1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام میں اہم ایام اور اہم واقعات کی یاد منانے کا تصور

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏19 مارچ 2012۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام میں دن منانے اور اہم واقعات کی یاد ماننے کا تصور
    نماز پنج گانہ یادِ انبیائے کرام

    کسی واقعہ کی یاد منانا شعائر اسلام سے ثابت شدہ اَمر ہے۔ دین کی بنیاد اور ستون قرار دی جانے والی پانچ نمازیں۔ جنہیں اِسلام اور کفر کے مابین اِمتیاز کا درجہ حاصل ہے اور جو تمام مسلمانوں پر فرض کی گئی ہیں۔ دراَصل اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اَنبیاء کے اُن سجدہ ہائے شکر کی یاد منانے سے عبارت ہیں جو انہوں نے اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں مختلف مواقع پر بہ صورتِ نوافل ادا کیے۔ اپنے محبوب بندوں کی یہ ادا اﷲتعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ اس نے یہ نوافل اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو بطور فرض نماز عطا کر دیئے۔
    امام طحاوی (229. 321ھ) پانچ فرض نمازوں کی نسبت امام محمد بن عائشہ کا قول نقل کرتے ہوئے شرح معانی الآثار میں درج ذیل تفصیل بیان کرتے ہیں :
    1۔ نمازِ فجر سیدنا آدم علیہ السلام کی یادگار ہے
    إن آدم عليه السلام لما تِيبَ عليه عند الفجر، صلي رکعتين، فصارت الصبح.
    ’’جب صبح کے وقت ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) دو رکعت نماز پڑھی، پس وہ نمازِ فجر ہوگئی۔‘‘
    2۔ نمازِ ظہر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے
    وفدي إسحاق عند الظهر فصلي إبراهيم عليه السلام أربعا، فصارت الظهر.
    ’’ظہر کے وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب حضرت اسحق علیہ السلام سے نوازا گیا تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) چار رکعات ادا کیں، پس وہ نمازِ ظہر ہوگئی۔‘‘
    3۔ نمازِ عصر سیدنا عُزیر علیہ السلام کی یادگار ہے
    و بُعِثَ عزير، فقيل له : کم لبثت؟ فقال : يوما أو بعض يوم. فصلي أربع رکعات، فصارت العصر.
    ’’جب حضرت عزیر علیہ السلام کو (سو سال بعد) اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا : آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ تو انہوں نے کہا : ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پس انہوں نے چار رکعات ادا کیں تو وہ نماز عصر ہوگئی۔‘‘
    4۔ نمازِ مغرب سیدنا داؤد علیہ السلام کی یادگار ہے
    وقد قيل : غُفِر لعزير عليه السلام وغُفِر لداود عليه السلام عند المغرب، فقام فصلي أربع رکعات فجهد فجلس في الثالثة، فصارت المغرب ثلاثا.
    ’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت عزیر اور داؤد علیہما السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو انہوں نے(شکرانے کے طور پر) چار رکعات نماز شروع کی (مگر نقاہت وکمزوری کے باعث) تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے۔ (اس طرح تین رکعات ادا کیں، چوتھی رکعت مکمل نہ ہو سکی۔) پس وہ نمازِ مغرب ہوگئی۔‘‘
    5۔ نمازِ عشاء تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یادگار ہے
    وأوّل من صلي العشاء الآخرة، نبينا محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’اور جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نمازِ عشاء) ادا کی وہ ہمارے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
    طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الصلاة، باب الصلاة الوسطي أي الصلوات، 1 : 226، رقم : 1014
    الغرض یہ پنجگانہ نمازیں ان جلیل القدر پیغمبروں کی عبادت کی یاد دلاتی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے لطف و کرم اور فضل و احسان فرمایا اور انہوں نے اظہارِ تشکر کے طور پر دوگانہ اور چہارگانہ نوافل ادا کیے جو اللہ رب العزت نے امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پانچ فرض نمازوں کی صورت میں ان کی یادگار بنا دیئے۔ اس طرح دن بھر کی ان تمام نمازوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے انبیاء کرام کی یاد کا تسلسل بنا دیا۔
    علامہ ابن عابدین شامی (1244۔ 1306ھ) اپنے فتاویٰ
    ’’رد المحتار علی در المختار علی تنویر الابصار‘‘ میں پانچ فرض نمازوں کی نسبت فرماتے ہیں :
    قيل : الصبح صلاة آدم، والظهر لداود، والعصر لسليمان، والمغرب ليعقوب، والعشاء ليونس عليهم السلام، وجمعت في هذه الأمة.
    ’’کہا گیا ہے کہ نمازِ فجر حضرت آدم، ظہر حضرت داؤد، عصر حضرت سلیمان، مغرب حضرت یعقوب، اور عشاء حضرت یونس علیہم السلام کے لیے تھیں جنہیں اِس اُمت میں جمع کر دیا گیا ہے۔‘‘
    ابن عابدين، رد المحتار علي در المختار علي تنوير الأبصار، 1 : 351
    وہ لمحے جو انبیاء کرام نے اﷲ کی بارگاہ میں شکر، عجز اور خشوع و خضوع میں گزارے اﷲ نے انہیں اَمر کر دیا۔ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو اپنے قرب کا راستہ دکھا دیا اور محبت و اطاعت کی نورانی کیفیات کی رحمت بے پایاں عطا کر دی۔ اﷲ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبروں کے وہ سجدے جو مقبول ہوئے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے اُمت مسلمہ کو مل گئے جو تاابد اُن کی یاد مناتی رہے گی۔ یاد کی اَہمیت اِس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ اَرکانِ اِسلام میں سے اہم ترین رُکن صلوٰۃ کی عملی صورت میں جو پانچ نمازیں مقرر ہوئیں وہ ساری کی ساری کسی نہ کسی نبی کی یاد ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ مقبولانِ بارگاہ ایزدی سے منسوب کسی عمل یا واقعہ کی یاد منانا اسلام میں نہ صرف جائز ہے بلکہ دین اِسلام کی بنیادی فکر و فلسفہ کا تقاضہ ہے۔ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی خیر الوریٰ، حبیبِ کبریاء، تاجدارِ اَنبیاء حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعاتِ ولادت کی یاد منائی جاتی ہے جو سراسر جائز اور منشاء خداوندی کے عین مطابق ہے۔

    قیامِ مقامِ اِبراہیم سیدنا اِبراہیم علیہ السلام کی یاد ۔ یاد منانے کا حکم

    لغت کی رو سے مقام قدم رکھنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔
    (1) مقامِ ابراہیم کے تعین کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں : جمہور علماء و مفسرین کے نزدیک حضرت جابر بن عبد اﷲ، حضرت عبد اﷲ بن عباس اور قتادہ رضی اللہ عنھم و دیگر کے قول کے مطابق مقامِ ابراہیم اُس پتھر کو کہا جاتا ہے جسے لوگ اب مقامِ ابراہیم کے نام سے پہچانتے اور اس کے نزدیک طواف کی دو رکعت ادا کرتے ہیں۔ صحیح ترین قول بھی یہی ہے۔ (2) اِس کی وضاحت امام بخاری (194۔ 256ھ) کی بیان کردہ اس روایت سے ہوتی ہے جس میں ہے کہ تعمیر کعبہ کے وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام پتھر لاتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان پتھروں کو جوڑ کر دیواریں بنا رہے تھے۔ جب دیواریں بلند ہوگئیں تو وہ اِس پتھر کو لائے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اِس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے۔ (3) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لائے ہوئے پتھر اُٹھانے سے ضعف لاحق ہوا تو وہ اِس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے اور یہ پتھر کعبہ کے عمارت کے اِرد گرد گھومتا رہتا یہاں تک کہ تعمیر مکمل ہوگئی۔(4)
    1. فراهيدي، کتاب العين، 5 : 232
    2. فيروز آبادي، القاموس المحيط، 4 : 170
    3. ابن منظور، لسان العرب، 12 : 498
    4. زبيدي، تاج العروس من جواهر القاموس، 17 : 592

    (2) 1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 1 : 537
    2. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 112
    3. رازي، التفسير الکبير، 4 : 45
    4. آلوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 1 : 379
    5. عسقلاني، فتح الباري، 1 : 499

    (3) 1. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب يزفون : النسلان في المشي، 3 : 1235، رقم : 3184
    2. عبد الرزاق، المصنف، 5 : 110، رقم : 9107
    3. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 1 : 550
    4. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم 1 : 178
    5. قزويني، التدوين في اخبار قزوين، 1 : 105

    (4) 1. أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1 : 58
    2. أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 2 : 33
    حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا :
    يا رسول اﷲ! لو اتخذت من مقام إبراهيم مصلي.
    ’’یا رسول اﷲ! کاش آپ مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالیں۔‘‘
    اس پر درج ذیل آیت نازل ہوئی :
    وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهيْمَ مُصَلًّي.القرآن، البقرة، 2 : 125
    ’’اور ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کومقامِ نماز بنالو۔‘‘
    (1) 1. بخاري، الصحيح، کتاب التفسير، باب قوله : و اتخذوا من مقام إبراهيم مصلي، 4 : 1629، رقم : 4213
    2. ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب التفاسير، باب ومن سورة البقرة، 5 : 206، رقم : 2960
    3. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة و السنة فيها، باب القبلة، 1 : 322، رقم : 1008

    اس حکم کی تعمیل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقامِ اِبراہیم کے پیچھے نماز ادا کی۔ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ بیت اﷲ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِستلامِ رکن کیا، پھر طواف کے تین چکروں میں رمل کیا اور چار میں معمول کے مطابق طواف کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ ابراہیم پر آئے اور آیت (وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى)۔ تلاوت فرمائی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقامِ ابراہیم کو اپنے اور بیت اﷲ کے درمیان کیا اور دو رکعت نماز پڑھی۔
    مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب حجة النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 887، رقم : 1218

    عرفات، مزدلفہ اور منیٰ حضرت آدم و حوا علیھما السلام کی یادگار ہیں

    حجاج کرام نویں ذی الحج کو میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں۔ اس میں کوئی خاص عبادت لازمی طور پر ادا نہیں کی جاتی۔ وقوفِ عرفات فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے کافی ہے۔ عرفات کی یہ حاضری حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کے درمیان اس ملاقات کی یاد دلاتی ہے جو نویں ذوالحجہ کو اس میدان میں ہوئی۔ اس کی تائید درج ذیل روایات سے ہوتی ہے :
    1۔ مزدلفہ اور عرفات کی وجہ تسمیہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما درج ذیل الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :
    أهبط آدم عليه السلام بالهند وحواء بجدة، فجاء في طلبها حتي اجتمعا، فازدلفت إليه حواء فلذلک سميت المزدلفة، وتعارفا بعرفات فلذلک سميت عرفات، واجتمعا بجمع فلذلک سميت جمعًا.
    ’’حضرت آدم علیہ السلام کو ہند اور حضرت حواء کو جدہ کے مقام پر اتارا گیا، پس حضرت آدم علیہ السلام ان کی تلاش میں نکلے تو ان کا آپس میں ملاپ ہوگیا۔ حضرت حوا علیہا السلام (اس مقام پر) ان کے قریب ہوئیں تو اس کا نام ’’مزدلفہ‘‘ پڑگیا، اور ان دونوں نے عرفات کے مقام پر ایک دوسرے کو پہچان لیا تو اس کا نام ’’عرفات‘‘ ہو گیا اور (نویں ذی الحج کو) جمع ہونے کے مقام پر ان کا اکٹھ ہوا تو اس کا نام ’’یوم جمع‘‘ ہوگیا۔‘‘
    1. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 79
    2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 1 : 34
    3. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 39
    4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 69 : 109
    2۔ جنت سے حضرت آدم علیہ السلام کو ہند کے ایک پہاڑ ’’نوذ‘‘ پر جبکہ حضرت حواء علیہا الاسلام کو حجاز میں ’’جدہ‘‘ کے مقام پر اتارا گیا۔ ابن سعد (168۔ 230ھ)، طبری (224۔ 310ھ) اور نووی (631۔ 677ھ) کے مطابق پھر حضرت آدم علیہ السلام نے حواء علیہا السلام کو مقامِ عرفات پر پہچان لیا، پس اسی وجہ سے اسے ’’عرفۃ‘‘ کا نام دیا گیا۔
    1. طبري، تاريخ الأمم و الملوک، 1 : 79
    2. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 35، 36
    3. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 237
    3۔ امام قرطبي رحمۃ اللہ عليہ (284۔ 380ھ) اپني تفسير ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں :
    أن آدم لما هبط وقع بالهند، وحواء بجدة، فاجتمعا بعد طول الطلب بعرفات يوم عرفة وتعارفا، فسمي اليوم عرفة والموضع عرفات، قاله الضحاک.
    ’’جنت سے زمین پر حضرت آدم علیہ السلام کو ہند میں اور حضرت حواء علیہا السلام کو جدہ میں اتارا گیا، کافی تگ و دو کے بعد آپس میں ان کی ملاقات عرفہ کے دن مقامِ عرفات پر ہوئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ پس اس دن کو ’’یوم عرفہ‘‘ اور اس جگہ کو ’’عرفات‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ یہ قول امام ضحاک کا ہے۔‘‘
    قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 415
    4۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ)، یاقوت حموی (م 626ھ) اور علامہ شوکانی (1173۔ 1250ھ) مُزدلفہ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں رقم طراز ہیں :
    وسميت المزدلفة جمعاً، لأن آدم اجتمع فيها مع حواء، وازدلف إليها أي دنا منها.
    ’’مزدلفہ کو ’’جمع‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام حضرت حواء علیہا السلام کے ساتھ اکٹھے ہوئے اور ان کے قریب ہوئے۔‘‘
    1. عسقلاني، فتح الباري، 3 : 523
    2. ياقوت حموي، معجم البلدان، 5 : 121
    3. شوکاني، نيل الأوطار شرح منتقي الأخبار، 1 : 423

    شیطان کوکنکریاں مارنے کا عمل سنتِ ابراہیمی علیہ السلام کی یاد منانا ہے

    حجاج کرام تین دن منٰی میں قیام کرتے ہیں اور ان ستونوں کو پتھر مارتے ہیں جو جمرۂ اُولیٰ، جمرۂ وُسطیٰ اور جمرۂ عقبیٰ کے نام سے معروف ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل کی یاد گار ہے۔
    1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    إن جبريل ذهب بإبراهيم إلي جمرة العقبة، فعرض له الشيطان، فرماه بسبع حصيات، فساخ، ثم أتي الجمرة الوسطي، فعرض له الشيطان، فرماه بسبع حصياتٍ، فساخ، ثم أتي الجمرة القصوي، فعرض له الشيطان، فرماه بسبع حصيات، فساخ.
    ’’جبرائیل امین ابراہیم علیہ السلام کو لے کر جمرۂ عقبیٰ پر گئے تو وہاں ان کے سامنے شیطان آیا۔ انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں تو وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر آپ جمرہء وسطیٰ پر تشریف لائے تو شیطان کے (دوبارہ) سامنے آنے پر انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں۔ وہ پھر زمین میں دھنس گیا۔ پھر آپ جمرۂ اُولیٰ پر پہنچے تو شیطان سے (سہ بارہ) آمنا سامنا ہونے پر اسے سات کنکریاں ماریں۔ وہ زمین میں دھنس گیا۔‘‘
    1. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 306
    2. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 638، رقم : 1713
    3. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 153، رقم : 9475
    4. مقدسي، الأحاديث المختارة، 10 : 283، رقم : 296
    یہ چند مثالیں ہیں ورنہ فرض نماز و حج سمیت بیسیوں عبادات ایسی ہیں جو کسی نہ کسی طور انبیائے کرام یا محبوبانِ الہی کی یاد منانے پر دلالت کرتی ہیں۔
    ہزاروں سال قبل ظہور پذیر ہونے والے واقعات میں ہمارے لیے ایک پیغام اور مقصد مضمر ہے۔ مناسکِ حج ہی کو لیجیے، بادی النظر میں ان اعمال کو جاری رکھنے میں کوئی عملی ربط پنہاں نہیں۔ بظاہر یہ مختلف واقعات تھے جو رونما ہوئے اور گزر گئے۔ ان واقعات میں ہمارے لیے کیا عملی اور تعلیمی سبق ہے کہ شریعت نے حج و عمرہ کے موقعوں پر مناسک کی صورت میں ان کا جاری رکھنا فرض اور واجب قرار دیا ہے؟ اس حقیقت سے ہم یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اسلام دونوں باتوں کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ دینی تعلیمات کے اس پہلو کو جو اَحکاماتِ الٰہیہ سے متعلق ہے ضروری سمجھتا ہے کیونکہ ان کی تعمیل تقاضائے دین ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیک وقت وہ کسی واقعہ کے جذباتی پہلو اور تعلق کو بھی خصوصی اہمیت دیتا ہے اور اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ پہلو مداومت کے ساتھ ہماری زندگیوں میں جاگزیں رہے۔ ہم اس کے تاریخی پس منظر کو اپنے دل و دماغ سے بھی اوجھل نہ ہونے دیں۔ ہمارے جذبات، احساسات اور تخیلات کی دنیا میں اس کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے۔ درحقیقت اسلام ہر واقعہ سے دوگونہ تعلق کا خواہاں ہے : ایک عملی وابستگی کا تعلق اور دوسرا جذباتی وابستگی کا تعلق اول الذکر تعلیماتی پہلوؤں اور ثانی الذکر جذباتی پہلوؤں یعنی محبت، چاہت اور اپنائیت کے عملی مظاہر سے عبارت ہے۔ محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت پر والہانہ جذباتی وابستگی کا اظہار تاریخی، ثقافتی اور روحانی پس منظر میں کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس واقعہ کو کبھی نہ بھولیں اور یہ ہمارے قلب و باطن اور روح میں اس طرح پیوست ہو جائے کہ امتدادِ وقت کی کوئی لہر اسے گزند نہ پہنچا سکے۔ اسلام اس یاد کو مداومت سے زندہ رکھنے کا تقاضا کرتا ہے، اس لیے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جشن مسرت کا سماں پیدا کر دیا جاتا ہے تاکہ اس واقعے کو اہتمام کے ساتھ منایا جائے۔
    بس یہ امر واضح ہوگیا کہ مناسکِ حج دراَصل اﷲ کے مقرب بندوں سے متعلق واقعات ہی ہیں جنہیں شعائر اﷲ قرار دے کر ان کی یاد منائی جاتی ہے۔ اگر اِس اَمر میں کوئی تنازعہ اور اِختلاف نہیں تو میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات پر بھی کسی کو کوئی اِعتراض اور اِبہام نہیں ہونا چاہئے۔

    حوالہ جاتی کتاب میلاد النبی :drood:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں