1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

الوداع کاون ۔۔۔۔ جویریہ صدیق

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏2 دسمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    الوداع کاون ۔۔۔۔ جویریہ صدیق

    جب کبھی مارگلہ روڈ کی طرف سے قومی اسمبلی کی طرف جانا ہو اور بائیں جانب نظر پڑ جائے تو پورا بچپن نظروں کے سامنے گزر جاتا ہے۔ اس جگہ پر بچوں کا مشہور پارک اور مرغزار چڑیا گھر واقع ہیں۔ ہر ہفتے امی ابو ہمیں گھمانے لے جاتے اور ہم یہاں خوب جھولے لیتے، پاپ کارن کھاتے اور تصویریں بناتے۔ نوے کے اوائل میں یہاں پر ''سہیلی‘‘ ہتھنی آئی تھی، اسلام آباد کے بچے اس کے استقبال کیلئے چڑیا گھر گئے اور اس کی شرارتیں دیکھ کر خوب لطف اندوز ہوئے۔ اس نے سونڈ میں پانی بھرا اور ہم سب پر پھینک دیا‘ ہم سب کا ہنس ہنس کا برا حال ہو گیا کہ یہ کتنی شرارتی ہے۔ اس کے ساتھ کاون بھی موجود تھا جس کی عمر اس وقت لگ بھگ 12،13سال تھی۔ سب بچوں کی کوشش تھی کہ اس پر سواری کی جائے اور اس کے ساتھ تصاویر بنوائی جائیں۔ دونوں ہاتھیوں کے پاس بہت سے گنے تھے اور پانی سے بھرا تالاب۔ نوے کے اوائل میں یہ چڑیا گھر بہت خوبصورت تھا اور یہاں پر جانوروں کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔ کاون گنے کھا رہا تھا اور سہیلی جو چھوٹی تھی‘ اس کو ایک بڑے سے فیڈر سے دودھ دیا جا رہا تھا۔ میرے پاس بہت سارے پاپ کارن تھے‘ میں نے سوچا کہ کاون اور سہیلی کو کچھ پاپ کارن دے دوں لیکن امی نے منع کر دیا۔
    میری امی کو جانور بہت پسند ہیں‘ شاید مجھے بھی جانوروں سے محبت ان سے ہی ملی ہے۔ اس وقت ہم چھوٹے بچے تھے‘ پنجروں میں رہنے کا دکھ کیا ہوتا ہے، اس سے آگا ہ نہیں تھے۔ ایک بار میری امی ٹیرس پر کپڑے پھیلا رہی تھیں کہ ایک زخمی عقاب وہاں آ کر گرا، امی اتنی بہادر ہیں کہ اس کو ہاتھوں میں اٹھا لیا۔ امی نے اس کی مرہم پٹی کی‘ چند دن اس کا خیال رکھا، جیسے ہی اس کے زخم ٹھیک ہوئے، اس کو اڑا دیا۔ ہم سب بہت اداس ہوئے لیکن امی نے کہا: پرندے اور جانور اپنی جگہ پر ہی زندہ رہ سکتے ہیں‘ اگر ہم انہیں قید کریں گے تو یہ مر جائیں گے۔ وہ بار بار ہمیں کہتیں کہ باہر کتے‘ بلیوں کو تنگ نہیں کرنا، اگر کوئی جانور آپ کے پاس آئے تو اس کو پانی پلائیں اور کچھ کھانے کو ڈال دیں۔ امی کی عادت ہے کہ اب بھی وہ گھر کی دیواروں پر پانی اور دانہ رکھتی ہیں کہ اس سے رزق میں برکت ہوتی ہے۔ البتہ میں نے یہ بات محسوس کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پر جانوروں اور پرندوں کے حوالے سے ایک عجیب نفرت پائی جاتی ہے۔ راہ چلتے جانوروں کو بلاوجہ پتھر مارے جاتے ہیں اور ان کے کھانے میں زہر ملا دیا جاتا ہے۔ بطور رپورٹر میں نے بہت بار چڑیا گھر سے متعلق نیوز پیکیج بنائے اور حکام کو چڑیا گھر کے حالات سے آگاہ کیا۔ ایک بار میں جون کے مہینے میں ایک نیوز پیکیج بنا رہی تھی‘ اتنی شدید گرمی تھی کہ جانور بے حال ہوئے پڑے تھے۔ مجھے خود سن سٹروک ہو گیا اور تین دن میں ہسپتال میں داخل رہی مگر چڑیا گھر میں جانوروں کیلئے گرمی سے بچائو کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ انتظامیہ کی اسی غفلت نے اس چڑیا گھرکو تباہ کر دیا۔
    ستر کی دہائی کے آخر میں‘ جب اس چڑیا گھر کا قیام عمل میں آیا تھا، یہ بہت خوبصورت تھا، یہاں پر شیر، ریچھ، ہاتھی، بندر، شتر مرغ، نیل گائے، ہرن، طوطے، مور، بطخیں، چڑیاں، گلہریاں، لومڑی اور زیبرے سمیت بہت سے جانور اور پرندے تھے۔ آہستہ آہستہ انتظامیہ کی لاپروائی جانوروں کو نگلنے لگی اور صرف آٹھ‘ دس سالوں میں ہاتھی، شتر مرغ، نیل گائے، ہرن، بندر اور شیر کے چار بچوں سمیت متعدد جانور اور پرندے اپنی جان گنوا بیٹھے۔2012ء میں سہیلی ہتھنی چل بسی، اس کے بعد کاون ہاتھی بھی بیمار پڑ گیا‘ اس پر سوشل میڈیا پر ''سیو کاون‘‘ مہم چلائی گئی۔ سہیلی کے مرنے کے بعد اور کاون اور نایاب بھورے ریچھ کے بیمار ہونے پر یہ معاملہ میڈیا میں بھی اٹھا، اس کے بعد میں جتنی بار بھی چڑیا گھر گئی‘ وہاں جانور بیمار، لاغر اور اداس ہی نظر آئے۔ جانوروں کے پنجروں میں گندگی تھی اور پانی بھی آلودہ تھا۔ کاون ایک گندے سے کمرے میں‘ جس کا پینٹ اتر چکا تھااور دیواروں پر فنگس لگی ہوئی تھی‘ گم سم کھڑا اپنا سر دیوار پر مار رہا تھا۔ تالاب کائی کی وجہ سے ہرا ہو چکا تھا جبکہ کاون کو گنے کے بجائے پٹھے کھانے کو دیے جا رہے تھے۔پنجرے کی باڑ بھی جگہ جگہ سے ٹوٹ چکی تھی۔ میں نے یہ منظر کیمرے میں قید کیا اور سوشل میڈیا پر آواز بلند کرنا شروع کر دی۔ دیگر کئی افراد اور کچھ میڈیا پرسنز پہلے سے جانوروں کیلئے آواز بلند کر رہے تھے۔
    کاون چار سال کی عمر میں 1985ء میں سری لنکا کی طرف سے پاکستان کو تحفے میں ملا تھا، 'سہیلی‘ 91ء میں بنگلہ دیش سے اسلام آباد آئی تھی مگر دونوں کی دیکھ بھال صحیح طریقے سے نہیں کی گئی اور دونوں ہاتھی بیمار ہو گئے۔ سہیلی کے مرنے کے بعد سے کاون مزید بیمار ہوتا چلا گیا۔ اس کو اکثر زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا تھا اور وہ اپنا سر زور سے دیواروں پر مارتا رہتا تھا۔ پاکستان کے فلاحی اداروں اور ایکٹوسٹ کے علاوہ دیگر ممالک کے لوگ بھی اس مہم میں شامل ہو گئے جس میں امریکی گلوکارہ چیر (Cher) نے کلیدی کردار کیا۔ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہنچا تو جانوروں کو انصاف ملا۔ بہت سے جانور اس دوران بھی انتظامیہ کی غفلت سے مارے گئے‘ شیروں کی جوڑی منتقلی کے دوران لگائی جانے والی آگ سے دم گھٹنے سے مر گئی؛ تاہم بہت سے خوش نصیب جانور زندہ اپنی سلامت اپنی منزل تک پہنچ گئے جن میں کاون بھی شامل ہے۔ کاون کیلئے عالمی تنظیم فور پاز (Four Paws) کی ٹیم آئی، اس کا علاج شروع ہوا اور اس کو کمبوڈیا لے جانے کی تیاری شروع ہوئی۔ گزشتہ دنوں ایک تقریب میں اسے الوداع کہا گیا۔ اب کاون کمبوڈیا پہنچ چکا ہے۔
