1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امام محمد احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کی جدید سائنسی علوم میں دسترس حصہ دوم

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از ابو محمد رضوی, ‏24 ستمبر 2016۔

  1. ابو محمد رضوی
    آف لائن

    ابو محمد رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2012
    پیغامات:
    52
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    امام احمد رضا کا حصول علوم فلسفیہ وعلمی مہارات
    امام احمد رضا نے باقاعدہ کسی بھی علمی ادارہ یا کسی بھی معقولی یا فلسفی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے بغیر ((علوم فلسفیہ))میں وہ مہارۃ تامۃ حاصل کی، کہ بڑے بڑے فرزانگان علم و حکمت اس بانصیب کے چمن علم سے خوشہ چینی کرتے نظرآتے ہیں،یہاں پر اس حقیقت سے آگاہی عبث نہ ھو گی کہ وائس چانسلر علی گڑھ یونیوسٹی جنہوں نے علوم فلسفیہ نہ صرف ھندوستان بلکہ کئی اور ممالک سے سیکھ رکھے تھے اور علم ریاضی میں ان کا کمال علم درجہ شہرت کو چھو رہا تھا،اتفاقا انہیں علم ریاضی کے ایک مسئلہ میں اشتباہ پیدا ھوا،بعد از بسیار کوشش جب وہ اس کے حل کرنے سے عاجز آگئے، تو جرمنی جانے کا سوچ لگے کہ ایک دن بر سبیل تذکرہ اس کا ذکر پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاری شعبہ دینیات علی گڑھ یونیورسٹی سے کیا،انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ بریلی میں امام احمد رضا سے ملاقات کرلیں آپ کا مسئلہ حل ھو جائے گا،تو مذکورہ پروفیسر صاحب کا جواب تھا کہ میں جو علم کے گھاٹ گھاٹ سے پانی پی کر آیا ھوں ،اس مسئلہ کو حل نہ کر پایا،جب کہ آپ اس شخص کے پاس جانے کا مشورہ دے رہے ہیں کہ جس نے کالج و یونیورسٹی تو دور کی بات اپنے شہر کے سکول سے بھی علوم عصریہ کو نہ سیکھا،دوچار دن کہ بعد پرفیسر اشرف صاحب یہی مشورہ دیا،اور چانسلر صاحب کا وہی جواب تھا،اور ساتھ ہی ساتھ رخت سفر یورپ باندھتے رہے کہ پروفیسر صاحب نے پھر بریلی جانے کا کہا تو چانسلر صاحب غصہ سے بھرے لہجے میں کہنے لگے پروفیسر صاحب عقل بھی کوئی چیز ہے،آپ مجھے کیسا مشورہ دے رہے ہیں،
    پروفیسر صاحب کہنے لگے اتنے بڑے سفر کے مقابلے میں تو بریلی جانا آسان ہے، سیدھی ریل گاڑی جاتی ہے ایک دفعہ ھو آئیے،بالآخر ایک دن پروفیسر صاحب،وائس چانسلر علی گڑھ یونورسٹی ،اور سید شاہ مہدی حسن مارہرہ سے ساتھ لے کر حاضر خدمت ھو گئے،ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ میں علم ریاضی کا ایک مسئلہ پوچھنے حاضر ھوا ھوں ،امام احمد رضا نے جواب دیا کہ پوچھیےتو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ وہ اتنا مسئلہ نہیں ہے کہ میں اتنی جلدی آپ کو بیان کر سکوں گا،تو امام احمد رضا نے کہا کہ وہ کچھ تو ھو کہہ دیجئیے،الغرض چانسلر صاحب نے مسئلہ پیش کیا اور امام احمد رضا نے سنتے ہی جواب کہہ دیا،جس پر وہ بے اختیار بول اٹھے کہ سنتا تھا کہ علم لدنی بھی کوئی شئے ہے آج دیکھ بھی لیا،میں تو اس مسئلہ کے حل کے لیے جرمنی جانا چاہ رھا تھا کہ پروفیسر سلیمان اشرف صاھب نے یہاں آنے کا مشورہ دیا،مجھے تو یوں لگ رھا تھا کہ آپ کتاب کو دیکھ کر جواب کہہ رھے تھے۔4
    1329ھ کا واقعہ ہے کہ اخبار "دبدبہ سکندری"رامپور انڈیا میں ڈاکٹرسر ضیاءالدین صاحب نے علم المربعات کاایک سوال شائع کرایا،کہ کوئی ریاضی دان صاحب اس کا جواب دیں ،حسن اتفاق کہیے،کہ ان دنوں امام احمد رضا کا علم المربعات پہ ایک رسالہ بنام الموھبات فی المربعات نقل ھو رھا تھا،امام احمد رضا نے اس سوال کا جواب اور اسی فن کا ایک سوال جواب کے لیے تحریر فرما کر اخبار میں چھپوا دیا ،جب وہ جواب چھپا تو ڈاکٹر صاحب کو حیرت ھوئی کہ ایک عالم دین بھی اس علم کو جانتا ہے خیر انہوں نے اپنے تئیں ساتھ آنے والے سوال کا جواب دبدبہ سکندری میں چھپوا دیا ،جواب غلط تھا،امام احمد رضا نے اس کو غلط قرار دے دیا،ورطہ حیرت میں مبتلا ڈاکٹر صاحب کو مزید تعجب ھوا کہ ایک عالم دین نہ صرف اس علم کو جانتا ہے بلکہ اس میں کمال مہارت بھی رکھتا ہے،شوق ملاقات کشاں کشاں بریلی لے آیا ،تو امام احمد رضا نے انہیں اپنا ایک قلمی رسالہ دکھایا کہ جس میں اشکال مثلث اور دوائر بنے ھوئے تھے،ڈاکٹر صاحب نے بصد استعجاب دیکھنے کے بعد کہا کہ میں نے اس علم کو سیکھنے کے لیے بے شمار ملکوں کے سفر کیا ،سب جگہ سے ڈگریاں اور تمغات و اعزازات حاصل کیے، مگر جو باتیں آج سیکھیں اس سے قبل نہ سیکھ پایا، آپ یہ بتائیے کہ یہ علوم کس استاذ سے سیکھے،تو امام کا جواب تھا کہ میرا کوئی استاذ نہیں، صرف چار قاعدے حساب کے((جمع،تفریق،ضرب و تقسیم )) والد گرامی نے اس لیے سکھائے تھے کہ علم میراث میں کام آتے ہیں،شرح چغمینی پڑھنا شروع کی تو والد گرامی نے فرمایا تھا کہ یہ علوم خود سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سکھا دیں گے،آپ خود دیکھ لیں کہ مکان کی چار دیواری میں خود ہی بیٹھا کرتا رھتاھوں،پھر کسور اعشاریہ متوالیہ کی قوت کا ذکر چل پڑا،کہ عیسائی ریاضی دان تیسری قوت سے آگے کا سوال حل کرنے سے قاصر ہیں، تو آپ نے اپنے دو تلامذہ((طفر الدین بہاری،اور قناعت علی)) کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا کہ میرے بچوں کو آپ جس بھی قوت کا سوال دیں گے یہ حل کر دیں گے،اس پر ڈاکٹر صاحب متحیر ھو کر آپ کے شاگردوں کو دیکھنے لگ گئے،ڈاکٹر صاحب نے پھر دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ آفتاب حقیقتاًابھی طلوع بھی نہیں ھوتا مگر دیکھنے یوں لگتا ہے کہ سورج طلوع ھو چکا ہے،اس پر آپ نے علمی اصطلاحات میں جواب دیتے ھوئےعملی تجربہ کا مشاھدہ بھی کروایا،کہ ایک طشت میں تھوڑا سا پانی اور ایک روپیہ کا سکہ بھی ڈلوا دیا،اور ڈاکٹر صاحب کو کھڑا ھو کر مشاھدا کروایا،کہ سکہ نظر آ رھا ہے کہ نہیں؟انہوں نے کچھ فاصلہ سے دیکھنے کہ بعد کہا ھاں نظر آرھا ہے،اس پر انہیں تھوڑا پیچھے ہٹنے کو کہا اور پھر پوچھا،تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں اب نظر نہیں آرھا،جس پر تھوڑا اور پانی ڈلوایا تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ اب نظر آرھا ہے،جس پر انہیں مزید دو قدم پیچھے ہٹنے کو کہا تو پھر سکہ نظر سے غائب ھو گیا جس پر پھر پانی ڈلوایا تو پھر سکہ نظر آنے لگا،اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا علم فقط نظریات تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ علوم فلسفیہ میں عملی مشاھدہ کی وہ بے نظیر قوت رکھتے تھے کہ آپ کے وہ معاصرین جو بظاھر لوگوں کی نظر میں کمال علم رکھتے تھے آپ کے سامنے طفل مکتب کی حیثت میں نظر آتے تھےاور آپ ان کی نہ صرف راہنمائی فرماتے تھے تھے بلکہ علمی پیاس بجھانے کا بھی سامان کر دیا کرتے تھے۔5
    اس تحریر سے یہ تو واضح ھو گیا کہ آپ نے علوم فلسفہ کو کس طرح حاصل کیا، اور کتنا حاصل کیا ،مگر اللہ تعالی کا فضل و کرم ان پر ایسا جم کر برسا کہ جس فن کی طرف توجہ فرمائی کمال کر دیا،بایں طور کہ طالبان علم کے لیے کوئی تشنگی باقی نہ رہی اور ارباب علوم فلسفہ جو کہ مادہ پرستی میں الحاد و بے دینی کا شکار ھو چکے تھے انہیں ورطہ حیرت میں مبتلاء کر دیا،ایک مقام پر بطور تحدیث نعمت یوں رقم طراز نظر آتے ہیں کہ((فقیر نے حساب،جبر ومقابلہ ،لوگارثم،وعلم مثلث کروی وعلم ھیئت قدیمہ وھیئات جدیدہ و زیجات و ارثماطیقی و غیرھا میں تصنیفات فائقہ اور تحریرات رائقہ لکھیں اور صدھا قواعد و ضوابط خود ایجاد کیے،تحدثا بنعمۃ اللہ تعالیٰ یہ بحمد اللہ تعالیٰ اس ارشاد اقدس کی تصدیق تھی کہ ان کو خود حل کر لو گے)):6
    وہ علوم فلسفیہ جن سے آپ نے بحث کی ،اوران میں آپ کی علمی دسترس :
    علوم فلسفیہ پر آپ کی مختلف تحاریر و تصانیف اس بات پر شاھد ھیں کہ آپ کو حسب ذیل علوم پر مکمل رسوخ اور مھارۃ حاصل تھی،ان میں سے کچھ علوم وہ ہیں جن کی تصریح آپ نے خود کر دی، جس معلوم ھوتا ہے کہ کہ آپ نے ان علوم پر کام بھی کیا ہے ،جب کہ اس کام کی تفاصیل آپ کی تصانیف میں بھی مل جاتی ھیں نیز سوانح بھی اس پر شاھد ھیں۔
    1: علم طبعیات
    2: فلسفہ بطلیموس( ھیئت قدیمہ)
    3:ھیئات جدیدہ (فلسفہ کوپرنیکس پولینڈی)
    4: فلسفہ مادّہ پرستان(میٹریل ازم)
    5:منطق جدید
    6:طب
    7:ریاضی
    8:ھندسہ
    9:جبر ومقابلہ
    10:لوگارتھم
    11:جیومیٹری(علم مربعات،علم مثلث کروی)
    12:زیجات
    13 :ارثماطیقی
    ھمارے ممدوح علوم فلسفیہ میں منزل عبقریت کے راہی نظر آتے ہیں،یوں معلوم ھوتا ہے کہ آپ غزالی کے وارث،اسرار رازی کے واقف،سیوطی جیسے نابغہ عصراور فرید الدھرہیں کیونکہ علوم فلسفیہ میں جو ید طولیٰ آپ کو حاصل تھا ،وہ آپ کے معاصرین فلاسفہ کو ساکت وصامد کر دینے کے لیے کافی تھا ،جب کبھی کوئی فلسفی عقدہ کشائی کرتے کرتے عاجز آجاتا،تو آپ چند لمحوں میں اس کو اس جزئیہ لا ینحل کا جواب دے کر حیران کر دیتے جیسا کہ ابھی چند سطور پہلے اس کی تفصیل گزر چکی ہے،اب آئندہ سطور میں جن موضوعات سے آپ نے بحث کی،اور علوم فلسفیہ میں آپ کی خدمات کا جائزہ پیش کریں گے،
     
    ممتاز قریشی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں