1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام میں عورت کا مقام اور کر دار

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏1 فروری 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    خواتین انسانی معاشرے کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہیں۔ جبکہ زمانہ جاہلیت میں جزیرۃ العرب میں عورت کے لئے کوئی قابل ذکر حقوق نہ تھے، عورت کی حیثیت کو ماننا تو درکنار اسکومعاشرے میں زندہ بھی رہنے کاحق تک نہ تھا، معاشرے میں عورت کا مرتبہ و مقام ناپسندیدہ تھا، وہ مظلوم اور ستائی ہوئی تھی، اور ہر قسم کی بڑائی اور فضیلت صرف مردوں کے لئے تھی۔ حتی کہ عام معاملات زندگی میں بھی مرد اچھی چیزیں خود رکھ لیتے اور بے کارچیزیں عورتوں کو دیتے، زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے اس طرزِ عمل کو قرآن حکیم یوں بیان کرتا ہے:

    ’’اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ جو (بچہ) ان چوپایوں کے پیٹ میں ہے وہ ہمارے مَردوں کے لئے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام کردیا گیا ہے، اور اگر وہ (بچہ) مرا ہوا (پیدا) ہو تو وہ (مرد اور عورتیں) سب اس میں شریک ہوتے ہیں، عنقریب وہ انہیں ان کی (من گھڑت) باتوں کی سزا دے گا، بیشک وہ بڑی حکمت والا خوب جاننے والا ہے‘‘۔ (سور ۃ الانعام، 6: 139)

    اس آیت کریمہ سے پتہ چلا کہ زمانہ جہالت میںعورتوں اور مردوں کے درمیان چیزوں کی تقسیم اور لین دین کے معاملات میں نہ صرف تفریق کی جاتی بلکہ عورت کو مرد کے مقابلے میں نسبتاً کمتر سمجھا جاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ عورت کی حیثیت کا اقرار کرنا تو درکنار وہاں تو عورت سے اس کے جینے کا حق تک چھین لیا جاتاتھا۔ اس لئے وہ لوگ لڑکی کے پیدا ہونے پر غصہ میں ہوتے اور انہیں زندہ دفن کردیا کرتے تھے۔ قرآن کریم میں ان قوموں کے اس طرزِ عمل کی عکاسی یوں کی گئی ہے:

    ’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے)، خبردار! کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں‘‘۔ (سورۃ النحل، 16 ،58، 59)

    اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دورِ جاہلیت کی اس غلط رسم کو بیان فرمایا ہے اور اسکی مذمت کی ہے۔اسی طرح اسلام سے قبل دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں کا بھی جائزہ لیاجائے تو ہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے محروم تھی، اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا، یونانی، رومانی، ایرانی اور زمانہ جاہلیت کی تہذیبوں اور ثقافتوں میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کمتر درجہ دیا جاتا تھا۔ مگر عورت کی عظمت، احترام اور اس کی صحیح حیثیت کا واضح تصور اسلام کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔اسلام نے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی ممانعت کرکے دورِ جاہلیت کی اس رسم بد کا قلع قمع کیا۔اور عورت کو وہ بلند مقام عطا کیا جس کی وہ مستحق تھی۔

    دین اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ:
    اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان کے عورت کو مرد کے یکساں درجہ دیا، اسلام کے علاوہ باقی تمام تہذیبوں نے خصوصاً مغرب جو آج عورت کی آزادی، عظمت اور معاشرے میں اس کو مقام و منصب دلوانے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتاہے۔ لیکن اس معاشرے نے ہمیشہ عورت کے حقوق کو سبوتاژ کیا، اور عورت کو اپنی محکومہ اور مملوکہ بنا کر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مختلف تہذیبوں اور اقوام نے عورت کے لئے سینکڑوں قانون بنائے مگر یہ قدر ت کا کرشمہ ہے کہ عورت نے اسلام کے سوا اپنے حقوق کی کہیں داد نہ پائی۔الغرض یونانی تہذیب سے لے کر روم، فارس، ہندوستان، یہودی اور عیسائی تہذیب نے عورت کو معاشرے میں کمتر درجہ دے رکھا تھا،انہوں نے دنیا میں برائی اور موت کی ذمہ دار اور اصل وجہ عورت کو قرار دیا، حتیٰ کہ انگلینڈ کے آٹھویں بادشاہ (Henry-8) کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ اس نے اپنے دور میں پارلیمنٹ میں یہ قانون پاس کیا تھاکہ عورت اپنی مقدس کتاب انجیل کی تلاوت تک نہیں کرسکتی کیونکہ وہ ناپاک تصور کی جاتی تھی۔جدید تہذیب بھی عورت کو وہ حیثیت نہ دے سکی جس کی وہ مستحق تھی۔ارتقائے تہذیب نے عورت و مرد کے درمیان فاصلوں کو اتنا بڑھا دیا کہ عورت کی حیثیت کو اور زیادہ پست کردیا۔ علاوہ ازیں مذہب اور خصوصاً بڑی بڑی تہذیبوں نے صنفِ نازک کو ناپاک بتا کر اس کا رتبہ اور بھی کم کردیا۔ مگر اسلامی تہذیب نے عورت کو عظیم مقام دیا، بلکہ کائنات کا اہم ترین جز قرار دیا۔

    عصر حاضر کی جدید علمی تہذیب نے اسے ایک اٹل حقیقت تسلیم کر لیا ہے۔لیکن جہاں عورت کا وجود مرد کی زندگی کے نشو و ارتقاء میں ایک حسین اور مؤثر محرک تھا، وہاں مردوں نے عورت کو ہمیشہ اپنی عیش کوشی اور عشرت پرستی کا ادنیٰ حربہ اور ذریعہ تصور کیا اور یوں معاشرے میں اس کی حیثیت ایک زر خرید کنیز کی سی بن کر رہ گئی، اقوام عالم کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی تہذیب کی تباہی ایسے حالات میں ہوئی جب عورت اپنی صحیح حیثیت کھو بیٹھی اور مرد کے ہاتھوں میں آلہ کار بن گئی۔اسلام کی آمد عورت کے لئے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کاپیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں، اور عورت کو وہ حیثیت عطا کی جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں رکھا ہے۔ اسی طرح انسانیت کی تکوین میں عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

    ’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھران دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا‘‘۔

    اللہ تعالیٰ کے ہاں نیک عمل کا اجر دونوں کے لئے برابر قرار پایا ہے، کہ جو کوئی بھی نیک عمل کرے گا اسے پوری اور برابر جزاء ملے گی، اس کو پاکیزہ زندگی اور جنت میں داخلے کی خوش خبری ملے گی، ارشاد ربانی ہے:

    ’’جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے،اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے‘‘۔ (النحل، 16: 97)

    اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا اور پاکیزہ زندگی دنیا و آخرت میں عطا کئے جانے کی خوشخبری کو عمل صالحہ کے ساتھ مشروط کیا، جس طرح دوسرے مقام پر عملِ صالحہ کو جنت کے داخلے اور رزقِ کثیر کے ساتھ مشروط کیا، ارشاد فرمایا:

    جس نے برائی کی تو اسے بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر صرف اسی قدر، اور جس نے نیکی کی، خواہ مرد ہو یا عورت اور مومن بھی ہو تو وہی لوگ جنّت میں داخل ہوں گے انہیں وہاں بے حساب رِزق دیا جائے گا۔ (سورۃ المومن، 40: 40)

    اسی طرح ارشاد باری ہے:

    ’’پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقینا میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت‘‘۔ (آل عمران، 3: 195)

    اس طرح دین اسلام نے مرد و عورت کو برابر کا مقام عطا فرمایا بلکہ عورت کو وہ مقام عطا فرمایا جو کسی بھی قدیم اور جدید تہذیب نے نہیں دیا۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و محترم مقام عطا کیا، اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بلکہ اسے وراثت میں حقدار ٹھہرایا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا میں عورت کے تمام روپ اور کردار کو اپنی زبانِ مبارک سے بیان فرمایا: اب جس دور میں عورت ہو، جس مقام پر ہو اور اپنی حیثیت کا اندازہ کرنا چاہے تو وہ ان کرداروں کو دیکھ کر اپنی حیثیت کو پہچان سکتی ہے۔

    ’’عورتوں میں بہترین عورتیں چار ہیں، حضرت مریم بنت عمران علیھماالسلام، (ام المؤمنین) حضرت خدیجۃ الکبریٰ علیھا السلام،حضرت سیدہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا اور فرعون کی بیوی آسیہ علیہاالسلام‘‘۔

    ان چار عورتوں کی طرف اشارہ فرما کر حقیقت میں چار بہترین کرداروں کی نشاندہی فرمادی گئی ہے اور وہ کردار جس سے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہوئے اور اس مقام سے سرفراز فرمایا جو کسی اور کو نصیب نہ ہوا، وہ کردار کیا ہے؟

    ایک ماں کا کردار حضرت مریم بنت عمران علیھا السلام ایک عظیم بیوی کا کردار حضرت خدیجہ الکبریٰ علیھا السلام

    ایک عظیم بیٹی کا کردار حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا ایک عظیم عورت کا کردار حضرت آسیہ علیہا السلام

    ان چاروں کرداروں پر نظر دوڑا کر ہر عورت اپنی حیثیت کو پہچان کر اپنے کردار کو متعین کرسکتی ہے،کہ وہ کون سے راز تھے جنہوں نے ان ہستیوں کو خیر النساء کے لقب سے سرفراز کیا؟
     
    نعیم اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت مریم بنت عمران علیھما السلام:
    حضرت مریم علیھا السلام کو بہترین عورت قرار دیا گیا، اس میں کونسا راز اور حکمت تھی جس کی وجہ سے ان کو یہ مقام ملا؟ اگر ہم حضرت مریم علیھا السلام کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ عورت ہو کر اللہ کی بہت بڑی ولیہ کاملہ، شاکرہ اور صابرہ تھیں۔ اللہ کی ذات پر اول و آخر اعتماد رکھتی تھیں۔ انہوں نے اللہ کی رضا کے لئے خاندان کے طعنوں کو صبر کے ساتھ برداشت کیا۔ وہ ایک ایسے عظیم بیٹے کی ماں بننے والی تھیں جو اللہ کا نبی اور رسول تھا۔ وہ بہت پاکدامن اور پاکباز تھیں کہ جن کی پاکیزگی کی شہادت اللہ نے خود اپنے شیر خوار نبی کی زبان سے پنگھوڑے میں دلوائی۔یہ وہ صفات تھیں جن کی وجہ سے سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ مقام عطا فرمایا کہ عورتوں میں آپ کو منتخب فرمایا اور اس کا ذکر اپنی ابدی کتاب میں یوں فرمایا:

    ’’اور جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بیشک اللہ نے تمہیں منتخب کر لیا ہے اور تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور تمہیں آج سارے جہان کی عورتوں پر برگزیدہ کر دیا ہے ‘‘۔ (آل عمران، 3: 42)

    پتہ چلا کہ جو کوئی اپنے آپ کو اپنے خدا کے سپرد کردیتا ہے، اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے دین کی سربلندی کے لئے وقف کردیتا ہے، تو اللہ اس کو وہ مقام عطا کردیتا ہے کہ وہ جس جگہ رہتا ہے اللہ اس کو متبرک کردیتا ہے اور دوسروں کی دعاؤں کی قبولیت کی جگہ بنا دیتا ہے، کیونکہ حضرت مریم علیھاالسلام کی والدہ نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ مولا مجھے جو اولاد (لڑکا یا لڑکی) عطا کرے گا اس کو میں تیرے لئے وقف کر دوں گی۔ یہ ہے وہ ماں کا کردار جس نے عظیم ہستی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جنم دیا، اور آج بھی ضرورت ہے کہ جو ماں چاہتی ہے اپنی اولادوں کو عظیم بنائے وہ اللہ کی محبت کو اپنے من میں پیدا کرے، اپنے آپ کو اس کے دین کی سربلندی کے لئے وقف کردے، دین کی دعوت کے فروغ کے لئے گھر سے باہر نکلنے پر عار محسوس نہ کرے، تو پھر آج کے دور میں عظیم انقلابی جوان پیدا ہو سکتے ہیں۔
     
    نعیم اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا:
    اسلا م کا آغاز حضرت خدیجہ الکبریٰ علیھما السلام کی لازوال اور بے مثل قربانیوں سے ہوتا ہے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا مکہ کی بہت بڑی تاجرہ تھیں۔نیک سیرت اور بہترین نسب و شرف کی مالکہ، مگر جب ایک مثالی بیوی کے روپ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد زوجیت میں آئیں تو انہوں نے اپنا وقت اور اپنا سارا مال و دولت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں دین اسلام کی خدمت کے لئے وقف کردیا، وہ اعلانِ نبوت سے پہلے ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و بلندمرتبہ کی قائل ہو گئی تھیں، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو نہ صرف زوجیّت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عظیم شرف حاصل ہوا، بلکہ امّ المؤمنین ہونے کے ساتھ ساتھ خیر النساء کے عظیم لقب سے بھی سرفراز ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے، گویا ایک عظیم بیوی کاکردار اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ دین کی جدوجہد کرنے والے اپنے شوہروں کا ساتھ دیں۔ یہاں تک کہ وقت آنے پر اپنا مال و دولت بھی دین کی سربلندی کے لئے خرچ کردیں۔ تب اللہ کی طرف سے خوشخبریاں ملتی ہیں۔
     
    نعیم اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سیدہ فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا:
    آپ ایک عظیم اور ہمہ گیر کردار کی مالکہ ہیں جو ایک بیٹی کے روپ میں، ایک ماں کی شکل میں اور ایک بیوی کے کردار میں قیامت تک آنے والی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لئے نمونہ حیات ہے جس کو آج کے دورِ جدید میں آئیڈیل بنانے کی ضرورت ہے۔ آج کا معاشرہ اور جدید تہذیب اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک خیر النساء العالمین سیدہ فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہاکی سیرت طیبہ سے اپنے آپ کو رنگ نہ لے اور حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکے نقش قدم پر نہ چلیں۔ آپ کو اگر بیٹی کے روپ میں دیکھو تو اپنے بابا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کرتی نظر آتی ہیں، اگر بیوی کے روپ میں دیکھو تو اطاعت شعاری کے ساتھ اپنے خاوند حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ شیر خدا کی خدمت کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز بھی نظر آتی ہیں۔ ماں کے روپ میں دیکھو تو ایسے عظیم تربیت یافتہ دو شہزادے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما تیار کئے کہ جنہوں نے دین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ کو اپنے مقدس لہو سے روشن کر دیا۔ آج کی تہذیب میں ایک عورت کو اپنی حیثیت کا اندازہ حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی سیرت کی روشنی میں کرنا ہوگا۔
     
    نعیم اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت آسیہ زوجہ فرعون:
    حضرت آسیہ زوجہ فرعون کونسا کردار، عمل اور فعل ایسا تھا کہ جس نے اس خاتون کو جو ایک کافر و جابر اور ظالم بادشاہ کی بیوی ہونے کے باوجود وہ عظیم عزت اور مرتبہ سے سرفراز کیا کہ خیر النساء کا لقب عطا ہوا۔ یہ عظیم کردار ایک عورت کو اس کی حیثیت کی راہ دکھلاتا ہے۔ اور ظاہری عیش و عشرت، بنائو سنگھار، شاہانہ زندگی کو اللہ کی رضا کی خاطر، اس کی محبت کے لئے قربان کر دینے کا درس دیتا ہے۔ تو پھر اللہ وہ مقام عطا فرماتا ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کی بیویوں اور بیٹیوں کے ساتھ ملا دیتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے دین کی خاطر دنیا کی ظاہری عیش و عشرت سے کنارہ کش ہو جائے۔

    اسی طرح اگر ہم ایک اور خاتون کا ذکرخیر کرنا چاہیں تو ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فرمانبردار بیوی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی یاد بھی آتی ہے کہ جنہوںنے اللہ تعالیٰ اور اپنے خاوند کے حکم کی تعمیل میں بے آب وگیاہ وادی میں رہنا قبول کرلیا تھا۔پھر جب وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے ،پانی کی تلاش میں دیوانہ وار صفا اور مروہ کے درمیان دوڑیں تو اللہ نے ان کی فرمانبرداری اور خلوص کی قدر کرتے ہوئے، ان کے اس عمل کی تقلید قیامت تک کے لیے تمام مردوں پر لازم کردی۔ المختصر یہ اسلام ہی کا کارنامہ ہے کہ حواء کی بیٹی کو عزت و احترام کے قابل تسلیم کیا گیا اور اس کومرد کے برابر حقوق دیے گئے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کی ابتدا ہی عورت کے عظیم الشان کردار سے ہوتی ہے۔

    ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جوالائی 2017
     
    نعیم اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    8مارچ کو پوری دنیا میں عورتوں کے دن کے طور پر منایا جاتاہے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں عورت کو کیا مقام حاصل ہے۔ جب آج کی ترقی یافتہ اقوام کی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے یہ حقوق کئی صدیوں میں حاصل کئے اور نبیؐ کی بعثت کے کئی سو سال بعد حاصل کئے جبکہ نبیؐ اور ان پر اترنے والا قرآن بہت پہلے عورتوں کو وہ مقام ،وہ عزت ، وہ رتبہ دے چکا تھا جو شاید آج بھی ان ماڈرن اقوام کی عورتوں کو حاصل نہیں۔ سب سے پہلے مرحلے پر تو عورت کے مقام کا تعین ہے کہ اس مرد و زن کی دنیا میںاس کی کیا حیثیت ہے۔ اس کی حیثیت کا تعین اُسی وقت ہوگیا تھا جب حضرت حوّا کی تخلیق بطور حضرت آدمؑ کی شریک سفر کی گئی جنت میں بھی آدم کو حوا کی ہمراہی کی ضرورت تھی۔ اصل میں یہی مرد و زن کا خوبصورت رشتہ ہے جو سب سے پہلے تخلیق پایا۔ اسکے بعد باقی رشتے بنتے چلے گئے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کا قوام قرار دیا جیساکہ سورۃ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مرد عورتوںپر قوام ہیں۔ اس بناء پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ ساتھ ہی یہ وضاحت کر دی کہ یہ فضیلت اس لئے دی گئی ہے کیونکہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں یعنی ان کا یہ فرض ہے کہ وہ معاشی ذمہ داریاں اٹھائیںلہٰذا جب وہ کمانے والا ہوگا گھر کا یا خاندان کا نظام اسکے کمائے ہوئے پیسے سے چلے گا تو اس کا درجہ بھی زیادہ ہوگا۔ جیساکہ سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، عورتوں کیلئے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔ یہ بات بہت پُرحکمت ہے کہ صرف ایک درجہ بلند کرکے مرد کو زیادہ ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ یہاں پر بھی عورت فائدے میں رہی کہ اس پر ڈائریکٹ کسی قسم کی ذمہ داری اسکے علاوہ نہیں ڈالی گئی کہ وہ مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں انکے حقوق کی حفاظت کرتی رہیں اور صالح اواطاعت شعار عورت کی نشانی بتائی گئی اب جو مرد اپنی بیویوں سے یہ توقعات رکھتے ہیں کہ وہ معاشی طور پر بھی ان کیلئے ہر طرح سے مدد گار ہوں تو پھر انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس بنا پر انہیں عورت پر صرف ایک درجہ فضلیت دی گئی ہے وہ کچھ کمپر مائزنگ ہو گیا ہے -خیر ہم دوبارہ قرآن کی طرف آتے ہیں قرآن جس طرح عورت کی تصویر کشی کرتا ہے وہ عورت کا کردار زندگی میں متعین کرتا چلا جاتا ہے جب سورۃ آل عمران میں حضرت مریم کی ماں کا ذکر آتا ہے تو ہ ہمارے ہمارے سامنے ایسی عورت کے روپ میں آئی ہے جس کا ایمان اور اپنے رب کیلئے محبت اس قدر مضبوط ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اللہ کے کام کیلئے وقف کر دیتی ہے اتبا بڑا فصیلہ ایک عور ت سے کروایا گیا پھر آگے سے وہ عورت جو اس کی بیٹی تھی جس کو اس شیطان کے فتنے سے اللہ کی پناہ میں دیا تھا اس قدر مضبوط اور متوکل شخصیت کے روپے میں ابھرتی ہے کہ حضرت زکریا جیسے پیغمبر اس سے پوچھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کھانا تمہارے پاس محراب میں کہاں سے آتا ہے اور اس کا جواب پا کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ یہ میرے پاس اللہ کے پاس سے آتا ہے پھر اس لڑکی کو فرشتے خوشخبری دیتے ہے کہ اے مریم اللہ نے تجھے برگزیدہ کہا اور پاکیزگی عطاء کی کیا شان ہے اس عورت کو جس کو اللہ نے اتنے بڑے کام کیلئے چن لیا آپ کے ہاں حضرت یحیی ؑکی ولادت ہوئی جبکہ آپ کو کسی بشر نے کبھی نہیں چھوا تھا یہ اللہ کی بہت بڑا معجزہ تھا جس کے اظہار کیلئے آپکا انتخاب کیا گیا-اسکے بعد فرعون کی بیوی کا جو ذکر قرآن میں آیا ہے وہ عورت کی عظمت کا مزید اظہار ہے کس طرح وہ پیار محبت سے حضرت موسی ؑکی پرورش کرتی ہے کس طرح وہ دنیا وی شان و شوکت سے منہ موڑ کر اللہ تعالی سے جنت میںاپنے لئے رہے گھر بنانے کی آرزو کا اظہارکرتی ہے پھر اگر ہم حج کے ارکان کی طرف آتے ہیں تو مفادعامہ کی سعی کو حج کے ارکان میں اس لئے شامل کر دیا گیا یہ ایک ماں کی سعی تھی اپنی اولاد کی جان بچانے کیلئے پانی کی تلاش میں اللہ کو ماں کی یہ سعی اتنی پسند آئی کہ وہ حج کا مستقل رکن قرار پائی -پھر جب معاشرے میں عورت کا مقام متعین کرنے کا وقت آیا تو اس کو اس قدر رتبہ دیا گیا اس قدر اسکے ناز اور لاڈ اٹھائے گئے کہ کہا گیا کہ اپنی نظروں کو جھکا کر رکھو اپنی نظروں سے بھی اسے ہراساں کرنے کی کوشش نہ کرو۔ آپکو ڈھانپ کر باہر نکلنا اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا تا کہ اللہ تعالی تمہیں جو مقام دینے جا رہے ہیں تو اپنے آپ کو اس کی اہل ثابت کر سکو اور خبر دار اس طرح کی پاک دامن عورتوں کی طرف نگاہ اٹھائی دور کی بات اگر تم ان پر بغیر چار گواہوں کے کوئی بہتان لگاتے ہو تو پھر اس کوڑے کھانے کیلئے تیار رہوں اگر یہ عورت شادی کرتی ہے تو اسکی عزت افزائی کی گئی ہے کہ مرد اس کو مہرادا کر یگا او راس کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی یہ ڈھیر مال بھی ہو تو تم کسی بھی صورت ان سے واپس لینے کے مجاز نہیں یہاں تک کہ تم انہیں چھوڑنے کا فیصلہ بھی کرلو تب بھی نہیں ،پھر عورت کا وراثت میں حصہ مقرر کر دیا گیا یہ اسلام ہی ہے جو عورت کے ہر رول میں اس کو جائید اد میں مناسب حصہ دے رہا ہے -یہ سب عورت کو حقوق دیئے جا رہے ہیں اور فرائض کے معاملے میں اس قدر نرم رویہ رکھا گیا ہے کہ اگر ماں اپنے بچے کو دودھ بھی پلانا نہیں چاہتی تو باپ معاوضہ دیکر اپنے بچے کو کہیں اور سے دودھ پلانے کا ذمہ دار ہے۔ اب طلاق جیسے نا خوشگوار فیصلے کے موقع پر بھی مرد کو تلقین کی جا رہی ہے کہ عورت کو بھلے طریقے سے رخصت کرنا کچھ دے کر یہ تاکید سورہ بقرہ میں کی جار ہی ہے یعنی عورت کی ہر طرح سے دلجوئی کسی نہ عورت کو آدھی گواہی کے بارے میں بہت سننے میں آتا ہے -یہاں یہ بھی اللہ کی عورت کی لئے محبت اور نرمی کا پہلو نمایاں ہے کہ گواہی کی ذمہ داری کوئی چھوٹی سی بات ہے جو عورت جیسی نرم و نازک احساسات کی مالکہ کو نبھانا پڑے تو وہ اس کو بخوشی نبھا جاسکے لہذا عورت کیوں چاہتی ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے جو اسکی فطرت کیخلاف ہیں کیوں نہیں وہ اپنے رول کو اس کائنات میں پہچاتی اور اس بخوبی نبھاتی-
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
     
    زنیرہ عقیل اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں