1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام کا سیاسی نظام، ایک قانونی تجزیہ

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏4 جولائی 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام کا سیاسی نظام، ایک قانونی تجزیہ (1)

    مسلمانوں پر حکمرانی کا حق کسے حاصل ہے؟


    کوئی شخص حق حکمرانی نہ رکھتا ہو اور وہ حکومت پر قابض ہو جائے، یا حکمران بننے کے بعد کوئی شخص لازمی صفاتِ اہلیت میں کوئی صفت عارضی یا مستقل طور پر کھو بیٹھا، تو اس کے تسلط کی کیا حیثیت ہے؟


    اور مسلمانوں کو اسے ہٹانے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟


    کیا اس مقصد کے لیے مسلح جدوجہد کی جاسکتی ہے؟ اگر ہاں تو کن شرائط کےتحت؟ اور اگر نہیں تو پھر اصلاح کا راستہ کیا ہے؟


    یہ اور اس طرح کے دیگر متعلقہ قانونی سوالات پر مسلمانوں کے ہاں ہر دور میں آرا کا تنوع رہا ہے۔ اس کے باوجود کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ مستشرقین نے اس معاملے میں یک رخا پن اختیار کیا ہے؟ کیا اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ نہیں ہے کہ مابعد استعمار دور کے کئی نامی گرامی مسلمان اہلِ علم نے مستشرقین کے اس یک رخے پن کو خود بھی قبول کرلیا ہے؟ ہاں، کچھ ایسے بھی اہلِ علم ہیں جنھوں نے اسے قبول نہیں کیا لیکن ان میں کئی ایسے ہیں جو ردعمل کی نفسیات کا شکار ہو کر دوسری انتہا پر چلے گئے۔

    ہم پہلے مستشرقین کے عمومی نظریے کے بنیادی نکات واضح کریں گے۔ اس کے بعد دکھائیں گے کہ اس نظریے میں بعض دیگر مصنفین نے جزوی ترمیم کیسے کی؟ پھر ہم دکھائیں گے کہ اس ضمن میں مسلمان اہلِ علم کا عمومی رویہ کیا رہا ہے؟

    ہملٹن گِب (م 1971ء) کا نظریہ

    گِب کا کام بعد کے مستشرقین اور مسلمان اہلِ علم کے لیے بنیادی ماخذ ہے۔ یہ نظریہ چند نکات کی صورت میں یوں پیش کیا جا سکتا ہے:

    ابتدا میں مسلمانوں نے حکمران (امام) کے لیے بہت کڑی شرائط رکھیں اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ مسلمانوں کا ایک ہی امام ہونا چاہیے، جسے فاسق ہو جانے کی صورت میں مسلمان معزول کر سکتے ہیں۔


    بعد میں جب خوارج نے مسلسل کئی بغاوتیں کیں تو ان کے اثرات کو دیکھ کر فقہاء اس پر مجبور ہو گئے کہ حکمران کی معزولی کے حق کی نفی کریں۔


    پانچویں صدی ہجری تک، جب ایک طرف آلِ بُوَیہ اور دوسری طرف فاطمیین نے غلبہ پا لیا تھا، ابوالحسن الماوردی (م 450ھ) نے عباسی خلافت کے تحفظ کے لیے یہ نظریہ اختیار کیا کہ متغلب سلاطین کا اقتدار اس شرط پر جائز ہو گا کہ وہ بغداد کے خلیفہ کی اطاعت کا اصولی اقرار کریں اور وہاں سے سند حاصل کریں۔ یوں ماوردی نے عام مسلمانوں کے لیے ان متغلبین کی اطاعت کو ایک قانونی اور اخلاقی فریضہ بنا دیا۔


    ابوحامد الغزالی (م 505 ھ) کے وقت تک بغداد پر بھی سلجوق سلاطین کا غلبہ ہو چکا تھا، چنانچہ غزالی کو سلاجقہ کے دنیوی اور خلیفہ کے مذہبی اقتدار کے درمیان تطبیق کا مسئلہ درپیش ہوا۔


    ابن جماعہ (م 733ھ) کے وقت تک عباسی خلافت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور خود ابن جماعہ نے مملوک حکمرانوں کے تحت قاضی کے طور پر کام کیا۔ چنانچہ ابن جماعہ نے حکمرانی کے حق کو غلبہ اور شوکت کے ساتھ مشروط کیا اور قرار دیا کہ جس شخص کے پاس شوکت ہو، اس کی حکمرانی جائز ہے۔ بہ الفاظِ دیگر انھوں نے اقتدار پر قبضے کو ہی قانونی جواز کے طور پر تسلیم کیا۔


    گِب کا کہنا ہے کہ بعد کے فقہاء نے بالعموم ابن جماعہ کے مؤقف کو ہی اختیار کیا ہے۔

    تحریر: ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    3 جولائی 2017
     

اس صفحے کو مشتہر کریں