    جس وقت کاون جا رہا تھا‘ میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ آنسو خوشی کے ہیں یا دکھ کے‘ ایک تو کاون کی جدائی مجھے اداس کر رہی تھی کہ کتنی بار اس کو گنے کھلائے تھے‘ اس کو پیار کیا تھا، وہ سب یادیں ابھرنے لگی تھیں مگر شاید یہ آنسو خوشی کے تھے کہ کاون 35 سال کی بھیانک سزا کے بعد اب آزاد ہو گیا ہے۔ وہ کمبوڈیا میں خوش رہے گا؛ البتہ اس کے بغیر اسلام آباد کا چڑیا گھر کبھی بھی ویسا نہیں رہے گا۔ میرے خیال میں اس چڑیا گھر کو پارک میں تبدیل کر کے تمام جانوروں کو آزاد کر دینا چاہئے۔ شہرِ اقتدار کے قلب میں قائم جانوروں کے اس عقوبت خانے کو بند کر دینا ہی بہتر ہے۔ ہم بطورِ قوم جانوروں کی دیکھ بھال اور ان کی حفاظت میں ناکام ہوئے ہیں جس کا مجھے شدید رنج ہے۔ پاکستان میں جانوروں کے ساتھ جو ظلم کیا جاتا ہے‘ جو کتوں‘ تیتر بٹیروں اور مرغوں کی لڑائیاں کرائی جاتی ہیں، یہ سب بند ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ خچروں، گدھوں، گھوڑوں، گائے بیلوں اور اونٹوں پر بھی ظلم کیا جاتا ہے‘ ان سے گھنٹوں کام لیا جاتا ہے‘ کم خوراک دی جاتی ہے جبکہ مارپیٹ بھی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں موسمِ سرما میں بہت سے پرندے دنیا بھر سے ہجرت کرکے آتے ہیں یہاں ان کا شکار کر لیا جاتا ہے، ان کی نسل کشی ہوتی ہے۔ بندروں اور ریچھوں کو جنگلوں سے پکڑ کر مار مار کر سدھایا جاتا ہے‘ پھر ان کو گلی گلی نچوایا جاتا ہے۔ بہت سے امیر زادوں نے شیر‘ چیتے اور اژدھے گھروں میں پال رکھے ہیں‘ غیر ملکی نسل کے کتے رکھنے کا بھی رواج عام ہو گیا ہے حالانکہ پاکستان کے گرم موسم میں ٹھنڈے علاقوں کے جانور بہت جلدی مر جاتے ہیں۔ جانور بول نہیں سکتے‘ اپنا مدعا بیان نہیں کر سکتے مگر وہ بھی جاندار ہیں‘ انہیں بھی تکلیف اور درد ہوتا ہے۔ ان کو تنگ و تاریک جگہ پر رکھنا‘ ان کو خوف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ پنجرے ان کے اندر کی شرارت اور شوخی کو ختم کر دیتے ہیں اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے وہ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ میری رائے میں سرکس اور چڑیا گھر اب بند کر دینے چاہئیں اور جنگلی جانوروں کو گھروں میں رکھنے پر بھی مکمل پابندی ہونی چاہیے۔کم از کم میں کاون کے حوالے سے خوش ہوں کہ وہ ایک بہتر جگہ پر چلا گیا ہے۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں