1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

انا کی قربانی

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد اجمل خان, ‏3 اگست 2020۔

  1. محمد اجمل خان
    آف لائن

    محمد اجمل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اکتوبر 2014
    پیغامات:
    209
    موصول پسندیدگیاں:
    181
    ملک کا جھنڈا:
    انا کی قربانی

    ملک کے صدر بننے کے بعد ایک دن میں نے اپنے چند ساتھیوں سے کہا: ’’چلو! آج شہر دیکھتے ہیں، تقریباً 27 سال قید خانے میں گزارنے کے بعد آج اپنی آنکھوں سے اپنا شہر دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔

    اپنے ساتھیوں کے ساتھ شہر کی مختلف گلیوں میں چلتے چلتے جب ہمیں بھوک ستانے لگی، تو جوں ہی ایک ریسٹورینٹ نظر آیا، میں نے ساتھیوں سے کہا: ’’آؤ یہاں کھانا کھاتے ہیں‘‘۔
    وہ سب حیرانی سے بولے: ’’سر، آپ ان گلیوں کی ریسٹورینٹ سے کھانا کھائیں گے‘‘۔
    میں نے کہا: ’’حیرت کی کوئی بات نہیں! مجھے بھوک لگی ہے۔ میں تو کھاؤں گا۔ طویل عرصے تک جیل میں بدترین کھانا کھانے کے بعد اب ان گلیوں کا کھانا میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا‘‘۔

    اور ہم دو ٹیبل کو جوڑ کر کھانے کے لئے بیٹھ گئے۔
    ہم سے تھوڑے فاصلے پر ایک دوسرے ٹیبل پر ایک عمر رسیدہ آدمی بیٹھا ہوا نظر آیا۔
    تو میں نے ویٹر سے کہا: ’’اسے میرے ٹیبل پر کھانا کھانے کیلئے بلاؤ اور اس کیلئے میرے برابر میں ایک کرسی رکھو‘‘۔
    وہ عمر رسیدہ شخص آکر میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
    ہم کھاتے ہوئے اپنے شہر کی تبدیلی اور اس کی ترقی کے متعلق باتیں کرتے جارہے تھے کہ ہم سبھوں نے نوٹ کیا کہ میرے ساتھ بیٹھا وہ آدمی ٹھیک سے کھا نہیں پا رہا تھا۔ اسے پسینہ چھوٹ رہا تھا اور اس کا ہاتھ اس بری طرح کانپ رہا ہے کہ جب وہ کھانا منہ تک لے جا جاتا تو کھانا پلیٹ میں ہی گر جاتا۔
    ہمارے ایک ساتھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:’’ آپ بیمار لگ رہے ہیں‘‘۔
    لیکن وہ شخص خاموش رہا، کچھ نہیں کہا۔
    پھر میں نے اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا کھلایا، پانی پلایا اور اس کا منہ صاف کیا۔
    میں نے ویٹر سے کہا: ’’کھانے کا بل لے آؤ‘‘۔
    اب وہ شخص ہمیں الوداع کہہ کر جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن اس کے جسم میں کپکپاہٹ طاری تھی اور کھڑا نہیں ہو پا رہا تھا۔ لہذا میں نے اپنے ہاتھوں سے کھڑے ہونے میں اس کی مدد کی اور اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ وہ اسے دروازے تک چھوڑ آئے۔
    جب وہ ہوٹل سے باہر جا رہا تھا تو میرے ایک ساتھی نے کہا: ’’یہ آدمی تو شدید بیمار ہے، ایسی حالت میں وہ گھر تک کیونکر پہنچ پائے گا‘‘۔
    لہذا میں نے انہیں بتایا کہ : ’’وہ بیمار نہیں ہے۔ وہ اس سیل کا انچارج تھا جہاں مجھے قید کیا گیا تھا۔ قید خانے میں مجھے مارپیٹ کرنا، اذیت دینا اور مجھ پر تشدد کرنا اس کے فرائض میں تھے۔ جب کبھی شدید مار پیٹ اور تشدد کے بعد مجھے بری طرح پیاس لگتی اور میں پانی کے لئے چیختا تو وہ میرے منہ اور جسم پر پیشاب کر دیتا‘‘۔
    آج جب میں اس ملک کا ایک طاقت ور صدر بننے کے بعد اسے اچانک دیکھا اور اسے اپنے ٹیبل پر بلایا تو اپنے اُن دنوں کی باتوں کو یاد کر کے وہ ڈر گیا اور اسے اتنی شدید خوف لاحق ہوئی کہ اس کا سارا جسم کانپنے لگا۔
    لیکن اقتدار میں آکر بے اختیار لوگوں کو سزا دینا میرے نظریہ کے خلاف ہے، یہ میری زندگی کے اخلاقیات کا حصہ نہیں ہے۔
    لہذا سزا دینے کی بجائے میں نے اسے پیار دیا۔
    جب وہ طاقت میں تھا تو وہ میرے منہ پر پیشاب کرتا تھا۔
    آج میں طاقت میں آکر اپنے ہاتھ سے اس کے منہ میں کھانا ڈال دیا۔
    وہ میرا چہرہ گندہ کرتا تھا، آج میں نے اس کے منہ کو اپنے ہاتھوں سے صاف کیا۔
    میں جیسا آپ کا صدر ہوں اسی طرح اس کا بھی صدر ہیں۔ ہر شہری کا احترام کرنا میرا اخلاقی فرض ہے۔
    یاد رکھو! انتقام ریاست کو تباہ کرتی ہے جبکہ عفو و درگزر ریاست کی تعمیر کرتی ہے۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے شاید صدر زرداری کی بات کی ہے۔
    نہیں جناب پاکستان کی ایسی قسمت کہاں جو اسے ایسی سوچ رکھنے والا صدر ملے۔
    یہ تھے جنوبی افریقہ کے صدر آنجہانی نیلسن منڈیلا (Nelson Mandela)۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    افسوس کہ آج ہم مسلمانوں میں ایسی سوچ کم ہی پائی جاتی ہے جبکہ ہمارے آقا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں اعتدال، رواداری اور عدم تشدد کی اعلیٰ ترین عملی مثالیں قائم کی ہیں۔

    تاریخ انسانی میں فتح مکہ انسانی رواداری، صبر وتحمل، برداشت اور وسیع القلبی کی وہ لازوال اور عدیم النظیر روشن مثال ہے جس کا عشر عشیر بھی تاریخ عالم کے معلّمین اخلاق کی عملی زندگی میں نظر نہیں آتا۔ اس دن مکہ کے تمام ظالم و جابر کفار و مشرکین سامنے بے بس اورگردن جھکائے کھڑے تھے۔ وہ سب تھر تھر کانپ رہے تھے۔ ان کو اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی۔ آج ربّ کائنات نے ان تمام کو پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں دے دیا تھا۔ چاہتے تو چشم زدن میں سب کی گردنیں کٹواکر سابقہ ظلموں کا بدلہ لے لیتے۔


    اس حالت میں پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز اُٹھتی ہے: ”تمہیں معلوم ہے میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟“
    سب نے جواب میں کہا: ”آپ کریم بھائی کے کریم بیٹے ہیں اور ہم آپ کی طرف سے رحم واحسان کے امیدوار ہیں‘‘۔
    پھر کیاتھا؟ دریائے رحمت اُمنڈ آیا اور اہل مکہ کی ظلموں بھری تاریخ کو بہا کر لے گیا۔
    فرمایا: لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ ۔ اِذْہَبُوْا فَاَنْتُمْ الطُّلَقَآءُ ۔ ۔ ۔ ”آج تم پر کوئی مواخذہ نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو“۔


    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات ہمارے لئے اور پوری دنیا کیلئے کامل نمونہ ہے۔

    لیکن افسوس کہ آج ہم مسلمان ہی آپ ﷺ کی تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے ہیں، دوسروں کو کیا سمجھائیں گے۔
    ہم میں عفو و درگزر، صبر وتحمل اور برداشت و رواداری کا فقدان ہے۔ آج ہم اپنوں کو بھی معاف کرنے کو تیار نہیں۔

    ابھی عشرہ ذی الحجہ کے دن گزر رہے ہیں۔ سب لوگ جانوروں کی قربانی دینے کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ 10 ذی الحجہ کو ہم سب مسلمان جانوروں کی قربانی دیں گے۔

    لیکن اس کے ساتھ ہی اگر ہم سب اپنی انا کی بھی قربانی دیں، اپنے دلوں کو پاک و صاف کریں، ہمیں کوئی کتنے بڑے دکھ ہی کیوں نا پہنچائیں ہوں ہم ان دنوں میں انہیں معاف کرکے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ کریں تو اس طرح ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی سنت کو زندہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آقا محمد ﷺ کی عفو و درگزر کی سنت کو بھی زندہ کر سکیں گے۔

    اللہ تعالٰی ہمارے دلوں سے اَنا و عِناد کو ختم فرما دے، ہمارے دلوں کو پاک و صاف کر دے اور ہمارے دلوں میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا فرما دے۔ آمین
    تحریر: #محمد_اجمل_خان
     

اس صفحے کو مشتہر کریں