1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

افسانہ

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از عنایت عادل, ‏10 جولائی 2013۔

  1. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    کھڑکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنایت عادل
    بارش ابھی ابھی تھمی تھی۔۔بارش کیا تھمی ۔۔جاتے جاتے جیسے ہوا کو بھی ساتھ ہی لے گئی۔ بادلوں کے آنے کی نوید سناتا حبس، بادلوں کے جانے، برس جانے کے بعد تو جیسے دو چند ہو کر سامنے آ گیا تھا۔ کھڑکی سے باہر درختوں کی جتنی شاخیں نظروں میں سما سکتی تھیں۔۔۔سب ساکت ،اور اپنی لچک کے مظاہرے کو ترس رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر پہلے برستے پانی کے ساتھ ہوا کی اٹھکیلیوں سے لاڈ کرتے ان شاخوں پر لگے پتے،اب اس بچے کی مانند دل گرفتہ محسوس ہو رہے تھے کہ جس کو کھلونا دے کر فوراََ چھین لیا گیا ہو۔شاخوں اور پتوں کی اس اداسی کا اثر درختوں نے بھی خوب لے رکھا تھا۔ نہ جانے کتنی دعائوں کے بعد برسنے والے بادل۔۔۔زمین پر بستے ہر ذی روح کو چلچلاتی دھوپ، اور بدن چھیلتی لو ُ سے تو، وقتی طور پر ہی سہی، نجات دے گئے تھے، لیکن اب ، دم گھٹاتے حبس نے اسی لو ُ کی یاد دلانا شروع کر دی تھی کہ جس سے نجات کے لئے کتنے ہی ہاتھ آسمان کی جانب اٹھے تھے۔ وہ کھڑکی کے پٹ کھولے، شاید۔۔۔ہوا کے کسی جھونکے ہی کی تلاش میں دونوں بازو پھیلائے کھڑا تھا۔ سفید باریک کرتے ، اور اسی رنگ کے پاجامے میں ملبوس اس کا ادھیڑ عمر جسم کچھ دیر پہلے برسنے والی بارش میں تو نہ بھیگ سکا، البتہ حبس نے اس کے جسم سے وہ عرق نکالا کہ اس کا پورا لباس تر بہ تر ہو چکا تھا۔ سفید کنپٹیوں سے نکلنے والی پسینے کی ایک لہر، باہر صحن میں بہتے بارش کے پانی کی نقالی کرتی محسوس ہو رہی تھی۔جوانی کو خیر باد کہنے کا پیغام دیتیں، اسکی آنکھوں کے کنارے اگتی جھریاں، نظر کے چشمے کے پیچھے سکڑی ہوئی آنکھوں کی طرح کسی عمیق سوچ کا پتہ دے رہی تھیں۔وہ کافی دیر سے ان سوچ زدہ نظروں سے آسمان کو مسلسل گھورے جا رہا تھا۔ اسکی نظریں، بغیر کسی جنبش کے ۔۔دور آسمان میں گویا کچھ ٹٹولنے، کچھ ڈھونڈنے میں محو تھیں۔باہر گلی میں بارش سے بھیگے بچوں کی چہچہاٹیں، قہقہے اور بلند آوازیں بھی اسکی نظروں ، اسکی سوچوں کے محور کو بدلنے میں ناکام ہو چکی تھیں۔اس چھوٹے سے کمرے میں موجود بکھرے سامان کی طرح اسکے چاندی زدہ بال بھی وہی تصویر پیش کر رہے تھے کہ جسے دیکھ کر اسکی اندرونی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔خود سے لا پرواہ، آس پاس کے ماحول سے انجان، وہ اکثر اسی طرح کھڑکی میں کھڑا ملتا۔ اس کے لئے نہ تو اسے کسی بارش کا انتظار ہوتا اور نہ ہی ہوا کے کسی جھونکے کی تلاش کا بہانہ تراشنا پڑتا۔ نہ تو کبھی گرمیوں میں چلنے والی لو ُ اسے اس کھڑکی کے پاس سے ہٹا سکی اور نہ ہی سرماں کی یخ بستہ ہوائیں اسے اس کھڑکی کو بند کرنے۔۔۔اس سے دور رکھنے میں کامیاب ہو سکیں۔
    وہ پہلے ایسا نہ تھا۔۔۔۔اسکے آس پاس بستے ، اسکے قریبی لوگ اسکے ہنس مکھ اور ملنسار انداز کی مثالیں دیتے تھے۔ وہ محفل کی جان اورخوشی غمی میں آگے بڑھ کر خدمات انجام دینے والا ساتھی سمجھا جاتا تھا۔۔۔تنہائی اسکے قریب سے نہ گزری تھی۔۔گھر میں ہوتا تو بہن بھائیوں کے ساتھ خوش گپیوں میں محو رہتا، باہر ہوتا تو سنگی ساتھیوں کی محفل کو چار چاند لگائے رہتا۔ اسکی غیر موجودگی جہاں گھر والوں کو اسکی راہ دیکھتے رہنے پر مجبور کرتی، وہیں اس کے دوست یار اسکی اپنے درمیان موجودگی کا ہمیشہ انتظار کرتے رہتے۔ماں۔۔باپ اور بہنوں کے اصرار پر جب اس نے شادی کی تو گھر میں وہ بہار آئی کہ پھولوں کے موسم کے بغیر بھی اس گھرانے میں خوشیوں کے وہ گل مہکتے کہ جنکی مہک، کتنے ہی دلوں میں رشک بھر جاتی۔شریک حیات کی محبت کے بعد خدا کی جانب سے پہلے ''نعمت'' اور اسکے دو ہی سال بعد ، پریوں کو شرماتی ''رحمت'' مل جانے کے بعد، وہ خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت اور خوشحال شخص سمجھنے لگا۔ دنیا اسے حسین سے بھی حسین تر لگنے لگی۔۔۔لیکن پھر۔۔دنیا کو جنت سمجھنے والے سے اسکی جنت چھِن گئی۔۔۔۔۔۔۔
    ایسا ہی ایک موسم تھا، جب اسکی ماں، عمر بھرخوشیاں اسکی جھولی میں ڈالتے ڈالتے ،ایک روز اسے ایک ایسا غم دے گئی کہ جو اسکی تمام خوشیوں کو ساتھ بہا کر لے گیا۔ تب سے لے کر آج تک، وہ اپنی تمام خوشیاں اسی کھڑکی میں کھڑا ہو کر آسمان کی جانب نگاہیں اٹھائے تلاش کرنے لگا۔زندگی کے جھمیلوں سے جب بھی اسے فرصت ملتی، جب بھی آسمان سے برکھا برستی، جب بھی گلیوں میں بارش سے بھیگتے بچوں کی کلکاریاں اسکی سماعتوں سے ٹکراتیں، اسے ماں کی یاد ستانے لگتی اور وہ جھٹ سے کھڑکی کے پٹ کھول دیتا۔۔۔ دیکھنے میں وہ محض سوچوں میں غلطاں محسوس ہوتا ۔۔وہ مرد تھا، آنسو ضبط کئے رکھتا، مگر اسکے آنسو، اسکے دل میں اس شدت سے کہیں زیادہ برستے کہ جو کھڑکی سے باہر نظر آنے والے آسمان سے برستے بادلوں میں موجود ہوتی۔یہ صرف وہی جانتا تھا کہ اس کھڑکی اور اسکی جدا ہونے والی ماں کے درمیان کیا ربط تھا۔ جب بھی بارش برستی، اسے وہ وقت یاد آ جاتا، جب اس نے نہایت ضد کرتے ہوئے ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کا ارادہ ماں کو بتایا تھا۔ ماں نے اس کی کم عمری کے ساتھ ساتھ، روزہ رکھنے کے شوق کو دیکھتے ہوئے اسے اس شرط کے ساتھ اجازت دے دی تھی کہ وہ سارا دن روزہ رکھنے کے بجائے بس دوپہر تک ہی روزہ رکھے گا۔ پھر رمضان شروع ہوا تو خوشی کا مہینہ کہلائے جانے والے اس مقدس مہینے میں ماں باپ کی پریشانیوں پر حیران، مگر انکے درمیان ہونے والی گفتگو سے نابلد ، وہ سحری کے وقت اٹھ جاتا۔ ماں اسے۔۔۔اور اسکے باپ کو خوب تاکید کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پراٹھے کھانے کو کہتی۔۔مگر عجیب بات تھی کہ اس نے کبھی ماں کو پراٹھے کھاتے، یا سحری کرتے نہ دیکھا، حالاںکہ صبح وہ روزہ سے بھی ہوتی۔اس کا باپ جب بھی پوچھتا تو ایک ہی جواب دیتی۔۔۔''میں نے تو پہلے ہی سحری کر لی تھی''۔۔اسکا کچا ذہن ماں کی بات سن کر جیسے تپ جاتا۔''خود پہلے کھا لیتی ہے اور ہمیں اس وقت جگاتی ہے جب مولوی اذان دینے کی تیاری کر رہا ہوتا ہے''۔۔پھر ایک شب ، جب وہ سو رہا تھا تو اسکی آنکھ کھل گئی،۔۔شاید بارش ہوئی تھی۔۔۔ باہر صحن کی بتی روشن تھی۔ وہ بستر سے اٹھا تو اسے قریبی چارپائی پر باپ لمبی تانے سویا نظر آیا، وہ کھڑکی کے قریب پہنچا تو اسنے اپنی ماں کو دیکھا، جو سامنے بیٹھی ، ایک ہاتھ سے کچھ کھاتی اور فوراََ دوسرے ہاتھ میں پکڑے گلاس سے گھونٹ بھرنے لگتی۔وہ جلدی سے کھڑکی پھلانگ کر ماں تک یہ سوچ کر پہنچا کہ آج وہ بھی مولوی کی آذان سے بہت پہلے، ماں کے ساتھ ہی گرما گرم پراٹھے آرام سے مزے لے لے کر کھائے گا۔ ماں کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی، اس نے دونوں ہاتھ پیٹھ کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی۔۔مگر اس نے دیکھ لیا تھا۔ ماں کے ایک ہاتھ میں پکڑی رات کی بچی ٹھنڈی روٹی، اور گلاس میں اچھلتا گھڑے کا پانی، اسے اسکی ماں کی بر وقت سحری کی داستاں سمجھا چکا تھا۔۔۔۔۔
     
  2. سمیع خان
    آف لائن

    سمیع خان ممبر

    شمولیت:
    ‏24 ستمبر 2014
    پیغامات:
    62
    موصول پسندیدگیاں:
    30
    ملک کا جھنڈا:
    بہترین کوشش تھی ، بڑے افسانہ نگاروں حصوصا " منشی پریم چند کے افسانے پڑھا کریں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں