1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امام اہلِ سنت الشاہ محمد احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از الکرم, ‏9 اگست 2011۔

  1. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    ایک تاریخی انٹرویو۔ ایک یادگار دستاویز

    امام اہلِ سنت الشاہ محمد احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی ذات اور شخصیت کے حوالے سے آپ کے شاگردِ رشید حضرت قبلہ پیر سید محمد اصغر علی شاہ، سجادہ نشین دربار لاثانیہ علی پور سیداں شریف، سے انٹرویو جو شاہ صاحب علی پوری رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی زندگی میں ان سے کیا گیا۔

    انٹرویو نگار: پروفیسر محمد اکرم رضا


    علی پور سیّداں وہ خطہٴ خوش بخت ہے جو پسرور اور نارووال کے درمیان واقع ہے۔ یہ گاؤں اتنا خوش بخت ہے کہ اس نے بیک وقت کئی اولیاے کرام کی قدم بوسی کا شرف حاصل کیا ہے۔ حضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمة اللہ تعالیٰ علیہ اور حضرت قبلہ سید پیر جماعت علی شاہ ثانی لاثانی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ ایک ہی گلشن کے دو پھول تھے جو چند واسطوں سے آگے جاکر مل جاتے ہیں۔ حضرت امیرِ ملت علی پوری جس طرح بریلی شریف، اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی، صدر الافاضل، حجة الاسلام اور محدثِ کچھوچھوی رحمة اللہ علیہم کی خدمات سے گاہ تھے، اس کا اندازہ آپ کے نظریاتی کارناموں اور خاص طور پر آل انڈیا بنارس سنی کانفرنس میں آپ کے صدارتی خطبوں سے ہوجاتا ہے۔ اسی طرح سرکار لاثانی رحمة اللہ علیہ اگرچہ علم لدنّی سے بہرہ ور درویش کامل تھے، مگر تحریکاتِ آزادی اور بریلی شریف میں حضور فاضلِ بریلوی رحمة اللہ علیہ کی خدماتِ عالیہ سے غیر آگاہ نہیں تھے۔ آپ نہ صرف خود بریلی شریف کی مساعی سے باخبر تھے بلکہ اپنی اولاد کو بھی بریلی شریف کی مساعی کا حصہ بننے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔

    1540ء میں جب سلطانِ ہند نصیر الدین ہمایوں، شیرشاہ سوری سے شکست کھاکر جان بچانے کے لیے ایران پہنچا تو وہاں کے تاجدار طمہاسپ شاہ نے برسوں اسے پناہ بھی دی اور اس کے احترام میں کمی بھی نہ آنے دی۔ اسی دور میں ہمایوں نے دیکھا کہ طمہاسپ شاہ ایک درویش باخدا فخرِ سادات سید نظام الدین شاہ کا بہت ادب کرتا ہے تو اس نے ان کی وساطت سے طمہاسب شاہ سے کہا کہ فوج کے ساتھ مجھے ہندوستان بھیجئے تاکہ میں پھر سے ہندوستان کی حکومت حاصل کرسکوں لیکن میرے ساتھ سید نظام الدین شاہ کو بھی بغرضِ تبلیغ ضرور بھیجئے۔ شاہِ ایران نے بات مان لی۔ بڑا لشکر آپ کے ہمراہ کیا اور سید صاحب بھی ہندوستان آگئے۔ ہمایوں نے تخت و تاج کے حصول کے بعد سید صاحب کی بے پناہ قدر و منزلت کی مگر آپ نے درباری آؤبھگت کے بجائے کسی دور دراز کے گاؤں کو ترجیح دی جہاں آپ سکونِ قلب سے خدا کی عبادت کرسکیں۔ ہمایوں کے بیٹے اکبر اعظم نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور پسرور اور نارووال کے درمیان کئی دیہات آپ کی ملکیت میں دیے۔ ان میں سے فقط علی پور سیّداں کو ان اقطابِ والا قدر کی بدولت صرف اس علاقے میں ہی نہیں بلکہ برصغیر پاک و ہند میں غیر معمولی قدر و منزلت اور شہرت اور ملک گیر پذیرائی عطا ہوئی۔

    زمانہ سفر کرتا رہا۔ حتّٰی کہ سرکار ثانی لاثانی سید جماعت علی شاہ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کا دور آگیا۔ سرکار لاثانی کے تین صاحبزادے تھے جو آپ کی زندگی میں ہی انتقال فرماگئے۔ بڑے صاحبزادے سیدنا فدا حسین شاہ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کے صاحبزادوں میں سیدنا علی اکبر شاہ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ، سیدنا علی اصغر شاہ رحمة اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا رضی قطب شیرازی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے بہت نام پیدا کیا۔ سیدنا علی اکبر رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کو سرکار لاثانی کی جانشینی کا شرف بھی حاصل ہے۔ (سیدنا عطا اکبر کے صاحبزادوں میں سید محمد افضل حسین شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ، سید محمد فیاض حسین شاہ اور سید محمد اسلم شاہ خاص طور سے اہمیت رکھتے ہیں۔)

    ان تعارفی سطور کے بعد اب بات چلی ہے سرکار ثانی لاثانی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے پوتے سیدنا فدا حسین شاہ کے صاحبزادے اور سیدنا علی اکبر شاہ کے برادر خورد حضرت قبلہ سید علی اصغر شاہ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی کہ جنہیں اپنے والد محترم کے حکم کی تعمیل میں بریلی شریف میں تعلیم حاصل کرنے کی سعادت عطا ہوئی۔

    راقم (پروفیسر محمد اکرم رضا) عرصہٴ بیس سال سے آستانہٴ عالیہ لاثانیہ اکبریہ علی پور سیّداں میں بغرضِ زیارت اور بسلسلہٴ تقریر و خطابت ایک ایک سال میں کئی کئی مرتبہ حاضری دیتا رہا ہے۔ ہر مرتبہ دو دو راتیں گزر جاتیں۔ اب وہ لمحاتِ قدسیہ یاد آتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔ حضرت سید محمد افضل شاہ جماعتی اکبری، حضرت سید فیاض حسین شاہ جماعتی اکبری، حضرت قبلہ سید علی اصغر شاہ جماعتی اکبری رحمہم اللہ کی رحمتیں، عنایات، مدارات اور کرم فرمائیاں میری یادوں کا حصہ ہیں۔ نامور شاعر اور تاریخ گو حضرت سید قطب رضی شیرازی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی شفقتیں الگ سے میرے دبستانِ فکر کو مہکارہی ہیں جو پیری مریدی کی طرف تو نہ آئے مگر تعلیم و تدریس کو جزوِ زندگی بناکر تدریس، شاعری اور تصوف سے بیک وقت تعلق جاری رکھا۔ اور میں وہ لمحے نہیں بھول سکتا کہ ایک شب جب کہ عرس کی تقریبات زوروں پر تھیں تو آپ تشریف لائے۔ تمام اکابر احتراماً کھڑے ہوگئے۔ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ ”فقط آپ سے ملنے کے لیے آیا ہوں۔ صبح کا ناشتہ میرے ہاں کیجیے گا۔“ پھر صبح کا ناشتہ تو ملنا ہی تھا اس کے ساتھ علی پور سیّداں کے اکابر، ان کے کارناموں اور شعر و ادب کے حوالے سے جو کچھ عطا ہوا، وہ اپنی جگہ سے الگ سیر حاصل داستان ہے۔

    1948ء میں حسبِ سابق علی پور سیّداں کی نور آفریں فضاؤں میں حاضر ہوا تو ارادہ کیا کہ حضرت قبلہ پیر سید علی اصغر شاہ جماعتی اکبری سے بریلی شریف کے حوالے سے انٹرویو کیا جائے۔ کیونکہ ہم نے مدت سے سن رکھا تھا کہ آپ جامعہ رضویہ منظر اسلام، بریلی شریف کے فارغ التحصیل ہیں۔ ایک داستانِ شوق سننے کا تصور دل میں مچل رہا تھا۔ میرے ہمراہ مولانا غلام نبی جماعتی مہتمم مدرسہٴ عطاء العلوم گئے تھے۔ فوراً چلے تو آپ کی خدمت میں ہدیہٴ نیاز بجا لائے، عشق و عقیدت کے آداب سے گزرنے کے بعد عرض کیا حضور میرا نام پروفیسر محمد اکرم رضا ہے۔ نام سن کر فرمایا یہ نام میں نے مدت سے سن رکھا ہے اور آپ کی تحریریں بھی پڑھتا ہوں۔ آپ کے داماد اور جانشین سید محمد اسلم جماعتی مسلسل ہم خاک نشینوں کی تواضع میں مصروف تھے۔ اب انٹرویو کا آغاز ہوتا ہے:

    (… اکرم رضا):شاہ صاحب! عمر عزیز کا بھی حساب بتایئے کہ اندازہ ہوسکے آپ کب بریلی تشریف لے گئے تھے؟

    (سید علی اصغر شاہ):تاریخِ پیدائش کی بات چھوڑیں۔ میں نے تیسری جماعت تک اپنے علاقہ میں ہی تعلیم حاصل کی۔ مگر میں روحانی خانوادے کا رکن تھا۔ مجھے احساس ہونے لگا کہ یہ تعلیم فقط وقت گزارنے والی بات اور سعیِ لاحاصل ہے۔ میری عمر کے بارے میں اندازہ لگالیجیے کہ جب میں نے تیسری جماعت میں تعلیم چھوڑی تو چھ سال کا تھا۔ جارج پنجم اس وقت تخت نشین ہوا تھا۔ اس کے بہی خواہوں نے سارے ملک میں لڈو تقسیم کیے تھے اور شہر اور قصبے میں روشنی کا بھرپور اہتمام کیا گیا تھا۔ میرے والد گرامی حضرت پیر سید فدا حسین شاہ رحمة اللہ علیہ میرے اسکول میں تشریف لائے۔ جو کچھ میں نے پڑھا تھا سُنا اور پھر فوراً ہی بستہ اٹھا کر اس اسکول سے رخصت ہونے کا حکم دیا ۔ اگلے دن اسکول چلنے لگا تو کہا چھوڑدو کوئی فائدہ نہیں۔ امیر ملت کے مدرسہٴ نقشبندیہ میں نئے مولوی صاحب یوسف آئے تھے۔ انھوں نے پڑھانا شروع کیا اور صرف و نحو تک ان سے پڑھا ۔ والدصاحب نے سنا تو پھر بھی مطمئن نہ ہوئے اور گھر لے آئے ۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ آگے کیا کروں گا کہ والد گرامی نے اچانک فرمایا: ”اگر باہربھیجوں تو چلے جاؤ گے؟“ بصد احترام والد گرامی سے عرض کیا: ”بسر دچشم“۔ والد محترم نے معاً فرمایا کہ فوراً تیاری کرو اور بریلی شریف پہنچ کر تعلیم مکمل کرو ۔

    یہ کہہ کر بریلی شریف کا پورا راستہ اور مدرسہٴ عالیہ کا نقشہ سمجھا دیا۔ ساتھ ہی فرمایا: بچ کر رہنا۔ راستہ میں تمہیں گمراہ کرنے والے اور لُوٹنے والے بہت مل جائیں گے مگر کسی کی پرواہ نہ کرنا اور جامعہ منظر اسلام پہنچ کر ہی دم لینا ۔ والد گرامی نے خوب زادِراہ دیا۔ حضور اعلیٰ ٰحضرت رحمة الله علیہ کو سلام کہلوایا اور بریلی شریف کی جانب روانہ کردیا ۔

    … پھر کیا آپ آسانی سے منزل مقصود تک پہنچ گئے۔

    @ ارے کہاں بھئی ۔ اعلیٰ حضرت نے شایداسی لئے فرمایا
    میں مجرم ہوں آقا مجھے ساتھ لے لو
    کہ رستے میں ہیں جابجا تھانے والے

    جب بریلی شریف پہنچاتو رات ہو چکی تھی ۔ ایک سرائے میں قیام کیا۔ وہاں سے قریب ہی ایک دیوبند کا مدرسہ تھا ۔ انہوں نے بھانپ لیا کہ ایک لڑکا ہے جو بہت دور سے آیا ہے۔ یقینا طالب علم ہے، اسے اپنا بنالو ۔ چنانچہ وہ رات کو ہی مجھے علمی بلندیوں اور تعلیم و تدریس کے سہانے خواب سنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ جب میں نے کہاکہ امام احمد رضا خاں کا مدرسہ یہی ہے؟ تو کہا بالکل یہی ہے ۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ باتیں تو دلکش کرتے ہیں مگر علمی روحانیت کی خوشبو محسوس نہیں ہوتی۔ میں نے پھر اعلیٰ حضرت کا نام لیا تو ہکلانے لگے ۔ میں سمجھ گیا کہ غلط ہاتھوں میں آ پھنسا ہوں ۔ میں نے صبح کو اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک کپڑا فروش کی دوکان نظر آئی جس کا نام ذکاء الله تھا ۔ وہ حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمة کا انتہائی نیاز مند تھا ۔ اس نے کہا کہ شاہ صاحب سامان رہنے دو اور خاموشی سے نکل چلو ورنہ سامان کے نام پر تمہیں پردیسی جان کر جھگڑا کریں گے۔ چنانچہ میں نے سامان وہیں رکھا، نکلنے لگا تو انہوں نے دیکھ لیا ۔ پوچھا کہاں جاتے ہو۔ میں نے کہا میں مولانا احمد رضا خاں کے مدرسے میں پڑھنے کے لئے آیا ہوں ۔ انہوں نے کہا صاحبزادے وہ تو دیوبندی ہیں، ان کے پاس کیوں جاتے ہو۔ میں بھی سید زادہ تھا۔ ذکاء اللہ کپڑا فروش بھی میرے ساتھ تھا۔ میں نے اور میرے دوست نے خدا کا نام لے کر تمام سامان اور ڈبے وغیرہ اٹھائے اور للکار کرکہا روک سکتے ہو تو روک لو ۔ وہ میرے تعاقب میں نکلے۔ سامنے سے ایک تانگا آرہا تھا ہم نے اسے آواز دے کر کہا ہماری مدد کرو اور مولانا احمد رضا خاں کے مدرسے میں پہنچادو ۔ وہ بھی اعلیٰ حضرت کا نیاز مند تھا۔ اس نے کہا کہ میں بھی ادھر کو جارہا ہوں۔ اِدھر ہم تانگے پر بیٹھے اُدھر اس نے گھوڑا دوڑایا اور تھوڑی ہی دیر میں ہم محلہ سودا گراں میں واقع جامعہ منظر اسلام بریلی کی ایمان افروز فضاؤں میں پہنچ گئے ۔

    …شاہ جی! یہ تو کمال کی دلیری و استقامت کی داستان سنائی آپ نے ۔ کہاں علی پورسیّداں شریف اور کہاں بریلی شریف جب کہ آپ اکیلے تھے لیکن آپ کی قوتِ ایمانی آپ کو منزل مقصود تک لے آئی۔ جب آپ مدرسہٴ منظر اسلام پہنچے تو حضرت فاضل بریلوی سے ملاقات ہوئی؟

    ارے بھئی کہاں ؟ ان دنوں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ علاج اور تبدیلیِ آب و ہوا کے لئے نینی تال گئے ہوئے تھے ۔ مدرسہ والوں نے میرا بڑا احترام کیا ۔ مجھ سے کسی قسم کی غیریت اور اجنبیت کا برتاؤ نہ کیا گیا ۔ بلکہ مدرسہ کے مدرسین نے کہا کہ اب آگئے ہو تو داخلہ لے لو تاکہ جلد از جلد تمہاری تدریس کا اہتمام ہوسکے ۔ میں نے مسکرا کر کہا، حضرت اب ایسی بھی کیا جلدی۔ اپنوں کے درمیان آگیا ہوں۔ جب اعلیٰ حضرت آئیں گے تو ان کی زیارت کروں گا، دل کو شاد کام کروں گا اور پھر داخلہ بھی لے لوں گا ۔ پہلے زیارت تو ہولینے دو ۔ جملہ مدرسین میرا اصرار اور شوق دیکھ کر چپ ہوئے۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ زیارت میں دیر ہورہی ہے ۔ یہ سوچ کر میں نے منتظمین سے کہا میں زیارت میں تاخیر نہیں کرسکتا ۔ میں تو نینی تال جارہا ہوں ۔ آپ نے کچھ بھیجنا ہے تو بھیج دیں ۔ انہوں نے آپ کے لئے کچھ دوائیاں میرے ہمراہ کردیں اور مجھے نینی تال کے لئے روانہ کردیا۔

    … سبحان الله! شاہ صاحب، شوق زیارت ہو تو ایسا ہو کہ پل بھر چین ہی نہیں لینے دیتا ۔ پھر آپ نینی تال پہنچ گئے ۔ اور جب پہنچے تو اپنے ممدوح فاضل بریلوی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کو کیسا اور کس حال میں پایا؟

    @ میں جب پہنچا تو ایسا لگا جیسے دل کی بے قراری کو قرار آگیا ہو ۔ اعلیٰ حضرت رحمة اللہ تعالیٰ علیہ اس وقت کافی حد تک رُو بصحت تھے ۔ آپ کا وجود دبلا پتلا تھا۔ میں نے آپ کا حال احوال بڑے ادب سے پوچھا تو آپ نے میرا نام دریافت کیا۔ میں نے عرض کیا علی اصغر ۔ آپ اچانک چونک اٹھے اور فرمایا سیّد معلوم ہوتے ہو۔ ماشاء الله! میں فوراً سمجھ گیا کہ مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ سیّد ہونے کا اقرار کرلیا۔ آپ نے فوراً دو آدمیوں کو اشارا کیا کہ مجھے کھڑا کرو۔ انہوں نے کھڑا کیا۔ آپ نے فوراً میری پیشانی چوم لی۔ خدا کی قسم! آج بھی جبکہ میں بڑھاپے کی منزل کے بہت سے مرحلے طے کرچکا ہوں تو اب بھی مجھے پیشانی پر اس مقام پر خنکی کا احساس ہوتا ہے جہاں آپ نے بوسہ لیا تھا۔

    …حضور اعلیٰ حضرت سادات سے غیر معمولی محبت کا رشتہ رکھتے تھے۔ ایک مثال تو آپ دے چکے، مزید ارشاد فرمایئے۔

    @ آپ کی سادات سے محبت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ آپ تو آپ، آپ کے صاحبزادگان والا تبار بھی اس معاملہ میں آپ کے نقشِ قدم پر چل رہے تھے۔ ایک بار ایک سید آگئے۔ تھری پیس سوٹ میں ملبوس۔ آپ نے اس کے بوٹ چومے کہ شرم کھاکر شریعتِ رسول کا احترام کرے۔ مگر اس کندہ ناتراش کو بالکل شرم نہ آئی۔ مجھے ناراضگی محسوس ہوئی۔ میں نے ادب سے سرجھاکر کہا آپ نے اچھا نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا، مجھے اس سے کیا، میں نے تو آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ اور تعلق دیکھا ہے۔ آپ کا سارا خاندان ہی سادات کی عزت کرتا تھا۔ حتیٰ کہ خاندانِ رضویہ کی مستوراتِ عالیہ سادات عورتوں کے احترام میں کسی سے کم نہ تھیں۔ یہی جی چاہتا تھا کہ ساری کائنات ہی سادات کے قدموں میں نچھاور کردی جائے۔

    …اپنے زمانہٴ طالب علمی کی طرف لوٹیے۔

    @ جب میں گھر سے چلا تھا تو ابا جان سے عرض کیا کہ تعارفی رقعہ بھی دیدیجیے گا۔ فرمایا، وہاں تعارفی رقعہ کی کیا ضرورت ہے۔ ارے بھائی! خوشبو خود اپنا تعارف آپ ہوتی ہے۔ تم میں کمال ہوگا تو خود بخود پہچانے جاؤگے اور پھر تم مخدوم بن کر نہیں جارہے، طالب علم بن کر جارہے ہو۔ مگر حیرت ہے کہ کسی رقعہ اور تعارف کے بغیر حضور اعلیٰ حضرت نے یوں پہچانا جیسے خفیہ وائرلیس اپنا کام کررہی ہے۔ اعلیٰ حضرت مجھے نینی تال سے ساتھ لائے اور فرمایا، اب جاکر داخل ہوجاؤ۔ داخل ہوگیا۔ وہاں اتنی محبت ملی کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں اپنا گھر بار، وطن اور پنجاب بھول ہوگیا۔ چھٹیاں ہوئیں تو دس/ بارہ دن وہیں گزارے اور پھر حضور کے اصرار پر چند یوم کے لیے گھر آیا۔ ان دنوں حضرت حبیب الرحمن، حضرت سعید اشرف اور شرف کچھوچھ اہلِ سادات سے موجود تھے۔ مجھے چوبارہ میں جگہ ملی۔ میں نے اوپر رہنا مناسب نہیں سمجھا تو اعلیٰ حضرت نے پہلے مجھے اپنی رہائش گاہ میں رکھا۔ نئی چارپائی، بالکل ان چھوا نیا بستر عطا کیا۔ پھر میں دارالاقامة میں آگیا۔ حضور اعلیٰ حضرت جب بھی دار الاقامة میں جاتے تو پہلے میرے کمرے میں آتے۔ اس اصول کو کبھی ترک نہیں فرمایا۔ میرے کمرے کو دیکھ کر فرماتے، تمہارا کمرہ بہت مصفّٰی اور صاف ستھرا ہے۔ آپ جب کثرت سے کام کرتے دیکھتے تو فرماتے، شام جلدی سوجایا کرو تاکہ صبح جلدی اٹھا کرو۔ اس کو معمول بنالو۔ کبھی کبھی خفیہ طور پر بھی آجاتے کہ میں سویا ہوں کہ کام کررہاہوں۔ میں منظر اسلام بریلی میں داخل ہوا۔ پہلے حجة الاسلام حضرت محمد حامد رضا خاں اور مفتی اعظم ہند حضرت مصطفی رضا خاں رحمة اللہ تعالیٰ علیہما اکٹھے رہتے تھے مگر جب حضور اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ کا وصال ہوگیا تو دونوں بھائی نہایت خوش دلی کے ساتھ الگ الگ گھروں میں آگئے۔

    …شاہ صاحب! اعلیٰ حضرت کے وصال کی بات چلی ہے تو اس حوالے سے ارشاد فرمایئے۔

    @ بیٹے! کیا بتاؤں، ایک قیامت تھی جو گزر گئی۔ تم نے کتابوں میں بہت کچھ پڑھ رکھا ہوگا۔ اب بھی بیان کرتا ہوں تو آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں۔ آپ بوقتِ وصال اتنے اطمینان و سکون سے مخلوقِ خدا اور رشتہ داروں کے ساتھ باتیں کرتے گئے جیسے کوئی کہیں مہمان جارہا ہے۔ نہ موت کا غم، نہ قبر و حشر کی فکر، فقط دیدارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طلب اور شوقِ ملاقات۔ کمرے سے تمام تصاویر حتیٰ کہ سکے تک نکال دیے کہ ان پر شاہانِ انگلشیہ کی تصویر ہے۔ جب ہم پر قیامت ٹوٹی تو جمعہ کا دن تھا۔ موٴذن سے اذان کے لیے کہا۔ اس نے حی علی الصلاة کہا اور آپ کی روح اپنے محبوبِ حقیقی سے ملاقات کے شوق میں قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ جلسہ گاہ میں لے جاکر جنازہ پڑھایا گیا۔ حدِ نظر تک ہجوم ہی ہجوم، مخلوق ہی مخلوق۔ چارپائی کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھ دیے۔ بعض نے تبرک کے طور پر چارپائی کے بانسوں سے چادریں باندھ دیں مگر حدِ نظر تک پھیلا ہوا ہجوم شمار میں نہیں آتا تھا۔ حجة الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خاں رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور مولانا حامد رضا خاں کے مکان محلہ سوداگراں کے قریب ہی آپ کے وجود کو آنسوؤں کی برسات میں قبرِ انور میں اتارا گیا۔ بس پھر کیا تھا، ایک سیل اشک تھا جو دنیاے اسلام کے کونے کونے سے جاری ہوگیا اور اب بھی جب آپ کی یاد آتی ہے تو فرطِ عقیدت سے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔

    …آپ کے اساتذہ جن کے سامنے آپ نے زانوے تلمّذ طے کیا۔

    @ حسنین رضا، مولانا امجد علی (صدر الشریعہ صاحبِ بہارِ شریعت) اور مولانا رحم علی رحمہم اللہ تعالیٰ۔ اور اس معاملہ میں، مَیں خوش قسمت ہوں کہ مرے اور زمانے بھر کے استاد ذی المعظم حضرت شاہ احمد رضا خاں علیہ الرحمة نے بھی شرحِ وقایہ کا ایک سبق بطورِ خاص پڑھایا۔ اور بعد میں بھی کبھی کبھی تشریف لے آتے یا بلالیتے اور قیمتی نصائح اور علومِ دینیہ کے حوالے سے خصوصی طور پر نوازتے۔

    …اعلیٰ حضرت کا رہن سہن کیسا تھا؟

    @ ارے میاں، کیا بتاؤں۔ جب بھی ہم ان کے کمرے میں گئے، بہاروں اور خوشبوؤں نے استقبال کیا۔ آپ کوئی غریب تھوڑی تھے۔ اللہ نے مال اور دل سے نواز رکھا تھا۔ کبھی کسی تقریر، تحریر، تعویز یا فتویٰ کا ہدیہ قبول نہ کیا بلکہ کسی کو حاجت مند جان کر ہمیشہ خود خدمت کی۔ پیسہ لینے کی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ صاحبِ جائیداد تھے۔ حصے مقرر کررکھے تھے۔ آپ پان کھاتے، قوام خوشبودار کہ کمرہ مہک اٹھتا۔ آپ کے تین گاؤں میں مکانات تھے۔ ایک دن میں نے اس وقت جبکہ حجة الاسلام حامد رضا خاں بھی موجود تھے، ازراہِ تفننِ طبع کہا (پنجابی میں) کہا، کھلی مشکی اور ڈھگیا۔(حامد میاں سے مشکی کھلی رہ گئی اور اوپر سے ڈھک گیا)۔ حضور اعلیٰ حضرت نے اس جملے کا لطف لیا۔ آپ رَسَاوَل (گنے کے رس کی کھیر) شوق سے کھاتے۔ دیہات میں جاتے تو آپ کے لیے گنے کی کھیر پکوائی جاتی۔ کوری ہنڈیا میں پکتی اور کورے پیالوں میں تقسیم ہوتی۔ آپ کا لباس ہمیشہ خوبصورت اور صاف ستھرا ہوتا۔ اگر کوئی زیادہ تعریف کرتا تو فوراً وہ لباس اسی کی نذرکرتے۔ ویسے بھی بہانے بہانے سے حق داروں میں کپڑے اور اخیاس تقسیم کرتے۔

    … شاہ صاحب ! اہم ترین سوال۔ رسوائے زمانہ کتاب ”البریلویة“ کے مصنف احسان الٰہی ظہیر نے اعلیٰ حضرت رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کی شخصیت آپ کے خاندان، علمی حیثیت اور شکل و صورت پر بہت بہتان باندھے ہیں۔ آپ سید زادے ہیں، زندگی کی بہت سی بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ آپ نے تو فاضل بریلوی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ان سے اور ان کے مدرسہ میں پڑھا ہے۔ شب و روز ان کی زیارت کی ہے۔ آپ کے سر پر صدیوں سے سادات کا ظِل نور سایہ فگن ہے۔ ذرا اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی کی شکل اور سراپا کے بارے میں وضاحت تو کردیجیے۔احسان الٰہی ظہیر تو آپ کو چیچک رو، چھوٹے قد کا اور بدوضع بتاتا ہے۔

    @ ارے میاں!جھوٹے پر لاکھوں بار لعنت۔ صدیوں سے سید زادہ ہوں سچ کہوں گا۔جس نے دیکھا نہیں ہفوات بک رہا ہے اور جو سالوں ان کی مجلس میں بیٹھتا ہے وہ جو کہے گا وہی سچ ہوگا۔ خدا کی قسم حضرت فاضل بریلوی تو حسن و جمال کا پیکر تھے۔ شکل و صورت میں کمال کی دلکشی اور جاذبیت پائی جاتی تھی کہ دیکھیں تو دیکھتے ہی جائیں۔ بولتے تو منہ سے پھول جھڑتے۔ یہ میں شاگرد ہونے کی بنا پر ایسا نہیں کہ رہا۔ ہم سیّد زادے ہیں، ہمیں اپنے حُسن پہ ناز ہوتا ہے۔ لیکن وہاں تو منظر ہی اور تھا۔
    ععالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں
    گول چہرہ، سرخ اور سفید رنگت۔ ارے تم نے کوئی پٹھان بھی سانولے یا سیہ رنگت کا دیکھا ہے۔ وہاں تو چہرہ نور کا پیکر نظر آتا تھا۔ اگرچہ بڑھاپا آگیا تھا مگر چہرے پر بدستور سرخی اور سفیدی کی آمیزش تھی۔ قد مبارک میانہ سے قدرے بلند تھا۔ درمیانہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس سے اونچا تھا۔ لباس مبارک سفید پاجامہ، سفید کرتا اور سفید شیروانی، دستار مبارک کتھئی رنگت کی۔ چہرہ کیا تھا، بہاروں کا مخزن نظر آتا تھا۔ تیار ہوکر گھر سے نکلتے تھے تو دیکھنے والوں کے ٹھٹھ لگ جاتے تھے۔ ایک اور بات کہوں، آپ اور علامہ مولانا حامد رضا خاں کا چہرہ ایک جیسا تھا۔ مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں رحمة اللہ تعالیٰ علیہم اگرچہ آپ جیسے نہ تھے مگر رنگ ان کا بھی صاف تھا۔ اور اسی زمانہ میں احساس ہوا تھا کہ مولانا مصطفی رضا خاں ایک روز حضور اعلیٰ حضرت کی فتویٰ نویسی کی سند سنبھالیں گے اور آنے والے دور میں ایسا ہی ہوا اور آپ مسلمہ طور پر مفتیِ اعظم ہند تسلیم کیے گئے۔

    سید شمس الضحیٰ، حبیب الرحمن میرے ہم سبق تھے۔ حبیب الرحمن شاعر بھی تھے۔ انہوں نے مجھے بھی شاعری کی طرف متوجہ کیا اور میں بھی ان کی باتوں پر دھیان دینے لگا۔ ابتدائی دن تھے۔ کالی خانہ گلی لمبی اور تنگ تھی۔ میں وہاں چارپائی بچھالیتا۔ یہ جگہ دارالاقامہ کے ساتھ تھی۔ بازار کو رستہ بھی ادھر سے جاتا تھا۔ ایک ریڑھا ادھر سے کھٹ کھٹ کرکے گزرتا تو میں فوراً جاگ پڑتا اور پھر نیند نہ آتی۔ ایک روز میں فکرِ سخن میں تھا تو ریڑھے والا گزرا۔ مجھے غصہ آیا اور میں نے اسے ایک چپت رسید کردی۔ اس نے صبح سویرے والادر مرتبت حضور حضرت اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں شکایت کردی تو میں نے فوراً تُک بندی سے کہا

    منہ اٹھائے ہوئے سب لوگ چلے آتے ہیں
    کالی خانے کو سمجھتے ہیں سڑک ہے چنگی

    اس پر حضور اعلیٰ حضرت قبلہ نے ڈانٹنے کے بجائے ماشاء اللہ کہا اور یہ کہہ کر دعاؤں سے نوازا کہ سید زادے اگر کبھی طبیعت میں شاعری کی روانی آگئی تو نعت کہنا۔ چنانچہ بعد میں اگر موقع میسر آیا تو میں نے نعت ضرور کہی مگر یہ شغل آگے نہ بڑھ سکا۔

    ارے میاں، بات ہورہی تھی محترم و مکرم اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی۔ بس یہی کہوں گا
    جانشیں قیس کا کوئی نہ ہوا میرے بعد
    نجد کا بھی نہ بیابان بسا میرے بعد

    بریلی شریف سے ایک رسالہ ”لطیفِ سخن“ کے نام سے نکلتا تھا جسے مدرسہ کے طالب علم ہی نکالتے تھے۔ میں علیحدہ ہوگیا مگر میرا یہ شعر میری یادوں کے ساتھ چپکا ہوا ہے

    دم سے اصغر ہی کے تھا لطفِ سخن کا چرچا
    شاعری کا نہ رہا لطف ذرا میرے بعد

    وہ ماحول ہی ایسا تھا۔ فضاؤں، ہواؤں میں عشقِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسا ہوا تھا۔ اعلیٰ حضرت کے لطف و کرم سے ہر طرف نعتوں کے سرچشمے اپنی بہار دکھارہے تھے۔ جسے دیکھو، وہی نعتوں کے گلاب مہکارہا تھا۔

    صاحبزادے! آپ نے شروع میں پوچھا تھا کہ حضور اعلیٰ حضرت کیسے تھے۔ نبیرہٴ اعلیٰ حضرت، حضرت صاحبزادہ اختر رضا خاں صاحب الازہری، سجادہ نشین بریلی شریف کئی مرتبہ پاکستان آچکے ہیں۔ تم نے دیکھا ہی ہوگا کہ حسن کیسے جلوہ فگن ہے۔ پرپوتا ایسا ہے تو دادا کیسا ہوگا۔

    عقیاس کُن زِ گلستانِ من بہارِ مرا
    (اور یقین کیجیے جب میں نے حضرت قبلہ علامہ اختر رضا خاں الازہری مدظلہ العالی کا تصور کیا تو اعلیٰ حضرت کا نقشہ نگاہوں کی زینت ہوگیا۔)

    …شاہ صاحب! زمانے کا زمانہ اس تحریر پر ہمہ تن گوش ہے۔ یادوں کو آواز دیجیے، ماضی میں جھانکیے۔ جو بھی میسر آتا ہے، عہدِ حال کی زینت بنادیجیے۔

    @ ارے صاحبزادے! میں بریلی شریف میں پانچ، چھ برس رہا۔ اعلیٰ حضرت کی وساطت سے بریلی تو بریلی، سارا ہندوستان نعت کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ اپنے ذوقِ نعت کی طرف اشارا کرچکا ہوں۔ حضور قبلہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمة کا وصال میری موجودگی میں ہوا اور میں نے آپ کی وفات سے پہلے کے ایام، پھر وفات کا سانحہ، تجہیز و تکفین اور تدفین کا منظر نگاہوں سے دیکھا۔ سب کچھ کتابوں میں آگیا ہے۔ کتنا سنوگے۔ جب وصال ہوا تو حضرت مفتی اعظم مصطفی رضا خاں، مولانا سردار علی خاں ھزو میاں، صاحبزادہ حسنین رضا ابن مولانا حسن رضا خاں حسن بریلوی سب موجود تھے۔ صاحبزادہ حسنین رضا خاں میرے استاد بھی رہے تھے۔ بھاری بھرکم مضبوط ہاتھ پاؤں، اکھاڑے میں زور کرتے۔ مجھے فرماتے، بڑے پنجابی بنتے ہو، تم بھی چلو۔ میں نے پنجابیت کی لاج رکھنے کے لیے پیچھے سے پکڑا تو چھڑا نہ سکے اور فرمانے لگے، سید میاں! تم ہاتھ ڈھیلا رکھو، آخر میں تمہارا استاد ہوں۔ (اتنا کہہ کر حضرت پیر علی اصغر شاہ بیتاب ہوگئے، رونے لگے کہ وہ بھی کیا زمانہ تھا) وقتِ وصال اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ کوئی تصویر کمرے میں موجود نہیں رہنی چاہیے۔ سب سمجھ گئے کہ ڈاک کے لفافوں،خطوں اور چاندی کے سکوں کی طرف اشارا ہے جن پر فرنگی شہنشاہوں کے کٹے ہوئے سر ہوتے تھے۔ فرمایا، نوٹ سکے سب اٹھالو۔ تصویر ہوئی تو رحمت کا فرشتہ نہیں آئے گا اور میں فرشتوں کے ہجوم میں جان دینا چاہتا ہوں۔ میرے لیے یہ سعادت کیا کم ہے کہ عین وقتِ وصال میں پاس تھا۔ صرف بالکل آخری لمحات میں سب کو نکل جانے کا حکم صادر فرمایا۔ ظاہر ہے نوریوں کے درمیان خاکیوں کا کیا کام؟

    …حضور اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی کا طرزِ نگارش کیسا تھا؟ لکھتے کس طرح تھے؟ لکھاتے کس طرح تھے؟ اور نگارش میں رفتار کیسی ہوتی تھی؟

    @ آپ کے طرزِ نگارش کے بارے میں کیا بتاؤں۔ایسا لگتا تھا آپ نہیں لکھ رہے۔ ہاتفِ غیبی لکھوارہا ہے۔ آپ نے مسئلہ پوچھا تو جواب دے دیا۔ میں نے پوچھا تو جواب سے نواز دیا۔ چھ آدمیوں نے اکٹھا ہی پوچھ لیا تو جواب دیدیا۔ پوچھنے والوں کی رفتار بڑھتی گئی، مختصر مختصر جواب دیتے گئے۔ معاً خیال آیا کہ اس پر تو تفصیل کی ضرورت ہے، فوراً قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کردیا۔ کتنا لکھا ہے، یہ آپ ہی جانتے ہیں۔ اس قدر تیزی سے لکھتے رہے اور حوالہ جات بھی کثرت سے دیتے رہے مگر کوئی کتاب نہیں اٹھائی۔ رسالہ مکمل ہوگیا۔ حوالہ جات کے لیے کتب کی جانب رجوع کیا تو ہر حوالہ ایسے تھا جیسے انگشتری میں نگینہ جڑا ہوا ہو۔ کسی غلطی یا تساہل کی مجال ہی نہیں تھی۔ بعض اوقات عنوانات اور مضامین الگ الگ ہوتے تھے۔ چھ چھ موضوعات ہوتے تھے مگر ہر موضوع کے ساتھ انصاف ہورہا ہے۔ کئی بار ایک پر لکھنا چھوڑ دیا پھر چوتھے پر قلم اٹھایا، پھر پہلے کی باری آئی مگر ربط کہیں ٹوٹا ہی نہیں تھا۔ کئی بار ایسا ہوتا تھا کہ آپ کے تربیت یافتہ چھ چھ علماے کرام اپنے اپنے قلم اٹھائے آپ کی جانب متوجہ ہوتے تھے۔ آپ نے سب کو علیحدہ علیحدہ لکھوانا شروع کردیا۔ کسی لکھنے والے سے یہ نہیں پوچھا کہ تُو نے کہاں تک لکھا ہے؟ اور کیا کچھ لکھا ہی؟ بس لکھواتے چلے جارہے ہیں۔ صاف نظر آتا تھا کہ بہ اشارہٴ کتابتِ تقدیر علم و ادب اور فکر و فضیلت کی داستان رقم ہورہی ہے۔ قرآن حکیم کا ترجمہ لکھوایا تو ایسے ہی۔ ہم خاموش بیٹھے دیکھا کیے کہ غیب سے مضامین خیال میں آرہے ہیں اور آپ انہیں ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر دبستانِ فکر کی نذر کررہے ہیں۔

    …شاہ صاحب! آپ اپنے حوالے سے مزید کچھ فرمانا چاہیں گے؟

    @ میں بریلی شریف جتنا عرصہ بھی رہا، حضور اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ کی عنایاتِ عالیہ سے فیض یاب ہوتا رہا۔ یہ تو میں بتاچکا ہوں کہ جب پہلی حاضری ہوئی تو آپ نے دیکھتے ہی فرمایا کہ ”سید زادے“ معلوم ہوتے ہو اور اٹھ کر میرا ماتھا چوما۔ ایک رات تو گزر گئی تھی۔ گھر سے نئی چارپائی اور نیا بستر منگواکر دیا۔ میرے لائے ہوئے تحفے قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تحفہ قبول نہیں کرتا لیکن یہ تو سیدزادوں کی دین ہے۔ مجھے آپ نے کبھی فراموش نہ کیا۔ جب شہر میں کہیں دعوت پر جانا ہوتا تو دو گھوڑوں کی بگھی (شکرم) منگواتے۔ اس میں سوار ہوتے اور مجھے اکثر ہمراہ لے جاتے۔ پڑھائی کا سلسلہ بہت اچھا تھا۔ اساتذہ نہایت قابل اور یگانہٴ روزگار تھے۔ مجال نہیں کہ کبھی کسی استاد سے کلاس کا ناغہ ہوجائے۔ طلبہ کی تعداد کافی تھی۔ اڑھائی صد کے قریب طلبہ تھے۔

    جب مجھے حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی تو کوشش کی کہ نمازیں علیحدہ پڑھوں اور بحمد اللہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں نمازیں الگ سے پڑھیں۔ وہاں حضور اعلیٰ حضرت کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا ضیاء الدین قادری (مدنی) رحمة اللہ علیہ موجود تھے۔ ان کے ہاں روزانہ جشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سماں ہوتا تھا۔ روز ان کی خدمت میں حاضری دیتا۔ میرا بریلی شریف میں پڑھنے کا سن کر اور اعلیٰ حضرت کی مجھ پر نوازشیں سن کر ان کی عنایات دوچند ہوجاتیں۔ عشق و عقیدت کی باتیں شروع ہوجاتیں۔ حاضرین کبھی کم ہوتے، کبھی زیادہ مگر آپ کی شفقتوں میں کبھی کمی نہ آتی۔ شیخ اصغر دکاندار وہاں کثرت سے آیا کرتا۔ روزانہ ہی نئے نئے نعت خواں لے کر آتا اور محفلِ نعت دیر تک جاری رہتی۔ وہ خوش بخت مسلسل سبز چائے بناتا اور حاضرین کو پلاتا رہتا۔

    …علی پور سیّداں بھی برصغیر پاک و ہند میں مرکزِ روحانیت کی حیثیت سے مشہور تھا اور بریلی شریف کی شہرتوں اور عزت کے کیا کہنے۔ آپ یہ فرمایئے ان دونوں علاقوں کے بزرگوں کے تعلقات کیسے تھے؟

    @ تعلقات غیر معمولی طور پر اچھے اور قابلِ قدر تھے۔ اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ ویسے بھی تمام علاقوں سے باخبر رہا کرتے تھے اور علی پورسیّداں تو امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمة اللہ علیہ اور حضرت قبلہ پیر سید جماعت علی شاہ ثانی لاثانی رحمة اللہ علیہ کی عطاے معرفت کا مرکز تھا۔ سرکارثانی لاثانی میرے جدِّ اعلیٰ تھے۔ امیر ملت تو بریلی کے جامعہ منظر اسلام میں دستار بندی بھی فرماتے رہے۔ حضرت حجة الاسلام، حضرت مفتی اعظم، حضرت صدر الافاضل سمیت سب سے اعلیٰ پیمانہ کے تعلقات تھے۔ حضور اعلیٰ حضرت سے بھی تعلق تھا لیکن سرکار اعلیٰ حضرت کی عمر نے وفا نہ کی۔ جانتے وہ سب کچھ تھے، اسی لیے تو مجھے پہلی دفعہ دیکھ کر ہی فرمادیا کہ ”سید زادے ہو، علی پور سیّداں سے آئے ہو“۔ جہاں تک میرے جدِّ اعلیٰ پیر لاثانی رحمة اللہ علیہ کا تعلق ہے تو وہ بھی بریلی شریف سے محبت رکھتے تھے۔ ان کے مریدوں میں بہت سے ایسے نامور علماء تھے جو یا تو بریلی شریف کے پڑھے تھے اور یا بریلی شریف سے فارغ التحصیل ہونے ولاے اساتذہ کے قائم کیے ہوئے مدرسوں کے پڑھے تھے۔ یہ بریلی شریف سے غیر معمولی محبت ہی کا تو فیضان تھا کہ میرے والد گرامی حضرت قبلہ سید فدا حسین شاہ جماعتی رحمة اللہ علیہ نے سارا ہندوستان چھوڑ کر مجھے فقط بریلی شریف میں پڑھنے کے لیے بھیجا اور جب تحریکِ پاکستان کا سخت ترین مرحلہ آیا تو جہاں امیر ملت محدث علی پوری رحمة اللہ علیہ نے بنارس سنی کانفرنس سمیت ہندوستان بھر میں اجتماعات کی صدارت کی۔ وہاں میرے دادا جان، والد گرامی اور بھائیوں نے اس علاقہ کے طول و عرض میں پاکستان کے پیغام کو عام کردیا۔ اس طور علی پور سیّداں کی کوئی بات بریلی شریف کے اکابر سے اوجھل نہ تھی۔

    بریلی شریف اور علی پور سیّداں شریف کی بات چل نکلی ہے تو میں اکیلا بریلی شریف میں نہیں تھا۔ مجھ سے پہلے میرے اکابر بھی بریلی شریف جایا کرتے تھے اور وہاں خوب اچھی طرح سے جان پہچان تھی۔ حضور اعلیٰ حضرت بھی آگاہ تھے اور صاحبزادگان بھی جانتے تھے۔ جب مجددِ ملت، امام اہلِ سنت شاہ احمد رضا خاں رحمة اللہ علیہ کا وصال ہوا تو میرے والد صاحب حضرت قبلہ سید فدا حسین شاہ، سید چراغ شاہ اور مولانا غلام نبی کو لے کر حضور اعلیٰ حضرت کے چہلم شریف پر آئے۔ گھر سے رضائیاں وغیرہ لانے کا رواج نہیں تھا۔ حضرت صاحبزادہ محمد حامد رضا خاں رحمة اللہ علیہم بڑی الفت اور خلوص و چاہت سے انہیں ملے۔ تمام دن گفتگو ہوتی رہی تو زنان خانے میں پیغام بھیجا کہ اتنی صاف چارپائیاں اور اتنی نئی رضائیاں ان سید زادوں کے لیے بھیجی جائیں۔ جب سب کچھ آگیا تو حضرت مخدوم حامد رضا خاں علیہ الرحمة نے تمام نئی رضائیوں پر عطر اپنے ہاتھ سے لگایا اور اپنی نگرانی میں بستر بچھواکر انہیں آرام کرنے کے لیے کہا۔ میرے والد محترم حضرت قبلہ سید فدا حسین شاہ رحمة اللہ علیہ نے اس موقع پر اپنی اور شہزادگانِ علی پور سیّداں کی طرف سے نقد رقم، کپڑے اور دوسری چیزیں یہ کہتے ہوئے بڑے ادب سے پیش کیں کہ

    ”اے بادشاہ زادو! تمہارے ہاں کیا کمی ہے۔ میں جو پیش کررہا ہوں، حضرت پیر جماعت علی شاہ لاثانی رحمة اللہ علیہ کی جانب سے پیش کررہا ہوں۔ آپ قبول فرمائیں گے تو علی پور سیّداں کے سادات کے دل مہک اٹھیں گے۔“

    انداز اتنا خوبصورت تھا کہ حضور مخدومی محمد حامد رضا خاں نے سب کچھ یہ کہتے ہوئے قبول کرلیا کہ
    ”اس کھدر پوش (سید فدا حسین شاہ) نے مجھے حیران کردیا ہے۔“

    (یاد رہے کہ والد صاحب نے کھدر کا لباس زیب تن کررکھا تھا اور سرکار لاثانی بھی اسی لباس کو ترجیح دیتے تھے۔)

    …شاہ صاحب! کیا آپ نے پڑھائی کے دوران میں اور تحریکات میں حصہ لیا؟

    @ حق تو یہ ہے کہ بریلی میں تدریس کے دوران ہی ہمیں کسی نہ کسی اسلام دشمن تحریک سے نبردآزما ہونا پڑتا تھا۔ شیعیت، مرزائیت، خارجیت، دیوبندیت، خلافت، ترکِ موالات کی تحریک میں طالب علمی ہی میں اتنا شعور حاصل ہوچکا تھا کہ ہم اچھی خاصی بحث کرسکتے تھے۔ مگر چونکہ ہمارا اصل مدعا تدریس تھا، اس لیے اسی جانب پوری توجہ مرکوز رہی۔ ہم نے کئی مرتبہ مناظرہ کرنا چاہا مگر مدرسہ کے منتظمین کی طرف سے اجازت نہ ملی کہ ابھی پڑھو اور خوب پڑھو۔ پڑھائی کے بعد ہمیں کہا گیا کہ شدھی اور سنگھٹن کی طرف توجہ دیں ورنہ ہندو امرا اور پنڈت غریب غربا مسلمانوں کو اور ان مسلمانوں کو جو اسلام کی ابتدائی تعلیمات سے بھی بے خبر ہیں، غیر مسلم کرلیں گے۔ اس دور میں امیرِ ملت علی پوری نے ہندوؤں کی اس اسکیم کو ناکام بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ حکم کی تعمیل میں، مَیں اپنے رفقا کے ساتھ سرگرمِ عمل ہوگیا۔ ہندوؤں کے لیڈر پنڈت دیانند نے کہا کہ مَیں نے خانہٴ کعبہ پر ہندو ازم کا جھنڈا گاڑنا ہے۔ وہ کم بخت خوف کے مارے دیہات کا رخ نہیں کرتا تھا۔ بس ان علاقوں میں گھومتا تھا جہاں ہندو سیٹھ اس پر روپیہ نچھاور کرتے تھے۔ خاص طور پر وہ راجپوتانہ اور ملحقہ علاقوں کا رُخ نہیں کرتا تھا۔ یہاں کے بہادر مسلمانوں سے اسے خوف آتا تھا۔ مفتیِ اعظم ہند حضرت مصطفی رضا خاں کی جماعت رضاے مصطفی اور امیر ملت علی پوری کی انجمن خدام الصوفیاء کے دفاتر آگرہ میں تھے اور علاقہ کو مرکز بناکر ہم تمام متاثرہ علاقوں میں پھیل گئے تھے۔ شدھی اور سنگھٹن کے فتنہ پردازوں کی سرکوبی اور احیاے اسلام کے لیے مبلغِ اسلام سید غلام قطب الدین پردیسی میرے اور میرے جیسے دیگر مبلغین کے استاد تھے۔ جماعتِ رضاے مصطفی، ہند، حضور اعلیٰ حضرت کی یادگار تھی اور مفتیِ اعظم اس کو خوب چلارہے تھے۔ والد گرامی حضور سید فدا حسین شاہ علی پوری زندگی بھر اس کے لیے مسلسل چندہ بھیجتے رہے کہ ان کا نام وہاں مستقل معاونین کے طور پر لیا جاتا رہا۔ واپس آکر ایک عرصہ تک میں نے خود بھی اس سلسلے کو جاری رکھا مگر 1965ء کی جنگ نے بہت سے سلسلے ختم کردیے۔

    ایک بار ہم موقع تاڑ کر وہاں گئے جہاں پنڈت دیانند دربار سجائے بیٹھا تھا اور ہندوازم پر لیکچر دے رہا تھا۔ تمام ہندو اور خام ایمان کے حامل مسلمان دل و جان سے اس کی خرافات سن رہے تھے۔ ہمیں اور تو کچھ نہ سوجھا، دیانند کی چارپائی الٹ دی۔ ہندو ہماری طرف لپکے۔ ہم بھی بڑا گروہ ساتھ لے کر گئے تھے۔ فوراً کملی والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا تصور کرکے پڑھنا شروع کردیا۔
    لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ

    سرکار کملی والے آقا علیہ الصلوٰة والسلام کا فیضِ عام یوں جاری ہوا کہ ہم کلمہٴ طیبہ پڑھ رہے تھے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے زمانے کا زمانہ ہمارا ہم نوا ہے۔ وہ لوگ چند ساعتوں کے بعد ہندو ہونے والے تھے، ان کے لبوں پر بھی بے اختیار کلمہ جاری ہوگیا۔ ہم بھی پڑھ رہے تھے، وہ بھی پڑھ رہے تھے اور ہندو پنڈت وہاں سے رفوچکر ہوچکے تھے۔ پھر مسلمان امرا اور فیاض شخصیات نے ان غریب مسلمانوں کی امداد کی کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں اور پھر کوئی ہندو انہیں گمراہ نہ کرسکے۔ آہستہ آہستہ یہ مساعی رنگ لائیں اور چاروں طرف پھر سے اسلام کا بول بالا ہوگیا۔

    …بریلی شریف میں ایک اور بھی بڑے بزرگ ہوتے ہیں حضرت شاہ نیاز بریلوی۔ کیا آپ کا ان کی اولاد کے ہاں آنا جانا تھا؟

    @ ہم اس عظیم شخصیت کو بڑی اچھی طرح سے جانتے تھے۔ حضور اعلیٰ حضرت سے بھی ان کی بہت تعریف سنی تھی۔ ان کا فارسی اور اردو میں کلام موجود ہے اور وہ روحانی حلقوں کے علاوہ علمی و ادبی حلقوں میں بھی تعظیم و توقیر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کی اولاد سے ایک صاحبزادے بریلی شریف میں میرے کلاس فیلو تھے۔ میں ان کی وساطت سے وہاں جایا کرتا تھا اور آکر اعلیٰ حضرت امام شاہ احمد رضا خاں علیہ الرحمة سے وہاں جانے کے حوالے سے باتیں کرتا۔ آپ خوش ہوتے کہ اس طرح علمی ذوق کو جِلا ملتی ہے۔

    …حضرت صاحب! پیر اور مرید کا رشتہ کیا ہونا چاہیے؟

    @ جب کوئی شخص کہتا ہے کہ فلاں شخص آپ کا مرید ہے تو میں کہتا ہوں کہ مجھ سے نہیں، اس سے پوچھو۔ مرید کی تو یہ حالت ہوتی ہے
    سُپردم تیو پایہٴ خویش را

    اسی منزل پر پہنچ کر وہ رضاے الٰہی کا حصہ دار بن جاتا ہے اور رضاے خداوندی کے حصول میں مقصودِ بندگی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے منہ سے مرید ہونے کے بارے میں خاموش ہوجاتا ہے تو میں بھی خاموش ہوجاتا ہوں کیونکہ پیری مریدی میں زبردستی نہیں بلکہ رضاے الٰہی کا سودا ہوتا ہے اور یہی بیعت کا مقصد ہے۔

    …… *** ……
    جن دنوں حضرت سید علی اصغر خاں جامعہ منظر اسلام، بریلی میں زیرِ تعلیم تھے آپ نے اپنے بڑے بھائی سید رضی شیرازی کو اعلیٰ حضرت کے بارے میں خط لکھا:

    درویش نواز محترمی!
    السلام علیکم! جناب کا گرامی نامہ ملا۔ حالات معلوم ہوئے۔
    ذرہ ہوں، آفتاب کی توصیف کیا لکھوں۔
    مفتاحِ ابوابِ ولایت، مصباحِ سبل ہدایت، مرکزِ دائرہٴ شرافت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجددِ مائة حاضرہ کے حالات بیان کرنے سے میرا علم قاصر اور میرا فہم عاجز ہے۔ حقیقتاً اعلیٰ حضرت اپنے وقت کے مجدد تھے۔ دنیا کے بھولے بھٹکے ہزاروں انسان ان کی ہدایت سے راہِ راست پر آگئے۔ آپ محلہ سوداگراں میں علم کا ایک سرچشمہ جاری کرگئے جو کہ ابد الاباد تک دنیا کو سیراب کرتا رہے گا۔ طلبہ کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کہ ہم لوگ گھر آتے ہوئے روتے تھے۔ سادات کا جو احترام وہاں دیکھا گیا، شاید ہی اور جگہ ہو۔ ان کی سخاوت کی مثال بھی کم ملے گی۔ آپ کے حلقے میں بیٹھنے والے بے علم بھی علمِ دین سے واقف ہوتے تھے۔ طبیعت میں بے حد استغنا تھا۔ امراء سے بہت کم میل جول رکھتے تھے۔ دنیا کی کوئی بات ہم نے ان کی زبان سے نہیں سنی۔ ہر وقت فتاویٰ نویسی اور کتب بینی میں مصروف رہتے۔ آپ کی ساری زندگی اتباعِ رسول میں گزری۔ ہر ایک علم میں یگانہ تھے۔ آپ کا سب گھرانہ عالم باعمل ہے۔ دل میں تو بہت کچھ ہے مگر لکھنا نہیں آتا۔ جو کچھ بھی میں نے لکھا ہے، اس کو خود اچھی طرح لکھ دیں۔ آپ ہر چیز کو اپنے اپنے ٹھکانے پر لکھ دیں۔ میرے پاس بھی ٹھٹھہ سے لفافہ آیا تھا۔ اس کا جواب بھی اپنے قلم سے لکھ دیں۔ نظر بہت کم ہوگئی ہے۔
    والسلام
    فقیر علی اصغر عفی عنہ
    درگارہِ لاثانی علی پور سیّداں
    …… *** ……

    آپ ایک جید عالم دین، سخن شناس اور محقق ہونے کے علاوہ ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ آپ کی ایک نعت درج ذیل ہے:

    حضوری میں بچشمِ نم رہے ہیں
    عجب کیفیتوں میں ہم رہے ہیں
    عجب اِک بارشِ لطف و عطا تھی
    کرم سرکار کے پیہم رہے ہیں
    مدینہ رحمتوں کا ہے خزینہ
    یہاں پر سرورِ عالم رہے ہیں
    وہ دَر ہے سیدِ عالم کا جس پر
    سرِ سلطانِ عالم خَم رہے ہیں
    دعائیں ہوگئیں مقبول ان کی
    جو آنسو ترجمانِ غم رہے ہیں
    میسر تھا ہمیں بھی قربِ سرکار
    مگر اصغر وہ لمحے کم رہے ہیں

    …آپ کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ اور آپ کے صاحبزادگان آپ پر کافی اعتماد کرتے تھے اور سید زادہ ہونے کی وجہ سے آپ کے عز و شرف میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ اس حوالہ سے کوئی خاص بات؟

    @ ارے میاں! بریلی شریف کی ہر بات ہی خاص بات تھی۔ وہاں میں نے اپنی نگاہوں سے ان ہستیوں کو دیکھا کہ جن کی زیارت کے لیے نگاہیں ترستی تھیں۔ اب تو لوگ ہمیں دیکھنے آتے ہیں کہ ہم نے شاہ احمد رضا خاں اور آپ کی اولاد کو دیکھا ہے۔ آپ بھی تو اسی حوالے سے آئے ہیں نا۔
    …واللہ! میرا فقط یہی مقصود نہیں۔ میں تو امیر ملت محدث علی پوری اور سرکار ثانی لاثانی کے اعراس پر خطاب کے لیے سال میں کئی کئی بار آتا ہوں۔ آپ کی خدمت میں تواتر سے حاضری دیتا ہوں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ آپ کی بریلی شریف سے نسبت بہت کچھ پوچھنے پر آمادہ کرتی ہے۔

    @ بات تو میاں ایک ہی ہے۔ کیا میرا یہ اعزاز کم ہے کہ علی پور سیّداں سے چلوں اور اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ اور آپ کے صاحبزادوں کے پاس وقت گزاروں۔ عام طالب علم بن کر نہیں بلکہ خاص مہمان بن کر اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا۔ خاص مہمان بنانے والوں سے پوچھو! خدا نے ذہن رسا عطا کیا تھا اور پھر وہاں کے ماحول میں علمی تجلیات رچی بسی تھیں کہ قرآن مجید، فقہ، تصوف، صرف و نحو سمیت جدھر کا رُخ بھی کیا۔ اپنے شریکِ درس دوستوں سے پہلے فارغ ہوکر اگلے درس میں شامل ہوگیا۔ میں ذاتی مطالعہ بہت کرتا اور اعلیٰ حضرت نے اپنی لائبریری سے استفادہ کے لیے مجھے مکمل اجازت بخش رکھی تھی۔ اعلیٰ حضرت مجددِ ملت رحمة اللہ علیہ جب آخری ایام میں کافی ضعیف ہوچکے تھے تو مجھے اپنے پاس بٹھاکر تعویذات لکھواتے تھے۔ میں تمام اساتذہ اور بزرگوں کا بے حد ادب کرتا تھا کہ
    عبے ادب محروم انداز لطفِ رب
    …… *** ……

    حضرت قبلہ پیر سید علی اصغر شاہ نے قریباً چھیاسی برس عمر پائی۔ آپ کچھ عرصہ علیل رہے اور 19/جنوری 1991ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ آپ کے مریدین کا حلقہ بہت وسیع ہے جن میں مشہور نعت خواں اور صوفی حافظ محمد یوسف نگینہ، خلیق قریشی (مشہور ایڈیٹر) اور بہت بڑے خطاط سید عبد الخالق بھی شامل تھے۔
    آپ کے برادرِ اصغر، ممتاز شاعر اور تاریخ گو حضر ت پیر سید نثار قطب رضی شاہ شیرازی رحمة اللہ علیہ نے آپ کے وصال پر کئی تاریخیں نکالیں۔ دو تواریخ درج ذیل ہیں:
    شاگردِ احمد رضا گرامی عالم (1991ء)
    تھا جو عالی دماغ جاتا رہا (1991ء)
    بشُکریہ ؛؛القلم
    http://www.alqlm.org/forum/showthread.php?10481-امام-اہلِ-سنت-الشاہ-محمد...
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: امام اہلِ سنت الشاہ محمد احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی

    جزا ک اللہ
     
  3. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: امام اہلِ سنت الشاہ محمد احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی

    ماشاءاللہ جی۔۔۔۔۔۔بہت ہی علمی اور نایاب تحریر شئیر کرنے پر الکرم جی بہت بہت نوازش۔۔۔۔۔۔اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے۔۔۔
     
  4. ابو محمد رضوی
    آف لائن

    ابو محمد رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2012
    پیغامات:
    52
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: امام اہلِ سنت الشاہ محمد احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی

    امام اھلسنت مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضاء خان بریلوی
    اور کیا کہوں بس امام عشق ومحبت رحمۃ اللہ علیہ
     
  5. bilal260
    آف لائن

    bilal260 ممبر

    شمولیت:
    ‏29 مارچ 2012
    پیغامات:
    182
    موصول پسندیدگیاں:
    46
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: امام اہلِ سنت الشاہ محمد احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی

    امام اہلِ سنت الشاہ محمد احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی
    میں سگ ہوں آپ کے در کا ۔آصف رضاسگ بریلوی۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں