اس خواب میں اک خواب میں آنکھیں ملتے ہوئے اک آس کی چھایا ڈھلتے ہوئے اک خوف کے من میں پلتے ہوئے اب موڑ یہ کیسا آیا ہے سنسار پہ رنگ سا چھایا ہے آکاش کے رم جھم تاروں نے سو روپ دکھاتی بہاروں نے ساگر کے پلٹتے دھاروں نے اک بات کہی، اک مان دیا تن من کو انوکھا گیان دیا اک جوت جگائی جیون میں اک رنگ اتارا درپن میں اک خواب کھلایا ہے من میں اس خواب میں جینا مرنا ہے اب کام یہی بس کرنا ہے مبین مرزا
اردو کے معنی ہی لشکر یا فوج کے ہیں، ایسے میں کیا کیا جا سکتا ہے،جیسے فوج میں ہر رنگ، زبان،علاقے کے لوگ ہوتے ہیں،ویسے ہی زبان میں بھی چلتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
اب شاعر حضرات پہ قدغن تو نہیں لگائی جا سکتی ناں، یہ ہم پہ ہے کہ ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ جہاں تک میں نے دیکھا ہے کہ بھارت کے اردو شعرا اردو میں ہندی الفاظ اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ نستعلیق اردو نہ جاننے والے بھی اسے بہتر طریقے سے سمجھ سکیں، دوسرا ان کی سرکار اس بات سے خوش ہو جاتی ہے کہ ہندی کو مسلمان بھی اپنا رہے ہیں۔ وجاہات جو بھی ہوں لیکن میرا ماننا ہے کہ زبان کو عام فہم بنائے بغیر اردو کی ترویج زرا مشکل ہے۔
قد غن کی جرات تو میں نہیں کر سکتی البتہ اردو کی اصل حالت تبدیل ہو رہی ہے کیوں کہ ایک بچی کو اپنے والد محترم کو اسپتال میں دیکھ کر کہتے سنا ”ابو مجھے وشواس نہیں ہو رہا ”
آپ نے بجا فرمایا لیکن اردو کا معیار متاثر ہو رہا ہے کسی بھی زبان کی شکل بگاڑنا بہت آسان لیکن اسے سدھارنا بہت مشکل کام ہے شعراء و ادبا کا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے