1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اقتباسات

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏28 اپریل 2011۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    اس لڑی میں مختلف مضامین و تحریروں سے اقتباسات پیش کرنے کی کوشش کروں گا ۔

    اقتباس - 1
    سائنس کے جدید مؤرخین کا یہ گمان اب یقین کے حدوں میں آچکا ہے کہ قدیم اقوام سائنس اور ٹیکنولوجی میں بہت ترقی کرچکی تھیں. ان قوموں کی ایک تحقیق ایک سفید سفوف کی کیمیاوی ترکیب اور استعمالات کے بارے میں ہے. یہ سفوف سونے اور پلاٹینم کے خاندان کی دھاتوں کو یکجوہری حالت میں لاکر بنایا جاتا تھا. مؤرخین کا بیان ہے کہ فراعنہ، نیز عہد قدیم کے دیگر بادشاہ اس تکنیک سے واقف تھے.

    قدیم اقوام کی سائنسی معلومات کے موضوع پر جدید عہد میں سوٹزرلینڈ کا قلم کار، ایرک وون ڈانیکن (Erich von Däniken) اپنی متنازعہ کتاب ’’خداؤں کی رتھیں‘‘ (Chariots of the Gods) اور اس سلسلہ کی کئی دیگر کتابوںمیں خاصی تفصیل سے بحث کرتا ہے. اگرچہ اس نظریہ کی سائنسی حقیقت پر شدید اعتراضات ہوئے ہیں، مگر ڈانیکن کی کتابوں کے بعد اس عہد کے ایک معروف امریکی فلکیاتی، کارل سیگن ،نے مرنے والے لوگوں یا انسانوں سے زیادہ ترقی یافتہ دنیاؤں (جنت؟)کے باشندوں سے ’’جسمانی ملاقات‘‘ کے موضوع پر ایک سائنسی ناول ’’رابطہ‘‘ (کونٹیکٹ Contact) لکھا. سیگن نے ڈانیکن کے تصور کو کلیتاً رد نہیں کیا تھا، اگرچہ اس کے دلائل اور شہادتوں کو کمزور کہا تھا.

    خیر اس نوع کی بہت سی باتیں ابھی محکم دلائل اور شواہد کا مطالبہ کرتی ہیں. میں نے ڈانیکن کی کئی کتابیں کچھ چالیس سال پہلے پڑھی تھیں. اس کی بیان کردہ دو ایک باتیں مجھے اس وقت یاد آگئیں. اس نے اہرام مصر، خاص طور پر خوفو کے ہرم ، میں اندر اور باہر کچھ سائنسی تحقیق کا دعویٰ کیا تھا. اس کے چند بیانات تھے:

    ایک: اہرام کی تعمیر کے وقت اندر اندھیرا تھا. قدیم عہد میں زیر زمین تعمیر کے دوران روشنی کے لئے وہاں مشعلیں جلائی گئی ہوں گی.مگر کسی بھی ہرم میں کاربن اور دیواروں پر دھوئیں کے اثرات نہیں ملے، اس کے برعکس ریڈیائی اثرات پائے گئے جو ہرم کے اندر زیادہ اور باہر ہرم سے دور ہوتے ہوئے کم ہوتے چلے جاتے ہیں. نتیجہ: عہد فراعنہ میں نیوکلئر بجلی پیدا کی جاتی تھی، نیز چونکہ ہرم کی دیواروں کے او پر یا اندر بجلی کے تار نہیں پائے گئے اس لئے غالباً اس زمانہ میں ایٹمی ٹارچ بنا لی گئی تھی.

    دو : جیزہ میں بنے ہوئے تین اہرام ہیں. ان میں سب سے بڑے خوفو کے ہرم میں جو پتھر لگے ہوئے ہیں ان میں سب سے چھوٹے پتھر کا وزن اڑھائی ٹن ہے اور سب سے بڑے پتھر کا وزن 30 ٹن ہے. یہ پتھر موجودہ شہر قاہرہ کے جبل مُقَطَّم سے کاٹے گئے تھے. جو لوگ قاہرہ جاچکے ہیں وہ شائد جانتے ہوں کے جبل مقطم، جس کے اوپر سلطان صلاح الدین کا قلعہ اورسلطنت عثمانیہ کے گورنر محمد علی پاشاالبانی کی مسجد ہے، آدھا اس طرح کٹا ہوا ہے جیسے مکھن کی ٹکیہ کو درمیان کے چھری سے کاٹا گیا ہو. اس پہاڑ کو کاٹنے اور پھر اس کے وزنی پتھروں کو نیل کے دہانہ کی زمین سے گزار کر جیزہ تک لے جانا حیرت انگیز ہے. یعنی عہد فراعنہ میں مقناطیسی حول پیدا کرکے معلق سفر (levitation) کی سائنس معروف اور مستعمل تھی.

    یہ سائنسی افکار ہیں جن کو زیادہ بہتر انداز میں سائنسداں ہی بیان کرسکتے ہیں. مجھے ان باتوں کے درست یا غلط ہونے پر اصرار نہیں. میں اسے ایک مختلف انداز میں دیکھتا ہوں.

    ہم یہ باور کئے ہوئے ہیں کہ سائنسی ترقی جیسی آج ہوئی ہے اب سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی، اور یہ کہ اس ترقی کا کوئی انت اور اختتام نہیں ہے. یہ ترقی اب اسی طرح تا ابد جاری رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت ترقی کے اس سفر کو روکنے پر قادر نہیں ہے. یہ خیال فرعونیت ہے.

    جسے ہم تاریخ کہتے ہیں اس کا معلوم زمانہ بہت مختصر ہے. کہا جاتا ہے دنیا کی سب قدیم معلوم تہذیب ترکی کے شہر قونیہ کے نواح میں واقع میدان چتل ہویوک (Çatalhöyük) میں تقریبا ساڑھے نو ہزار سال پہلے موجودتھی. اس تہذیب کے فصیل بند شہروں اور بیرون شہر زراعت کے آثار باقی ہیں اور ترکی میں دیکھے جاسکتے ہیں. میں نے 1982 میں اس شہرکا ایک نمونہ انقرہ کے میوزیم میں دیکھا تھا. مگر اس تہذیب کی حقیقت سے لوگ بے خبر ہیں. اس کے علاوہ ماضی کے بارے مین ہم کیا جانت7ے ہیں؟ نہ جانے کن صدیوں میں حضرت نوح علیہ السلام نے وہ سفینہ بنایا تھا جس میں ہر جاندار کا ایک ایک جوڑا، نیز تقریبا ً 80 اہل ایمان نے چالیس دن گزارے تھے. اس مدت میں کھانا کھایا بھی ہوگا، پکایا بھی ہوگا، ورنہ ان کے پاس کھانے کو مہر بند ڈبوں میں محفوظ کرنے کی سائنس ہوگی. اس کے علاوہ ہر قسم کے جاندار کی غذا کا انتظام بھی سفینہ میں کیا گیا ہوگا. کسی نامعلوم زمانہ میں شداد نے ارم نام کی جو جنت بنائی تھی وہ کچھ تو محیر العقول ہوگی کہ ایک مغرور بادشاہ نے اسے جنت سے مشابہ کہا.پاکستان میں موئنجو دڑو کے آثار اور شہری نظام اور نظافت کا معیار آج کے انسانوں کو انگشت بدنداں کر دیتا ہے . اس زمانہ کی زبان تو آج تک پڑھی ہی نہیں جاسکی جو کچھ حقائق اس دور کے بارے میں تفصیل معلوم ہو سکیں. اور بھی کتنی ہی تہذیبیں تو وہ ہوں گی کہ ہم تک ان کے آثار تک نہ پہنچے. وہ ختم ہوئیں توترقی کے کس مرحلہ پر تھیں کسی کو کیا معلوم.

    انسان جتنا ذہین آج ہے، ہزاروں سال پہلے بھی اتنا ہی ذہین تھا. بشریات کے جدید ماہرین کا یہ گمان ہے کہ ماضی میں انسان بندر سے زیادہ کچھ نہیں تھا. یہ خیال کچھ قصہ حاتم طائی سے کم نہیں. ماضی کے جو حالات قصے کہا نی کے طور پر صدیوں سے انسانی وراثت اور آدمی کا تہذیبی سرما یہ ہیں وہ کچھ اور ہی تصویر بناتے کہیں. اور اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بڑی عظیم تہذیبیں، خواہ آج کی تہذیب و ترقی سے کمتر ہوں یا برتر، خاک میں مل گئیں اور وقت کے ریگزار میں بکھرے ہوئے ذروں کی غذا بن گئیں. ہماری موجودہ تہذیب اور ترقی بھی اپنے انجام کو پہنچے گی. اگر فراعنہ کی ایٹمی بجلی پر یقین نہ بھی ہو تو سفینہ نوح کی روائت پر تو شبہ نہیں ہے. بلاشبہ وہ سفینہ سائنسی عجوبہ ہوگا.اس قوم کے بعد کب اور کتنی قومیں اس جیسا سفینہ بنا سکی تھیں؟

    سچ پوچھئے تو جب انسان کے عروج و زوال کی طویل تاریخ پر نظر جاتی ہے تو قرآن کا بیان مؤرخ کے نقطۂ نظر سے سمجھ میں آجاتا ہے، :

    کُلُّ مَن عَلَیھَا فَان m وَّ یَبقیٰ وَجہُ رَبِّکَ ذُو الجَلٰلِ وَالاِکرَامِ m

    جو کچھ ہے اس (زمین) پر فنا ہونے والا ہے.اور باقی رہے گا بزرگی اور عظمت والا چہرہ تیرے رب کا.
    ( طارق غازی ۔ مطالعات )​
     
  2. سارا
    آف لائن

    سارا ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2011
    پیغامات:
    13,707
    موصول پسندیدگیاں:
    176
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    :a180::a180:
     
  3. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    :a180::a180::a180:
     
  4. عفت
    آف لائن

    عفت ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2011
    پیغامات:
    1,514
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    بہت زبردست اور معلوماتی مقالہ ارسال کیا آپ نے۔
    شکریہ۔ پہلی فرصت میں تفصیل سے پڑھوں گی۔
     
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    اقتباس -2
    بجنگ آمد ”کو شائع ہوئے بہت عرصہ نہیں گزرا تھا کہ راول پنڈی کے ایک معروف ادارے نے ہمارے ساتھ ایک شام منانے کا فیصلہ کیا۔اب پنڈی کی گلیوں میں ہم برسوں سے گھوم رہے ہیں لیکن عام گم نام سپاہیوں کی طرح ۔حلقہء یاراں میں ہماری بزم آرائیاں اپنی جگہ لیکن باہر کی دنیا میں اول تو کوئی ہمیں جانتا ہی نہ تھا اور جو دور سے پہچانتے تھے ،ہمیں بالکل بیبا بلکہ بے زبان سا آدمی سمجھتے تھے لیکن شاید ”بجنگ آمد ”کی رو سے ہماری تاثیر کچھ مختلف تھی ۔ہال میں پہنچ کر حاضرین کی طرف منہ کر کے سٹیج پر بیٹھا ہی تھا کہ پہلی یا دوسری صف کی ایک خاتون کے منہ سے ایک حیرت کے عالم میں پنجابی آواز نکلی جو میرے سمیت کئی دوستوں نے سنی اور جو آج تک کانوں میں گونج رہی ہے ۔محترمہ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا:

    ” ہائے میں مر گئی ! ایہہ کتاب اس گھگھو نے لکھی اے ۔اُ توں کنا بھولا لگدا سی تے وچوں کنا میسنا نکلیا”

    (ترجمہ:ہائے میں مر گئی ! یہ کتاب اس اُلّو نے لکھی بہ ظاہر کس قدر سادہ لوح لگتا تھا اندر سے کس قدر چالاک نکلا”۔
    (کرنل محمد خان )
     
