1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

افاعیل تفاعیل 3-

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از ًمحمد سعید سعدی, ‏16 ستمبر 2018۔

  1. ًمحمد سعید سعدی
    آف لائن

    ًمحمد سعید سعدی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جون 2016
    پیغامات:
    252
    موصول پسندیدگیاں:
    245
    ملک کا جھنڈا:
    حرکات و سکنات

    انگریزی اور دیگر کئی زبانوں کی شاعری میں وزن کا نظام سلیلبل (syllable)پرمبنی ہے۔ سلیبل کہتے ہیں تلفظ کی اس اکائی کو جس میں ایک مصوتہ (vowel)ہو۔ انگریزی میں A,E,I,O,U اور بعض جگہ Yمصوتے ہیں۔ (Uاور Yمصمتہ یعنی consonant کا کام بھی کرتے ہیں)۔ ہر مصمتے کے ساتھ کم سے کم ایک مصوتہ ہونا چاہیئے تبھی وہ لفظ اور سلیبل بنے گا جیسے AT ایک سلیبل ہے، THAT بھی ایک ہی سلیبل ہے۔ ایک لفظ میں جتنی بار مصوتوں کی آواز سنائی دیگی اُس لفظ میں اُتنے ہی سلیبل ہونگے۔ مثلاً LIGHTER میں دو مصوتے اور دو سلیبل ہیں جبکہ FIRE میں ایک سلیبل ہے کیونکہ اِس میں I کی آواز تو سنائی دیتی ہے Eکی آواز سنائی نہیں دیتی۔ مزید، اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ مصوتے مصمتوں کو آپس میں جوڑتے ہیں۔ اِس جوڑ کے بغیرنہ لفظ بن سکتے ہیں نہ سلیبل۔ یہی سلیبلس انگریزی اور کئی دیگر یوروپی زبانوں کی نظم کے میٹر کی بنیادیں ہیں۔ اِنھی کی بو قلموں تراتیب سے آہنگ پیدا کیا جاتا ہے۔ مختلف ترتیبوں کے باضابطہ اصول بنے ہوئے ہیں۔
    میں نے انگریزی کی مثال اس لئے دی ہے تاکہ اردو کے نظامِ صوت کو سمجھنے میں آسانی ہوجائے۔ مصمتہ کو حرفِ صحیح اور مصوتہ کو حرفِ علت بھی کہتے ہیں۔ آج کل موخرالذکراصطلاحات زیادہ رائج ہیں۔ اردو میں ا،و،ی اور ے حروفِ صحیح بھی ہیں اور حروفِ علت بھی۔ باقی سارے حروف صرف حروفِ صحیح ہیں۔ حروفِ صحیح کو جوڑنے کا کام حروفِ علت کرتے ہیں۔ ا، و ، ی اور ے کے علاوہ زیر، زبر، پیش اور جزم بھی حروفِ علت کا کام دیتے ہیں حالانکہ یہ حروفِ تہجی کا حصہ نہیں ہیں۔ انھیں مجموعی طور پراعراب کہا جاتا ہے اور فرداً فرداً کَسرہ (زیر ِ حرف کے نیچے)، فَتْح (زبر َ حرف کے اوپر)، ضُمّہ (پیش ُ یہ بھی حرف کے اوپر) اور سکون (جزم ْ بھی حرف کے اوپر) کہا جاتا ہے۔ جس حرف پر اِن میں سے کوئی ایک شکل ہو یا متصور ہو تو اس حرف کو علی الترتیب مکسور، مفتوح، مضموم اور ساکن کہتے ہیں۔ اِنھی کی طرح مد بھی علامتِ حرکت ہے اور صرف الف کے ساتھ آتا ہے۔ کھڑا زبر اور کھڑا زیر بھی اعراب ہیں۔ تشدید بھی علامتِ حرکت ہے کیونکہ یہ ایک ہی بار لکھے ہوئےحرف کو دو بار ادا کرنے کا اشارہ دیتا ہے جس میں پہلا ساکن اور دوسرا متحرک ہوتا ہے جیسے قصّہ، بلّی وغیرہ۔ اِن علامتوں کے بغیر اردو میں الفاظ نہیں بن سکتے۔ یہ علامتیں در اصل حرکتیں ہیں جو حلق سے کسی رکاوٹ کے بغیر ادا ہوتی ہیں اور کسی بھی حرفِ صحیح کو حرکت دیتی ہیں۔ ا لف کو ہم اَلِف اس لئے پڑھتے ہیں کہ ا کے اوپر زبر ہے، ل کے نیچے زیر ہے اور ف ساکن ہے۔ سکون حرکت کی ضد ہے، اسی لئے عروض میں علامتوں کے اس مجموعے کو حرکات و سکنات کہتے ہیں۔ اِنھی حرکات و سکنات سے لفظوں میں زیرو بم یعنی اُتار چڑھاؤ پیدا ہوتے ہیں اور یہی زیروبم وزن کی بنیادیں ہیں۔
    الف پر مد ہو یعنی آ تو الف کو کھینچ کر پڑھا جاتا ہے جیسے آج۔ اگر صرف زبر ہو یعنی اَ تو کھینچ کر نہیں پڑھا جاتا بلکہ ایک جھٹکے کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے جیسے اَب۔ جسے کھینچ کر پڑھا جائے اُسے ہجائے بلند یا ہجائے طویل کہتے ہیں اور جسے کھینچ کر نہ پڑھا جائے اُسے ہجائے کوتاہ کہتے ہیں۔ آسانی کے لئے ہم ہجائے بلند کو بڑی آواز اور ہجائے کوتاہ کو چھوٹی آواز کہہ سکتے ہیں۔
    وزن میں آ دو الف کے برابر ہے یعنی اس میں دوالف یعنی دو حروف ہیں جبکہ اَ میں ایک ہی الف ہے لہٰذا اس میں ایک ہی حرف ہے۔ اَب، دِن، گُل جیسے الفاظ دو حروف سے مل کر بنے ہیں۔ چنانچہ یہ آ کے برابر ہیں، بہ الفاظِ دگر،دو حروف سے مل کر بنے ہوئے الفاظ جن کا دوسرا حرف ساکن ہو،ہجائے بلند یعنی بڑی آواز کہلاتے ہیں۔ اردو میں ہر لفظ کا آخری حرف ساکن ہی ہوتا ہے۔ اس میں حرکت تبھی آتی ہےجب اس حرف کے نیچے کسرۂ اضافت ہوجیسے غمِ دل یا اس حرف کے فوراً بعد واو بطورِ حرفِ عطف ہوجیسے جان و دل۔ غم میں میم ساکن ہے مگر کسرۂ اضافت کے ساتھ متحرک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جان کا نون عام پر ساکن رہتا ہے مگر جب اس کے بعد واوِعطف آجائے تو متحرک ہو جاتا ہے۔ اردو میں ایسے مرکب الفاظ بے شمار ہیں۔

    حرکات و سکنات کی مذکورہ صورتوں کو خوب سمجھ لیجئے کیونکہ عروض کی بنیاد اسی نظام پر ٹکی ہوئی ہے۔

    -باقی آئندہ-

    ( تحریر : عبدالسلام )
     
    آصف احمد بھٹی اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں