1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اردو زبان کی تاریخ

'کتب کی ٹائپنگ' میں موضوعات آغاز کردہ از ملک بلال, ‏23 ستمبر 2020۔

  1. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 98
    جگہ اس ملک میں چاروں طرف باقاعدہ سلطنت شروع ہوئی اور انگلستان کا بادشاہ ہند کا بھی فرمانروا ہوگیا ۔ جب یہاں کی بادشاہی جاتی رہی تو اس کے ساتھ فارسی عربی کے دن بھی جاتے رہے ۔ اور اردو کی قدر بھی خاک میں مل گئی اب ایک نئی قوم ، نئی زبان اور نئے دستور کا عمل درآمد ہوا ۔ جس طرح افغان اور مغل بادشاہوں کے دور میں ہندؤں نے بہت کچھ مسلمانوں سے لیا اور سیکھا ۔ ضرور ہے کہ اسی طرح اب ہندو مسلمان دونوں بہت کچھ انگریزوں سے سیکھیں قائدہ ہے کہ جب ایک قوم کا تسلط دوسری قوم پرہوتا ہے تو حاکم کی زبان محکوم کی زبان پر بہت بڑا اثر کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر فقط فارسی اور اردو کے حال پر غور کرو ۔ عرب کی حکومت نے ایران کی پرانی زبان پر ایسا اثر کیا کہ فارسی میں ہزاروں لفظ اور محاورے عربی کے آگئے ۔ ایسے ہی افغان اور مغل فارسی بولتے ہوئے ہند میں آئے ۔ اور رفتہ رفتہ ہندی میں فارسی کا وہ تصرف ہوا کہ ایک نئی اور شاندار زبان پیدا ہوگئی جسے ہم اردو کہتے ہیں ۔ اب انگریزوں کا راج ہے ۔ سارے محکمے اور صوبے ان کے زیر حکومت ہیں ۔ اور ہر جگہ ان ہی کا انتظام اور ان ہی کی افسر ہیں ۔ وہ اپنے ساتھ بہت سے دستور اور چیزیں اپنی ملک کی لائے ہیں ۔ اور ان ہی کی حکمت اور قانوں کے مطابق رعایا کی بہبود و ترقی کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ لہذا ناممکن ہے کہ انگریزی کا دخل اردو میں نہ ہو ہر جگہ ہم کو نیا انتظام دکھائی دیتا ہے ۔ مثلا شہر کے انتظام کے واسطے میونسپل کمیٹی ہے ۔ اب بتاؤ کے میونسپل کمیٹی کی جگہ اردو میں کہاں سے لفظ لائیں ؟ اسی طرح
     
  2. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 99
    طبابت میں دیکھو کتنے لفظ انگریزی سے لیے گئے ہیں ۔ مثلا نرس ، ڈریسر ، کمپونڈر ، سب اسسٹنٹ سرجن ، اسسٹنٹ سرجن ، سول سرجن ، سرجن میجر ، ہسپتال ، ڈاکٹر وغیرہ ۔ بھلا بتاؤ کہ ان لفظوں کے بدلے اردو میں کون سے لفظ لائیں ؟ اگر ڈاکٹر کی جگہ حکیم یا طبیب کہیں تو وہ شخص مراد ہوگا جو یونانی حکمت کے مطابق علاج کرتا ہے ۔ اگر دید یا بید کہیں تو وہ شخص مراد ہوگا جو ہندی طبابت کے مطابق دوا دارو کرتا ہے ۔ ایسے ہی اور ساروں لفظوں کا حال ہے جو اوپر لکھے گئے پس ضرور ہے کہ یہ لفظ عام طور پر استعمال کئے جائیں ۔ ریل گاڑی کے متعلق سیکڑوں لفظ اردو میں آگئے ہیں کیونکہ یہ چیز ہند میں نہ تھی ۔ اسے انگریزوں نے یہاں جاری کیا ۔ اس لئے سارے لفظ ان ہی کی زبان سے لینے پڑے ۔ اب یہاں مثال بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ جو کچھ اوپر بیان ہوا اس سے ثابت ہے کہ انگریزی کا دخل اردو میں ضروری اور قدرتی قاعدے کے مطابق ہے ۔
    تو کیا ہم اردو میں اس طرح انگریزی لفظ ملا کر بولیں کہ اردو زبان اردو نہ رہے بلکہ ایک بےہودہ کھچڑی بولی ہوجائے ؟ ہرگز نہیں جو چیز انگریزوں کے ساتھ آئیں یا ان کی ایجاد ہیں ۔ ان کے نام ضرور ہی انگریزی سے لینے پڑیں گے ۔ اس سے اردو زبان اردو ہی رہے گی ۔ فقط چیزوں کے نام یا نئے طریقوں اور انتظاموں کے متعلق بہت سے لفظ انگریزی سے اردو میں بھی آجائیں گے ۔ اور
     
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔۔ صفحہ 101


    تو لازم ہے کہ ہم اس کی حفاظت کریں اور بے ضرورت غیروں سے بھیک نہ مانگیں۔ نئی چیزوں اور نئی ایجادوں کے ساتھ تو نئے لفظ ضرور ہی آئیں گے۔ انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔ بلکہ ایسے لفظوں سے زبان میں امیری پیدا ہوتی ہے۔ پر جہاں خود ہماری زبان میں لفظ موجود ہیں ان کی جگہ بے مطلب انگریزی لفظ لانا اپنے کو اور اپنی زبان کو مفلس ثابت کرنا ہے۔ غرض یہ ناممکن ہے کہ انگریزی کا دخل اردو میں نہ ہو پر اس دخل کو ان ہی الفاظ تک محدود رکھنا جو ضروری ہیں، ہمارا کام ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہو گا کہ ہماری دلکش زبان نہ فقط محفوظ رہے گی بلکہ روز بروز شاندار ہوتی جائے گی۔ برخلاف اس کے اگر ہم بے موقع اور بے ضرورت انگریزی لفظ اس میں بھرنے لگیں تو نہ حاکموں کی نظر میں عزت کے لائق رہیں گے اور نہ اپنے بھائیوں کی جماعت میں منہ دکھانے کے قابل ہوں گے۔

    جس اردو کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ نو سو برس میں بن کر تیار ہوئی ہے اور اب سہر سال صد ہا کتابیں اس میں تصنیف ہوتی ہیں۔ یہ علمی اور قومی زبان ہونے کا فخر اور درجہ پا چکی ہے۔ اور اس کا دامن اب قیامت سے بندھا ہے۔

    وہ زمانہ دور نہیں جب اس میں ہر فن کی کتابوں کا پورا زخیرہ موجود ہو جائے گا۔ اور یہ اسی وقت ہو گا جب انگریزی کی بدولت اس میں ایسے الفاظ بھی شامل ہو جائیں گے جن کے ذریعہ سے ہم موجودہ علمی اور تہذیبی ترقی کو بھی اردو زبان میں دکھا سکیں گے۔ یہ ترقی سچ مچ زمانہِ حال کی ترقی ہے اور اس کے متعلق عربی اور فارسی میں لفظ نہیں۔ ہزاروں طرح کی کلیں آئے دن ایجار ہوتی رہتی ہیں اور

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔۔ صفحہ 102


    نئے نئے انتظام ملکی اور فوجی، عدالتی اور تعلیمی روز عمل میں آتے ہیں۔ ان کے لئے انگریزی زبان میں لفظ موجود ہیں اور ضرور ہے کہ ان میں سے اکثر اردو میں داخل ہو جائیں۔ پس ظاہر ہے کہ ایسے لفظوں کی بھرتی اردو زبان میں اور ہونی ہے اور جب ان کی آمیزش سے اردو میں یہ قابلیت ہو جائے گی کہ آج کل کے علم اور حکمت کے متعلق بھی اس میں پورے پورے لفظ ہوں گے تو یہ اپنے کمال کو پہنچے گی۔ اور دنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں اسے بھی عزت کی کرسی نصیب ہو گی۔ خدا وند کریم ہماری سرکار عالیہ کو برقرار رکھے جس کے زیر سایہ ہم اور ہماری زبان دونوں ترقی کر رہے ہیں۔

    ہندوؤں اور مسلمانوں کے تمدنی اور سیاسی اتحاد کے لئے یہ امر ضروری ہے کہ وہ دونوں ایک ہی زبان بولتے اور لکھتے ہیں۔ اس سے باہمی تعلقات زیادہ گہرے اور مضبوط ہو جاتے ہیں۔ اور اپنے خیالات و جذبات و ضروریات کا اظہار آسان ہوتا ہے۔ شکر ہے کہ قدرتی طور پر وہ آلہ بن بنا کر تیار ہو گیا ہے جسے یہ دونوں فریق بے تامل استعمال کر سکتے ہیں۔ جس طرح فطری قوانین کے مطابق پراکرت زبانیں بنیں اور پھر ان سے ہندی اور اور زبانیں نکلیں اسی طرح ہندی یا بھاشا سے اردو پیدا ہوئی۔ یہ کام کسی آدمی کی مصلحت و تدبیر سے نہیں بلکہ زمانہ کی طبیعت و رفتار کے اثر سے ہوا اور جوں جوں ہندو اور مسلمان آپس میں زیادہ میل جول پیدا کرتے گئے توں توں اردو کا زور اور رواج زیادہ ہوتا گیا۔ اور اب جب

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔۔ صفحہ 103


    سیکڑوں برس کے ربط و ضبط اور سروکار کے بعد ایک ایسی زبان بن گئی ہے جو شیرینی و فصاحت اور ناز و انداز میں ہندی سے کہیں زیادہ ہے تو اس کے مقابلہ میں یہ کوشش کرنی کہ اردو کا رواج جاتا رہے اور چاروں طرف ہندی ہی ہندی کا ڈنکہ بجے، ٹھیک نہیں۔ اردو میں ایک یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ اس کے حروف کی شکلیں خوبصورت ہیں۔ اور نسبتاً ان کے لکھنے میں کم وقت صرف ہوتا ہے۔ جتنی دیر میں ہندی کا ایک صفحہ لکھا جاتا ہے اتنی دیر میں اردو کے دو صفحے لکھے جاتے ہیں۔ پس اردو زبان کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس میں خوبصورت زیادہ اور مضمون کی گنجایش بھی زیادہ ہے۔ اور لکھنے میں ہندی کی نسبت آدھا وقت لگتا ہے۔

    ایک اور نکتہ پیش کیا جاتا ہے جس کی اہمیت خود بخود ظاہر ہو جائے گی۔ آج کل چاروں طرف یہی پکار ہے کہ ہندو اور مسلمان آپس کی نفرت و عداوت اور مذہبی جھگڑوں کو دور کریں اور ایک دوسرے کو محبت و ہمدردی و تعظیم کی نظر سے دیکھیں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے نفاق قائم رہے یا بڑھے۔ ایسے حال میں یہ کوشش کہ اردو بالکل اڑا دی جائے اور ہندی کا بول بالا ہو خطرے اور نقصان کا باعث ہو گی۔ کیونکہ اس طرح کی کوشش سے کم از کم مسلمانوں پر یہ اثر ہو گا کہ وہ ہندوؤں کو اپنی قومی تاریخ اور سلطنت کا مخالف پائیں گے۔ اور دلِ شکستہ ہو انہیں شک اور مخالفت کی نظر سے دیکھیں گے۔ اردو زبان نہ فقط ایک زبان ہے

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔۔ صفحہ 104


    بلکہ اسلامی جاہ و جلال، شان و شکوہ اور عظمت و حشمت کی ایک زندہ اور جیتی جاگتی یادگار ہے۔ اس کو جو مٹانا چاہتا ہے وہ گویا اسلامی اقتدار کے ایک بہت بڑے نشان کو مٹانا چاہتا ہے۔ جس زبان کے ساتھ صدیوں کی تاریخ وابستہ اور ملی ہوئی ہے اس کو قائم رکھنا ہر ہندوستانی کا فرض ہے۔


    تمام شد

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  4. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 100
    ہماری زبان اور امیر ہوجائے گی ۔ پر اتنا یاد رکھنا نہایت ضروری ہے کہ بغیر ضرورت کوئی انگریزی لفظ اردو زبان میں نہ آئے ۔ ہمارے روزمرہ کے کاروبیوہار اور دلی اور مذہبی خیال کے اظہار کے لیے اردو میں کافی سے بھی زیادہ لفظ موجود ہیں ۔ ہم ان سے بڑی خوبی اور اثر کے ساتھ اپنا کام لے سکتے ہیں ۔ اس وقت اردو میں ہزاروں کتابیں ہیں ۔ ذرا دیکھو ان میں انگریزی کے کتنے لفظ آئے ہیں ۔ ہمارا یہ بھی تجربہ ہے کہ کوئی شخص اردو میں گھنٹوں تقریر کرے اور ایک لفظ انگریزی کا زبان پر نہ لائے ۔ ڈپٹی نذیر احمد ، مولوی محمد حسین آزاد ، سرسید احمد ، پنڈت رتن ناتھ سرشار ، مولوی عبدالحلیم شرر کی کتابیں موجود ہیں ۔ ورق پر ورق الٹتے چلے جاؤ مشکل سے کہیں ایک آدھ انگریزی لفظ ملے گا ۔ انہوں نے ہر طرح کے مضمون پر تقریریں بھی کیں اور اپنی تحریریں بھی چھوڑی ہیں ۔ رنگینی ، عبارت آرائی ، شیرینی ، فصاحت و بلاغت ، دل پذیر تشبیہین اور استعارے ، شوخی و طرآری ، جگر سوز خیالات اور دل گداز باتیں ۔ غرض سب ہی کچھ ان کے کلام میں جھلکتا دکھائی دیتا ہے ۔ ان کی زبان سے پھولجھڑی نکلتی تھی اور ان کے قلم کے منھ سے ریشم کی لچھیاں ۔ جب وہ بلند پروازی کرتے تو آسمان سے تارے اتار لاتے اور جب کسی خیال میں ڈوبتے تو سمندر کی کائی تک مٹھی میں سمیٹ لیتے تھے ۔ مشکل سے مشکل اور باریک سے باریک مضمون کو پاکیزہ اور سلیس اردو میں وہ ادا کرتے تھے ۔ ان کی تصنیفوں سے ثابت ہے کہ اردو زبان میں بہت بڑی قابلیت ہے اور جو اس سے واقف ہیں وہ اس سے جادو کا کام لے سکتے ہیں ۔ پس جب ہمارے پاس پہلے ہی سے ایسا خزانہ موجود ہے
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں