1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از ذوالقرنین کاش, ‏16 ستمبر 2008۔

  1. ذوالقرنین کاش
    آف لائن

    ذوالقرنین کاش ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اپریل 2008
    پیغامات:
    383
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    اسلام میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے ۔یوں تو ہمہ وقت ہی انسان کو صاف ستھرا رہنا چاہئے اور گھر اور ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنا چاہئے مگر رمضان المبارک میںتو صفائی اور طہارت کو بطور خاص ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔ اگر ہم تعلیمات اسلا م پر ایک غائر اور گہری نگاہ ڈالیں اور اسلامی عبادات پر غور کریں تو ہمیں ایک بہت واضح چیز جو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام پاکیزگی، طہارت اور صفائی کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور اس کی پڑی ہی تا کید کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک خصوصیت جس میں وہ بالکل یکتا اورمنفرد ہیں یہ ہے کہ جس ملک میں وہ پہنچے جس خطہ ارض پر انہوں نے اپنا پرچم لہرایا ‘ جس سر زمین کو اپنے قدم سے سعادت بخشی وہاں سب سے پہلے کا م یہ کیا کہ اسے گل و گلزار بنادیا ۔اپنی رعایا کی فلاح و آسائش اور صحت و توانائی کے لئے انہوں نے تمام وسائل صرف کئے اور اسے ایک نئی زندگی سے آشنا کر دیا۔ بے شک مسلمانوں نے علم بھی پھیلا یا، تہذیب و تمدن کو بھی رواج دیا ، اصلاح معاشرہ کے فرائض بھی حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیئے ،تخلیق و تعمیر کے جو ہر بھی دکھائے ، سب کچھ کیا لیکن ان تما م کارناموںسے بالاوبلند مسلمانوں کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ انہوں نے اپنے زیر نگیں علاقوں میں صفائی اورپاکیزگی کا اہتمام کیااور صحت و تندرستی کو اس طرح فروغ دیا کہ وہاں کی کا یاپلٹ گئی ،تاریخ کے اوراق مسلمانوں کے ان کارناموں سے بھرے پڑے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بالکل بجا ہوگا کہ دنیا والے اسلام سے پہلے پاکیزگی اور صفائی سے جو ناواقف تھے ، اسلام نے دنیا کی صفائی و طہارت کا سبق دیا ۔
    قرآن مجید پاکیزگی اور صفائی کا درس دیتا ہے درحقیقت یہ قانون خداہے کہ مومن صاف ستھرا اور پاکیزہ رہے ۔
    اس بات کو قرآن کریم نے یہ کہہ کہ بالکل واضح کردیا ہے کہ:
    ”پاک صاف رہو“
    ”اللہ پاک صاف لوگوں کو پسند کرتا ہے “۔
    ان آیات میں ایک طرف حکم ہے کہ پاکی حاصل کرواوردوسری طرف یہ خبر دیتا ہے کہ خدا پاک صاف لوگوں کو پسند فرماتا ہے ۔مسلمانوں کے لئے حکم خدا وندی بہر حال واجب التعمیل ہے ۔ وہ اس سے ہرگز صرف نظر نہیں کر سکتے ، چنانچہ پاکیزگی اور صفائی ان کی زندگی کا جزو بن گئی اور ان کی فتح و نصرت اور کامرانیوں کا سبب بنی ۔
    اولین احکام جو جناب رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئے ان میں سے ایک حکم یہ تھا :
    ” اے نبی ﷺ! اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی سے بچو“ صفائی اور پاکیزگی کا پیغام حضور ﷺ نے پوری امت بلکہ پوری انسانیت تک پہنچا یا اور ارشاد فرمایا ”پاکیزگی نصف ایمان ہے “
    اسلام میں پاکیزگی کی دو قسمیں ہیں ایک روح کی پاکیزگی ۔ روح کی پاکیزگی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو تما م برائیوں سے پاک صاف رکھے ۔ روح کی ناپاکیاں اور نجا ستیںوہ بد اخلاقیاں اور برائیاں ہیں جن کے اختیار کرنے سے انسان کی روح گندی اور میلی ہوتی ہے ۔ روح کی پاکیزگی کا طریقہ یہ ہے کہ انسان ہر برائی اور گناہ سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو اچھی عادتوں اور اچھے اخلاق سے سنوارنے ۔رمضان کریم میں اسلامی احکامات پرعمل کر کے ہم بلا شک باطنی پاکیزگی بھی حاصل کر سکتے ہیںکیوں کہ جس قدر بھی انسان گناہوں اور برائیوں سے بچے گا اسی قدر اس کی روح پاک صاف اور ستھرائی ہوتی چلے جائے گی ۔ روح کی پاکیزگی کا اثر جسم کی پاکیزگی پر بھی پڑتا ہے ۔
    دوسری پاکیزگی جسم کی پاکیزگی ہے ۔ جسم کی پاکیزگی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے جسم کی ظاہری ناپاکیوں سے پاک صاف رکھے ،گندہ اورمیلا نہ ہونے دے ، مثلا ً غسل ہی کو لیجئے ۔ صحت مندی تازگی اور صفائی کے یہ تقاضے ہیں کہ انسان روزانہ غسل کرے اوراگر پانی کی قلت یا اور کسی دوسری وجہ سے یہ ممکن نہ ہوتو ہفتے میں ایک روز جمعہ کی نماز کے لئے اس کا اہتمام ضرور کرے ، پھر اسلام نے ہمیں درس بھی دیا ہے کہ ہم دانتوں کو صاف رکھنے کے لئے پابندی سے مسواک کریں ، فی زمانہ ٹوتھ پیسٹ بھی استعمال کی جا سکتی ہے ۔ کیوں کہ پیٹ کی بیسیوں بیماریاں دانتوں کے میل کچیل سے ہی پیدا ہوتی ہےں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اگر مجھے امت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں مسواک کو ہرمومن پر فرض قرار دیتا “۔
    انسان کا لباس بھی جسم کی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کا آئینہ دار ہوتا ہے اسلام اگرچہ لباس میں شان و شکوہ‘ اسراف بے جا اور تکلف کو پسند نہیں کرتا لیکن لباس میں صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا مطالبہ ضرور کرتا ہے ۔ ظاہری شکل و صورت کو بھی قرینے سے رکھنے کی اسلام تاکید کرتا ہے کیوں کہ یہ بات بھی پاکیزگی اور صفائی کے ضمن میں آتی ہے ، اسلام اس کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنی شکل و حشیوں کی سی بنائے رکھے ، میلا کچیلا بدن رکھے یا بے تکے بال بڑھائے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
    ُخدا تعالیٰ میلا کچیلا بدن اور بکھرے بال پسند نہیں فرماتا “ (ترندی)
    ناخنوں کے ذریعے سے بھی بہت سی غلا ظت کھانے کے ساتھ پیٹ کے اندر جا کرمعدے کی بیماریاں بہت سی پیدا کرتی ہے اور ویسے بھی وحشیوں کی طرح ناخن بڑھائے ہوئے آدمی اچھا نہیں معلوم ہوتا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دس چیزوں کو پیغمبر کی سنت قرار دیا ہے ان میں ایک ناخنوں کا تراشنا بھی ہے ۔جسم اور روح کی پاکیزگی اور صفائی کے ساتھ اسلام اس ماحول کی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کا بھی مطالبہ کرتا ہے جس میں انسان رہتا ہے ۔ مثلاً جس گھر میں وہ رہتا ہے اسے صاف ستھرا رکھے او رہرایسی چیز سے پرہیز کرے کہ جسے دیکھ کر دوسروں کو کراہت آتی ہو یا تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔مثلا ً بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ گھر کا کوڑا کرکٹ صاف کر کے اپنے دروازے کے سامنے سڑک یا گلی میں ڈال دیتے ہیں اس سے ایک تو خود ان کے گھر والوں کاپھو ہڑپن ظاہر ہوتا ہے دوسرے راہ چلنے والوں کو ان کے اس عمل سے تکلیف ہوتی ہے ۔ اسی طرح راستوں میں تھوکنا ،باربار ناک یا کان میں انگلیاں ڈال کر میل نکا لنا ،سائے دار درختوں کے نیچے ،گلی بازاروں یا گزر گاہوں میں پیشاب کرنا وغیرہ ۔ یہ سب چیزیں صاف ستھرے ماحول کو متا ثر کرتی ہیں ۔ اسلام ان سب باتوں کو طہارت اور تہذیب کے خلاف قرار دیتا ہے ۔
    کون ہے جسے اپنی زندگی عزیز نہ ہو جو صحت و تندرستی کا جو یانہ ہو ‘یہ آرزو نہ ہو کہ جب تک زندہ رہے کسی پرہارنہ ہے ۔ہاتھ پاو¿ں کام کرتے رہیں ۔دماغ ‘ آنکھ اور زبان سلامت رہے یہ سب کی آرزو ہے ہر فرد اور ہر شخص کی تمنا ہے لیکن کام صرف آرزو¿ں سے نہیں بنا کرتے ۔ اس کو بروئے کار لانے کے لئے یقیں محکم اور عمل پیہم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ برف آگ سمجھ لیا جائے ۔اگر برف کی ضرورت ہے تو اسے پیدا کرنے کے لئے وہی اسباب اور وسائل پیدا کرنے ہوں گے جو اس کو پیدا کر سکیں ۔ اگر آگ جلانی ہے تو برف کے دو ٹکڑے رگڑ کر نہیں جلائی جا سکتی اس کے لئے چقماق ضروری ہے غرض کوئی کام بھی ہو وہ اسی وقت انجام پاسکتا ہے کہ جب صحیح طور سے اس کے اسباب اور وسائل بہم پہنچ جائیں ۔
    پس اگر صحت مند زندگی بسر کرنا مقصود ہے تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے حفظ صحت کے اصولوں کو جانا جائے اوردیانت کے ساتھ ان پر عمل کیا جائے ۔ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ بد پر ہیز ی کا سلسلہ جاری ہے ان تمام اصولوں کو نظر انداز کیا جائے جو صحت وتندرستی قائم رکھنے میں ممدد معاون ہوتے ہیں ان تمام عادتوں کا اختیار کر لیا جائے جن سے صحت بگڑتی ‘زندگی کم ہوتی اور بیماری قابو پاتی ہے اورپھر توقع کی جائے کہ ہم صحیح سلامت رہیں ۔مرض دوسروں کے لئے ہیں عافیت اور صحت ہمار احصہ ہے ،کوئی بیماری ہمارے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی ۔یہ محض خوشی فہمی، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں خود فریبی ہے ۔ جس طرح دو اور دو چار ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح انسان کا کردار اور اسکا عمل اس کے مستقبل کی سلامتی یا بربادی کا غماز اور ثمرہ ہوتا ہے ۔
    مسلانوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ”خیرامت ‘ ‘کے خطاب سے نوازہ ہے اور انہیں معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے کا فریضہ سونپا گیا ہے ۔ کیا یہ فریضہ کوئی ایسی قوم یاجماعت انجام دے سکتی ہے جو نحیف و ضعیف ہو ،جس کی صحت خراب ہو ،جو زمانے کے مصائب برداشت کرنے کی ہمت نہ رکھتی ہو ؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہی دیا جا سکتاے ۔پھر اگر ہم واقعی ”خیرامت “بننا چاہتے ہیں اور وہ فرائض ادا کرنا چاہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر عائد ہوتے ہیں تو ہمیں مضبوط ،توانا اور طاقت ور بننا چاہئے ۔طاقت ور توانائی حاصل کرنے کے لئے ضروری اور بہت ضروری ہے کہ ہماری صحت قابل رشک ہو اور رمضان المبارک کا مہینہ تو اسلامی احکامات پر عمل کر کے طہارت و پاکیزگی اور نتیجتاً صحت و تندرستی حاصل کرنے کا سنہری موقعہ ہے۔ خدا ہم سب کو رمضان
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    بہت خوب شئیرنگ ھے

    صفائی ایک ایسا کام ھے جس پہ کم سے کم لاگت آتی ھے مگر اس نصف ایمان ہی اتنی توجہ دی ہی نہیں‌جاتی جو مفت میں ہمیں سینکڑوں بیماریوں اور براائیوں سے بچا سکتا ھے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں