر عربی نقش نہیں بنوائیں گے، شراب نہیں بنائیں گے، صلیب نہ گرجا گھروں پر لٹکائیں گے اور نہ مسلمانوں کے راستوں میں ظاہر کریں گے، اپنی مذہبی کتابیں نہ مسلمانوں کی راہ میں لائیں گے نہ بلند آواز سے ان کی تلاوت کریں گے، قبروںکے مجاور نہیں بنیں گے اور میتوں کے ساتھ آگ لے کر نہیں چلیں گے…
    حضرت عمر نے تمام شرائط پڑھیں اور خون مسلم کے تقدس سے آشنا اور اس کی قیمت کے شناسا عمر نے اضافہ کیا… ’’اور نہ تم لوگ کسی مسلمان کی جان لو گے،،
    یہ عمر تھے، یہ میرا ماضی تھا، یہ میری تاریخ تھی اور یہ میری ہمت اور حمیت تھی اور پھر خلیفہ نے امان دے دی… حکمرانوں کی، ریمنڈڈیوس کی، امریکہ کی اور دنیا کی کہانی دراز ہو سکتی ہے مگر میری کہانی، میری داستاں دراز نہیں، میری کہانی بس اتنی ہے کہ… میری غیرت مجھ سے کھو گئی میرا عمر، میرا حکمران نہیں رہا…ع
    ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات


    بشکریہ۔۔۔۔۔۔۔ ہفت روزہ جرار
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اندھے قتل!

    کاش ہم اپنے سچے راہنماؤں کے بنائے ہوئے اصول اپنا لیں تو کوئی مسئلہ ہی کھڑا نہ ہو
     
  3. m aslam oad
    آف لائن

    m aslam oad ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2010
    پیغامات:
    224
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    جواب: اندھے قتل!

    بے شک ،
     
  4. رزاق چشتی
    آف لائن

    رزاق چشتی ممبر

    شمولیت:
    ‏3 نومبر 2012
    پیغامات:
    21
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اندھے قتل!

    میرے وطن کے اُداس لوگو، نہ خود کو اتنا حقیر سمجھو
     
  5. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اندھے قتل!

    بہت خوب جناب
     

اس صفحے کو مشتہر کریں