1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

افاعیل تفاعیل-2-

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از ًمحمد سعید سعدی, ‏16 ستمبر 2018۔

  1. ًمحمد سعید سعدی
    آف لائن

    ًمحمد سعید سعدی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جون 2016
    پیغامات:
    252
    موصول پسندیدگیاں:
    245
    ملک کا جھنڈا:
    2- مختصرتاریخ
    ابو عبدالرحمٰن خلیل ابنِ احمد بصری کو علم العروض کا موجد مانا جاتا ہے۔ یہ سن دو ہجری میں پیدا ہوا تھا اور عراق میں رہتا تھا۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا خلیل ابنِ احمد سے پہلے عربی میں موزوں اشعار نہیں کہے جاتے تھے؟ جواب یہ ہے کہ یقیناً کہے جاتے تھے لیکن عروض کے موجودہ اصولوں کوسامنے رکھ کر نہیں کہے جاتے تھے۔ بلکہ آہنگ اور نغمگی کی بنیاد پر کہے جاتے تھے۔ عرب کی زیادہ تر آبادی بے حرف تھی۔ عرب عموناً لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ مگر اللہ نے انھیں غضب کا حافظہ دیا تھا۔ وہ ہزاروں کی تعداد میں اشعار یاد رکھتے تھے۔ لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ عروض کے تانے بانے انھیں ازبر رہے ہونگے مگرکبھی لکھ کرمحفوظ نہیں کیا۔ خلیل ابنِ احمد نے زمانۂ جاہلیت کی شاعری کو پرکھا، جانچا اور عروض کے اصول وضع کرنے میں اُس سے مدد لی۔ وہ ریاضی اور موسیقی کا بھی ماہر مانا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے سنسکرت اور یونانی زبانوں کی شاعری سے بھی استفادہ کیا تھا۔ واللہ اعلم۔ حتمی طور پر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ خلیل ابنِ احمد نے عروض کے اصول وضع کئے اور پندرہ بحریں ایجاد کیں۔ اِس اعتبار سے عروض کے اصولوں کو کسی نے کسی پریہ کہہ کر مسلط نہیں کیا ہے کہ تم شعر کہوگے تو انھی اصولوں کے تحت کہوگے ورنہ تمھاری شاعری موزوں نہیں مانی جائیگی۔ اصول تو پہلے سے خام مواد کی مانند موجود تھے البتہ ایک علم کی حیثیت سے مرتّب و مدوّن نہیں تھے۔ خلیل ابنِ احمد سے قبل اور زمانۂ جاہلیت کے چھ سات سو سالوں کی عربی شاعری میں موزوں کلام ملتا ہے جو آج کی مروجہ بحور پرعموماً پورا اترتا ہے۔ خود قرآنِ شریف میں ایسی کئی آیات مل جائینگی جنھیں موزوں کہا جاسکتا ہے۔ مشہور ہے کہ رباعی کے اوزان میں سے ایک وزن لا حول ولا قوۃ الا باللہ ہے۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بھی موزوں ہے۔ اس مقام پر یہ وضاحت لازمی ہے کہ شعر کی ایک تعریف یہ ہے کہ یہ ایسا کلام ہے جو موزوں ہو، مقفیٰ ہو اور شعر کہنے کے ارادے سے کہا گیا ہو۔ البتہ شاعری اس ایک تعریف میں مقید نہیں ہے۔بیسوں مصنفوں نے بیسوں طرح سے شعر کی تعریف کی ہے۔ کسی نے کہا کہ تخیل کا مترنم پیرائے میں اظہار شاعری ہے۔ کئی ناقدین ترنم یا وزن کو شاعر کا لازمی جزو قرار نہیں دیتے۔ آج کل تو نثری نظم بھی رواج پارہی ہے اور اسے نثم کہا جانے لگا ہے۔ اس میں قافیے کی ضرورت ہے نہ وزن کی۔ بس تخیل اور اسلوب پر زور دیا جاتا ہے۔ لیکن کسی بھی تعریف کی رو سے قرآنِ شریف شاعری نہیں ہے کیونکہ اول تو اس کا مقصد شعر گوئی نہیں ہے اور دوسرے یہ شاعری کی کسی بھی تعریف سے بالا تر ہے۔
    جب علمِ عروض ایرانیوں کے پاس آیا تو انھوں نے چار بحریں اور نکالیں۔ اس کا سہرا ابوالحسن اخفش، یوسف نیشاپوری اور مزید دوافراد کے سر باندھا جاتا ہے۔ کُل ملا کر یہی اُنیس سالم بحریں عربی، فارسی، اردو اور دیگرکئی زبانوں میں مروج ہیں۔ اِن میں بھی اردو میں مستعمل بحریں چودہ پندرہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اِنھی سالم بحروں میں زحاف یعنی کانٹ چھانٹ کے عمل سے بے شمار بحریں نکالی گئی ہیں جو شاعروں کے استعمال میں ہیں۔
    علم العروض پر اولین معتبر کتابوں میں شمس الدین قیس رازی کی المعجم اور نصیرالدین طوسیؒ کی معیار الاشعارہیں جوعلی الترتیب ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں لکھی گئی تھیں۔ بعد کی تصنیفات انھی کے مضامین کو دہراتی ہیں۔
    اردو میں مولوی نجم الغنی نجمی رامپوری کی کتاب بحر الفصاحت (جسکی پانچ فصلوں میں سے دوسری فصل عروض سے بحث کرتی ہے) سب سی بڑی، مستند اور معتبر کتاب ہے۔ اس کا تیسرا اڈیشن 1924ء کو چھپا تھا اور چوتھا اڈیشن 1956ء کو۔ اس کے بعد مرزا یاس یگانہ چنگیزی کی چراغِ سخن ہے جو 1914ء میں شائع ہوئی تھی۔ چند اور مشہور اور قابلِ ذکر تصانیف کے اسماء حسبِ ذیل ہیں:
    تفہیم العروض مصنف ڈاکٹر جمال الدین جمال، درسِ بلاغت زیرِ اہتمام ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی ترقی اردو بیورو، دہلی، میزانِ سخن مصنف حمید عظیم آبادی،عمدہ اردو عروض مصنف محمد زبیر فاروقی شوکت الہ آبادی اور آسان عروض اور نکاتِ شاعری مصنف سرور عالم راز سرور.

    باقی آئندہ، ان شاء اللہ
    ( تحریر :عبدالسلام)
     
    آصف احمد بھٹی اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں