1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امیرالمؤمنین فی الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏25 ستمبر 2020۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    امیرالمؤمنین فی الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ کی رحلت



    الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

    شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا نور اللہ مرقدہٗ کے خلیفہ مجاز، تلمیذ رشید وعلمی جانشین، جامعہ مظاہر علوم سہارن پور کے فاضل وشیخ الحدیث، علمائے کرام وشیوخ عظام کے مرجع، کثیر المطالعہ محدث، نابغہ روزگار شخصیت، قلندرانہ صفت کے حامل پندرہویں صدی کے امیرالمؤمنین فی الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ اسی برس اس عالم دنیا میں رہ کر عالم عقبیٰ کے سفر پر روانہ ہوگئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہٗ ماأعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔

    حضور اکرم کا ارشاد ہے:
    ’’ماتزول قدما عبد حتی یسئل عن أربع : عن عمرہٖ فیما أفناہ، عن شبابہٖ فیما أبلاہ، عن مالہٖ من أین اکتسبہٗ وفیما أنفقہٗ، عن علمہٖ ماذا عمل فیہ۔‘‘
    (شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث:۱۶۴۷)

    ترجمہ: ’’بندے کے قدم اپنی جگہ پر ہی رہیں گے یہاں تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے، اس کی عمر کے بارے میں کہ کس مشغلہ میں گزاری؟ اس کی جوانی کے بارے میں کہ کس کام میں صرف کی؟ اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا؟ اور علم کے بارے کہ اس پر عمل کتنا کیا؟ ۔‘‘ اس حدیث کی روشنی میں جہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عام لوگوں کے لیے آخرت میں ان چار سوالوں کا جواب نہایت ہی مشکل ہوگا، وہاں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ علمائے کرام، قراء کرام، حفاظِ کرام، تبلیغی حضرات، مجاہدین، عقیدۂ ختم نبوت کے محافظین، غرض یہ کہ اعلائے کلمۃ اللہ، دینی تعلیم وتعلم اور تبلیغ واشاعت میں مصروف اور کوشاں افراد اور جماعتوں کے لیے حساب دینا نہایت ہی آسان ہوگا۔ اس لیے کہ ان حضرات سے جب یہ سوال کیا جائے گا کہ تم نے اپنی عمر کس مصرف میں خرچ کی ہے؟ تو ان کے لیے یہ جواب دینا کتنا آسان ہوگا کہ سن شعور سے لے کر موت تک بغیر کسی لالچ وطمع اور بغیر کسی دکھاوے اور شہرت کی نیت کے ہم اللہ تعالیٰ کے دین، اللہ تعالیٰ کے قرآن اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی تعلیم وتبلیغ میں مصروفِ کار رہے۔

    انہیں میں سے ایک حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ ہیں، تقریباً پچاس سال تک حدیث نبوی کا درس دیتے رہے، داخل تو ہوئے تھے علم دین کے حصول کے لیے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ وہ نہ صرف یہ کہ اس ادارہ کے استاذ مقرر ہوئے، بلکہ پچاس سال تک شیخ الحدیث کے منصب جلیلہ پر فائز ومتمکن رہ کر اسی ادارہ ہی سے سفر آخرت پر روانہ ہوئے: ایں سعادت بزورِ نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ حضرت شیخ ایک ایسی شخصیت تھے جن کے نزدیک ان کی کتابیں ہی ان کا سب کچھ تھیں۔ دنیا کسے کہتے ہیں؟ وہ جاننا ہی نہیں چاہتے تھے۔

    ان کے شاگرد اور مرید شیخ یعقوب دہلوی سابق امام مسجد قباء ومشرف قاضیان مدینہ نے یہ واقعہ اپنے ساتھی ایک عالم دین کو سنایا کہ: ’’مدینہ منورہ تشریف لانے پر عرب علماء حضرت موصوفؒ کے جوتے سیدھے کرنا اپنا شرف سمجھتے تھے۔ ایک سفر میں ان عرب شاگردوں نے اتنے ہدایا دئیے کہ ریالوں سے دو تھیلے بھر گئے۔ مدینہ سے واپسی پر شیخ نے مجھے حکم دیا کہ سارے پیسے مدینہ منورہ میں ہی غرباء میں تقسیم کردوں۔ میں نے با اصرار کہا کہ حضرت! اپنی ضرورت کے بقدر رکھ لیں، لیکن وہ تیار نہیں ہوئے اور ایک ایک ریال صدقہ کروادیا۔

    جب ائیرپورٹ پہنچے تو مجھ سے کہا کہ: ’’مجھے سو ریال اس شرط پر قرض دو کہ بعد میں واپس لوگے۔‘‘ جس شخص کے یہاں دنیا کی یہ حیثیت ہو اس سے یہ سوال کیسے ہوگا کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ برصغیر میں خدمت حدیث کا سلسلہ جو حضرت شاہ ولی اللہ نور اللہ مرقدہٗ سے آپ کی اولاد واحفاد اور ان کے شاگردوں کی مساعی جلیلہ کی بدولت عام ہوا، اور آگے چل کر ان کے صحیح جانشین دارالعلوم دیوبند ومظاہر علوم سہارن پور کے ذریعہ اتنا عام ہوا کہ شہرشہر ہی نہیں بلکہ قریہ قریہ تک پہنچ گیا، آخری دور میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن قدس سرہٗ اور حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوریv، نیز ان حضرات کے فیض یافتگان نے تو بعض اعتبار سے ماضی بعید کے علماء کی یادیں تازہ کردیں، مثلاً: حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ، محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نور اللہ مراقدہم کے رشحاتِ قلم ولسان نے پوری علمی دنیا کو اپنی گراں قدر خدماتِ حدیث سے حیرت زدہ کردیا۔ مولانا موصوف انہیں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجرمدنی قدس سرہٗ کے شاگرد رشید ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حضور اکرمa کی احادیث کی خدمت خواہ کسی نوعیت کی ہو‘ بڑے شرف وکمال اور عزوافتخار کی بات ہے، کیونکہ حضور اکرم a کی ایسے سعادت مند اور خوش نصیب افراد کے لیے خوش خبری ہے کہ : ’’نضر اللّٰہ عبداً سمع مقالتی فحفظہا ووعاہا وأداہا۔‘‘
    (مشکوٰۃ،ص:۳۵،ط:قدیمی)
    ’’اللہ تبارک وتعالیٰ ایسے شخص کو خوش وخرم اور تروتازہ رکھے جس نے میری کسی بات کو سنا ، اسے یاد کیا اور جوں کا توں اس کو دوسروں تک پہنچایا۔‘‘
     

اس صفحے کو مشتہر کریں