1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلامی ملک میں غیر مسلم کو عہدہ دینے کا حکم

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏29 ستمبر 2020۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    شریعت مطہرہ کی تعلیمات کے مطابق کسی بھی کافر کو مسلمان پر ولایت حاصل نہیں ہے، اور کافروں کے ساتھ میل، محبت اور قریبی تعلقات قائم کرنے کی ممانعت قرآن وحدیث میں وارد ہے، اور انہیں اپنا معتمد یا مشیر بنانے سے روکا گیا ہے، لہذا قرآن وحدیث کی روشنی میں مفسرین، محدثین اور فقہاء نے صراحت کی ہے کہ مسلمان حکومت میں کسی بھی کافر کو خواہ وہ ذمی ہی کیوں نہ ہو کسی قسم کا عمومی سرکاری عہدہ دینا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ سرکاری عہدہ دینے کا مطلب ان کو مسلمانوں پر ولایت دینا ہے جو ناجائز ہے، اسی طرح عہدہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اپنا امین، معتمد اور خاص بنایا گیا جس سے قرآن کریم میں صراحتاً منع کیا گیا ہے، اور سرکاری عہدہ دینے میں حکومتی اور مملکتِ اسلامیہ کے معاملات میں ان سے بسا اوقات مشورہ بھی کیا جائے گا اور وہ قومی وملکی رازوں سے بھی واقف ہوں گے جس سے ملک، ملت اور ریاست کو قوی نقصان کا اندیشہ ہے۔

    قرآن مجید میں ہے:
    ﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ [اٰل عمران:118]

    ترجمہ : اے ایمان والو ! اپنے سوا کسی کو صاحبِ خصوصیات مت بناؤ ، وہ لوگ تمہارے ساتھ فساد کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے، تمہاری مضرت کی تمنا رکھتے ہیں، واقعی بغض ان کے منہ سے ظاہر ہو پڑتا ہے اور جس قدر ان کے دلوں میں ہے وہ تو بہت کچھ ہے، ہم علامات تمہارے سامنے ظاہر کرچکے اگر تم عقل رکھتے ہو ۔ (بیان القران)

    مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

    "اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی ملت والوں کے سوا کسی کو اس طرح کا معتمد اور مشیر نہ بناؤ کہ اس سے اپنے اور اپنی ملت و حکومت کے راز کھول دو ، اسلام نے اپنی عالم گیر رحمت کے سایہ میں جہاں مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ ہمدردی، خیر خواہی، نفع رسانی اور مروت و رواداری کی غیر معمولی ہدایات فرمائی ہیں اور نہ صرف زبانی ہدایات بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام معاملات میں اس کو عملی طور پر رواج دیا ہے وہیں عین حکمت کے مطابق مسلمانوں کی اپنی تنظیم اور ان کے مخصوص شعائر کی حفاظت کے لیے یہ احکام بھی صادر فرمائے کہ قانونِ اسلام کے منکروں اور باغیوں سے تعلقات ایک خاص حد سے آگے بڑھانے کی اجازت مسلمان کو نہیں دی جاسکتی کہ اس سے فرد اور ملت دونوں کے لیے ضرر اور خطرے کھلے ہوئے ہیں۔ اور یہ ایسا صریح، معقول، مناسب اور ضروری انتظام ہے جس سے فرد اور ملت دونوں کی حفاظت ہوتی ہے، جو غیر مسلم اسلامی مملکت کے باشندے ہیں یا مسلمانوں سے کوئی معاہدہ کیے ہوئے ہیں ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور ان کی حفاظت کے لیے انتہائی تاکیدات اسلامی قانون کا جز ہیں، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :

    "من آذی ذمیاً فأنا خصمه، و من کنت خصمه خصمته یوم القیامة". (عن ابن مسعود)

    " جس شخص نے کسی ذمی کو ستایا تو قیامت کے روز اس کی طرف سے میں دعوے دار بنوں گا، اور جس مقدمہ میں میں دعوے دار ہوں تو میں ہی غالب رہوں گا قیامت کے دن ".

    ایک دوسری حدیث میں فرمایا :

    «منعني ربي أن أظلم معاهداً ولا غیره".(عن علی)

    " مجھے میرے پروردگار نے منع فرمایا ہے کہ میں کسی معاہد یا کسی دوسرے پر ظلم کروں ".

    ایک اور حدیث میں فرمایا :

    «ألا من ظلم معاهداً أونتقصه أو کلفه فوق طاقته أو أخذ منه شیئاً بغیر طیب نفس منه فأنا حجیجه یوم القیامة".

    " خبردار جو کسی غیر مسلم معاہد پر ظلم کرے، یا اس کے حق میں کمی کرے یا اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے، یا اس سے کوئی چیز بغیر اس کی دلی رضامندی کے حاصل کرے تو قیامت کے روز میں اس کا وکیل ہوں گا ".

    لیکن تمام مراعات کے ساتھ مسلمانوں کی اپنی جماعت اور ملت کی حفاظت کے لیے یہ ہدایات بھی دی گئیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو اپنا گہرا دوست اور رازدار معتمد نہ بنایا جائے۔

    ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے کہ فاروقِ اعظم حضرت عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) سے کہا گیا کہ یہاں ایک غیر مسلم لڑکا ہے جو بڑا اچھا کاتب ہے، اگر اس کو آپ اپنا میر منشی بنالیں تو بہتر ہو! اس پر فاروقِ اعظم نے فرمایا :

    "قد اتخذت إذاً بطانة من دون المؤمنین" ۔

    یعنی اس کو میں ایسا کروں تو مسلمانوں کو چھوڑ کر دوسرے ملت والے کو راز دار بنالوں گا جو نصِ قرآن کے خلاف ہے "۔

    امام قرطبی جو پانچویں صدی کے مشہور عالم اور مفسر ہیں بڑی حسرت اور درد کے ساتھ مسلمانوں میں اس تعلیم کی خلاف ورزی اور اس کے نتائجِ بد کا بیان اس طرح فرماتے ہیں :

    "وقد انقلبت الأحوال في هذه الأزمان باتخاذ أهل الکتاب کتبةً وأمناء، وتسودوا بذلک عند جهلة الأغنیاء من الولاة والأمراء".

    یعنی اس زمانہ میں حالات میں ایسا انقلاب آیا کہ یہود و نصاری کو رازدار اور امین بنالیا گیا، اور اس ذریعہ سے وہ جاہل اغنیاء و امراء پر مسلط ہوگئے "۔

    آج بھی کسی ایسی مملکت میں جس کا قیام کسی خاص نظریہ پر ہو وہاں اس نئی روش کے زمانے میں بھی کسی ایسے شخص کو جو اس نظریہ کو قبول نہیں کرتا، مشیر اور معتمد نہیں بنایا جاسکتا۔ روس اور چین میں کسی ایسے شخص کو جو کمیونزم پر ایمان نہیں رکھتا ہو، کسی ذمہ دار عہدہ پر فائز نہیں کیا جاتا، اور اس کو مملکت کا رازدار اور مشیر نہیں بنایا جاتا، اسلامی مملکتوں کے زوال کی داستانیں پڑہیے تو زوال کے دوسرے اسباب کے ساتھ بکثرت یہ بھی ملے گا کہ مسلمانوں نے اپنے امور کا رازدار و معتمد غیر مسلموں کو بنا لیا تھا، سلطنتِ عثمانی کے زوال میں بھی اس کو کافی دخل تھا۔

    آیتِ مذکورہ میں اس حکم کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے ﴿لَا یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًا﴾ یعنی "وہ لوگ تمہیں وبال و فساد میں مبتلا کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں رکھتے، اور تمہارے دکھ پہنچنے کی آرزو رکھتے ہیں، بعض تو ان کی زبانوں سے ظاہر ہو پڑتا ہے، اور جو کچھ وہ اپنے دل میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اور بھی بڑھ کر ہے، ہم تو تمہارے لیے نشانیاں کھول کر ظاہر کرچکے ہیں، اگر تم عقل سے کام لینے والے ہو"۔

    مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ مسلمان اپنے اسلامی بھائیوں کے سوا کسی کو بھیدی اور مشیر نہ بنائیں؛ کیوں کہ یہود ہوں یا نصاری، منافقین ہوں یا مشرکین، کوئی جماعت تمہاری حقیقی خیر خواہ نہیں ہوسکتی، بلکہ ہمیشہ یہ لوگ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ تمہیں بے وقوف بناکر نقصان پہنچائیں اور دینی و دنیوی خرابیوں میں مبتلا کریں، ان کی آرزو یہ ہے کہ تم تکلیف میں رہو اور کسی نہ کسی تدبیر سے تم کو دینی یا دنیوی ضرر پہنچے، جو دشمنی یا ضرر ان کے دلوں میں ہے وہ تو بہت ہی زیادہ ہے، لیکن بسا اوقات عداوت، غیظ و غضب سے مغلوب ہو کر کھلم کھلا بھی ایسی باتیں کر گزرتے ہیں جو ان کی گہری دشمنی کا صاف پتا دیتی ہیں، مارے دشمنی اور حسد کے ان کی زبان قابو میں نہیں رہتی، پس عقل مند آدمی کا کام نہیں کہ ایسے دشمنوں کو راز دار بنائے، خدائے تعالیٰ نے دوست دشمن کے پتے اور موالات کے احکام بتلا دیے ہیں، جس میں عقل ہوگی اس سے کام لے گا"۔(معارف القرآن )
     

اس صفحے کو مشتہر کریں