1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

"اسلامی" بینکاری پر اہم کتب

'متفرق' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏22 جنوری 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    "اسلامی" بینکاری پر اہم کتب
    ہمارے نزدیک "اسلامی" بینکاری بالکل ہی غلط بنیادوں پر قائم کی گئی ہے اور اسی لیے جزوی تبدیلیوں سے اس کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔ اس موضوع پر پہلے بھی کئی مرتبہ تفصیلی گزارشات پیش کی گئی ہیں۔ کئی احباب کا مطالبہ ہے کہ اس موضوع پر اہم کتب کا تعارف کروایا جائے۔ میں یہاں استاد محترم پروفیسر عمران احسن خان نیازی صاحب کی ان تحریرات کا ذکر کروں گا جو "اسلامی" بینکاری کے متعلق ہمارے مؤقف کے فہم کے لیے اہم ہیں۔

    سب سے پہلے تو مسئلہ ”اصولی“ ہے
    ”اسلامی“ بینکاری اور ربا کے متعلق اسلامی قانون کے احکام کے استنباط کے لیے معاصر اہلِ علم نے جو طریقِ کار اختیار کیا وہ اصولِ فقہ کی رو سے محلِ نظر ہے، بلکہ اصولِ فقہ کے متعلق کئی بنیادی غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ ان غلطیوں کی توضیح کے لیے، اور فقہائے کرام کے منہج کے صحیح فہم کے لیے، سب سے اہم کتاب Theories of Islamic Law: The Methodology of Ijtihad ہے۔ یہ کتاب پہلی دفعہ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی اور عالمی ادارۂ فکرِ اسلامی نے 1994ء میں شائع کی۔ یہ کتاب اصولِ فقہ اور فلسفۂ قانون کے بہت ہی اہم مباحث پر مبنی ہے، بالخصوص وہ ابواب جہاں استاد محترم نے "اہل رائے" کے منہج کی توضیح کی ہے اور پھر جہاں "مقاصدِ شریعت" کے نظریے کی تشکیل پر تفصیلی بحث کے علاوہ اس کے اطلاق کی صحیح تفہیم کی ہے۔ یہ ابواب ہضم ہو جائیں تو نہ صرف "اسلامی" بینکاری کے قائلین، بلکہ بالعموم معاصراہلِ علم کے مناہج میں موجود مسائل کا فہم آسان ہو جاتا ہے۔
    اصولی مسائل کی توضیح کے لیے ایک اور اہم کتاب Islamic Jurisprudence کے وہ ابواب پڑھنے بھی ضروری ہیں جہاں نیازی صاحب نے ”فقیہ کے لیے اسلامی قانون کے مآخذ“ پر بحث کی ہے۔ یہ بحث قرآن، سنت، اجماع اور قیاس پر کی جانے والی عمومی بحث سے مختلف ہے اور دراصل فقہائے کرام کے اس منہج کی توضیح کے لیے پیش کی گئی ہے جس کے بنیادی خدوخال Theories of Islamic Law میں پیش کیے گئے تھے۔ یہ کتاب پہلی دفعہ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی اور عالمی ادارۂ فکرِ اسلامی نے 2000ء میں شائع کی۔ اس بحث کی مزید تفصیلی توضیح نیازی صاحب نے ایک اور کتاب Following A Madhhab and Rules for Issuing Fatwas میں کی ہے جو پہلی دفعہ فیڈرل لا ہاؤس، اسلام آباد ، نے 2013ء میں شائع کی اور اصولِ فقہ پر نیازی صاحب کی کتب کے سلسلے Secrets of Usul al-Fiqh کا حصہ ہے۔ اس کتاب میں تلفیق، یعنی ”فقہی اچار“ بنانے کے منہج ، پر بھی تفصیلی تنقید ملے گی ۔


    اصولی مباحث کے بعد ”اسلامی“ بینکاری کے متعلق بعض اہم فقہی و قانونی مسائل کی تفہیم کے لیے جو ترتیب عام طور پر میں اختیار کرتا ہوں وہ یہ ہے:
    عقد، مال، ملکیت، قبضہ اور بیع کے تصورات کی توضیح کے لیے نیازی صاحب کی کتاب Outlines of Islamic Jurisprudence سے متعلقہ ابواب؛ یہ کتاب پہلی دفعہ ایڈوانسڈ لیگل اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ، اسلام آباد، نے 1998ء میں شائع کی۔

    اسلامی قانون میں منافع، یعنی ”ربح“، کے تصور کی وضاحت کے لیے نیازی صاحب کی کتاب Partnerships in Islam کا باب ”Basis for Entitlement to Profit“؛ اس باب سے ربا کے متعلق اسلامی قانون کے سب سے اہم اصول ”الخراج بالضمان“ کا واضح تصور سامنے آ جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت سارے پیچیدہ مسائل کا آسان حل مل جاتا ہے۔ یہ کتاب پہلی دفعہ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی اور عالمی ادارۂ فکرِ اسلامی نے Islamic Law of Business Organization: Partnerships کے عنوان سے 1998ء میں شائع کی۔
    ان بنیادی تصورات اور مباحث کی وضاحت کے بعد سب سے اہم تصور ”ربا“ پر بحث کی باری آتی ہے۔ اس کے لیے نیازی صاحب کی معرکہ آرا کتاب The Concept of Riba and Islamic Banking پوری کی پوری (کئی دفعہ) پڑھنی ہ وگی۔ یہ کتاب پہلی دفعہ نیازی پبلشنگ ہاؤس نے 1997ء میں شائع کی ۔ کچھ عرصہ قبل فیڈرل لا ہاؤس، اسلام آباد، نے اس کا نیا – اور نسبتاً تسہیل شدہ، ایڈیشن The Prohibition of Riba Elaborated کے عنوان سے شائع کیا ہے۔
    (یہاں تک پہنچنے کے بعد ضروری ہو جاتا ہے کہ آدمی فقہائے کرام کی کتب کا براہِ راست مطالعہ بھی کرے اور اس ضمن میں اپنے طلبہ کو میں بالعموم امام سرخسی کی المبسوط سے کتاب البیوع اور کتاب الصرف کے بعض منتخب ابواب؛ اور امام کاسانی کی بدائع الصنائع سے کتاب البیوع کے بعض منتخب ابواب اور کتاب القرض پوری پڑھنے کے لیے کہتا ہوں۔)

    اس کے بعد مشارکت اور مضاربت کے متعلق اسلامی قانون کے اصولوں کی صحیح تفہیم کے لیے نیازی صاحب کی کتاب Partnerships کے متعلقہ ابواب کا مطالعہ بہت مفید ہے کیونکہ ”اسلامی“ بینکار عموماً ان تصورات کا نام استعمال کرتے ہیں لیکن ان اصولوں کی پابندی نہیں کرتے۔

    اس کے بعد خاصے کی چیز نیازی صاحب کی مختصر کتاب Murabahah and the Credit Sale ہے جس میں انھوں نے تفصیل سے واضح کیا ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے مرابحہ کے اصول کیا ہیں اور ”اسلامی“ بینکاری میں رائج مرابحہ کس طرح ان اصولوں کو پامال کرتا ہے۔ یہ کتاب پہلی دفعہ ایڈوانسڈ لیگل اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ نے 2009ء میں شائع کی۔
    یہاں تک پہنچنے کے بعد ضروری ہو جاتا ہے کہ ”اعتباری شخصیت“ اور ”محدود ذمہ داری“ کے تصورات کی بھی صحیح توضیح کی جائے کیونکہ ہر بینک، خواہ وہ ”اسلامی“ ہو ، قانون کی نظر میں ایک ”کمپنی“ یا ”کارپوریشن“ ہے جسے قانون اعتباری شخصیت عطا کرتا ہے اور اس کے شیئر ہولڈرز کی ذمہ داری محدود ہوتی ہے۔ ان دونوں تصورات – اعتباری شخصیت اور محدود ذمہ داری – کے متعلق ”اسلامی“ بینکاری کے قائلین کئی بنیادی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں۔ یہ غلط فہمیاں کیسے دور کی جاسکتی ہیں اور کیا اعتباری شخصیت اور محدود ذمہ داری کے تصورات میں ایسی تبدیلیاں ممکن ہیں، جن کے بعد وہ اسلامی قانون سے متصادم نہ رہیں؟ ان سوالات کے جواب کے لیے نیازی صاحب کی کتاب Islamic Law of Business Organization: Corporations کا مطالعہ بہت ضروری ہے جسے پہلی دفعہ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی اور عالمی ادارۂ فکرِ اسلامی نے 1998ء میں شائع کیا۔ آج کل فیڈرل لا ہاؤس، اسلام آباد، اسے Corporations in Islam کے عنوان سے شائع کر رہا ہے۔
    ماضیِ قریب میں ان سارے مباحث کا خلاصہ نیازی صاحب نے چار مختصر تحریرات میں پیش کیا ہے:
    Islamic Banking is Haram An Open Letter to Islamic Bankers and Economists Riba and Dar al-Islam
    اور
    The Islamic Banking Industry and Its Dubious Claims

    یہ چاروں تحریرات سوشل سائنسز ریسرچ نیٹ ورک کی ویب سائٹ (www.ssrn.com) پر نیازی صاحب کے صفحے پر دستیاب ہیں۔ دیگر کتب بھی، جو اوپر ذکر کی گئیں، اس صفحے پر یا نیازی صاحب کی اپنی ویب سائٹ (www.nyazee.org) پر دستیاب ہیں، جہاں سے وہ مفت ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں۔


    ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
    ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبۂ قانون کے چیئرمین ہیں ۔ ایل ایل ایم کا مقالہ بین الاقوامی قانون میں جنگِ آزادی کے جواز پر، اور پی ایچ ڈی کا مقالہ پاکستانی فوجداری قانون کے بعض پیچیدہ مسائل اسلامی قانون کی روشنی میں حل کرنے کے موضوع پر لکھا۔ افراد کے بجائے قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں اور جبر کے بجائے علم کے ذریعے تبدیلی کے قائل ہیں۔
    22/01/2017
     
    پاکستانی55 اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    اسلامی بینکاری اور پروفیسر عمران احسن نیازی کی آراء

    فقہ، اصول فقہ اور اسلامی قانون میں پروفیسر ڈاکٹر عمران احسن خان نیازی صاحب کی علمی قابلیت محتاج تعارف نہیں۔ تاہم راقم اس جگہ اسلامی بینکاری سے متعلق اُن کی ایک مختصر تحریر The Islamic Banking Industry and its Dubious Claims پر چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے۔ اس تحریر میں انہوں نے اسلامی بینکاری سے متعلق ایک نجی ٹی وی کے اشتہار کو موضوع بنایا ہے، جس میں نامور عالمِ دین قبلہ مفتی منیب الرحمن صاحب اسلامی بینکاری کا اسلامی ہونا بیان کرتے ہیں۔ قبلہ نیازی صاحب نے مفتی صاحب کے بیان کی تغلیط کی اور اسے یکسر مسترد کیا ہے۔ شخصیات کا احترام اپنی جگہ لیکن علمی اختلاف کی گنجائش بہر طور رہتی ہے۔ راقم کا تجزیہ چند اقساط پر مبنی ہے، جو آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔


    ڈاکٹر عمران احسن خان نیازی صاحب کا دعویٰ :
    سودی بینکوں کے لیے ایک قانون ہے جو عامۃ الناس کی دسترس میں ہے، لیکن اسلامی بینکاری کے لیے کوئی قانون نہیں ہے اور جو ہے، وہ عامۃ الناس کی دسترس میں نہیں ہے۔ اسی طرح اسلامی بینکاری کی پروڈکٹس سے متعلق معلومات عوام کی دسترس میں نہیں ہیں کہ وہ معاملات کے اسلامی ہونے یا نہ ہونے کے متعلق فیصلہ کر سکیں۔

    (پیراگراف نمبر3)

    دعوے کا تجزیہ :
    سودی نظام بینکاری کا قانون بنے اور دنیا میں عام ہوئے صدیاں بیت چکیں، اس میدان میں لوگوں نے تعلیم بھی حاصل کی ہے، اس نظام کی ترویج میں ریاستی وسائل بھی استعمال ہوئے، اس لیے سودی نظام بینکاری کے متعلق ڈیٹا کی پہنچ بہت آسان ہو چکی ہے۔ کیا سودی نظام بینکاری کے ڈیٹا تک یہ آسان رسائی اول دن سے ہے؟ تو جواب نہیں میں ہے ۔ یہ نظام چار صدیوں سے جاری ہے جبکہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے متعارف ہونے سے پہلے عوام تو کیا خواص کو بھی اس کے ڈیٹا اور معلومات تک رسائی نہیں ہوتی تھی۔

    تو گزارش ہے کہ سودی نظام جہاں آج پہنچا ہے، اس کے پیچھے مختلف میدانوں میں انسانی کاوشوں کا ایک انسائیکلوپیڈیا موجود ہے۔ نیز اس نظام سے متعلق قانون وضع کرنے سے لے کر اشاعت تک معاملات اس لیے بھی آسان تھے کہ اس نظام کے مقابلے میں کوئی نظام نہیں تھا، اگر یہ نظام پہلے سے موجود کسی نظام کے متبادل کے طور پر متعارف ہوا ہوتا تو صورت حال موجودہ تناظر سے قدرے مختلف ہوتی، اسی طرح یہ ایک ایسا نظام تھا، جس کے نفاذ کے لیے مذہب سے پوچھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی گئی، اور نہ ہی اس کے قوانین وضع کرنے میں کسی مذہبی جواز کی جھنجٹ میں پڑنا گوارا کیا گیا۔

    اس کے برعکس اسلامی بینکاری نظام کو متعارف ہوئے 40 سال گزرے ہیں، اس میں بھی پہلے 20 سال صرف بنیادی تصور پیش کرنے اور پائلٹ پروجیکٹس کے ہیں، اس کے بعد اس نظام کو مقبولیت حاصل ہوئی، گویا پوری دنیا میں موجود اسلامی بینکاری کی عملی عمر صرف 20 سال ہے، جس میں اس کا عملی بچپن 10 سال کا ہے، پاکستان میں اسلامی بینکاری کا آغاز 2004ء سے ہوا، اس نظام کے وضع ہونے اور عملاً میدان میں آنے کے بعد دو طرح کے سوال پیدا ہونا شروع ہوئے، جن کا تعلق مذہب اور قانون سے تھا کیونکہ سودی نظام بینکاری کے برعکس اسلامی بینکاری نظام کو اپنے جواز کے لیے مذہب سے مہر ِ تصدیق ثبت کرانا بھی ایک لازمی امر تھا۔

    دوسری طرف مذہبی حلقوں میں ایک مسئلہ جدید اقتصادی علوم سے دوری اور نا آشنائی تھا، جس کی بدولت بہت زیادہ دشواری کا سامنا کرنا پڑا، اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مذہبی شخصیات کو پہلے صورت مسئلہ سمجھائی جائے، پھر ان سے رائے لی جائے۔ تواسلامی بینکاری کے ابتدائی ایام میں ڈاکٹر منذر کہف، شیخ مصطفی زرقا ؒ، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، شیخ یوسف القرضاوی، علمائے ازہر، وغیرھم جیسے فقہاء نے جدید علوم کے ماہرین کی مدد سے سودی نظام کو سمجھا اور اسلامی بینکاری نظام کی مبادیات کو شریعت مطہرہ کی روشنی میں وضع کیا۔ 1960ء کی دہائی سے لے کر 1980ء تک کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں تھا، جو اسلامی بینکاری کے لیے الگ سے قانون وضع کرتا کیونکہ یہ ایسا نظام تھا، جس کے لیے مذہب اور جدید اقتصاد کے حامل افراد مل کر ہی قانون بنا سکتے تھے، اکیلے طور پر یہ کسی کے بس کی بات نہیں تھی، اس لیے ان 20 سالوں میں فرد کی سطح پر کچھ اصول وضع کیے گئے، لیکن اسلامی بینکاری کو عمومی طور پر انہی قوانین پر چلایا گیا جن پر سودی نظام چلایا جا رہا تھا۔

    1981ء میں فقہائے امت نے جدید مسائل میں امت کی رہنمائی کے لیے مجمع الفقہ الاسلامی کی بنیاد رکھی، جس کا بنیادی کام جدید مسائل میں اجتماعی اجتہاد کے ذریعے امت کی رہنمائی کرنا تھا، اس ادارے نے اسلامی بینکاری نظام کے لیے اپنی قراردادوں میں، شرع کی روشنی میں اصول وضع کیے، جسے اختیاری طور پر مختلف ممالک نے اپنے ہاں نافذ کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد پھر 1990ء کو بحرین میں ’ھيئالمحاسب والمراجع للمؤسسات المالي الاسلامي‘ کی بنیاد رکھی گئی، انگلش میں اسے (Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions) کہا اور جسے مختصراََ ’’ایوفی‘‘ (AAOIFI) کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔


    ’’ایوفی‘‘ میں مذاہبِ اربعہ (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) کے دو سو علماء اور اسکالرز بطور ممبر شامل ہیں، وہ تمام ہی جدید تعلیم اور تحقیق کے جدید طرق سے بہرہ ور ہیں، اس ادارے کے اجلاس سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ بنیادوں پر ہوتے ہیں، جن میں عصرِحاضر کے جدید معاشی و حسابی مسائل کے اسلامی حل کے لیے غور و فکر کیا جاتا ہے، یہ ادارہ ہر دو سطح پر اسلامی بینکوں اور دیگر اسلامی مالیاتی اداروں کے لیے قانون وضع کرتا ہے، پروڈکٹس اور سروسز سے متعلق شریعہ اسٹینڈرڈ کے نام سے قانون شائع کرتا ہے، حساب و کتاب یعنی اکاونٹنگ، آڈیٹنگ اور گورننس کے لیے بھی اسٹینڈرڈ وضع کرتا ہے، اس ادارے کے وضع کردہ قوانین اسلامی بینکوں میں گزرتے وقت کے ساتھ نافذ کیے جا رہے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ اس ادارے اور اس کے تحقیقی کام میں بہتری بھی آرہی ہے۔

    یہ قوانین ایسے ہیں، جن تک دسترس اب مشکل نہیں رہی، اگر ساتھ ہی عوام و خواص ان قوانین تک پہنچ بھی جائیں، تو یہ قوانین ان کی سمجھ سے بالاتر ہیں، کیونکہ انہیں سمجھنے کے لیے جہاں شرعی تعلیم لازمی ہے، وہاں جدید اقتصادی تعلیم کا ہونا بھی ضروری ہے، یہ قوانین نئے ہیں، اس کی تعلیم ابھی یونیورسٹیوں میں دی جا رہی ہے، ان کے عام فہم ہونے میں کافی وقت درکار ہے۔ نیز یہ عام آدمی کے بس کی بات بھی نہیں کہ وہ اس نظام کے جواز اور عدم جواز پر اپنی رائے دے سکے، عوام پر اہل علم کی اقتدا لازمی ہوتی ہے۔

    اسلامی بینکاری ایک متبادل نظام کے طور پر متعارف ہوئی ہے، جسے صرف ایک میدان میں نہیں بلکہ پروڈکٹس، سروسز، اسلامی بینکنگ کی تعلیم سے آشنا افرادی قوت، تعلیمی اداروں میں اس کی تعلیم و تحقیق جیسے سارے میدانوں میں ایک ایسے مقابل نظام کا سامنا ہے، جس نے پوری دنیا کو اپنے پنجے میں جکڑ رکھا ہے، صاف ظاہر ہے کہ یہ مقابلہ آسان نہیں ہے، جہاں ان میدانوں میں محنت درکار ہے، وہیں وقت بھی درکار ہے ۔

    اگر اس پس منظر میں دیکھا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ محترم نیازی صاحب کا مندرجہ بالا دعوی اسلامی بینکاری سے متعلق سارے لوازمات اور حقائق کو پس پشت رکھتے ہوئے کیا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے لیے الگ سے قانون بھی ہے اور دسترس میں بھی ہے، البتہ عام فہم نہیں اور اس کی بنیادی وجہ ذکر کر دی گئی ہے۔

    تحریر: محمد ابوبکر صدیق
    22/01/2017


    (جاری ہے)
     
    پاکستانی55 اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. عطاءالرحمن منگلوری
    آف لائن

    عطاءالرحمن منگلوری ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اگست 2012
    پیغامات:
    243
    موصول پسندیدگیاں:
    293
    ملک کا جھنڈا:
    جزاك الله خيرا
     
    پاکستانی55 اور کنعان .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں