1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

افسانہ وراثت از:۔ ایم مبین

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از ایم مبین, ‏30 مئی 2006۔

  1. ایم مبین
    آف لائن

    ایم مبین ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    5
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    افسانہ وراثت از:۔ایم مبین



    ردّی والا اُن ساری کتابوں کو تول کر تھیلےمیں بھر رہا تھا جو اُنھوںنےگذشتہ تیس چالیس سالوں میں جمع کررکھی تھیں اور وہ حسرت سےاُن کتابوں کو ردّی والےکےتھیلوں میں گم ہوتےدیکھ رہےتھے۔ ردّی والا جب بھی کوئی کتاب اپنےترازو میں رکھتا ‘اُس کتاب کےسر ورق پر نظر پڑتےہی اُس سےوابستہ ایک کہانی ذہن میں اُبھر آتی۔ یہ کتاب اُنھوں نےدہلی سےمنگوائی تھی ۔ اِس کتاب کوانھوں نے کلکتہ سےخریدا تھا ۔ یہ کتاب مصنف نےخود اُنھیں تحفہ کےطور پر دی تھی۔ یہ کتاب اُنھیں انعام میں ملی تھی ۔ یہ کتاب اُنھوںنےایک لائبریری سےچرائی تھی ۔ کیونکہ یہ نایاب تھی لیکن اِس کتاب سےاُن کےعلاوہ کوئی بھی فیض حاصل نہیں کرسکتا تھا ۔ یہ لائبریری میں پڑی دھول کھارہی تھی ۔ اُنھیں لگا وہی اِس کتاب کو اپنےپاس رکھ کر اس کا بہتر استعمال کرسکتےہیں ۔ اس لئےاِس کتاب کو چرانا بھی کوئی گناہ محسوس نہیں ہوا تھا ۔ ان کتابوں میں اُن کی اپنی لکھی ہوئی کتابیں بھی تھیں ‘کچھ اچھی حالت میں کچھ خراب حالت میں ۔ شاید وہ آخری جلدیں تھیں لیکن پھر بھی اِنہیں ردّی میں فروخت کرتےہوئےاُنھیں کوئی دُکھ محسوس نہیں ہورہا تھا ۔ اُنھوں نےاپنےدِل پہ جیسےایک پتھر رکھ دیا تھا ۔ گذشتہ تیس چالیس سالوں میں اُنھوں نےجتنا پیار ، محبت اُن کتابوں کو دیا تھا ، ایک لحظہ میں سب ختم کرلی تھیں ۔ کبھی گھر کا کوئی فرد کسی کتاب کو غلط جگہ پر رکھ دیتا تھا تو وہ بھڑک اُٹھتےتھی۔ اگر کسی سےکتاب کا کوئی ورق پھٹ جاتا تو اُس کی تو شامت ہی آجاتی تھی ۔ گھر میں اکثر اُن کی کتابوں اور کاغذات کو اِدھر اُدھر رکھنےپر تنازعہ پیدا ہوتا رہتا تھا ۔ لیکن آج اُنھیں اُن ساری کتابوں کو گھر سےوداع کرنا پڑ رہا تھا ۔ کتابوں کےساتھ کاغذات کا ایک ڈھیر بھی ردّی والےکےتھیلوں میں جارہا تھا ۔ وہ کاغذات اُن کی ادھوری کہانیاں ، نوٹس وغیرہ تھے۔ کسی کتاب کو پڑھ کر اُنھوں نےجو نوٹس لکھےتھےیا پھر کسی افسانےکو لکھنےسےپہلےجو خاکےتیّار کئےتھے۔ اس کےعلاوہ اخبارات اور رسائل کی کٹنگ کاایک ڈھیر تھا ۔ اِس ڈھیر میں اُن کےمضامین بھی تھےاور کچھ یادگار اور کارآمد مضامین بھی جن کےتراشےاُنھوں نےبرسوں سےسنبھال کر رکھےتھے۔ اُن کی نظر میں اِن تراشوںکی حیثیت بہت کارآمد تھی ۔ لیکن شاید دُنیا کی نظر میں بیکار ردّی کےٹکڑے۔ کچھ مشہور ادبی رسائل کےگذشتہ دس پندرہ سالوں کےتمام شمارےجو شاید اہلِ ذوق کےلئےقیمتی ہوں ، لیکن اب وہ ردّی کےمول بک رہےتھے۔ وہ کُرسی پر بیٹھےردّی والےکو اُن چیزوںکو تولتا دیکھ رہےتھے۔ وقفہ وقفہ سےبہو اور بیٹا آکر ایک اُچٹتی سی نظر اِس کاروائی پر ڈال جاتےتھے۔ وہ بار بار یہ دیکھنےکےلئےآتےتھےکہ کون سی چیزیں فروخت ہورہی ہیں اور کون کون سی باقی ہیں ۔ بڑی سی کتابوں کی الماری کی کتنی جگہ خالی ہورہی ہے۔ اُنھوں نےبھی دِل پر پتھر رکھ لیا تھا اور طےکرلیا تھا کہ آج وہ اپنا کاغذ کا آخری پرزہ بھی بیچ دیں گےاور روزانہ کےذہنی تناو ¿ اور اُٹھ کھڑےہونےوالےتنازعات سےہمیشہ کےلئےنجات پالیں گے۔ اُنھیں پورا یقین تھا ۔ گھر کا کوئی بھی فرد آکر اُنھیں ایسا کرنےسےنہیں روکےگا ۔ ” ابا ،یہ ساری چیزیں آپ نےگذشتہ تیس چالیس سالوں میں جمع کی تھیں ۔ اِتنےسالوں سےانہیں سنبھال کر رکھا ۔ اپنی جان سےزیادہ اِن کی حفاظت کی ‘ پھر آج یہ سب کیوں فروخت کررہےہیں ؟ یا پھر کسی چیز کو فروخت کرنےسےروکے۔ ” آپ اِسےکیوں فروخت کررہےہیں ؟ اِسےتو آپ اپنی زندگی کا انمول سرمایہ مانتےتھے۔ “ اُنھیں یقین تھا کہ گھر کےافراد تو اِس سےخوش ہورہےہوں گے‘ گھر میں بہت بڑی جگہ خالی ہورہی ہے۔ اب اِس جگہ وہ اپنی پسند کی کوئی آرائش کی چیز رکھ سکیں گے۔ اُنھوں نےخطوط کا بڑا سا بکس بھی نکال رکھا تھا ۔ ان خطوط کےبارےمیں بھی اُنھوں نےردّی والےسےپوچھا تھا ۔ ” نہیں صاحب ! یہ تو میرےکسی کام کےنہیں ہیں ۔ اِس بوجھ کو میں یہاں سےلےجاکر کیا کروں گا ؟ “ ردّی والےکا جواب سُن کر اُنھوں نےاُسےبھی ٹھکانےلگانےکا راستہ سوچ لیا تھا ۔ آج وہ اُن تمام خطوط کو جلادیں گے۔ وہ ملک کےمشہور عالم اور مشاہیر کےخطوط تھے۔ گذشتہ تیس چالیس سالوں میں اُنھوں نےملک کےجن ادیب ، دانش وروں سےخط و کتابت کی تھیں اور جو خطوط اُن کی نظر میں تاریخی اہمیت کےحامل تھے‘ اُنھوں نےاُنھیں بڑےجتن سےسنبھال کررکھا تھا ۔ لیکن جب اُن کےبعد اِن چیزوں کا کوئی قدر دان اور اُنھیں سنبھال کر رکھنےوالا ہی نہیں ہوگا تو پھر اِنہیں گھر میں رکھ کر کیا فائدہ ‘ گھر والوں کی نظر میں تو وہ کوڑا کرکٹ ہی ہے۔ اِس لئےوہ اُن تمام خطوط کو جلا کر اہلِ خانہ کو کوڑےکرکٹ سےنجات دلا دیں گے۔ اُنھوں نےیہ بھی طےکرلیا تھا کہ اب وہ اپنےپسند کا کوئی بھی اخبار ، رسالہ یا کتاب گھر نہیں لائیں گے۔ وہ جانتےتھےکہ اُن کےاِن اقدامات سےگھر والوں کو بےحد خوشی ہوگی ۔ آج جو وہ قدم اُٹھا رہےتھے‘ اُس سےوہ گھر والوں کےچہروں پر خوشی کےتاثرات بھی دیکھ رہےتھے۔ گھر والوں کی خوشی میں ہی اُن کی خوشی تھی ۔ آخر وہ زندگی بھر گھر والوں کی خوشیوں کےلئےہی تو سب کچھ کرتےرہےتھے۔ زندگی بھر اُنھوں نےاِن سب کا خیال رکھا تھا۔ ہمیشہ یہ کوشش کی کہ انہیں کسی بات کی کمی نہ ہو ۔ اِس کمی کو پورا کرنےکےلئےوہ بارش، دھوپ ، سردی ، گرمی میں جدوجہد کرتےرہے۔ اب جب آخری عمر میں اُنھوں نےساری خوشیاں اپنےگھر والوں کےدامن میں ڈال دی ہیں تو اِن کی آخری چھوٹی سی خوشی کیوں نہ پوری کریں ؟ ڈرائنگ روم میں رکھی ان کی بڑی سی کتابوں کی الماری اور اُس الماری میں آویزاں پرانی بوسیدہ کتابوں سےاتنےاچھےسجےسجائےڈرائنگ روم کا شو خراب ہوتا ہے۔ گھر والوںکےجو بھی ملنےوالےگھر آتےہیں ‘ ناگواری سےاُس الماری کی طرف دیکھتےہیں ‘ اُس الماری کا مذاق اُڑاتےہیں اور اُنھیں اُن کی وجہ سےخفّت اُٹھانی پڑتی ہے۔ مجبوری یہ ہےکہ اتنےبڑےگھر میں ان کتابوں کو رکھنےکےلئےکوئی اور جگہ نہیں ہےاور ان کا خیال ہےکہ کتابیں ڈرائنگ روم کی زینت ہوتی ہیں ۔ اُنھیں دیکھ کر ہی آنےوالا صاحبِ خانہ کی علم دانی ، اُس کےرُتبےکا اندازہ لگا لیتا ہے۔ اِس لئےکتابیں ڈرائنگ روم میں ہی رکھی ہونی چاہیئے۔ انہی سوچوں کا ٹکراو ¿ آئےدِن گھر کا سکون غارت کئےرہتا تھا ۔ اپنی کوئی کتاب یا رسالہ نہ ملنےپر وہ چراغ پا ہوتےتھے۔ پہلےاُن کےغصےسےہر کوئی ڈر جاتا تھا ۔ لیکن اب اُن کےغصےسےکوئی بھی نہیں ڈرتا ، اُن سےاُلجھ جاتا ہےاور اُنھیں باتیں سنانےلگتا ہے۔ ” اپنےکوڑےکرکٹ کی خود ہی حفاظت کیا کریں ۔ ہمیں اِن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سارا کوڑا کرکٹ جمع کرکےاِتنےاچھےڈرائنگ روم کےشو کو خراب کررکھا ہے۔ “ یہ سُن کر اُن کےدِل کو ایک ٹھیس لگتی تھی ۔ گویا اُن کا خواب اب گھر والوں کی نظر میں کوڑا کرکٹ ہے۔ برسوں تک اُنھوں نےایک خواب دیکھا تھا ۔ اُن کا ایک بڑا اچھا سا گھر ہو ۔ جس میں ایک بڑا سا سجاسجایا ڈرائنگ روم ہو ۔ اُس ڈرائنگ روم میں اُن کی ایک بڑی سی الماری ہو ۔ جس میں اُن کی ساری کتابیں اور سارا علمی سرمایہ سجا ہو ۔ تاکہ ہر آنےوالےپر آشکار ہو ‘ اُنھوں نےکیا کیا سرمایہ اور خزینہ جمع کررکھا ہےاور اسےاُن کےخزینےپر رشک ہو ۔ ساری زندگی ایک چال کےایک چھوٹےسےکمرےمیں کٹی تھی جس کےایک کونےمیں اُن کی کتابوں کا ڈھیر بےترتیبی سےپڑا رہتا تھا ۔ وہ ڈھیر بڑھتا بھی تو کسی کو محسوس نہیں ہوتا تھا ۔ وہ اپنی ضرورت کی چیز اِس ڈھیر سےبخوبی ڈھونڈ کر نکال لیتےتھے۔ اور غیر ضروری چیز کو اُس ڈھیر میں شامل کردیتےتھے۔ اُن کےچھوٹےسےٹیبل پر صرف تازہ کتابیں ، رسائل اور لکھنےکا سامان ہوا کرتا تھا ، تب وہ خواب دیکھا کرتےتھے۔ کبھی نہ کبھی تو اُن کی زندگی میں ایسا وقت آئےگا جب اِن کتابوں کا یہ ڈھیر اُن کےڈرائنگ روم میں سلیقےاور قرینےسےسجا ہوگا ۔ وہ وقت بھی آیا تو ریٹائرمنٹ کےبعد ۔ مضافات میں ایک اچھےفلیٹ کا سودا ہوگیا۔ ریٹائرمنٹ کےبعد جو گریجویٹی ، پی ایف ملنےوالا تھا اور پرانےکمرےکی جو قیمت آرہی تھی ‘ اُن روپیوں سےایک اچھا فلیٹ مل گیا ۔ تب اُنھیں لگا ‘ اُن کےبرسوں کےخواب کی تعبیر کا وقت آگیا ۔ اُس گھر کو ہر کسی نےاپنی پسند کےمطابق سنوارا تھا ۔ بیٹےبہو نےاپنےانداز میں اپنا کمرہ سجایا تھا ۔ بیٹی اور چھوٹےبیٹےنےبھی اس گھر میں خوب صورت رنگ بھرےتھے۔ اُنھوں نےڈرائنگ روم میں اپنےاوراپنی کتابوں کےلئےایک بڑی سی الماری بنائی تھی ۔ اُن کا تو اور بھی ایک خواب تھا ، اُن کا اپنا ایک کمرہ ہو ‘ جہاں بیٹھ کر وہ لکھنےپڑھنےکا کام کرسکیں ۔ لیکن جتنا پیسہ اُن کےپاس تھا ، اُس میں یہ ممکن نہیں تھا ۔ اِس لئےاُنھوں نےاپنےلئےڈرائنگ روم کو ہی پسند کیا ۔ جب اس فلیٹ کا کام چل رہا تھا تو انھیں فاطمہ کی بہت یاد آتی تھی ۔اس طرح کےخوب صورت گھر کا خواب اُن کےساتھ فاطمہ نےبھی دیکھا تھا اور پھر زندگی بھر اُس نےاس خواب کی تعبیر کی جدوجہد میں ہاتھ بٹایا تھا ۔ لیکن اُن کا یہ خواب پورا نہیں ہوسکا ۔ آخر اُن کےریٹائرمنٹ سےایک سال قبل اُس نےاُن کا ساتھ چھوڑ دیا ۔ وہ بیماری اُس کےلئےجان لیوا ثابت ہوئی تھی جو اُس نےاُن سےزندگی بھر چھپائےرکھی تھی ۔ فاطمہ کی موت کےبعد وہ بہت اکیلےہوگئےتھے۔ اِس اکیلےپن کو اُنھوں نےادب کےذریعہ دُور کرنےکی کوشش کی تھی ۔ اِس دوران اُنھوں نےاِتنا لکھا اور اِتنا اچھا لکھا جووہ برسوں میں نہیں لکھ پائےتھے۔ ویسےبھی ادب اُن کےلئےاُن کی زندگی اور رُوح تھی ۔ اُنھوں نےزندگی میں صرف تین باتوں پر توجہ دی تھی ۔ اپنی نوکری ، گھر اور ادب ۔ اُن کی زندگی اُنہی کےگرد گردش کرتی تھی ۔ ڈیوٹی پر جاتے، ڈیوٹی سےآکر گھر ، بیوی بچوں پر توجہ دیتے، پھر مطالعہ یا لکھنےمیں غرق ہوجاتے۔ وہ آخری عمر تک اپنےبیوی بچوں کو ایک اچھا گھر تو نہیں دےسکےلیکن اُنھوں نےاپنےبچوں کو اچھی تعلیم دی تھی اور اُنھیں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونےدی تھی ۔ دونوں لڑکےبرسرِ روزگار ہوگئےتھے۔ بڑےکی شادی بھی ہوگئی تھی ، بہو بھی گھر آگئی تھی ، چھوٹےکی ایک اچھےخاندان میں بات پکی ہوئی تھی ۔ لڑکی کالج کےآخری سال میں تھی ، بس ایک ہی فکر باقی تھی ، اُس کےرشتےکی ۔ اُس گھر کو لینےمیں اُنھوں نےاپنی زندگی کی ساری کمائی صرف کردی تھی ‘ لیکن پھر بھی اُنھیں اعتماد تھا ۔ اگر لڑکی کےلئےکوئی اچھا سا رشتہ آجائےتو وہ اُس کی شادی فوراً کرسکتےہیں ۔ فاطمہ نےبچپن سےلڑکی کےلئےجہیز جمع کر رکھا تھا ۔ لیکن نیا گھر جیسےاُن کو راس نہیں آسکا ۔ وہاں آنےکےبعد وہ اپنےتمام ادبی غیر ادبی دوستوں سےٹوٹ گئےتھے۔ شاید ہی کوئی دوست اُن سےملنےکےلئےاُن کےگھر آپاتا تھا ۔ بھلا اُن سےملنےکےلئےاِتنی دُور مضافات کےاِس علاقےمیں کون جاتا ؟ اُنھیں ہی اپنےدوستوں سےملنےاور اپنےذوق کی آبیاری کرنےکےلئےپرانی جگہ جانا پڑتا تھا ۔ ورنہ اکیلےہی گھر میں رہنا پڑتا تھا ۔ دونوں لڑکےتو سویرےہی اپنےآفس چلےجاتےتھے۔ لڑکی کالج چلی جاتی تھی ۔ گھر میں اکیلی بہو اور وہ رہتےتھے۔ بہو بھی کبھی سامان لینےجب بازارجاتی تھی تو دو دو ‘ تین تین گھنٹہ واپس نہیں آتی تھی۔ ایسےمیں اُنھیں اکیلےگھر میں کوفت ہوتی تھی ۔ اُن کی دیرینہ رفیق کتابیں بھی اُن کا دِل نہیں بہلا پاتی تھیں اور کوشش کرنےکےباجود وہ ایک لفظ بھی نہیں لکھ پاتےتھے۔ اپنی حالت کو دیکھ کر اُنھیں محسوس ہونےلگا کہ جیسےاُنھوں نےجو کچھ سوچ رکھا تھا یا جو خواب دیکھےتھےوہ خواب ہی تھے۔ ابھی وہ اِس سےاُبھر بھی نہیں پائےتھےکہ نئےتنازعات اُٹھ کھڑےہوئے، گھر کےہر فرد کو ڈرائنگ روم میں رکھی اُن کی کتابوں کی الماری پر اعتراض تھا ۔ اُن کا کہنا تھا یہ ڈرائنگ روم کا شو خراب کررہی ہیں ۔ پہلےاگر وہ بیٹوں سےتھوڑی اونچی آواز میں بات کرتےتھےتو ڈر سےبچےکانپنےلگتےتھےاور اُن کی ہر بات پر سر تسلیم خم کردیتےتھے۔ لیکن جب سےوہ کمانےلگےتھے‘ اُنھیں یہ محسوس ہوا بچےبھی نہ صرف اونچی آواز میں بولنےلگےہیں بلکہ اُن کی آواز کو دبانےکی کوشش کرکےاُن پر اپنی مرضی لادنےلگےہیں ۔ سب کا یہی کہنا تھا یہ کتابیں وغیرہ بےکار ہیں ۔ اِنھیں ڈرائنگ روم سےہٹا دیا جائے۔ پرانےگھر میں ایک کونےمیں پڑی رہتی تھیں تو کسی کا اُس پر دھیان نہیں جاتا تھا لیکن اب یہ آنکھوں میں جیسےچبھنےلگی ہیں ۔ روز روز کےتنازعات اور جھگڑوں سےتنگ آکر ایک دِن اُنھوں نےسنجیدگی سےسوچا ۔ زندگی بھر اُنھوں نےبچوں کو خوشیاں دیں اور اِس کےلئےبرسرِ پیکار رہے۔ اب زندگی کےآخری پڑاو ¿ پر اُنھیں دُکھ کیوں دیا جائے؟ اُن پر اپنی مرضی لادنےکےبجائےاُن کی مرضی مان لینا چاہیئی۔ اگر اُنھیں ان کی کتابوں پر اعتراض ہےتو گھر سےساری کتابیں ہٹا لینی چاہیئے۔ اِس فیصلےپر پہنچنےکےبعد اُنھوں نےسوچا ساری کتابیں کسی لائبریری کو دےدی جائیں تاکہ لوگ اُن کےخزانےسےفیض یاب ہوں ۔ لیکن سارا شہر ڈھونڈنےکےبعد بھی اُنھیں کوئی ایسی لائبریری نظر نہیں آئی جسےوہ اپنی ساری کتابیں دےسکیں ۔ ایک دو لائبریری والوں سےجب اُنھوں نےاِس سلسلےمیں بات کی تو اُنھیں جواب ملا ۔ ” ہمارےپاس جگہ کی بہت تنگی ہے، پھر آپ جس طرح کی کتابیں دینا چاہ رہےہیں اُس طرح کی کتابیں پڑھنےوالےلوگ تو ہمارےیہاں ہیں ہی نہیں ‘ اِس لئےہم آپ کی وہ بےکار سی کتابیں لےکر اپنی جگہ کیوں پھنسائیں ؟ “ اِس کےبعد ہی اُنھوں نےاپنی ساری کتابیں ردّی میں فروخت کردینےکا فیصلہ کردیا ۔ اور اس وقت جب اُن کی کتابیں بک رہی تھیں تو بھی اُنھیں کوئی افسوس یا ملال نہیں ہورہا تھا ۔ کیونکہ اُنھوں نےاپنےدِل پر پتھر جو رکھ لیا تھا ۔ ڈرائنگ روم کاوہ حصہ خالی ہوگیا تھا تو بہو بیٹوں اور بیٹیوں نےاسےاپنےڈھنگ سےسجالیا ۔ اور جب وہ اپنی سجاوٹ کو دیکھ دیکھ کر خوش ہورہےتھےتو اُنھیں اطمینان محسوس ہورہا تھا کہ چلو شکر ہے۔ اُنھوں نےبچوں کی ایک بات مان کر اُنھیں ایک خوشی تو دی ۔ ایک ہفتےکےبعد اُنھیں ایک دوست کا فون آیا ۔ ” کیا بات ہےیار ! میں نےسنا تم نےاپنی ساری کتابیں ردّی میں دےڈالیں ؟ “ ” ہاں ! “ ” مگر کیوں ؟ “ ” اِس لئےکہ ہماری اولاد اور نئی نسلوں کےدِل میں ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ ان کےلئےوہ بیکار سی چیز ہی۔ ہم نےاپنی وراثت میں اپنی آنےوالی نسلوں کو ہر طرح کی خوشیاں ، آسودگی ، تعلیم تو دی لیکن نہ تو اُنھیں کتاب آشنا بنایا نہ اُنھیں کتابوں کی عظمت ، اہمیت ، افادیت اور ضرورت کےبارےمیں بتاکر اُنھیں کتابوں کی قدر کرنا سکھایا ۔ جب ہم نےاُنھیں اپنی یہ عظیم وراثت دی ہی نہیں تو وہ کتابوں کی اہمیت کس طرح سمجھیں گے۔ اُن کےلئےتو وہ بےکار کاغذ کےبوسیدہ پُرزےہیں ۔ ان کا گھر میں رکھنا ، گھر میں کوڑا کرکٹ رکھنےجیسا ہے۔ اِس لئےاُن کتابوں کو ردّی میں فروخت کرنےکےعلاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تھا ۔ “ ٭٭٭ پتہ:۔ ایم مبین ٣
     
  2. ثناء
    آف لائن

    ثناء ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    245
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ماشاءاللہ
    آپ نے بڑے خوب صورت انداز میں ایک ادیب کا دکھ بیان کیا ہے۔ اور واقعی آپ کی بات سچی ہے ۔
    یہی کچھ آج کل ہمارے زمانے میں ہو رہا ہے۔ زمانہ کیا میرے گھر میں ہو رہا ہے۔
     
  3. عدنان علی
    آف لائن

    عدنان علی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 ستمبر 2006
    پیغامات:
    52
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    زمانہ کیا میرے گھر میں اوئے ثناء ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کنٹرول یار
     

اس صفحے کو مشتہر کریں