1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام اور مغرب: چند غلط فہمیوں کی نشاندہی

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از زمردرفیق, ‏23 فروری 2008۔

  1. زمردرفیق
    آف لائن

    زمردرفیق ممبر

    شمولیت:
    ‏20 فروری 2008
    پیغامات:
    312
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    یورپ اور امریکہ کے ترقی یافتہ ممالک میں بسنے والے لوگ، عموماً خود کو ترقی پذیر ممالک خصوصاً مسلمان ممالک سے انسانی حقوق کے حوالے سے بہتر گردانتے ہیں اور مسلمانوں کی اس حالت کی وجہ اسلامی تعلیمات کو سمجھتے ہیں۔
    بدقسمتی سے اس تقابلی تجزئیے کے دوران ، غیرمسلم ایک نہایت اہم پہلو کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ تقابلی جائزہ ان ممالک کے مذاہب یعنی یہودیت اور عیسائیت کا اسلام سے ہونا چاہئے اور ان کے علاقائی، ملکی معاشرے کا مسلمان ممالک کے علاقائی معاشرے اور رہن سہن سے ، نہ کہ کسی ایک مذہب کا تقابلی جائزہ کسی دوسرے ملک کے خالصتاً علاقائی کلچر اور معاشرے سے۔ زیرِنظر مضمون میں چند ایسی باتوں کا جائزہ لیا جارہا ہے جن کے بارہ میں عموماً گفتگو ہوتی رہتی ہے۔


    اسلام: مذہبِ کامل؟
    اسلام پر ایک اعتراض عام ہوتا ہے کہ اسلام نے ، یہودیت اور عیسائیت کی تعلیمات سے ہی کچھ چیزیں ملاجلا کر ایک نیا مذہب پیش کردیا ہے اور اس میں کوئی بھی نئی بات نہیں ہے۔حالانکہ اسلام کا یہ قطی طور پر دعویٰ نہیں کہ اسلام یہودیت اور عیسائیت کے ’’مقابل‘‘ پر کوئی مذہب ہے یا اسلام کو کسی اور ۔’’خدا‘‘ نے تخلیق کیا ہے لہذا یہ آمنے سامنے مقابلہ کرنے والے دشمن مذاہب ہیں۔ بلکہ اسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ مذاہب کے تسلسل کو ہی مزید بہتر بنا کر مکمل کردیا ہے اور یہ وہی خدا ہے جس نے یہودیت اور عیسائیت کی تعلیم دی۔ قرآن کریم میں ہے۔
    ’’تو کہہ دے ہم ایمان لے آئے اللہ پر اور اس پر جو ہماری طرف اتارا گیا اور جو ابراہیم پر اتارا گیا اور اسماعیل پر اور اسحق پر اور یعقوب پر اور(اس کی) نسلوں پر اور جو موسیٰ اور عیسیٰ کو اور جو نبیوں کو اُن کے ربّ کی طرف سے دیا گیا۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اسی کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔‘‘
    (اٰل عمرٰن : آیت نمبر 85)
    اسلام بطور دین کس طرح کامل ہوگیا ہے اور اس کے کون سے اصول ہیں جن کی بناء پر اسلام کو دائمی قرار دیا جاتا ہے ؟ اس کی ایک مثال مندرجہ ذیل ہے۔
    بنی اسرائیل پرمظالم کی انتہاہوگئی تھی ۔ اُن کو تکلیفیں دے دے کر ایسے مقام پر پہنچادیا گیا تھا کہ وہ بے بس ہو کررہ گئے تھے اور بالآخران کی غیرت بالکل مرگئی۔ لہذا ان پرحضرت موسی علیہ السلام کے ذریعہ ایسی شریعت نازل ہوئی جس میں ان کو حکم دیا گیا کہ وہ ظلم کے نتیجہ میں خاموش مت بیٹھیں اور بھرپور بدلہ لیں۔
    ’’اور جو خداوند کے نام پر کفر بکے ضرور جان سے مارا جائے۔ ساری جماعت اُسے قطعی سنگسار کرے۔ خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی جب وہ پاک نام پر کفر بکے تو وہ ضرور جان سے مارا جائے۔ اور جو کوئی کسی آدمی کو مارڈالے وہ ضرورجان سے مارا جائے۔ اور جو کوئی کسی چوپائے کو مارڈالے وہ اُس کا مُعاوضہ جان کے بدلے جان دے۔ اور اگر کوئی شخص اپنے ہمسایہ کو عیب دار بنادے تو جیسا اُس نے کیا وَیسا ہی اُس سے کیا جائے۔ یعنی عُضو توڑنے کے بدلے عُضو توڑنا ہو اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ جیسا عَیب اُس نے دُوسرے آدمی میں پیدا کردیا ہے وَیسا ہی اُس میں بھی کردیا جائے۔ الغرض جو کوئی کِسی چَوپائے کو مارڈالے وہ اُسکا مُعاوضہ دے پر اِنسان کا قاتِل جان سے مارا جائے۔ تُم ایک ہی طرح کا قانُون دیسی اور پردیسی دونوں کے لئے رکھنا کیونکہ مَیں خُداوند تُمہارا خُدا ہُوں۔‘‘
    (احبار، باب 24، آیات16تا22 )
    اس تعلیم کے نتیجہ میں مطلوبہ نتائج تو حاصل ہوگئے لیکن چند صدیوں کے اندر ہی اہلِ یہود خود بھی مظالم ڈھانے میں اتنے بڑھ گئے کہ ضروری تھا کہ ان کے اپنے مظالم روکنے کے لئے انتہائی نرمی کی تعلیم دی جائے۔ جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ پھیلائی گئی۔
    ’’تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔ اور اگر کوئی تجھ پر نالش کرکے تیرا کُرتالینا چاہے تو چوغہ بھی اُسے لے لینے دے۔ اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اُسکے ساتھ دو کوس چلا جا۔ جو کوئی تجھ سے مانگے اُسے دے اور جو تجھ سے قرض چاہے اُس سے مُنہہ نہ موڑ۔
    تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو۔ تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر بیٹے ٹھہروکیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔ کیونکہ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارے لئے کیا اجر ہے؟ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے؟ اور اگر تم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟ کیا غیرقوموں کے لوگ بھی ایسا نہیںکرتے؟ پس چاہئے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔‘‘
    (متّی ، باب 5، آیات38تا 48 )
    اس تعلیم کا نتیجہ بھی حسبِ توقع نکلا اور عیسائیت کے پیروکار ، انتہائی نرم مزاج ہوگئے ۔وہ اتنے پر امن اور نرم مزاج ہوگئے کہ ان کی نرم مزاجی سے فائدہ اٹھاکر ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئے گئے ، جس کے نتیجہ میں ان کو تین سو سال غاروں میں چھپ چھپ کر رہنا پڑا۔
    اسلام کی کاملیت کا دعویٰ اس طرح ملتا ہے کہ اسلام میں یہ تعلیم دی گئی کہ اگر تم پر ظلم ہو تو تم کو اختیار ہے کہ اس کا بدلہ لو۔ اور اگر تم چاہو تو نرمی سے کام لے کر معاف بھی کرسکتے ہو۔ یعنی اگر اصلاح کے لئے بدلہ لینا ضروری ہو تو ضرور بدلا لینا چاہئیے اور اگر معافی سے اصلاح سے ہوسکے معاف کردینا سب سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
    ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر مقتولوں کے بارہ میں قصاص فرض کردیا گیا ہے۔ آزاد کا بدلہ آزاد کے برابر، غلام کا بدلہ غلام کے برابر اور عورت کا بدلہ عورت کے برابر(لیاجائے)۔ اور وہ جسے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کردیا جائے تو پھر معروف طریق کی پیروی اور احسان کے ساتھ اس کو ادائیگی ہونی چاہئے۔ یہ تمہارے ربّ کی طرف سے رعایت اور رحمت ہے۔ پس جو بھی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لئے درد ناک عذاب (مقدر) ہے۔‘‘
    (البقرۃ ، آیت179)
    یہ ایک ایسا عظیم الشان قانون ہے جو تاقیامت ،ہر قسم کے حالات میں استعمال ہوسکتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام کو کا کامل مذہب قرار دیا گیا ہے۔
    یہی وہ اصول ہیں جن کی وجہ سے سابقہ شریعتوں اور سابقہ کتب کی آیات کو (جو اپنے وقت میں سب سے بہتر تھیں) کو منسوخ کردیا گیایا بھلادیا گیا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
    ’’ جو آیت بھی ہم منسوخ کردیں یا اُسے بھُلا دیں، اُس سے بہتر یا اُس جیسی ضرور لے آتے ہیں۔ کیا تُونہیں جانتا کہ اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے؟ ‘‘
    (البقرہ ، آیت107)
    خواتین کے حقوق:
    مغربی ممالک کے دانشوروں کو دنیا کی سب سے کمزور اور مظلوم ’’چیز‘‘ مسلمان عورت نظر آتی ہے۔انہی کے پرا پگنڈے کی وجہ سے عام شہریوں کو بھی مسلمانوں پریہ اعتراض کرنا فرض ہوتا ہے کہ مسلمانوں عورتوں کے کوئی حقوق نہیں ہے۔
    یہاں پریہ یاددہانی ضروری ہے کہ اس مضمون کی اصل غائیت کو مدِنظر رکھا جائے او ر پہلے عورت کی حیثیت کا تعین ،بائبل اور قرآن کی روشنی میں کیا جائے اور پھر معاشرتی حوالوں سے۔ سب سے پہلے ، عورتوں کے بارہ میں چند مثالیں بائبل سے لیتے ہیں۔
    لڑکے اور لڑکی میں تفریق کی مثال ملاحظہ ہو:
    ’’بنی اسرائیل سے کہہ کہ اگر کوئی عورت حامِلہ ہو اور اُسکے لڑکا ہو تو وہ سات دِن ناپاک رہے گی جیسے حَیض کے اےّام میں رہتی ہے۔‘‘
    ( احبار، باب 12، آیت 2)
    ’’اور اگر اُسکے لڑکی ہوتو وہ دہ ہفتے ناپاک رہے گی جیسے حَیض کے ایّام میں رہتی ہے۔ ‘‘
    ( احبار، باب 12، آیت 5)
    قرآن کریم میں کہیں بھی لڑکیوں کی وجہ سے ناپاکی بڑھ جانے کی تعلیم نہیں دی گئی ہے ۔
    اسی طرح بائبل میں صاف طور پر لکھا ہے کہ عورت مرد کی محکوم ہے۔
    ’’پھر اُس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے دردِ حمل کو بڑھاؤنگا۔ تُو درد کے ساتھ بچّے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہوگی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔‘‘
    (پیدائش، باب 3، آیت16 )
    اس کے برعکس قرآن کریم میں مردوعورت کو برابر قرار دیا گیاہے۔
    ’’اے لوگو! اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مَردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلادیا۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رِحموں (کے تقاضوں) کا بھی خیال رکھو۔ یقینا اللہ تم پر نگران ہے۔‘‘
    (النساء ، آیت 2)
    ’’...اور اُن (عورتوں) کا دستور کے مطابق (مَردوں پر) اتنا ہی حق ہے جتنا(مردوں کا)اُن پر ہے۔ حالانکہ مردوں کو ان پر ایک قسم کی فوقیت بھی ہے۔ اور اللہ کامل غلبہ والا(اور)حکمت والا ہے۔‘‘
    (البقرہ ، آیت 229)
    ’’پس اُن کے ربّ نے اُن کی دعا قبول کرلی (اور کہا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ہرگز ضائع نہیں کروں گاخواہ وہ مَرد ہو یا عورت...‘‘
    (ال عمران، آیت 196)
    ایک غلط تاثر یہ بھی عام ہے کہ اسلام میں عورتوں کو ملازمت کی اجازت نہیں ، حالانکہ عورتوں کو ملازمت اور دوسرے امور سرانجام دینے کی پوری آزادی ہے ۔ اور ان کو مکمل برابری حاصل ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
    ’’ اور اللہ نے جو تم میں سے بعض کو بعض پر فضلیت بخشی ہے اس کی حرص نہ کیا کرو۔ مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو وہ کمائیں۔ اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جووہ کمائیں۔ اللہ سے اس کا فضل مانگو۔ یقینا اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔ ‘‘
    (النساء آیت 33)


    مغرب میں عورت کی آزادی کی حیثیت کیا ہے؟
    مغرب میں عورت کی نام نہاد آزادی کی چند وجوہات نہایت بھیانک ہیں۔ مغربی ممالک میں صرف چند عشرے قبل تک ایک ایسے گھرانے کو آئیڈیل سمجھا جاتا تھا جس میں مرد کمائی کرتا تھا اور عورت گھر سنبھالتی تھی۔ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں میں ایک تبدیلی مردوں میں عیاشی کے رجحان کا بڑھنا تھا۔ جس کے لئے ضروری تھا کہ آمدنی زیادہ ہو اور اخراجات کم۔ اس کا بہترین حل یہ نکالا گیا کہ عورتوں کو مردوں سے برابری دلانے کا جھانسا دے کر ان سے محنت و مشقت کے کام لئے جانے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ عورتیں اپنے مالی لحاظ سے آزاد ہوں گئیں اور اپنے فیصلے آزادنہ کرنے لگیں۔ نیز مرد اور عورتیں، باہمی ذمہ داریوں سے بھی بری الذمہ ہوگئے۔عورتوں اور مردوں کا رہن سہن اتنا تبدیل ہوگیا کہ کئی دفعہ یہ پہچان ہی نہیں ہوتی کہ یہ مرد ہے کہ عورت۔ عورتوں نے مردوں کے کپڑے پہننے شروع کردئے جبکہ مرد بھی ان سے پیچھے نہیں رہے۔ کپڑوں کے رنگوں سے لے کر میک اپ تک عورتوں کی نقالی کرتے ہیں۔ سر کے بال بڑھا کر چٹیا بنا لیتے ہیں اور اب تو کئی مردوں نے باقاعدہ اسکرٹ پہننا شروع کردیا ہے۔جو کہ سراسر عیسائت کی تعلیم کے خلاف ہے۔ جیسا کہ بائبل میں درج ہے۔
    ’’عورت مرد کا لباس نہ پہنے اور نہ مرد عورت کی پوشاک پہنے کیونکہ جو ایسے کام کرتا ہے وہ خداوندتیرے خدا کے نزدیک مکرُوہ ہے۔ ‘‘
    (اِستِثنا، باب 22آیت5 )
    عورتوں کے مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے اخلاقی مسائل بھی بڑھ گئے۔ جس کا نتیجہ عورتوں اور مردوں کے آزادنہ تعلقات ، ناجائز بچوں کی پیدائش ، ہم جنس پرستی اور ایڈز کی صورت میں نکلا۔ اور اس سارے عمل کو جدیدیت اور آزادیِ نِسواں کا نام دیا گیا۔بن بیاہی ماؤں کے بچوں کی تعداد حد سے بڑھ چکی ہے۔ اور کئی دفعہ جوان بچوں کو کسی طبی ٹیسٹ کے دوران پتہ چلتا ہے کہ جس شخص کو وہ اور تمام دنیا اُن کا باپ سمجھتی رہی ہے وہ ان کا باپ ہی نہیں ہے۔ اور اس کے باوجود یہ سب عیسائت کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ بائبل میںدرج ہے کہ
    ’’کوئی حرام زادہ خُداوند کی جماعت میں داخِل نہ ہو۔ دسویں پُشت تک اُسکی نسل میں سے کوئی خُداوند کی جماعت میں آنے نہ پائے۔‘‘
    (اِستِثنا، باب 23، آیت2)
    اس نام نہاد ’’آزدیِ نِسواں‘‘ کا ایک اور تاریک اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس عمل میں عورت کا زبردست استحصال کیا گیا۔ لمبا عرصہ تک اسے مردوں کے برابر کام کرنے کے باوجود ، قانوناً کم اجرت ملتی رہی۔ اور اب بھی عموماً عورتوں کو ایسی جگہ پر ملازمت دی جاتی ہے جہاں ان کی خوبصورتی، نرم مزاجی اور صبر جیسی قدرتی صلاحیتوں کو misuseکیا جاسکے۔ عملی طور پر عورت کو ’’شو پیس‘‘ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
    زیادہ تر اداروں کے استقبالیہ پر خواتین ہوتی ہیں جو آنے والے مہمانوں اور گاہکوں پر خوشگوار تاثر قائم کرنے کے لئے ملازم رکھی جاتی ہیں۔ تقریباً ہر جگہ پر باس کی سیکرٹری ایک عورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ڈپارٹمنٹل سٹورز پر ، کیشئرز اور کسٹمرسروس کے لئے خواتین کو رکھا جاتا ہے۔ ایسی جگہوں پر ، کسٹمرز کی ناگوار باتیں سننا پڑتی ہیں، جو عورت فطری طور پر صابر اور نرم مزاج ہونے کی وجہ سے سن لیتی ہیں۔ اگر مرد ان کی جگہ پر ہوں تو وہ ناراض کسٹمرز کی باتیں سن کر جلدی صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔
    اسی آزادی کی وجہ سے مغربی ممالک کے ہر شہر اور قصبے میں ایسے کلب ، ہزاروں ، لاکھوں کی تعداد میں قائم ہیںجہاں ، لاتعداد مردوں کی موجودگی میں، برہنہ عورت، جانوروں کی طرح ناچ کر مردوں کے دِل بہلاتی ہے۔ اگر اس معاشرے میں عورت آزاد اور برابر ہے تو ہزاروں کی تعداد میںایسے کلب کیوں نہیں ہیں جہاں عورتیں مردوں کا تماشا دیکھ سکیں؟
    کیا مغربی ممالک کے صدور ، وزراء اعظم ، وزراء ، سفارت کاروں، افواج کے جنرلوں، پائلٹس، ججوں، پالیسی بنوانے والوںاور حتمی فیصلہ کرنے والوں میں عورتوں کا تناسب 50فی صد ہے؟یہ فہرست بہت لمبی ہوسکتی ہے۔ اور سب کا جواب بالکل واضح ہے کہ عورتوں کا تناسب 50فی صد تو کُجا، شاید ایک فی صد بھی نہ ہو۔
    ہوسکتا ہے کہ ان اقوام پر یہ تمام مصیبتیں اور بیماریاں تورات کے مندرجہ ذیل اصول یا پیش گوئی کی وجہ سے نازل ہوئی ہوںکہ
    ’’لعنت اُس پر جو اِس شریعت کی باتوں پر عمل کرنے کے لئے اُن پر قائم نہ رہے اور سب لوگ کہیں آمین۔‘‘
    (اِستِثنا، باب 27، آیت26)
    مسلمان ممالک خصوصاً ایشیا میں مسلمان عورتوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ہوتے ہیں ان کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔
    1۔ قدیم علاقائی رسم و رواج
    2۔ دینی و دنیاوی علوم کی کمی
    ہندوستان میں اسلام پھیلنے کے بعد ایسی کوئی شخصیت سامنے نہیں آ ئی جوکثیر تعداد میںاسلام قبول کرنے والوں کی تعلیم اور تربیت کابھی خیال رکھ سکتی۔ مسلمان بزرگوں کی سخت محنت کے باوجود ، ان کے وسائل اس بات میں مانع رہے کہ وہ لوگوں کی تربیت انفرادی بنیادوں پر کرسکتے۔ عوام کی بہت بڑی اکثریت اُن رسوم سے پیچھا نہ چھڑا سکی جو اسلام میں بدعت سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً ایک رواج کہ جب تک شوہر کھانا نہ کھالے ، بیوی کھانا نہیں کھاسکتی۔ اور اگر شوہر اپنی بیوی کو زود وکوب کرے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں بلکہ عورت کے عام سی بات ہے بلکہ اکثر فخر کی بات سمجھی جاتی تھی اور بدقسمتی سے کچھ کے لئے تو اب بھی فخر کی بات ہے۔


    جنگ کے اصول:
    مغربی ممالک کو یہ زعم رہا ہے کہ اُن کے تیارکردہ قوانینِ جنگ، مذہبی قوانین سے بہتر اور انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔ تاہم عموماً وہ خود اپنے ہی تیارکردہ قوانین کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں۔ دوسری طرف مسلمان بھی دورانِ جنگ اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر عمل کرتے ہیں۔ اِن مسلمانوں کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے وہ مجبوراً بعض ناگوار عمل عمل سرانجام دیتے ہیں اور اِسے اُن کی مجبوری سمجھی جانی چاہئے۔ تاہم اس بات کو سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روشنی میں دیکھیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے چچا کا کلیجہ، دل، اور دوسرے اعضاء کھانے والی ہندہ کو بھی معاف فرمادیا تھا۔ اور جنگی قیدیوں کے ساتھ بھی ہمیشہ شفقت کا سلوک روا رکھا۔
    جنگ کے بارہ میں بائبل میں درج ہے کہ
    ’’جب تُو کِسی شہرسے جنگ کرنے کو اُسکے نزدِیک پُہنچے تو پہلے اُسے صُلح کا پَیغام دینا۔ اور اگر وہ تُجھ کو صُلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لئے کھول دے تو وہاں کے سب باشِندے تیرے باجگُذار بن کر تیری خِدمت کریں۔ اور اگر وہ تُجھ سے صُلح کرے بلکہ تُجھ سے لڑنا چاہے تو تُو اُسکا مُحاصرہ کرنا۔ اور جب خُداوند تیرا خُدا اُسے تیرے قبضہ میں کردے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کرڈالنا۔ لیکن عَورتوں اور بال بچّوں اور چَوپایوں اور اُس شہر کے سب مال اور لُوٹ کو اپنے لِئے رکھ لینااور تُو اپنے دُشمنوں کی اُس لُوٹ کو جو خُداوند تیرے خُدا نے تُجھ کو دی ہو کھانا۔ اُن سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تُجھ سے بہت دُور ہیں اور اِن قَوموں کے شہر نہیں ہیں۔ پر اِن قَوموں کے شہروں میں جِن کو خُداوند تیرا خُدا مِیراث کے طور پر تُجھ کو دیتا ہے کِسی ذی نفس کو جِیتا نہ بچا رکھنا۔ بلکہ تُو اِن کو یعنی حِتّی اور اموری اور کنعانی ار فرزّی اور حوّی اور یہبُوسی قَوموں کو جَیسا خُداوند تیرے خُدا نے تُجھ کو حُکم دِیا ہے بِالکُل نیست کردینا۔ تاکہ وہ تُم کو اپنے سے مکروُہ کام کرنے نہ سِکھائیںجو اُنہوں نے اپنے دیوتاؤں کے لِئے کِئے ہیں اوریُوں تُم خُداوند اپنے خُدا کے خِلاف گُناہ کرنے لگو۔ جب تُو کِسی شہرکو فتح کرنے کے لِئے اُس سے جنگ کرے اور مُدّت تک اُس کا مُحاصرہ کِئے رہے تو اُس کے درختوں کو کُلہاڑی سے نہ کاٹ ڈالنا کیونکہ اُن کا پھل تیرے کھانے کے کام میں آئے گا سو تُو اُن کو مت کاٹنا کیونکہ کیا میدان کا درخت اِنسان ہے کہ تُو اُس کا مُحاصرہ کرے؟۔ سو فقط اُن ہی درختوں کو کاٹ کر اُڑادینا جو تیری دانِست میں کھانے کے مطلب کے نہ ہوں اور تُو اُس شہر کے مُقابل جو تُجھ سے جنگ کرتا ہو بُرجوں کو بنالینا جب تک وہ سر نہ ہوجائے۔‘‘
    (اِستِثنا، باب 20آیات 10تا20 )
    اب قرآن کی تعلیم ملاحظہ فرمائیں۔
    ’’اور اگر وہ صلح کے لئے جُھک جائیں تو تُو بھی اُس کے لئے جُھک جا اور اللہ پر توکل کر۔ یقینا وہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔ اور اگر وہ ارادہ کریں کہ تجھے دھوکہ دیں تو یقینا اللہ تجھے کافی ہے۔ وہی ہے جس نے اپنی نصرت کے ذریعہ اور مومنوں کے ذریعہ تیری مدد کی۔‘‘
    (الانفال، آیات 62و 63)
    ’’اور اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو۔ یقینا اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور (دورانِ قتال) انہیں قتل کرو جہاں کہیں بھی تم انہیں پاؤ اورانہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے تمہیں انہوں نے نکالا تھا۔ اور فتنہ قتل سے زیادہ سنگین ہوتا ہے۔ اور ان سے مسجدحرام کے پاس قتال نہ کرو یہاںتک کہ وہ تم سے وہا ں قتال کریں۔ پس اگر وہ تم سے قتال کریں توپھر تم اُن کو قتل کرو۔ کافروں کی ایسی ہی جزا ہوتی ہے۔‘‘
    (البقرۃ ، آیات191و192)
    یہودیت ، عیسائیت اور اسلام میں کئی بنیادی باتیں مشترکہ ہیں ۔ آج کل کے ترقی یافتہ دور میں لوگوں کو ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل رہا ہے تو یہ ضروری ہے کہ اُن امور پر بات کی جائے جو ان مذاہب میں مشترکہ ہیں۔ تاکہ آپس میں انڈر اسٹیڈنگ اور رواداری کا ماحول بنے۔ان میں بنیادی مقصد مشترکہ ہے۔ جبکہ اُن کے بارہ میں تعلیم، اسلام میں نسبتاً متوازن ہے۔یہ مشترکہ تعلیم یقینا ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے کیونکہ اس پر ایمان لانے کے لئے قرآن میں مسلمانوں کو ہدائیت دی گئی ہے۔
    ’’یقینا یہ ضرور پہلے صحیفوں میں بھی ہے۔ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔‘‘
    (الاعلی ، آیات 19و20)


    عورتوں اور مردوں کے آزادانہ تعلقات:
    ۔۔بائبل میں درج ہے کہ
    ’’اور اگر کاہن کی بیٹی فاحشہ بن کر اپنے آپ کو ناپاک کرے تو وہ اپنے باپ کو ناپاک ٹھہراتی ہے۔ وہ عورت آگ میں جلائی جائے۔‘‘
    (احبار، باب 21، آیت9 )
    ’’پر اگر یہ بات سچ ہو کہ لڑکی میں کنوارے پن کے نِشان نہیں پائے گئے۔ تو وہ اُس لڑکی کو اُسکے باپ کے گھر کے دروازہ پر نکال لائیں اور اُسکے شہر کے لوگ اُسے سنگسار کریں کہ وہ مرجائے کیونکہ اُس نے اِسرائیل کے درمیان شرارت کی کہ اپنے باپ کے گھر میں فاحِشہ پن کِیا۔ ےُوں تُو اَیسی بُرائی کو دفع کرنا۔ اگر کوئی مرد کِسی شوہَر والی عورت سے زِنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مارڈالے جائیں یعنی وہ مرد بھی جِس نے اُس عَورت سے صُحبت کی اور وہ عَورت بھی۔ ےُوں تُو اِسرائیل میں اَیسی بُرائی کو دفع کرنا۔اگر کوئی کنواری لڑکی کِسی شخص سے منسوب ہوگئی ہو اور کوئی دُوسرا آدمی اُسے شہر میں پاکر اُس سے صُحبت کرے۔ تو تم اُن دونوں کو اُس شہر کے پھاٹک پر نِکال لانا اور اُن کو تُم سنگسار کردینا کہ وہ مرجائیں۔ لڑکی کو اس لئے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلائی اور مرد کو اس لئے کہ اس نے اپنے ہم سایہ کی بیوی کو بے حُرمت کیا۔ یوں تُوایسی برائی کو اپنے درمیان سے دفع کرنا۔‘‘
    (اِستِثنا، باب 22آیات20تا24 )
    اسی طرح قرآن کریم میں ہے۔
    ’’اور زنا کے قریب نہ جاؤ۔ یقینا یہ بے حیائی ہے اور بہت بُرا رستہ ہے۔‘‘
    (بنیٓ اسرآء یل، آیت نمبر 33)
    ’’اور تمھاری عورتوں میں سے وہ جو بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں ان پر اپنے میںسے چار گواہ بنالو۔ پس اگر وہ گواہی دیں تو ان کو گھروں میں روک رکھو یہاں تک کہ ان کو موت آجائے یا ان کے لئے اللہ کوئی (اور) رستہ نکال دے۔‘‘
    (النّسآء ، آیت نمبر 16)


    ہم جنس پرستی کے بارہ میں تعلیم:
    بائبل میں ہم جنس پرستی کو بہت بڑا گناہ بیان کیا گیا جس کی سزا موت مقرر کی گئی ہے۔
    ’’تو مرد کے ساتھ صحبت نہ کرنا جیسے عورت سے کرتا ہے۔ یہ نہایت مکروہ کام ہے۔ ‘‘
    (احبار، باب 18، آیت 22 )
    ’’اگر کوئی مرد سے صحبت کرے جیسے عورت سے کرتے ہیں تو اُن دونوں نے نہایت مکرُوہ کام کِیا ہے۔ سو وہ دونوں جان سے مارے جائیں۔ اُن کا خُون اُن ہی کی گردن پر ہوگا۔‘‘
    (احبار ، باب 20، آیت13 )
    قرآن کریم میں اس بارہ میں فرمایا گیا ہے کہ
    ’’اور تم میں سے وہ دو مرد جو اس (بے حیائی ) کے مرتکب ہوئے ہوں انہیں (بدنی) سزادو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں تو ان سے اِعراض کرو۔ یقینا اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) باربار رحم کرنے والاہے۔‘
    (النّسآء آیت نمبر 17)
    (ویسے مجھے لگتا نہیں کوہی اتنا لمبا لکچر پڑھے
    :hasna: :hasna: )
     
  2. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    السلام علیکم زمرد رفیق !
    ماشاءاللہ بہت اچھا تحقیقی مضمون ارسال کیا ہے۔
    اگر بائیبل کے کتابوں کا ریفرنس اردو کی بجائے انگریزی میں بھی لکھ دیا جائے تو مجھے حوالہ جات ڈھونڈنے میں آسانی ہوجائے گی ۔ کیونکہ میرے پاس اردو نہیں بلکہ انگریزی کی بائیبل ہے۔
    آپ کا بہت شکریہ !
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم بھائی زمرد رفیق صاحب۔
    آپ کا مضمون بہت اچھا ہے۔ حقیقت کے قریب تر ہے۔
    لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مضمون آپ مذہبی عیسائیوں سے ہی ڈسکس کر سکتے ہیں وگرنہ 90 فیصد سے زائد عیسائی دنیا تو اس وقت مذہب سے بہت دور ہو کر “فری سوسائٹی“ بن چکی ہے۔ اور خود بائیبل اور گوسپل کے حوالے بھی انکے نزدیک “دقیانوسی خیالات“ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ بلکہ وہ مذہب پر بدکلامی تک بھی کرتے ہیں۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    آخر میں مضمون کو اختتام میں لاکر کچھ نچوڑ لکھنا چاہیئے تھا آپ کو۔ جیسے اختتامی کلمات ۔ یا ان سب دلائل و حوالہ جات سے مضمون نگار اپنے قارئین کو کس نکتے پر لانا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔ آخر میں کچھ تشنگی سی محسوس ہوئی ہے۔

    لیکن مجموعی طور پر آپ کو اس محنت شاقہ پر بہت مبارکباد ۔
    اور اسے ہماری اردو پر شئیر کرنے پر بہت بہت شکریہ ۔
     
  4. زمردرفیق
    آف لائن

    زمردرفیق ممبر

    شمولیت:
    ‏20 فروری 2008
    پیغامات:
    312
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    یار نعیم ایک بات کہو برا نہ مانا
    اففف یار میری ہر لڑی یا تحریر میں تم نے مجھے تنقید کا نشانہ بنانا ہے وجہ تو بیان کرو
    مذاق والے لہجے میًں پوچھ رہا ہوں :hasna:
     
  5. زمردرفیق
    آف لائن

    زمردرفیق ممبر

    شمولیت:
    ‏20 فروری 2008
    پیغامات:
    312
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    زاہرا،،،،،،،،سوری میں آپ کی خواہش پوری نہیں کر سکتا وجہ پتہ کیا ہے :suno: میں نے یہ کسی دوسرے بندے کا نقل کیا ہے :baby:
     
  6. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    ماشاءاللہ۔ کافی تحقیق سے یہ مضمون تیار کیا گیا ہے۔
    زمرد رفیق بھائی ۔ اتنا معلوماتی مضمون یہاں نقل کرنے پر بہت شکریہ
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    زمرد رفیق بھائی ۔ میں معافی چاہتا ہوں اگر آپ کو میرے پیغامات سے کچھ تنقید محسوس ہوئی ہے تو۔ میرا مقصد ایسا ہرگز نہیں تھا۔ بلکہ میں نے اپنے پیغام میں آپکے مضمون میں دو یا زائد مرتبہ تعریف بھی کی اور شکریہ بھی ادا کیا۔ لیکن اسکے حسن کو مزید بڑھانے کے لیے مجھ ناچیز کے ذہن میں ایک بات آگئی تھی ۔ سو عرض کردی۔

    اور ہاں ۔۔ ہماری اردو پر “تو اور تم “ کہنے کا ماحول نہیں ہے۔ بہت سارے دوستوں کے درمیان لنگوٹیے دوستوں سے بھی زیادہ بےتکلفی ہے لیکن ہم اخلاقی معیار کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو آپ کہہ کر ہی بلاتے ہیں۔

    اگر میری بات بری لگی ہو تو ایک بات پھر معذرت قبول فرمائیے۔ شکریہ
     
  8. لاحاصل
    آف لائن

    لاحاصل ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2006
    پیغامات:
    2,943
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    میرے دل کی بات کہی
     
  9. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    زمرد بھائی ۔ آپ کا ارسال کردہ مضمون واقعی بہت معلوماتی ہے۔
    کم از کم میرے علم میں تو بہت سارا اضافہ ہوا ہے۔ کافی نئی باتیں خصوصاً دونوں‌مذاہب کے حوالے سے سامنے آئی ہیں۔
     
  10. زمردرفیق
    آف لائن

    زمردرفیق ممبر

    شمولیت:
    ‏20 فروری 2008
    پیغامات:
    312
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    شکریہ عقرب پڑھنے
    :tv:
     
  11. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    امید ہے کہ سب ساتھی بخیر و عافیت ہونگے

    ماشاء اللہ بہت ہی معلوماتی مضمون شئیر کیا ہے آپ نے، یہاں کسی نے بائبل کے حوالہ جات کو انگریزی میں پیش کرنے کی رائے دی ہے تو میں اس سلسلے میں‌ تمام حوالہ جات کے انگریزی میں نام پیش کر رہا ہوں ۔

    قرآن کریم کے حوالہ جات تو الحمد للہ بحثیت مسلم سب کو ہی معلوم ہیں اس لیے میں محض بائبل کے حوالہ جات کی تفصیل بتا رہا ہوں ۔

    لیکن اس سے پہلے بتانا چاہتا ہوں کہ بائبل کہتے کس کو ہیں۔

    جس طرح مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید ہے اس طرح عیسائیوں کی انجیل، یہود کی تورات اور زبور ۔۔۔۔۔۔

    مگر عیسائیوں کے پاس جو کتاب ہوتی ہے اس کے عام طور پر دو حصے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
    مکمل کا نام ۔ بائبل

    1۔ پہلے حصے کا نام عہد نامہ عتیق (قدیم)

    اس کے اندر پہلی پانچ کتابیں تورات کی ہیں جن کے نام یہ ہیں۔

    ایک۔ کتاب پیدائشGenesis
    دو۔کتاب خروجExodus
    تین۔ کتاب احبار Leviticus
    چار۔ کتاب اعدادNumbers
    پانچ ۔ کتاب استشناءDeuteronomy

    اس کے علاوہ اس قدیم حصے میں دیگر انبیاء کرام پر نازل ہونے والے صحائف بھی شامل ہیں اور زبور یعنی Psalms بھی اسی پرانے حصے میں شامل ہے ۔۔۔ پھر ان تمام کتابوں کی اپنی اپنی تفصیلات ہیں پھر کبھی ان شاء اللہ موقع ملا تو بتاؤں گا۔

    2۔دوسرے حصے کا نام عہد نامہ جدید
    اس حصہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب انجیل مقدس اور ان کے حواریوں کے لکھے ہوئے تبلیغی خطوط ہیں ۔۔۔۔۔ انجیلیں چار ہیں جن کے نام یہ ہیں

    انجیل متیMatthew
    انجیل مرقسMark
    انجیل لوقاLuke
    انجیل یوحنا John


    مذکورہ بالا مضمون کے اندر سب سے
    پہلا حوالہ ۔
    (احبار، باب 24، آیات16تا22 )
    یہ کتاب احبار ہے یعنی انگریزی میں Leviticus

    دوسرا حوالہ ۔
    (متّی ، باب 5، آیات38تا 48 )
    یہ عہد نامہ جدید کی کتاب متی ہے یعنی Matthew

    تیسرا اور چوتھا حوالہ ۔
    ( احبار، باب 12، آیت 2)
    ( احبار، باب 12، آیت 5)
    یہ بھی پہلے حوالے کی طرح کتاب احبار یعنی Leviticus

    پانچواں حوالہ ۔
    (پیدائش، باب 3، آیت16 )
    یہ کتاب پیدائش یعنی Genesis

    چھٹا، ساتواں، آٹھواں اور نواں حوالہ ۔
    (اِستِثنا، باب 22آیت5 )
    (اِستِثنا، باب 23، آیت2)
    (اِستِثنا، باب 27، آیت26)
    (اِستِثنا، باب 20آیات 10تا20 )
    یہ عہدنامہ قدیم کی پانچویں کتاب یعنی استشناءDeuteronomy


    دسواں حوالہ ۔
    (احبار، باب 21، آیت9 )
    یہ عہدنامہ قدیم کی تیسری کتاب Leviticus سے ہے

    گیارہواں حوالہ ۔
    (اِستِثنا، باب 22آیات20تا24 )
    یہ عہدنامہ قدیم کی پانچویں کتاب یعنی استشناءDeuteronomy

    بارہواں اور تیرہواں حوالہ ۔
    (احبار، باب 18، آیت 22 )
    (احبار ، باب 20، آیت13 )
    یہ عہدنامہ قدیم کی تیسری کتاب Leviticus سے ہے



    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اس طرح تمام حوالاجات مکمل ہوئے
    اللہ تعالیٰ کمی بیشی معاف فرمائے ۔۔۔

    مزید بائبل کو انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے ربطِ ذیل پر دیکھیں۔
    http://quod.lib.umich.edu/k/kjv/browse.html


    خوش رہیں
     
  12. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    زمرد رفیق صاحب اور نوید صاحب
    اتنی مفید معلومات فراہم کرنے پر بہت شکریہ ۔

    نوید صاحب ۔ میری رائے ہے کہ آپ بائبل پر مبنی معلومات میں کچھ مزید اضافہ کرکے اسے الگ سے ایک مضمون کے طور پر بھی پوسٹ کردیں تاکہ ضرورت پڑنے پر براہ راست استفادہ کیا جاسکے۔

    شکریہ
     
  13. زمردرفیق
    آف لائن

    زمردرفیق ممبر

    شمولیت:
    ‏20 فروری 2008
    پیغامات:
    312
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نوید بھاہی زبردست کام کر دیا آپ نے اسکے لیے میں آپکا شکور ہون :87:
     
  14. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    محترم آپ اگر یہاں اس مضمون کے ساتھ میرا نام لکھ دیتے تو زیادہ بہتر تھا۔
    کیونکہ یہ مضمون میں نے ہی لکھا تھا اور اسے میری اردو پر پوسٹ کیا تھا۔اور اگر فخر نوید کو یاد ہو تو وہ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہے۔کیونکہ میری اردو انہوں نے ہی بنائی تھی۔اس مضمون کا دوسرا حصہ ابھی میں لکھ ہی رہا تھا کہ کچھ وجوہات کی بناء پر میری اردو بند ہو گئی۔اور یوں یہ مضمون تشنہ لب رہ گیا۔
    لیکن خیر آپ کا شکریہ کہ آپ نے اس مضمون کے ساتھ اپنا نام نہیں لگایا اور بتا دیا کہ یہ کسی کا لکھا ہوا ہے۔
    جہاں تک بات ہے زاہرا بہن کی تو بائیبل کے اگر انگلش چیپٹرز دیتا تو ہمارے اردو پڑھنے والے بھائیوں کو شاید سمجھ نہیں آتی۔اس لئے اردو ورشن کے چیپٹرز کا حوالہ دیا۔کیونکہ یہ مضمون انگریزوں کے لئے نہیں صرف اردو سپیکنگ کے لئے تھا۔:dilphool:
     
  15. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    مضمون لکھنے والے پوسٹ کرنے والے نقل کرنے والے نقل کرکے بتانے والے اور اس پہ خوش ہونے والے کہ ان کے مضمون کو اپنا کہہ کے پوسٹ نہیں کیا گیا سب کا شکریہ اس مفید شئیرنگ کے لئے
     
  16. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2009
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاء اللہ مضمون نہایت عمدہ تھا۔ نعیم بھائی نے جس چیز کی نشاندہی کی تھی وہ درست ہے۔
    اسی موضوع کے اوپر علامہ اسد کی ایک کتاب Islam at crossroad ہے جس کا اردو ترجمہ "اسلام اور مغرب" کے نام سے شائع ہوا ہے۔ آپ اس کا مطالعہ ضرور کیجئے گا۔ اور ممکن ہو تو اس کا مختصر تجزیہ بھی فارم پر پوسٹ کیجئے گا۔ جزاک اللہ
     
  17. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    خوشی جی،
    مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ آپ کو نقل کرنا برا لگا،نقل کر کے بتانا برا لگا یا اپنا نام نہ لکھنے پر خوشی محسوس کرنا برا لگا۔
    آپ نے شاید خود محسوس کیا ہو یا نہیں کہ دانستہ یا نادانستہ آپ نے طنزیہ انداز اختیار کیا ہے۔اور میرے خیال میں میری پوسٹ میں ایسی کوئی بات نہیں کہ جس پر طنز کیا جائے۔
    اس سے پہلے بھی بیشتر موقعوں پر میرے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔جبکہ میری جوابی بات پر ہمیشہ آپ برداشت کا دامن چھوڑ دیتی ہیں۔یوں مجھے مجبورا اس لڑی کو اس لئے چھوڑنا پڑتا رہا کہ کہیں بات بڑھ کر جھگڑے یا چپقلش تک نہ پہنچ جائے۔
    اور ویسے بھی اگر کچھ ایسا ہوتا تو آپ کی ہی طرف داری کی جاتی کیونکہ ہمیشہ میل کے مقابلے میں فی میل کو زیادہ سپورٹ کیا جاتا ہے۔اور آپ ساتھ میں ہماری اردو کی ایکٹو ترین ممبر بھی ہیں یوں بھی مجھے اپنی عزت بچانے کے لئے ایسا کرنا پڑتا رہا۔
    مجھے ایسی باتوں کی کبھی پرواہ نہیں رہی مگر بات کر کے برداشت نہ کیا جائے تو ضرور برا لگتا ہے۔اب اگر میں یہاں مذاق میں بھی آپ کے اس جواب کا جواب دیتا تو آپ یقینا یہ کہتیں کہ میں تو مجبوری کے تحت آپ جیسے لوگوں سے بات کرتی ہوں۔یہاں آپ جیسے لوگوں سے کیا مراد ہے یہ بھی آپ ہی بخوبی جانتی ہوں گی۔
    برائے مہربانی یا تو بات کر کے برداشت کا رویہ اپنائیں یا کم از کم لڑی کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اس کا جواب دیا کریں۔
    میں آپ کا بے حد احترام کرتا ہوں بلکہ تمام فی میلز کا احترام کرتا ہوں۔جبکہ اس کے بر عکس اگر آپ کو میرے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھنا ہے اور جواب میں میں یہ کروں کہ آپ کی تعریفوں کے پل باندھنے لگ جاؤں تو میری زندگی میں کبھی میں نے ایسا نہیں کیا۔جو جتنا قابل ہے اس کی اتنی ہی عزت کرتا ہوں اور اتنا ہی اسے احترام دیتا ہوں۔
    ہاں اگر آپ کو میرا یہاں آنا اچھا نہیں لگتا تو میں خوش دلی کے ساتھ ہماری اردو چھوڑنے کو تیار ہوں۔
    امید ہے آپ میری باتوں کا برا نہیں منائیں گی اور نہ دلبرداشتہ ہوں گی۔میرا مقصد صرف اس بات کی جانب توجہ مبذول کروانا ہے کہ جب کسی کو کوئی بات کی جاتی ہے تو وہ بھی جوابا کوئی ویسی ہی بات کرتا ہے۔یا تو برداشت کا رویہ اپنایا جائے یا ویسی بات کرنے سے ہی گریز کیا جائے۔
    شکریہ
     
  18. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    وقاص جی اگر آپ نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے تو آپ ہی کچھ نچوڑ لکھ ڈالیں۔۔۔۔۔۔کیونکہ اب اگر کوئی نئے سرے سے پڑھ کر نچوڑ لکھے تو شاید ایسا ممکن نہ ہو سکے۔
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم علی عمران بھائی ۔
    سب سے پہلے تو اتنی محنت اور دقیق النظری سے ایک تقابلی مضمون تحریر فرمانے کا بہت شکریہ ۔ آپکی وسعت مطالعہ قابل داد ہے۔ ماشاءاللہ ۔
    یقینا مجھ سمیت اس فورم پر آنے والے بہت سے رجسٹرڈ و غیر رجسٹرڈ صارفین و قارئین نے اسے پڑھا اور اس سے کچھ سیکھا ہوگا۔ اور فروغ علم کا یہ مظہر آپکے نامہء اعمال میں گراں قدر اضافہ ہے۔ اور مجھ سمیت بہت سے قارئین یقینا آپکے لیے دعا گو بھی ہیں۔

    دوسرے ۔۔۔۔ آپ سے عرض یہی کرنا تھی کہ براہ کرم فورم پر کسی ایک دوست کے رویے (خواہ وہ کتنا ہی سنئیر کیوں نہ ہو) ایک محبتوں بھری بزم کو چھوڑ جانے کا ارادہ ظاہر کردینا کچھ معقول اور دانشمندانہ خیال نہیں لگا۔ براہ کرم آپ ہماری اردو کے معزز اور محترم صارف ہیں اور سنجیدہ موضوعات پر آپکی تحریریں ہمیشہ بامقصد ہوتی ہیں ۔ اور کسی موضوع پر بھرپور قلم کشائی کرکے اسے دوسروں تک پہنچانا ایک خداداد صلاحیت ہوتی ہے جو نصیبوں والوں کو ملتی ہے۔

    وگرنہ میرے جیسے بےعلم تو صرف واہ واہ کے ڈونگرے ہی برسا سکتے ہیں۔ :212:


    میں‌ ایک بھائی ہونے کے ناطے امید کرتا ہوں‌کہ میری گذارش کو شرف رسائی عطا فرمائیں گے۔
    جزاک اللہ


    والسلام
     
  20. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔مگر میری کوشش ہوتی ہے میں بلاوجہ کے جھگڑوں سے بچا رہوں۔
    اور ویسے بھی جہاں جس محفل میں آپ کو کوئی اچھا نہ سمجھے وہاں ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ بیوقوفوں کی طرح منہ اٹھا کر بتیسی نکالتے ہوئے گھستے چلے جائیں۔
    کم از کم میں تو ایسا نہیں کر سکتا۔
     
  21. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    بہت بہت شکریہ نعیم بھائی۔یہ سب میرے والد صاحب کی ہم پر کی گئ محنت کا نتیجہ ہے۔انہوں نے ہمیں ایک بات سمجھائی کہ بیٹا علم کبھی پیسہ کمانے کے لئے حاصل مت کرنا۔
    دنیا میں صرف دو ہی چیزیں ہیں۔
    نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں
    ناممکن۔۔۔۔۔۔۔۔ممکن
    اور ان کے درمیان کا فاصلہ صرف تعلیم سے ہی طے کیا جا سکتا ہے۔ان پڑھ اور جاہل شخص نہیں اور ناممکن کو دیکھ کر رک جاتا ہے۔
     
  22. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2009
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    leopold wesis جو بعد ازاں ایک معروف اسلامی سکالر محمد اسد کےنام سےجانے جاتے ہیں ، سن انیس سو میں ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ محمد اسد کے والد یوکرائین سے ہجرت کر کے ویانا آباد ہوئے ۔ محمد اسد نے اپنی ابتدائی زندگی ویانا میں بسر کی تاہم نوجوانی میں ویانا کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ گئے۔
    پھر یروشلم میں جا بسے اور وہاں شیخ مصطفی کے توصل سے اسلام سے متعارف ہوٕٕئے۔ پھر تعلیم و تحقیق کے لٕئے آپ نے دنیا کے بیشتر ممالک کا دورہ کیا۔ برصغیر میں آپ کا رابطہ علامہ اقبال اور مولانا مودودیٌ :ra: جیسی شخصیات کے ساتھ رہا۔ا آپ اقوام متحدہ کے سفیر بھی رہے۔ لیکن اپنی ادبی اور مذہبی زندگی کی تکمیل کے لئے انہوں نے سفیر کا عہدہ چھوڑ دیا ۔ محمد اسد کی شہرہ آفاق کتابوں میں روڈ ٹو مکہ سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔ انہوں نے قران کا انگریزی ترجمہ بھی کیا۔ اور مکمل تفسیر بھی تصنیف کی۔
    اپنی زندگی کے آخری دن انہوں نے پورپ میں گزارے ۔ ان کا انتقال سن انیس سو بانوے میں، جنوبی سپین کے شہر اندلس میں ہوا، اور اسد کو ملاگا کے مسلمان قبرستان میں دفن کیا گیا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں