1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امریکا اور افغانستان

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از بےباک, ‏15 مارچ 2009۔

  1. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
  2. بےمثال
    آف لائن

    بےمثال ممبر

    شمولیت:
    ‏7 مارچ 2009
    پیغامات:
    1,257
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    شکریہ چھوٹے بھائی انفارمیٹک مراسلے کے لئے :dilphool:
     
  3. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    پیارے بھائی بہت شکریہ مفید مراسلے کا اللہ آپ کو خوش رکھے آمین اب ہنود یہود و انصار کے دن گئے
    انشاءاللہ لیکن پہلے ہم کو انسان پھر مسلم بننا پڑے گا
     
  4. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    اس کا لنک ختم ہو گیا ہے ، اس کو شاید مصدر سے ہٹا دیا گیا ،
    اس لیے نئے دوستوں سے معذرت۔ :computer:
     
  5. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    کچھ ہفتے پہلے مجھے واشنگٹن ميں امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے ايشو پر منعقد کردہ ايک کانفرنس ميں جانے کا اتفاق ہوا جس میں امريکی حکومت کی قريب 100 سے زائد ايجنسيوں کے 200 سے زائد مندوبين نے شرکت کی۔

    امريکہ ميں کسی بھی جمہوری فورم کی روايات کے عين مطابق اس کانفرنس ميں بھی شرکا کی جانب سے ہر طرح کی راۓ کا اظہار کيا گيا۔ اس ميں خطے میں امريکی پاليسيوں کے حوالے سے شديد ترين تنقيد، تحفظات، خدشات يہاں تک کے غصے کا اظہار بھی کيا گيا۔

    قريب 8 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی اس کانفرنس ميں افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے امريکی کی خارجہ پاليسی کے مقاصد پر انتہائ جذباتی اور تند وتيز جملوں پر مبنی بحث ہوئ۔ ليکن تمام تر اختلافات اور متضاد آرا کے باوجود تمام شرکا ايک نقطے پر متفق تھے اور وہ يہ کہ اس خطے میں مستقل امن کے حصول ليے ايک مضبوط، مستحکم، پرامن اور جمہوری پاکستان سب سے اہم ضرورت ہے۔ تمام شرکا کی يہ متفق راۓ تھی کہ پائيدار امن، دہشت گردی کے خلاف کاميابی اور نيٹو افواج کی افغانستان سے واپسی صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب حکومت پاکستان اتنی مستحکم ہو کہ وہ اپنی خودمختاری اور رٹ قائم کر سکے۔

    ميں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ، طالبان، القائدہ اور اس ضمن ميں امريکہ کے خلاف شديد جذبات کے حوالے سے اس فورم اور ديگر بہت سے فورمز پر دوستوں کی راۓ اور ان کے خيالات تفصيل سے پڑھے ہيں۔ قريب ہر فورم پر شديد ترين جذبات کا موجب يہ بے بنياد منطق ہے کہ امريکہ پاکستان کو غير مستحکم کرنے کی سازش کر رہا ہے۔

    اصل حقائق اس سے بہت مختلف ہيں۔

    جب کچھ تجزيہ نگار انتہائ جذباتی انداز ميں يہ دليل ديتے ہيں کہ امريکہ پاکستان کو کمزور کر کے اس کے ايٹمی اساسوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو وہ يہ بھول جاتے ہيں کہ جو امر پاکستان کو کمزور کر رہا ہے وہ دہشت گردی کی وہ لہر ہے جس نے پورے ملک کو اپنی لپيٹ ميں لے رکھا ہے۔ نا کہ امريکی حکومت جو کہ اب تک حکومت پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے ليے کئ ملين ڈالرز کی امداد دے چکی ہے۔ اگر امريکہ کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہوتا تو اس کے ليے دہشت گردوں کی کارواۂياں ہی کافی تھيں، امريکہ کو اپنے 10 بلين ڈالرز ضائع کرنے کی کيا ضرورت تھی۔

    اگر امريکہ پاکستان کا خير خواہ نہيں تو امريکہ پاکستان کو امداد دينے والا سب سے بڑا ملک کيوں ہے؟

    پاکستان کو کمزور کرنے کی امريکہ کی مبينہ سازش تمام منطقی اصولوں کے منافی ہے۔ کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کے ليے اگر آپ متضاد سمت ميں کاوشيں کر رہے ہوں تو کبھی بھی کامياب نہيں ہو سکتے۔

    اس وقت بھی امريکہ کی درجنوں سرکاری اور غيرسرکاری تنظيميں پاکستان کی مختلف تنظيموں کے ساتھ باہم شراکت کے ذريعے ايسے بے شمار منصوبوں کی تکميل کے ليے براہراست مدد کر رہی ہيں جن کا مقصد عام پاکستانيوں کے معيار زندگی کو بہتر کرنا ہے۔

    اس ضمن میں گزشتہ چند دنوں کے دوران کچھ مثاليں۔

    http://www.keepandshare.com/doc/view.ph ... 98671&da=y

    http://www.keepandshare.com/doc/view.ph ... 98670&da=y

    http://www.keepandshare.com/doc/view.ph ... 98671&da=y

    http://www.keepandshare.com/doc/view.ph ... 98683&da=y

    http://www.keepandshare.com/doc/view.ph ... 98687&da=y

    http://www.keepandshare.com/doc/view.ph ... 98685&da=y

    ان تمام منصوبوں اور پروگرامز کا واحد مقصد پاکستانی معاشرے اور مملکت پاکستان کو مضبوط اور مستحکم کرنا ہے کيونکہ غربت، افلاس اور بے چارگی ہی وہ ہتھيار ہيں جن کواستعمال کرکے دہشت گرد تنظيميں کاميابی حاصل کرتی ہيں۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  6. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    اندھے انتقام کی جنگ,,,,محمد شفیع چترالی

    امریکہ کے شہروں نیویارک اور واشنگٹن پر ہونے والے حملوں کو 7سال سے زیادہ عرصہ مکمل ہوگیاہے۔ اس عرصے میں ویسے تو دنیا میں بہت کچھ بدل چکا ہے، نائن الیون کے واقعات نے عالمی حالات پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں اور یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مستقبل کا مورخ جب بھی ہمارے اس موجودہ دور کا تذکرہ کرے گا تو نائن الیون کو اس دور کے سب سے بڑے واقعے کے طور پر پیش کرے گا، گزشتہ 7 سالوں کے دوران ان واقعات کے پس منظر وپیش منظر پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے،لیکن یہاں حیرت کی بات ہے کہ 7سال کاطویل عرصہ گزرجانے کے بعدآج بھی حتمی اور یقینی طورپر یہ ثابت نہیں ہوسکاہے کہ ان واقعات کے پس پردہ کونسی قوتیں کارفرما تھیں؟امریکہ کا سرکاری موقف ہے کہ نائن الیون کے واقعات القاعدہ کی کار ستانی تھے، خود القاعدہ کی جانب سے بھی بعض مبینہ ویڈیو بیانات میں اس کی ذمہ داری قبول کی گئی جس کی بناء پر دنیا میں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گیارہ ستمبر کے حملے القاعدہ ہی نے ہی کرائے تھے لیکن دوسری جانب دنیا کے بہت سے فکری حلقوں کا کہناہے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے دوران جس قسم کی تیکنیک استعمال کی گئی ، جس طرح آناً فاناً امریکی بالادستی کی علامت سمجھے جانے والے ٹریڈ ٹاورز چند لمحوں کے اندر زمین بوس ہوگئے، اسے محض ”طیارہ بم حملے“ کانتیجہ نہیں کہاجاسکتا۔اس میں توشک نہیں کہ ان حملوں کے لیے امریکی طیارے استعمال کیے گئے جن میں ممکنہ طورپر یہ خود کش حملہ آور سوارتھے لیکن کیا محض ایک طیارے کے اوپر کی سطح پر ٹکراجانے سے 110منزلہ مضبوط ترین عمارت چند سیکنڈوں کے اندر بنیادوں تک ڈھے کر تباہ ہوسکتی ہے اور کیا ایک طیارے کے فیول ٹینک میں موجود ایندھن اتنی بڑی تباہی پھیلانے کے لئے کافی ہوتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کاکوئی شافی جواب آج تک نہیں دیاگیا۔ پھر ٹوئن ٹاورز کے ساتھ واقع ایک تیسرا ٹاور جس سے کوئی طیارہ بھی نہیں ٹکرایاتھا کس طرح ساتھ ہی ڈھے گیا، یہ سوال بھی ہنوزتشنہ ٴجواب ہے ۔ یہ اور اس طرح کے دیگرکئی سوالات خود امریکا اور مغرب کے حلقوں میں اٹھائے گئے اور بعض دستاویزی فلموں اور واقعاتی شواہد کے ذریعے بھی ان سوالات کی اہمیت واضح کی گئی مگر امریکی حکومت اور ذمہ دار اداروں نے کبھی ان سوالات کو اہمیت نہیں دی۔یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کو7سال کاعرصہ گزرجانے کے بعد بھی یہ تمام سوالات اپنی جگہ قائم اور جواب کے منتظرہیں۔
    ان تمام سولات کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ان واقعات کے فوراً بعد ان کی تحقیقات شروع ہونے سے پیشترہی امریکی صدر جارح ڈبلیوبش نے’ نئی صلیبی جنگ “ کے آغاز کا اعلان کردیا ، اس اعلان کے الفاظ کی تو فوری طور پر تاویل پیش کی گئی کہ یہ محض زبان کی لغزش تھی لیکن اس کی روح پر عمل درآمد پہلے دن سے شروع کردیا گیا، اب 7 سال گزرنے کے بعد دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ اس ساری مہم کا اب تک کا حاصل کیا ہے اور صدر بش کی صلیبی جنگ کہاں تک کامیاب رہی ہے؟ اگر صدر بش کے الفاظ میں” صلیبی جنگ“ کاآغاز کرنے سے امریکہ کا مقصد گیارہ ستمبر کے واقعات کا محض اندھاانتقام لینا اور مسلمانوں کوان حملوں کا” مزہ چکھانا“تھا تویقینا امریکہ کہہ سکتاہے کہ اسے اپنے مقصد میں کامیابی ہوئی ہے کیونکہ نائن الیون کے واقعات میں ساڑھے چار ہزار کے قریب امریکی مارے گئے تھے جبکہ اس کے بدلے میں شروع کی جانے والی امریکی جنگ میں عام اندازوں کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 10لاکھ سے زائد مسلمانوں کاخون بہایا جا چکا ہے۔ دو مسلمان ممالک افغانستان اور عراق کھنڈرات میں تبدیل کردیے گئے ہیں اور اب صدر بش کے تازے بیان کے مطابق تیسرا مسلم ملک پاکستان ”جنگ کا میدان“ قراردیاگیاہے ۔ اس پہلوسے امریکہ یقینا” کامیاب “ ہی رہاہے لیکن اگر اس مہم کامقصد دنیا میں پائیدارامن کا ماحول قائم کرنا اور ہر قسم کی دہشت گردی کا خاتمہ کرنا تھا ، توبدقسمتی سے اس حوالے سے امریکہ کوکوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ملی ہے ۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ اس مہم کے دوران اعصاب کی جنگ ہارچکاہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس نے اب افغانستان اور پاکستان میں بے گناہ شہریوں کا قتل عام شروع کردیاہے، امریکی نفسیات سے واقفیت رکھنے والے ماہرین کے مطابق امریکی جب اپنی شکست دیکھتے ہیں تو ان کی جانب سے یہی طرزعمل سامنے آتاہے۔ ویت نام میں بھی جب امریکی افواج کے قدم اکھڑگئے تھے توامریکی فضائیہ نے وحشیانہ بمباری میں عام شہریوں کا نشانہ بناناشروع کردیا تھا۔
    امریکہ کی اس شکست کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے نائن الیون کے واقعات کے بعد اصل حقائق سے دانستہ نظریں چرائیں اور ان واقعات کے اسباب کاجائزہ لے کر ان کاخاتمہ کرنے کی بجائے اندھے انتقام کے جذبے کے تحت مسلمانوں کاقتل عام شروع کردیا، گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد سرکاری بیان میں امریکہ نے تسلیم کیاتھا کہ یہ واقعات اس کی اسرائیل نواز پالیسی پر عرب نوجوانوں کے غم وغصے کا مظہرتھے، اگرامریکہ اس نکتے پر قائم رہتا اور اپنی صیہونیت نواز پالیسیوں پر نظرثانی کرلیتا توشاید آج دنیا کانقشہ ہی مختلف ہوتا، لیکن صیہو نی لابی نے امریکہ کو ایک دن کے لیے بھی اپنے اس بیان پر قائم رہنے نہیں دیا اور اگلے ہی لمحے امریکی صدر نے ان واقعات کی ذمہ داری القاعدہ پر عائد کرکے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کااعلان کردیا۔ پہلے افغانستان کو جارحیت کانشانہ بنایا گیا، وہاں کے پہلے سے جنگ زدہ عوام پر بی باون طیاروں سے بمباری کر کر کے بستیوں کی بستیاں اجاڑ دی گئیں، ایک لاکھ سے زائد افغانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا مگر اس کے باوجود امریکہ افغان قوم کو نفسیاتی طور پر شکست نہیں دے سکا اور وہ آج بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ بر سر پیکار ہیں، ہمارے بہت سے دانشور سویت یونین کے خلاف افغان قوم کی جدو جہد کی کامیابی کو امریکہ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں، وہ بتائیں کہ آج کونسی عالمی قوت افغانوں کی پشت پر ہے جو وہ دنیا کی ترقی یافتہ ترین فوج کو تگنی کا ناچ نچارہے ہیں؟
    افغانستان کے بعد امریکہ نے عراق پر جارحیت کی ، اس کے لئے یہ جھوٹا افسانہ تراشا گیا کہ عراق کے پاس ممنوعہ تباہ کن ہتھیار ہیں، عراق نے اس الزام کو غلط ثابت کر نے کے لیے اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو اپنے اسلحہ خانوں تک رسائی دی اور عالمی ادرے کے معائنہ کاروں نے تفصیلی جائزے کے بعد یہ رپورٹ دی کہ عراق میں ممنوعہ ہتھیاروں کی وجودگی کے کوئی شواہد نہیں ملے، اس کے باوجود امریکہ نے عراق پر یلغار کردی،جو90کی دہائی کے آغاز پر امریکا ہی کی جارحیت اور اس کے بعد سخت ترین پابندیوں کے نتیجے میں پہلے ہی نیم جاں تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ان پابندیوں کے دوران دس لاکھ سے زائد بچے دودھ ، ادویات اور خوراک کی قلت کا شکار ہوکر لقمہ اجل بنے تھے، امریکہ نے اس تباہ حال ملک پر اپنے نئے تباہ کن ترین ہتھیاروں کی مشق کی اور مزید لاکھوں افراد اس کی جارحیت کی بھینٹ چڑھ گئے لیکن عراقیوں نے بھی شکست تسلیم نہیں کی اور اس وقت تک امریکہ کا بے جگر ی سے مقابلہ کرتے رہے جب تک بش انتظامیہ نے زبردست داخلی دباو ٴپر عراق سے اپنی افواج نکالنے کا ٹام فریم نہیں دیا، اس وقت عراق میں تشدد میں کمی آنے کی وجہ یہی ہے کہ امریکہ نے 2011تک عراق چھوڑنے کا علان کردیا ہے، بش انتظامیہ غلط طور پر اسے ا پنی کامیابی باور کرارہی ہے۔
    امریکی صدر بش نے اپنے تازہ بیان میں افغانستان میں مزید فو جی بھیجنے کاا علان کرتے ہوئے پاکستان کو ”میدان جنگ“ قرار دیا ہے جس سے یہ اندازہ لگا نا مشکل نہیں ہے کہ بش انتظامیہ جاتے جاتے بھی صہیونی لابی کے کہنے پر پاکستان کے خلاف جارحیت کی حماقت بھی کرسکتی ہے، جس کی ایک طرح سے شروعات بھی ہو چکی ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق پاکستانی علاقوں پر حالیہ میزائل حملے دراصل ری پبلکن پارٹی کی انتخابی مہم کا حصہ ہیں اور بش انتظامیہ اب اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کا گلا دبا کر صہیونی لابی اور قدامت پسند صلیبی طاقتوں کی حمایت حاصل کر نا چا ہتی ہے۔ لیکن یہ سوچ امریکہ کے لیے بہت مہنگی بھی ثابت ہوسکتی ہے، پاکستان امریکہ کے لیے افغانستان یا عراق سے زیادہ خطرناک جنگی میدان ثابت ہوسکتا ہے، پاکستان کی مسلح افواج کسی بھی بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہیں اور یہ امر خوش آیند ہے کہ پاک فوج کے سرابرہ جنرل اشفاق پرویزکیانی نے اتحادی افواج کو آیندہ پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی کر نے سے متنبہ کردیا ہے۔ امریکہ کی عسکری طاقت کا غرور پہلے ہی عراق اور افغانستان میں پاش پاش ہوچکا ہے، اس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ امریکا ناقابل تسخیر نہیں ہے اور یہ کہ جنگیں صرف عسکری برتری کی بنیاد پر نہیں جیتی جاسکتیں۔ ناین الیون کے بعد سے اب تک کے حالات کا پیغام یہی ہے کہ امریکہ اپنی اس لا حاصل انتْقامی جنگ کا خاتمہ کر کے حقیقت پسندانہ پالیسیاں اپنائے اور عالمی تنازعات کو طاقت کی بجائے مذاکرات اور گفت وشنید کے ذریعے حل کرنے کی روایت اپنائی جائے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    محترام فواد صاحب: ہم امداد کی طرف دیکھیں یا امریکا کی پالیسی جو اس نے پوری امت مسلمہ کے لیے تیار کی ہے اسے دیکھیں
    بش صاحب نے جب کروسیڈ وار کا نعرہ لگا یا تو اس سے ہم کیا سمجھیں ،؟
    امریکا کی امداد دیکھیں یا امت مسلمہ کے جسم پر لگے ہوئے زخم دیکھیں

    عراق جنگ جس طرح مسلط کی گئی ، اس کے تیل کے ذخائر پر نظریں تھیں ، اس لیے سب نے جھوٹ بولا کہ ویپن آف ماس ڈسٹرکشن وہاں موجود ہیں ، جب کہ اقوام متحدہ کے معائینہ کار اسے کلیر قرار دے چکے تھے اور جو کیمیکل اور میزائیل وغیرہ وھاں ملے تھے اس کو جنگ سے پہلے تباہ کیا جا چکا تھا ،پھر دس لاکھ سے زیادہ قتل و غارت کے بعد امریکن حکومت کے سابقہ صدر خود تسلیم کر چکے ہیں کہ ان کی اطلاعات جھوٹ پر مبنی تھیں ،

    اسرائیل کے سلسلے میں جتنے ویٹو امریکا نے اپنے دوست اسرائیل کو بچانے کے لیے استعمال کیے ، یہ ورلڈ ریکارڈ بنے گا ، اقوام متحدہ کی جتنی بھی قرار دادیں اسرائیل کے خلاف بامر مجبوری پاس بھی ہوئیں تو ان پر عمل نہیں کیا گیا ،
    اور نہ ہی اس سلسلے میں امریکا نے اپنا دباؤ استعمال کیا ، امریکن امداد لینے والا اسلامی ملک مصر ہے، اور اردن ان دونوں کو اسی امداد سے پابند کیا گیا اور ان کو ایسی ہی امدادات سے اسرائیل کے ساتھ معایدے کرنے پر مجبور کیا گیا ،
    کہ اب ان ملکوں کی اسلامی حمیت ہی مر گئی ،

    صابرہ اور شتیلا کے دو کیمپ اقوام متحدہ کے تحت فلسطینی مہاجروں کے تھے ، ان پر جو ظلم وستم اسرائیلی حکومت نے ڈھایا کہ اس پر بھی اس کے خلاف قرار داد کو ویٹو کر دیا گیا ، تو اس سے ہم کیا سمجھیں ؟

    میدان جنگ ہمارا ملک بنا ہوا ہے ، نہ کہ امریکا ،؟؟

    مشرف دور میں اتنے پاکستانی بندے امریکن مفاد میں امریکہ کو فروخت کیے گئے ، کہ مشرف نے اپنی کتاب میں اس کو بھی پاکستان کے لیے آمدنی کا ذریعہ سمجھا ، یہاں حقوق انسانی کہاں گئے جس کا واویلا کیا جاتا ہے ،؟
    ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس ایک حال ہی کی مثال ہے ،

    جن درجنوں تنظیموں کی بات آپ کر رہے ہیں ، میرے پاس ایک علیحدہ رپورٹ موجود ہے جو آپ کے اداروں کے ریکارڈ سے لی گئی کہ ان تنظیموں کی آڑ میں جاسوسی کی جاتی ہے اور یہ صرف ایک غلاف کے طور پر ہوتی ہیں ، اقوام متحدہ کے ادارے بھی اسی مقصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں ،

    ایک عمل مسلسل ہم دیکھ رہے ہیں اس کے بعد ہم توقع رکھیں کہ ہم پر رحم کیا جائے گا ،یا امریکہ اپنے مفادات ہمارے لیے قربان کر دے گا؟؟؟؟؟؟؟

    محترم بقول علامہ اقبال ہم اس بات کے قائل ہیں : اس رزق سے موت اچھی ، جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم جناب بےباک صاحب۔
    بار بار گذارش کے باوجود آپ ایسے اہم مراسلات کا حوالہ یا ماخذ دینا بھول جاتے ہیں۔
    براہ کرم حوالہ دے دیا کریں۔ تحریر کی مستندیت بڑھتی ہے اور ہم جیسے بےعلموں کو آگے بات کرنے میں آسانی اور اعتماد مل جاتا ہے۔

    شکریہ
     
  8. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    ویسے یہ معلومات عامہ ہیں ، جو بے شمار اخبارات کی زینت بن چکی ہیں ، لیکن اس کے باوجود میں آئیندہ اس بات کا خیال رکھوں گا ،
    آپ نے توجہ دلائی ، اس بات کا شکریہ ،
    :dilphool:
     
  9. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    [​IMG]

    یہ خبر روزنامہ جنگ 18 مارچ 2009 میں شائع ہوئی
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بےباک بھائی ۔ اہم مگر پریشان کن خبر شئیر کرنے کا شکریہ ۔
    اللہ تعالی ہمیں قومی غیرت و حمیت عطا فرمائے۔ آمین
     
  11. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    بہت خوب پیارے بھائی اللہ آپ کو خوش رکھے بہت سے حقایق آپ نے بیان کیے خاس کر گیارہ ستمبر کا :dilphool: :dilphool: :dilphool:
     
  12. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    فواد بھائی
    امریکہ بہت سیانا ہے۔ امریکہ کو اندازہ ہے کہ یہ امداد کہاں جاتی ہے۔
    امریکہ پاکستان کو امداد نہیں دیتا بلکہ ہمارے حکمرانوں کو امداد دیتا ہے جو یہ لوگ لوٹ کر دوبارہ امریکی بنکوں میں اپنے کھاتوں میں جمع کروادیتے ہیں۔ اس طرح سے امریکہ پاکستان کو کچھ نہیں دے رہا۔

    آپ امریکہ میں ہیں شاید آپ کو پاکستان کے حالات کا اندازہ نہیں ہے۔
    مجھے بتائیں کہ امریکی امداد سے کتنے نوجوانوں کو روزگار ملا۔ کتنے سکول، کالج، یونیورسٹیاں بنیں؟ کتنے فی صد مہنگائی کم ہوئی۔

    شاید آپ کا جواب یہ ہو کہ امریکہ تو امداد دے دیتا ہے۔ آگے آپ کس طرح استعمال کرتے ہیں اس سے امریکہ کو کوئی غرض نہیں۔ تو یہ کوئی معقول جواب نہیں ہوگا۔

    چین اگر پاکستان کو امداد دیتا ہے تو اس کا چیک اینڈ بیلنس رکھتا ہے۔ آج کل جب پاکستان کی معاشی حالت خراب ہے تو چین کیوں امداد نہیں دے رہا۔ کیونکہ اسے پتہ ہے کہ امداد صحیح جگہ خرچ نہیں ہوگی۔اس لئے وہ کہتا ہے کہ اگر کوئی منصوبہ ہے تو بتاو ہم پوری مدد کریں گے۔
     
  13. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    کچھ دوست امريکی امداد کے حوالے سے يہ سوال کرتے ہيں کہ مالی بے ضابطگيوں کے سبب يہ امداد علاقے کے غريب لوگوں تک نہيں پہنچ پاتی۔ يہ بات بالکل درست ہے کہ 100 فيصد کرپشن سے پاک نظام جس ميں ہر چيز قاعدے اور قانون کے مطابق ہو، ممکن نہيں ہے۔ ليکن يہ حقيقت دنيا کے تمام ممالک اور اداروں پر لاگو ہوتی ہے۔ مالی بے ضابطگياں ہر جگہ ہوتی ہيں۔ ليکن يہ بھی ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ اس امداد کی وجہ سے بہت سے مستحق لوگوں کے حالات زندگی بہتر کرنے ميں مدد ملتی ہے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  14. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    يہ بات حقائق کے منافی ہے کہ امريکی حکومت نے 11 ستمبر 2001 کے حوالے سے اٹھاۓ جانے والے سوالات يکسر نظرانداز کر ديے تھے۔ حقيقت يہ ہے کہ 911 کو سازش قرار ديے جانے کے ضمن ميں اس آرٹيکل ميں جو سوالات اٹھاۓ گۓ ہيں ان کا جواب تو ميں اسی فورم پر دے چکا ہوں جو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

    viewtopic.php?f=15&t=3883

    امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان اور ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے ميں نے ان سوالات کے جواب کئ فورمز پر ديے ہیں۔

    يہ ايک ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے 911 کميشن رپورٹ کے علاوہ لاتعداد نجی تنظيموں اور ماہرين نے ان تمام سوالات کے جواب تفصيل سے ديے ہيں۔


    کيا ان درجنوں اداروں کے سينکڑوں بلکہ ہزاروں ماہرين اس "عظيم سازش" کا حصہ ہيں ؟ کيا کئ سالوں پر محيط انکی تحقيق محض ايک دکھاوا ہے؟

    کيا وجہ ہے کہ اس واقعے کو سازش قرار دينے کے حوالے سے جتنی بھی ویڈيوز کا ذکر کيا جاتا ہے اس ميں اٹھاۓ جانے والے سوالات ہميشہ يکطرفہ ہوتے ہيں اور اس ميں ان ماہرين کی راۓ شامل نہيں کی جاتی جو ان سوالات کا سائنسی تحقیق کی روشنی ميں مفصل جواب دے سکتے ہيں۔

    صحافت کا سب سے بنيادی اصول يہ ہوتا ہے کہ کسی بھی موضوع کے حوالے سے آپ دونوں متضاد نقطہ نظر پيش کر کے فیصلہ پڑھنے اور ديکھنے والوں پر چھوڑ ديتے ہيں۔ اگر محض ايک مخصوص نقطہ نظر کے حوالے سے ہی بات کی جاۓ تو ايسی دستاويزی فلم کی مثال ايسی ہی ہے جيسے کہ کسی سياسی جماعت کی تياری کردہ اشتہاری فلم جس ميں ايک خاص انداز سے جذبات کے ذريعے اپنے موقف کی حمايت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  15. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    مسلمانوں کو بحثيت مجموعی امريکی ميں کبھی اجتماعی سطح پر نسلی امتياز اور تفريق کا سامنا نہيں کرنا پڑا جيسا کہ کچھ اور طبقات کو کرنا پڑا ہے۔ يہ درست ہے کہ انفرادی سطح پر مسلمانوں کے خلاف نسلی تعصب کے واقعات ضرور پيش آۓ ہيں۔

    اگر آپ تاريخ کا مطالعہ کريں تو آپ ديکھيں گے کہ امريکہ ميں سياہ فام افريقيوں کو ايک طويل جدوجہد کے بعد اپنے آئينی حقوق ملے تھے۔ خواتين کو ووٹ کا اختيار صرف ايک صدی پرانی بات ہے۔ اسی طرح پرل ہاربر کے واقعے کے بعد امريکہ ميں مقيم جاپانيوں کو باقاعدہ کيمپوں ميں قيد کيا گيا تھا جس کے بعد امريکہ دوسری جنگ عظيم ميں شامل ہوا۔ اس کے مقابلے ميں مسلمانوں کو گيارہ ستمبر کے واقعے کے بعد اس ردعمل کا سامنا نہيں کرنا پڑا جس کی مثال ماضی ميں ملتی ہے حالانکہ 11 ستمبر کے واقعے ميں ملوث افراد نہ صرف يہ کہ مسلمان تھے بلکہ انھوں نے اپنے جرم کو قابل قبول بنانے کے ليے مذہب کا سہارا بھی ليا تھا۔ اس کے باوجود امريکی کميونٹی کا ردعمل مسلم اقليتوں کے خلاف اتنا سنگين اور شديد نہيں تھا۔ بلکہ صدر بش نے گيارہ ستمبر 2001 کے واقعات کے چند دن بعد واشنگٹن ڈی سی ميں ايک اسلامک سينٹر کا دورہ کيا تھا اور عوامی سطح پر يہ مطالبہ کيا تھا کہ امريکہ ميں مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کيا جاۓ۔ يہ درست ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کچھ واقعات پيش آۓ تھے ليکن وہ انفرادی نوعيت کے تھے، اس کے پيچھے کوئ باقاعدہ منظم تحريک نہيں تھی۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  16. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    جب آپ 911 کے بعد امريکہ کی پاليسی کے بارے ميں راۓ کا اظہار کرتے ہیں تو يہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہيے کہ اگر اس واقعے کے بعد بھی القائدہ کے خلاف کاروائ نہ کی جاتی تو اس کے کيا نتائج نکلتے۔ اگر القائدہ کی دو تہائ سے زائد ہلاک اور گرفتار ہونے والی قيادت آج بھی سرگرم عمل ہوتی تو اس تنظيم کی کاروائيوں ميں مزيد اضافہ ہوتا اور القائدہ کا يہ پيغام دہشت گردی کی صفوں ميں شامل ہونے والے نوجوانوں کے ليے مزيد حوصلہ افزائ اور تقويت کا سبب بنتا کہ دنيا کی سب سے بڑی فوجی طاقت رکھنے والے ملک اور اس کی حکومت کو بھی دہشت گردی کے ذريعے سياسی دباؤ ميں لا کر اپنے مطالبات اور مطلوبہ مقاصد حاصل کيے جا سکتے ہیں۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  17. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    کسی بھی بے گناہ شہری کی ہلاکت يقينی طور پر قابل مذمت ہے۔ ليکن يہ حقیقت ہے کہ عراق ميں زيادہ تر شہريوں کی ہلاکت دہشت گرد تنظيموں کی کاروائيوں کا نتيجہ ہے جو دانستہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ بنا رہے ہيں۔ کار بم دھماکوں اور اغوا براۓ تاوان ميں ملوث يہ لوگ صرف اور صرف اپنی مرضی کا نظام نافذ کرنے ميں دلچسپی رکھتے ہيں۔

    ميں آپ کو ايک عراقی تنظيم کی ويب سائٹ کا لنک دے رہا ہوں جس کا امريکی حکومت سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ اس ويب سائٹ پر آپ عراق ميں ہلاک ہونے والے تمام شہريوں کے نام، ان کے کوائف اور ان واقعات کی تفصيل پڑھ سکتے ہيں جن کے نتيجے ميں يہ شہری ہلاک ہوۓ۔ يہ اعداد وشمار آپ کو عراق ميں بے گناہ شہريوں کے حوالے سے حقيقی صورت حال سمجھنے ميں مدد ديں گے۔

    http://www.iraqbodycount.org/database/

    عراق جنگ کے آغاز سے اب تک 87790 عراقی ہلاک ہو چکے ہيں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ايک عظيم سانحہ ہے۔ بے گناہ شہريوں کی موت اس ليے بھی قابل مذمت ہے کيونکہ فوجيوں کے برعکس وہ ميدان جنگ کا حصہ نہيں ہوتے۔ اس وقت عراق ميں بے شمار مسلح گروپ دہشت گردی کی کاروائيوں ميں دانستہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ بنا رہے ہيں۔ عراق ميں موجود ان تنظيموں کے نام اور انکی کاروائيوں کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والے عراقيوں کے حوالے سے کچھ اعداد وشمار۔

    http://img76.imageshack.us/my.php?image ... 002if6.jpg

    ايران عراق جنگ ، الانفال کی تحريک يا 1991 ميں ہزاروں کی تعداد ميں عراقی شيعہ برادری کا قتل عام اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر صدام کا دور حکومت مزيد طويل ہوتا تو بے گناہ انسانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہتا۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  18. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    افغانستان ميں عام شہريوں کی ہلاکت کے ضمن ميں ميرا آپ سے ايک سوال ہے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ بے گناہ شہريوں پر دانستہ حملے سے امريکہ کو کوئ فائدہ جاصل ہوتا ہے؟ کيا ان ہلاکتوں سے امريکہ کو فوجی، سياسی يا انتظامی معاملات ميں اپنے مقاصد کی تکميل ميں کوئ کاميابی حاصل ہوتی ہے؟ حقيقت يہ ہے کہ ان ہلاکتوں سے امريکہ کو سياسی اور سفارتی سطح پر بہت سی مشکلات، چيلنجز اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ يہ اور ايسی ديگر وجوہات کی بنا پر امريکہ کی يہ ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے واقعات رونما نہ ہوں۔ يہ حکمت عملی بہرحال ان ہتھکنڈوں سے متضاد ہے جو اپنے سياسی ايجنڈے کی تکميل کے ليے دہشت گرد استعمال کرتے ہيں جس کا محور دانستہ زيادہ سے زيادہ بے گناہ افراد کی ہلاکت ہے۔

    کسی بھی تناظے، جنگ يا فوجی کاروائ کے دوران عام شہريوں کی ہلاکت يقينی طور پر قابل مذمت اور افسوس ناک ہے۔ اور تاريخ کی کسی بھی جنگ کی طرح افغانستان ميں بھی ايسی فوجی کاروائياں يقينی طور پر ہوئ ہيں جن ميں بے گناہ شہری ہلاک ہوۓ ہيں۔ ليکن ايسے واقعات کی روک تھام کے ليے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ جب آپ ایسے کسی واقعے کا ذکر کرتے ہيں اور اس ضمن ميں خبر کا حوالہ ديتے ہيں تو اس وقت يہ بات بھی ياد رکھنی چاہيے کہ ايسے واقعات بھی رونما ہوۓ ہيں جس کے نتيجے ميں نيٹو افواج کی کاروائ کے نتيجے ميں خود امريکی اور اتحادی فوجی بھی ہلاک ہوۓ ہيں۔ ان تمام واقعات کی باقاعدہ فوجی تفتيش ہوتی ہے اور اس کے نتيجے ميں حاصل شدہ معلومات کی روشنی ميں ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ مستقبل ميں اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔ ليکن کيا آپ دہشت گردوں سے اس رويے اور حکمت عملی کی توقع کر سکتے ہيں جن کی اکثر "فوجی کاروائياں" دانستہ بےگناہ افراد کے قتل پر مرکوز ہوتی ہيں؟


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  19. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    آپ کے تجزيے سے يہ تاثر ملتا ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد امريکہ کا صرف ايک نقاطی ايجنڈا اور پاليسی تھی جس کے تحت افغانستان پر بے دريخ بم پھينکے گۓ۔

    سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکہ کی افغانستان ميں کاروائ محض دہشت گردوں کے خاتمے تک محدود نہيں ہے۔ يہ فوجی کاروائ ايک جامع منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے جو برسا برس کی خانہ جنگی اور طالبان کے نظام کے زير اثر دہشت گردی کا اڈہ بن چکا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان عوام کو ساتھ ملا کر عدل و انصاف پر مبنی ايک ايسا معاشرہ تشکيل ديا جاۓ جس ميں سب کو ان کے بنيادی حقوق مل سکيں۔

    اس ضمن ميں جو اعدادوشمار ميں نے يو-ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے حاصل کيے ہيں ان کی روشنی ميں يہ تاثر غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ امريکہ افغانستان ميں صرف طاقت کے استعمال پر يقين رکھتا ہے۔ امريکہ ايسے بے شمار منصوبوں ميں افغان حکومت کی براہراست مدد کر رہا ہے جن کا مقصد افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے تاکہ افغان عوام دوبارہ اپنے پيروں پر کھڑے ہو سکيں۔

    http://img502.imageshack.us/my.php?imag ... 060ez8.jpg

    http://img522.imageshack.us/my.php?imag ... 280ff7.jpg

    http://img522.imageshack.us/my.php?imag ... 244iv9.jpg


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  20. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    چونکہ آپ نے ہانس بلکس کا حوالہ ديا ہے اس ليے يہ ضروری ہے کہ ان حقائق کا جائزہ ليا جاۓ جو انھوں نے بذات خود اپنی سرکاری رپورٹ ميں عراقی کے زمينی حقائق کے حوالے سے بيان کيے تھے۔

    فروری 14 2003 کو ہانس بلکس نے واضح طور پر عراق کی حکومت کی جانب سے تمام تر يقين دہانيوں کے باوجود عدم تعاون کی حقيقت کو بيان کيا تھا۔ اس وقت ان کی جانب سے پيش کی جانے والی رپورٹ سے ايک اقتتباس

    "ميں نے اپنی پچھلی ملاقاتوں کے جوالے سے يہ واضح کيا تھا کہ سال 1999 ميں اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی دو دساويزات سی – 1999/94 اور سی 1999/356 ميں اٹھاۓ جانے والے بہت سے ايشوز ابھی تک وضاحت طلب ہيں۔ اب تک عراق حکومت کو ان ايشوز کے حوالے سے مکمل آگاہی ہونی چاہيے تھی۔ مثال کے طور پر ان ايشوز ميں نرو ايجنٹ وی ايکس اور لانگ رينج ميزائل سرفہرست ہيں اور يہ ايسے سنجيدہ ايشوز ہيں جن کو نظرانداز کرنے کی اجازت عراقی حکومت کو نہيں دی جا سکتی۔ عراقی حکومت کی جانب سے پچھلے سال 7 دسمبر کو دی جانے والی رپورٹ ميں ان سوالات کے واضح جوابات دينے کا موقع ضائع کر ديا گيا ہے۔ اس وقت عراق حکومت کی جانب سے ہميں سب سے بڑا مسلہ اسی حوالے سے ہے۔ ثبوت کی فراہمی کی ذمہ داری اقوام متحدہ کے انسپکٹرز پر نہيں بلکہ عراقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ عراقی حکومت کو ان اہم ايشوز کو مسلسل نظرانداز کرنے کی بجاۓ مکمل وضاحت فراہم کرنا ہوگی۔"

    اس اقتتباس سے يہ واضح ہے کہ صدام حکومت کی جانب سے مسلسل عدم تعاون کی روش اختيار کی جا رہی تھی۔

    اس کے بعد مارچ 2 2003 کو عراق پر حملے سے محض چند روز قبل اس موقع پر جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے عراق حکومت کو دی جانے والی آخری مہلت بھی ختم ہو چکی تھی تو ہانس بلکس نے اقوام متحدہ کو ايک اور رپورٹ پيش کی۔ اس رپورٹ ميں سے ايک اقتتباس

    "ان حالات کے پس منظر ميں سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کیا عراق کی حکومت نے اقوام متحدہ کی سال 2002 میں منظور کی جانے والی قرارداد 1441 کے پيراگراف 9 کی پيروی کرتے ہوۓ يو – اين – ايم – او- وی – آئ –سی سے فوری اور غير مشروط تعاون کيا ہے يا نہيں۔ اگر مجھ سے اس سوال کا جواب طلب کيا جاۓ تو ميرا جواب يہ ہو گا اقوام متحدہ کی نئ قرارداد کی منظوری کے چار ماہ گزر جانے کے بعد بھی عراقی حکومت کی جانب سے تعاون نہ ہی فوری ہے اور نہ ہی يہ ان تمام ايشوز سے متعلقہ ہے جن کی وضاحت درکار ہے"۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  21. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    ميں آپ کو ايسے بہت سے اعداد وشمار دے سکتا ہوں جن کے ذريعے آپ عراق کی موجودہ صورت حال اور صدام کے دور حکومت کا تقابلی جائزہ لے سکتے ہيں ليکن ميرے خيال ميں اس ضمن ميں عراق کے عوام کے منتخب نمايندے کی راۓ پڑھ لينا زيادہ مناسب ہے۔

    دسمبر 7 2008 کو عراق کے وزير اعظم نے اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کے صدر کو ايک خط لکھا تھا جس ميں انھوں نے اس راۓ کا اظہار کيا۔

    "عراق کی حکومت اور عوام کی جانب سے ميں ان تمام ممالک کی حکومتوں کا شکريہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کے اہم کردار اور کوششوں کے سبب عراق کو استحکام اور محفوظ بنانے کے عمل ميں مدد ملی ہے۔ ميں براہراست ان افواج کا بھی شکريہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے عراق ميں اپنی زمينی، بحری اور فضائ موجودگی کے دوران خدمات انجام ديں۔ يہ امر قابل ذکر ہے کہ عراق پچھلے دور حکومت کے دوران برسا برس تک تنہا رہنے کے بعد معيشت کے استحکام کے ليےعالمی برادری کے ساتھ شراکت داری کے نۓ روابط قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے"۔

    اس بات کا دعوی کوئ نہيں کر سکتا کہ عراق کی صورت حال "بہترين" ہے اور حکومتی خدوخال کے حوالے سے تمام مسائل حل ہو گۓ ہيں۔ يہ بھی ياد رہے کہ عراقی معاشرہ اس وقت بھی ان انتہا پسند تنظيموں سے مسلسل نبردآزما ہيں جو کسی جمہوری نظام پريقين نہيں رکھتيں۔ لیکن بہرحال ايک جمہوری نظام کی بنياد رکھ دی گئ ہے۔

    اگر آپ عراق کے ماضی کے سياسی عمل کا جائزہ ليں تو يہاں پر انتخابی عمل اسلحہ بردار دہشت گردوں کے ذريعے انجام پاتا تھا۔ اس ضمن ميں ان نام نہاد انتخابات کا ذکر کروں گا جب صدام حسين نے اپنے آپ کو 99 فيصد ووٹوں سے کامياب قرار ديا تھا۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  22. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    يہ مفروضہ اس صورت ميں کسی حد تک قابل قبول ہوتا اگر اس خطے کے حوالے سے دونوں پارٹيوں کے نقطہ نظر اور پاليسيوں ميں تضاد ہوتا۔ حقي‍قت يہ ہے کہ افغانستان، پاکستان کے قبائلی علاقوں اور دہشت گردی کے حوالے سے دونوں پارٹيوں کے اميدواروں کے نقطہ نظر ميں خاصی مماثلت تھی۔ اپنی بات کی وضاحت کے ليے آپ کو سال 2008 کے صدارتی انتخابات کے ليے دونوں پارٹيوں کے سرکاری پليٹ فارمز کے ويب لنکس دے رہا ہوں۔


    http://www.workinglife.org/storage/user ... 080808.pdf


    http://www.texasgop.org/site/DocServer/ ... ATFORM.pdf

    اگر آپ ان دستاويزات ميں افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے پاليسيوں کا مطالعہ کريں تو يہ واضع ہو جاۓ گا کہ دونوں پارٹياں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے متفق ہيں۔ دونوں پارٹيوں کے پليٹ فارمز پر اس خطے ميں القائدہ اور طالبان کی شکست کی ضرورت پر زور ديا گيا ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  23. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ عراق اور افغانستان ميں فوجی کاروائ مسلمانوں کے خلاف نہيں بلکہ ان مجرموں کے خلاف کی گئ جو بغير کسی تفريق کے دنيا بھر ميں بے گناہ انسانوں کو قتل کر کے مذہب کی بنياد پر اپنے جرائم کو جائز قرار ديتے ہيں۔

    آپ نے "امريکی کاروائ" کے نتيجے ميں بے گناہ مسلمانوں کے قتل کا ذکر کيا ہے۔ ميں آپ سے متفق ہوں۔ کسی بھی بے گناہ انسان کی جان کا ضياع اس کے مذہب سے قطع نظرانتہاہی قابل مذمت فعل ہے۔ يہ درس تو خود اسلام سميت دنيا کے تمام مذاہب ميں موجود ہے۔ ليکن اگر آپ اسامہ بن لادن اور ديگر دہشت گردوں کے بيانات سنيں تو ان ميں آپ کو ان جرائم کی سفاک توجيہات مليں گی۔

    اسامہ بن لادن کو امريکی رپورٹوں کی وجہ سے دنيا دہشت گرد تسليم نہيں کرتی بلکہ اس کی وجہ سينکڑوں کی تعداد ميں اس کے اپنے آڈيو اور ويڈيو پيغامات ہيں جس ميں نہ صرف اس نے بارہا اپنے جرم کو تسليم کيا ہےبلکہ القائدہ سے منسلک درجنوں ويب سائٹس پر 24 گھنٹے بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے کا درس بھی ديتے ہيں۔ ان پيغامات ميں متعدد بار نا صرف يہ کہ دہشت گردی کے ان "کارناموں" کا اعتراف کيا گیا ہے بلکہ ديگر مسلمانوں کو بھی اس "کار خير" ميں شامل ہونے کی تلقين کی جاتی ہے۔ ليکن يہ بھی حقيقت ہے کہ ان دہشت گردی کی کاروائيوں ميں ہلاک ہونے والوں کی اکثريت مسلمان ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  24. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    آپ ايک بات نظر انداز کر رہے ہيں۔ امريکہ نے کبھی بھی 11 ستمبر 2001 کے حادثے کی ذمہ داری براہراست طالبان پر نہيں ڈالی۔ اس کا قصوروار تو ہميشہ اسامہ بن لادن اور اسکی دہشت گرد تنظيم القائدہ کو قرار ديا گيا۔ طالبان نے اسامہ بن لادن اور القائدہ کو اپنی کاروائياں جاری رکھنے کے ليے مکمل تحفظ فراہم کيا۔ ميں آپ کو ياد دلا دوں کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد طالبان حکومت سے پاکستان کے ذريعے دو ماہ تک مذاکرات کے ذريعے يہ مطالبہ کيا گيا کہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کيا جاۓ تاکہ اس کے خلاف مقدمہ چلايا جا سکے۔ طالبان کے مسلسل انکار اور القائدہ کا ساتھ دينے کے بعد امريکہ نے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر کاروائ کا فيصلہ کيا گيا۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  25. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک جنگ کی خواہش نہيں رکھتا۔ اس انتہائ نقطے پر پہنچنے سے پہلے تمام ممکنہ متبادل سياسی اور سفارتی امکانات اور آپشنز کو استعمال کيا جاتا ہے۔ ان تمام کوششوں ميں ناکامی کے بعد ہی اجتماعی سطح پر جنگ کا فيصلہ کيا جاتا ہے۔ يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ حالات چاہے جيسے بھی ہوں، جنگ کی ايک بھاری سياسی قيمت بھی ہوتی ہے جو برسراقتدار حکومت کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ معاشی مشکلات اور بے گناہ افراد کی ہلاکت بھی جنگ کی ايسی حقيقتيں ہيں جن سے انکار نہيں کيا جا سکتا۔

    يہ تمام عوامل اس بحث اور حکمت عملی کا حصہ ہوتے ہیں جن پر جنگ کے حتمی فيصلے سے قبل سب کو اعتماد ميں لیا جاتا ہے۔ ليکن اس سارے عمل کے باوجود ملک اور قوم کے دفاع کو درپيش واضح خطرات کو نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔ جب کچھ تجزيہ نگار 911 کے بعد امريکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو غير منطقی اور انتہائ جذباتی ردعمل قرار ديتے ہيں تو وہ ان حقائق اور خطرات کو نظرانداز کر ديتے ہيں جن کا سامنا امريکی حکومت کو اس حادثے کے فوری بعد کرنا تھا۔ اس وقت حقائق کچھ يوں تھے۔

    القائدہ کی جانب سے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کے اعلان کے بعد قريب 10 سال کے عرصے ميں دنيا بھر ميں امريکی املاک پر حملے کرنے کے بعد يہ تنظيم اتنی فعال اور منظم ہو چکی تھی کہ امريکہ کے اہم شہروں سميت اس کے عسکری مرکز پينٹاگان پر براہراست حملہ کيا گيا۔

    اس واقعے کے بعد امريکہ سميت دنيا کے کئ ممالک ميں القائدہ کی جانب سے مزيد ايسی ہی کاروائياں کرنے کی يقين دہانی بھی ريکارڈ پر موجود ہے۔

    حکومت پاکستان کے ذريعے امريکہ نے طالبان کے ساتھ 2 ماہ تک مذاکرات کيے جن کا مقصد اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور افغانستان ميں اس تنظيم کو تحفظ فراہم نہ کرانے کی يقين دہانی حاصل کرنا تھا۔ ليکن طالبان نے ان مطالبات کو ماننے سے صاف انکار کر ديا۔

    ان حالات ميں امريکہ کے سامنے کيا متبادل راستہ باقی رہ گيا تھا؟

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  26. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    فواد بھائی ۔ آپ کی نوکری قائم رہے۔
    لیکن سارا جوابات پڑھتے ہوئے نجانے کیوں مجھے بہت ہنسی آتی رہی :hasna:
     
  27. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    ماننے والے
    پاکستان امریکہ کو سپر پاور مانتا ہے اس لیے اس سے ڈرتا ہے ورنہ جو ممالک اس کی خدائی کے قائل نہیں۔وہ اس سے نہیں ڈرتے۔مشہور ہے دو ہندو بھائیوں میں ایک صبح اٹھ کر اپنے بت پوجا کرتا تھا تو دوسرا بت کو گن کر دس جوتے مارا کرتا تھا۔ایک روز یہ بت پجاری کے خواب میں آکر کہنے لگا کہ “تم اپنے بھائی کو سمجھاؤ۔وہ ہماری توہین نہ کرے ورنہ ہم تمھیں تباہ کر دیں گے۔“

    پجاری نے عرض کی کہ “بھگوان میں تو ہر روز تمھاری پوجا کرتا ہوں اور تم سزا بھی مجھے ہی دینا چاہتے ہو جو جوتے مارتا ہے اسے سزا کیوں نہیں‌دیتے ؟“

    بت نے جواب دیا کہ“جو ہمیں مانتا ہی نہیں‌ہم اسے کیسے سزا دے سکتے ہیں۔ہم تو اسی کو سزا دیں گے جو ہمیں مانتا ہے۔“اس طرح امریکا کا رعب بھی انہی ممالک پر چلتا ہے جو اسے مانتے ہیں جو نہیں‌مانتے امریکا ان کا کچھ نہیں‌بگاڑ سکتا۔
    :hasna: :hasna: :hasna: :hasna: :hasna: :hasna: :hasna: :201: :201: :201:

    (پروفیسر محمد اسلم،سر راہے ‘نوائے وقت)
     
  28. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    :201: :201: :201: :201: :201: :201: :201: :201: :201: :201: :201: :201:
    مجھے بھی بہت ہنسی آتی ہے نعیم بھائی
     
  29. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    بہت خوب پیارے بھائی :hasna: :hasna: :hasna: :hasna: :hasna: :hasna: :201: :a180: :a165:
     
  30. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
     

اس صفحے کو مشتہر کریں