1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

افضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏21 مئی 2006۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    جان لینا چاہئے کہ سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علوِ مرتبت، رُوحانی کمالات و خصائص اور باطنی فضائل و محامد کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بے مثل حسن و جمال بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زِندہء جاوید معجزہ ہے، جس کا تذکرہ کم و بیش سیرت کی تمام کتب میں موجود ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کو جاننے کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورتِ طیبہ کا ایک تحریری مرقع دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ سیرت کے ساتھ صورت سے بھی پیار پیدا ہو۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت بھی ہے کہ صورت، سیرت کی عکاس ہوتی ہے اور ظاہر سے باطن کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کیونکہ اِنسان کا چہرہ اُس کے مَن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ پہلی نظر ہمیشہ کسی شخصیت کے چہرے پر پڑتی ہے، اُس کے بعد سیرت و کردار کو جاننے کی خواہش دِل میں جنم لیتی ہے۔

    حضور نبیء اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے اَحوال و فضائل اس نقطہء نظر سے معلوم کرنے سے پہلے یہ جاننے کی خواہش فطری طور پر پیدا ہوتی ہے کہ اُس مبارک ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپا، قد و قامت اور شکل و صورت کیسی تھی، جس کے فیضانِ نظر سے تہذیب و تمدّن سے ناآشنا خطہ ایک مختصر سے عرصے میں رشکِ ماہ و اَنجم بن گیا، جس کی تعلیمات اور سیرت و کردار کی روشنی نے جاہلیت اور توّہم پرستی کے تمام تیرہ و تار پردے چاک کر دیئے اور جس کے حیات آفریں پیغام نے چہار دانگِ عالم کی کایا پلٹ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ذاتِ خداوندی نے اُس عبدِ کامل اور فخرِ نوعِ اِنسانی کی ذاتِ اَقدس کو جملہ اَوصافِ سیرت سے مالا مال کر دینے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو ظاہری حُسن کا وہ لازوال جوہر عطا کر دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنِ صورت بھی حسنِ سیرت ہی کا ایک باب بن گیا تھا۔ سرورِکائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سراپا کا ایک لفظی مرقع صحابہء کرام اور تابعینِ عظام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ حسن و جمال عطا کیا تھا کہ جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی مرتبہ دور سے دیکھتا تو مبہوت ہو جاتا اور قریب سے دیکھتا تو مسحور ہو جاتا۔

    حضور نبیء اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب اور مقرب نبی ہیں، اِس لئے باری تعالیٰ نے اَنبیائے سابقین کے جملہ شمائل و خصائص اور محامد و محاسن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس میں اِس طرح جمع فرما دیئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر قرار پائے۔ اِس لحاظ سے حسن و جمال کا معیارِ آخر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ذات ہے۔ حضور نبیء اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس شانِ جامعیت و کاملیت کے بارے میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

    اُولٰئِکَ الَّذِینَ ھَدَی اﷲُ فَبِھُدٰہُمُ اقتَدِہ۔ (القرآن، الانعام 6 : 90)

    ”(یہی) وہ لوگ (پیغمبرانِ خدا) ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے، پس (اے رسولِ آخرالزماں!) آپ ان کے (فضیلت والے سب) طریقوں (کو اپنی سیرت میں جمع کر کے اُن) کی پیروی کریں (تاکہ آپ کی ذات میں اُن تمام انبیاء و رُسل کے فضائل و کمالات یکجا ہو جائیں)۔“

    آیتِ مبارکہ میں ہدایت سے مُراد انبیائے سابقہ کے شرعی اَحکام نہیں کیونکہ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی منسوخ ہو چکے ہیں، بلکہ اِس سے مُراد وہ اَخلاقِ کریمانہ اور کمالاتِ پیغمبرانہ ہیں جن کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام مخلوق پر فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ وہ کمالات و اِمتیازات جو دِیگر انبیاء علیھم السلام کی شخصیات میں فرداً فرداً موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ سارے کے سارے جمع کر دیئے گئے اور اِس طرح حضور نبیء اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جملہ کمالاتِ نبوّت کے جامع قرار پا گئے۔

    1۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ مذکورہ آیت کے تحت اِمام قطبُ الدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ کے حوالے سے رقمطراز ہیں:

    انہ یتعین ان الاقتداء المامور بہ لیس الا فی الاخلاق الفاضلۃ و الصفات الکاملۃ، کالحلم و الصبر و الزھد و کثرۃ الشکر و التضرع و نحوھا، و یکون فی الآیۃ دلیل علی انہ افضل منھم قطعا لتضمنھا، ان اﷲ تعالٰی ھدی اولئک الانبیاء علیھم الصلٰوۃ و السلام الٰی فضائل الاخلاق و صفات الکمال، و حیث امر رسول اﷲ ان یقتدی بھداھم جمیعًا امتنع للعصمۃ ان یقال: انہ لم یتمثل، فلا بدّ ان یقال: انہ علیہ الصلٰوۃ والسلام قد امتثل و اتی بجمیع ذالک، و حصل تلک الاخلاق الفاضلۃ التی فی جمیعھم، فاجتمع فیہ من خصال الکمال ما کان متفرقاً فیھم، و حینئذٍ یکون افضل من جمیعھم قطعا، کما انہ افضل مِن کل واحدٍ منھم۔(آلوسی، روح المعانی 7 : 217)

    ”یہ اَمر طے شدہ ہے کہ اِس آیت میں شریعت کے اَحکام کی اِقتداء کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اَخلاقِ حسنہ اور صفاتِ کاملہ مثلاً حلم، صبر، زُہد، کثرتِ شکر، عجز و اِنکساری وغیرہ کے حاصل کرنے کا حکم ہے۔ یہ آیتِ مقدسہ اِس اَمر پر قطعی دلیل کا درجہ رکھتی ہے کہ اِس اِعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء و رُسل سے اَفضل و اَعلیٰ ہیں کیونکہ ربِ کائنات نے جو اَوصاف اور فضیلتیں اُن نبیوں اور رسولوں کو عطا کی ہیں اُن کے حصول کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم فرمایا گیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت کے پیشِ نظریہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن (فضیلتوں) کو حاصل نہیں کیا بلکہ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ خصائص اور کمالات جو دِیگر انبیاء و رُسل میں جدا جدا تھے اُن سب کو اپنی سیرت و کردار کا حصہ بنا لیا، اِس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح ہر نبی سے اُس کے اِنفرادی کمالات کے اعتبار سے اَفضل ہوئے اُسی طرح تمام انبیاء و رُسل سے اُن کے اِجتماعی کمالات کے اعتبار سے بھی افضل قرار پائے۔“

    درجِ بالا عبارت تحریر کرنے کے بعد علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:

    ھو استنباط حسن۔ ”یہ بہت ہی خوبصورت اِستنباط ہے۔“

    2۔ آیتِ مذکورہ کے حوالے سے اِمام فخر الدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں:

    احتج العلماء بھذہ الآیۃ علٰی ان رسولنا افضل من جمیع الانبیاء علیھم السلام۔(رازی، التفسیر الکبیر 13 : 70)

    ”اہلِ علم نے اِس آیتِ مقدسہ سے اِستدلال کیا ہے کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء علیھم السلام سے اَفضل ہیں۔“

    3۔ اِمام فخر الدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ اِس موقف کی وجہِ اِستدلال کا ذِکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    انہ تعالٰی لما ذکر الکل امر محمداً علیہ الصلوۃ والسلام بان یقتدی بھم باسرھم، فکان التقدیر کانہ تعالٰی امر محمداً ان یجمع من خصال العبودیۃ و الطاعۃ کل الصفات التی کانت مفرقۃ فیھم باجمعھم۔(رازی، التفسیر الکبیر 13 : 71)

    ”آیتِ مذکورہ سے قبل اللہ رب العزت نے دیگر جلیل القدر انبیاء و رسل کا اوصافِ حمیدہ کے ساتھ ذِکر فرمایا اور آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ (محبوب!) اُن (انبیاء و رُسل) کی ذواتِ مطہرہ میں جو بھی فرداً فرداً اَوصافِ حمیدہ ہیں اُن اَوصافِ حمیدہ کو اپنی ذات کے اندر جمع فرما لیجئے۔“

    اِمام فخرالدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ ایک دُوسرے مقام پر آیتِ مذکورہ کا مفہوم اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

    فکانہ سبحانہ قال: ”انا اطلعناک علی احوالھم و سیرھم، فاختر انت منھا اجودھا و احسنھا، وکن مقتدیا بھم فی کلھا۔“ و ھذا یقتضی انہ اجتمع فیہ من الخصال المرضیۃ ما کان متفرقاً فیھم فوجب ان یکون افضل منھم۔(رازی، التفسیر الکبیر 6 : 196)

    ”گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے نبیء مکرم! ہم نے آپ کو انبیاء و رُسل کے اَحوال اور سیرت و کردار سے آگاہ کر دیا۔ اَب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ن تمام (انبیاء و رُسل) کی سیرت و کردار کو اپنی ذات میں جمع فرما لیں۔“ اِسی آیت سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ تمام اَخلاقِ حسنہ اور اَوصاف حمیدہ جو متفرق طور پر انبیاء و رُسل میں موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ میں اپنے شباب و کمال کے ساتھ جمع ہیں، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام انبیاء و رُسل سے اَفضل ماننا لازمی ہے“۔

    4۔ رسولِ اوّل و آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامد و محاسن کے ضمن میں شیخ عبدالحق محدث دِہلوی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں:

    آں حضرت را فضائل و کمالات بود، کہ اگر مجموع فضائلِ انبیاء صلوات اﷲ علیھم اجمعین را در جنب آن بنہند راجح آید۔(شیخ عبدالحق محدث دہلوی، شرح سفر السعادت : 442)

    ”حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاسن و فضائل اِس طرح جامعیت کے مظہر ہیں کہ کسی بھی تقابل کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاسن و فضائل کو ہی ترجیح حاصل ہو گی“۔

    اِس کائناتی سچائی کے بارے میں کوئی دُوسری رائے ہی نہیں کہ جملہ محامد و محاسن اور فضائل و خصائل جس شان اور اِعزاز کے ساتھ آقائے محتشم ا کی ذاتِ اَقدس میں ہیں اِس شان اور اِعزاز کے ساتھ کسی دُوسرے نبی یا رسول کی ذات میں موجود نہ تھے۔

    5۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ ایک دُوسرے مقام پر رقمطراز ہیں:

    خلائق درکمالاتِ انبیاء علیھم الصلٰوۃ و السلام حیران، و انبیاء ہمہ در ذاتِ وے۔ کمالاتِ انبیاءِ دیگر محدود و معین است، اما ایں جا تعین و تحدید نگنجد و خیال و قیاس را بدرکِ کمالِ وے را نہ بود۔(شیخ عبدالحق محدث دہلوی، مرج البحرین)

    ”(اللہ رب العزت کی) تمام مخلوقات کمالاتِ انبیاء علیہم السلام میں اور تمام انبیا ء و رُسل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس میں متحیر ہیں۔ دِیگر انبیاء و رُسل کے کمالات محدُود اور متعین ہیں، جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاسن و فضائل کی کوئی حد ہی نہیں، بلکہ ان تک کسی کے خیال کی پرواز ہی ممکن نہیں۔“
     
  2. ثناء
    آف لائن

    ثناء ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    245
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ماشاءاللہ پیا صاحب
    اس طرح کی تحریروں میں مزید اضافہ فرمائیے
     
  3. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    ان شاء اللہ اضافے ہوتے رہیں گے۔
     
  4. جی ایم علوی
    آف لائن

    جی ایم علوی ممبر

    شمولیت:
    ‏14 مئی 2006
    پیغامات:
    210
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اخلاق حسنہ کا نمونہ کمال

    ما شاء اللہ بہترین مضمون ہے ۔ حضور( صل اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے فضائل کا تذکرہ کرنا اوراخلاق حسنہ پر عمل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
     
  5. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    سبحان اللہ

    اللہ جزا عطا فرمائے
     
  6. ڈی این اے سحر
    آف لائن

    ڈی این اے سحر ممبر

    شمولیت:
    ‏29 مئی 2006
    پیغامات:
    191
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    رسول اللہ (ص)تمام انبیاء و رُسل سے

    کائناتی سچائی،فضائل و خصائلِ آقائے محتشم !!!

    اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ حسن و جمال عطا کیا تھا کہ جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی مرتبہ دور سے دیکھتا تو مبہوت ہو جاتا اور قریب سے دیکھتا تو مسحور ہو جاتا۔
     
  7. ہما
    آف لائن

    ہما مشیر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    251
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ماشاءاللہ بہت اچھا انتخاب کیا ہے پیاجی نے۔
     
  8. مظھرالحق
    آف لائن

    مظھرالحق ممبر

    شمولیت:
    ‏29 اگست 2006
    پیغامات:
    73
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    سیرتِ سرور کائنات (ص)

    پروفیسر رائن ہارٹ ڈوزی کی رائے

    پیغمبر (ص) کو ایک نفس پرور، شکک اور استہزا پسند قوم کو ایک نئےقالب میں ڈھالنا اور اُن کی قالب ماہیت کرنی تھی۔ یہ کام ایسا سخت تھا کہ اگر اُن کر اپنی رسالت کے برحق ہونے کا یقین اس درجے کا نہ ہوتا جس درجے کا وہ رکھتے تھے تو پھر ایک انسان کی قدرت سے باہر تھا کہ اس سے سربراہ ہونے میں اپنے حواس سلامت رکھ سکے
     
  9. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    سبحان اللہ
    میرے پریتم جیسا اور نہ کوئی
     
  10. لاڈلا
    آف لائن

    لاڈلا ممبر

    شمولیت:
    ‏5 نومبر 2006
    پیغامات:
    15
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ماشاء اللہ بہت اچھی تحریر منتخب کی ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں