1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اللہ کی رحمت

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از زیرک, ‏23 دسمبر 2012۔

  1. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ کی رحمت

    تحریر زیرک

    بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔حقیقت میں ایک بیٹی کا باپ ہونا کیا ہوتا ہے، اس کا تجربہ بھی ہے۔ ہم ماشاءاللہ پانچ بھائی ہیں اور اللہ نے ہمیں کوئی بہن نہیں دی۔ ماں جی کی تربیت ایسی تھی کہ اہلِ محلہ اور اردگرد سبھی کو بہن کی نظر سے ہی دیکھا کیے۔ کئی بار بچیوں کو دیکھتے جو اپنے بہن، بھائیوں اور والدین سے لاڈ کرتیں تو دل میں ایک عجیب سے کسک اٹھتی۔ قدرت خدا کی شادی ہوتی ہے اور ہم مہاجرت کر کے برطانیہ پہنچ جاتے ہیں۔ ہم جو اللہ کی مہربانی سے شوہر بن چکے تھے اب اللہ کی ذات کی طرف سے اولاد کی خوشخبری بھی مل جاتی ہے۔ الٹراساؤنڈ سے پتہ چلا کہ ماشاءاللہ بیٹی کا باپ بننے جا رہا ہوں۔ اہلیہ نے بچی کا سنا تو اس کا چہرہ مرجھا سا گیا، مگر میں نے کہا کہ بیٹا یا بیٹی کا ہونا اس میں عورت کا کوئی عمل دخل نہیں، یہ تو مرد کی طرف سے ہے کہ اس کی اولاد بیٹا ہو گا یا بیٹی، تم ایسی باتوں کو دل پہ مت لو۔ ہم بھائی ویسے بھی بچیوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔ میری ماشاءاللہ سات عدد بھتیجیاں ہیں، اہلیہ نے وہ سب دیکھا بھالا تھا، سو اس کے دل کو تسلی ہوئی کہ یہ روائتی مرد نہیں ہے، بیٹی کا طعنہ نہیں دے اور اس بات کو اب کئی سال ہو گئے اور میری زبان سے کبھی کوئی ایسا کلمہ نہیں نکلا جس سے اس کی دلآزاری ہوئی ہو۔ خیر دوستو! وہ دن بھی آیا ہے جب بیٹی اس دنیا میں آتی ہے، جب میں اسے دیکھنے میٹرنٹی ہوم گیا تو دیکھ کر دل میں ایک مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ بچی کو شہد چٹوایا اور نہلانے کے بعد اس کے کان میں اقامت اور اذان دی۔ نرس نے کہا کہ مجھے اس کا نام لکھنا ہے تاکہ اس کے بازو پر باندھ سکوں۔ بچی بہت پیاری ہے، کیا نام لکھوں؟ پلیز مجھے کوئی ایسا نام بتانا جو آسان سا ہو، مخصوص پاکستانی نام لکھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ میں نے کہا کہ میں اسے ایسا نام دوں گا جو دونوں ماحول کے عین مطابق ہو گا اور چونکہ میں پہلے ہی بچی کا نام اُم الالمومنین حضرت ماریہ قبطیہؓ کے نام پر رکھنا چاہتا تھا۔ جب نرس کو نام بتایا تو وہ بھی بڑی خوش ہوئی۔ اتنی دیر میں ہسپتال کا وقت ختم ہو گیا اور میں وہیں سے سیدھا کام پر چلا گیا۔ جاتے جاتے ساتھ مٹھائی لیتا گیا کہ سب کولیگز کا منہ میٹھا کرواؤں گا، سبھی دوست بڑے خوش ہوئے۔ ایک مزے کی بات آپ سب سے شئیر کرنا چاہوں گا، وہ یہ کہ ان دنوں جہاں کام کرتا تھا وہاں پر تین چار انڈین خواتین بھی ساتھ کام کرتی تھیں اور انڈین کمیونٹی میں آج بھی بیٹی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، ان عورتوں نے مجھے پاس بلایا اور پوچھا بیٹی ہوئی ہے اور تم مٹھائی بانٹ رہے ہو، کیا یہ سہی ہے، بیٹی تو بوجھ ہوتی ہے۔ میں نے کہا نہیں ہم بیٹی کو اللہ کی رحمت سمجھتے ہیں، زحمت نہیں۔ اس پر ایک عورت کا جملہ آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے، " یہ تو پاگل ہے"۔ تو دوستو! جس دن سے بیٹی میرے گھر میں آئی ہے، واقعی اس دن سے مجھ پر اللہ کی رحمت ہی برس رہی ہے، کبھی کسی شے کی کوئی کمی نہیں ہوئی، الحمدللہ۔ شروع دن سے جب سے اس نے ٹھوس غذا کھانا شروع کی تو میں اسے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتا، اب جب وہ بڑی ہو گئی ہے تو اب بھی میں اس کا کھانا خود نکالتا ہوں، پلیٹ میں ڈال کر اس کے سامنے رکھنا اور بسم اللہ پڑھ کر پہلا لقمہ اس کے منہ میں ڈالتا ہوں۔ اکثر باسط یا زین بھائی سے فون پر بات ہو رہی ہوتی ہے اور شام کے کھانے کا وقت ہو تو مجھے ان سے اجازت لینی پڑ جاتی ہے کہ بھائی اجازت دو، ورنہ میری کھچائی ہو جائے گی۔ پہلے پہل جب اس نے بولنا شروع کیا تو میں نے اسے کہا کہ مجھے "ابو" کہا کرو، کچھ عرصہ میں "ابو" رہا مگر جب سے اس نے سکول جانا شورع کیا ہے میں اب "ڈیڈ" ہو گیا ہوں، کیا کریں ماحول کا کچھ اثر تو ہوتا ہے۔ پردیس کا ماحول اور یہاں کی آزاد خیال طرزِ زندگی میں جو دیکھا اس پر اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اس کا نصیب اچھا کرے اور اسے ہدائت دے آمین۔ الحمدللہ سوائے شاپنگ کے یا باہر گھومنے جانا ہو، کہیں جانے کی ضد نہیں کرتی، نہ ہی کہیں آس پاس پڑوس میں بھی جاتی ہے، اپنے گیمز میں مگن رہتی ہے، اکثر گیمز میں ماں سے جیت کر "پزا" کی فرمائش کرتی ہے۔ میرے پاس کھانے، پڑھائی اور سونے سے پہلے دس منٹ بیٹھ کر بات کرتی ہے، اکثر و بیشتر "نصیحت نما" لیکچر ہی ہوتا ہے اور الحمدللہ کبھی اس نے اس لیکچر پر منہ نہیں بنایا۔ منہ بنتا ہے تو ماں کی ڈانٹ پر، جب کبھی ایسا ہوتا ہے تو وہ پھر میرے کمرے میں آتی ہے اور ماں کی شکائت کرتی ہے اور مجھے اس کی فرمائش پر "کسی" کو ڈانٹنا پڑ جاتا ہے۔ کئی بار اکیلے پاکستان جانا پڑا تو روزانہ شام کو فون کرنا اور اسے سے بات کرنا ضروری ہوتا ہے اس پر اس کا کبھی ہنسنا کبھی رونا اور کبھی دونوں کا مکسچر سننا پڑتا تھا۔ بس اس کی فرمائش کہ روز بات کرنی ہے چاہے ایک منٹ کے لئے ہی کیوں نہ ہو اور اگر کہیں دیر ہو جائے تو پھر ماں کو کہہ کر فون کروانا اور میری کھچائی کرنی کہ فون کیوں نہیں کیا؟، پھر مجھے سچ میں کان پکڑ کر معافی مانگنی پڑ جاتی ہے۔ اللہ پاک سب کی بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے، آمین۔ سب بیٹیوں نے ایک دن اپنے گھر تو جانا ہے مگر جب تک یہ ہمارے آنگن میں ہیں انہیں ایک پھول کی طرح رکھیں مگر ان کی تربیت ایسے کریں کہ سخت سے سخت ماحول میں جا کر بھی اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر سکیں۔
     
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اللہ کی رحمت

    اچھی شئیرنگ کا شکریہ
     
  3. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اللہ کی رحمت

    بہت شکریہ جناب
     

اس صفحے کو مشتہر کریں