  6. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    اقتباس -3
    ضمیر بڑے خاص قسم کے سید ہیں ۔بے کسوں کو سہارا دینا آپ کی خاندانی سنت ہے اور یہ سنت ضمیر کو بہت مرغوب ہے ۔اب بے کسو ں کی تو وطن عزیز میں کمی نہیں چنانچہ ضمیر اپنے بے کسوں کو صرف مصنفین میں تلاش کرتے ہیں اور بے کسان قلم کی کثرت کی وجہ سے ایک سے زیادہ مصنف زیر پرورش رکھتے ہیں ۔رہا ان کا سہارا دینے کا انداز تو وہ دام درم سے نہیں بلکہ وہ دیباچے کی شکل میں دیتے ہیں ۔یقین مانیں کہ پوری گیارہ کتابیں جو اپنے مصنفین کی طرح بے دست و پا ہیں ،ضمیر کے دیباچوں کے سہارے کھڑی ہیں بلکہ ان میں سے چند ایک تو قطعی طور پر دم توڑ چکی ہیں فقط ضمیر کے دیباچے انھیں کندھا دیئے پھر رہے ہیں ۔میں نے ضمیر کو بار ہا مشورہ دیا کہ اپنے دیباچوں کو ان آنجہانی کتابوں سے الگ کر کے چھاپ دیں کہ زندوں اور مردوں کی ہم نشینی معیوب سی بات ہے لیکن وہ ٹالتے رہے ۔غالباً انھیں درجن پورا کرنے کے لیے ایک دیباچے کی کمی کا احساس تھا اور پھر ایک دن میرے ناشر نے اطلاع دی کہ ضمیر نے تمھاری کتاب کے لیے بھی ایک دیباچہ لکھ دیا ہے ۔اب سوچتا ہوں اردو ادب کو تو ایک شوخ و رنگین دیباچہ مل گیا لیکن ہماری کتاب کے لیے تو وہ ایک طناز مجاور ہی ثابت ہو گا۔
    (کرنل محمد خان )​
     
  7. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    ہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  8. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    بہت شکریہ آصف بھائی اچھا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ اسے جاری رکھیں ۔ :222:
     
  9. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    اقتباس -4

    عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ صبح کی نماز کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غائب پاتے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز کی ادائیگی کیلئے تو باقاعدگی سے مسجد میں آتے ہیں مگر جونہی نماز ختم ہوئی وہ چپکے سے مدینہ کے مضافاتی علاقوں میں ایک دیہات کی طرف نکل جاتے ہیں۔ کئی بار ارادہ بھی کیا کہ سبب پوچھ لیں مگر ایسا نہ کر سکے ۔
    ایک بار وہ چپکے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے چل دیئے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ دیہات میں جا کر ایک خیمے کے اندر چلے گئے۔ کافی دیر کے بعد جب وہ باہر نکل کر واپس مدینے کی طرف لوٹ چکے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُس خیمے میں داخل ہوئے، کیا دیکھتے ہیں کہ خیمے میں ایک اندھی بُڑھیا دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑھیا سے پوچھا؛ اے اللہ کی بندی، تم کون ہو؟
    بڑھیا نے جواب دیا؛ میں ایک نابینا اور مفلس و نادار عورت ہوں، ہمارے والدین ہمیں اس حال میں چھوڑ کر فوت ہو گئے ہیں کہ میرا اور ان دو لڑکیوں کا اللہ کے سوا کوئی اور آسرا نہیں ہے۔
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر سوال کیا؛ یہ شیخ کون ہے جو تمہارا گھر میں آتا ہے؟
    بوڑھی عورت (جو کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اصلیت نہیں جانتی تھی) نے جواب دیا کہ میں اس شیخ کو جانتی تو نہیں مگر یہ روزانہ ہمارے گھر میں آکر جھاڑو دیتا ہے، ہمارے لئیے کھانا بناتا ہے اور ہماری بکریوں کا دودھ دوہ کر ہمارے لئیے رکھتا اور چلا جاتا ہے۔
    حضرت عمر یہ سُن کر رو پڑے اور کہا؛ اے ابو بکر، تو نے اپنے بعد کے آنے والے حکمرانوں کیلئے ایک تھکا دینے والا امتحان کھڑا کر کے رکھ دیا ہے۔
    (ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ ۔ کتاب ۔ روضۃ المُحبین و نزھۃ المشتاقین)
     
  10. نوری
    آف لائن

    نوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 فروری 2011
    پیغامات:
    359
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    :a165::a165::a180::a180::a180:
    بہت شکریہ آصف بھائی اچھا سلسلہ ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں