1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اردو زبان کی تاریخ

'کتب کی ٹائپنگ' میں موضوعات آغاز کردہ از ملک بلال, ‏23 ستمبر 2020۔

  1. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    کوئی ملتا نہیں ہے محرمِ راز
    ہمیں کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں

    اردو زبان کی تاریخ

    اس کتاب میں اختصار کے ساتھ اور نہایت سادہ اور دلچسپ پیرایہ میں اردو زبان کی ابتدا اور عہد بعہد کی ترقی کا حال دیا گیا ہے اور ہر دور کے نمونے بھی معہ تاریخی واقعات کے سامل کر دئیے گئے ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں اور خصوصاً مستورات کے پڑھنے کے لیے یہ کتاب بہت مفید ثابت ہو گی۔
    مصنفہ
    واعظ لال ایم اے ۔ ایم او ایل (تمغہ یافتہ پنجاب یونیورسٹی)
    دلی پرنٹنگ ورکس دہلی میں حسب فرمائش خان بہادر مولوی عبدالاحد صاحب
    مالک مطبع مجتبائی دہلی چھاپی گئی
    دسمبر 1930ء
     
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ 1

    پہلا باب


    اردو زبان کا ماخذ


    اردو ایک نہایت دلکش اور میٹھی زبان ہے۔ اس کے بولنے اور لکھنے والے پشاور سے لے کر دکن تک پائے جاتے ہیں۔ پنجاب، صوبجات متحدہ، بنگال، احاطۂ بمبئی اور دکن میں عام طور پر اسے ہندو اور محمد اور اور قومیں آسانی کے ساتھ سمجھ لیتی ہیں۔ پنجاب، صوبجات متحدہ اور نظام کی ریاست میں لڑکے اور لڑکیاں اسے مدرسوں میں سیکھتے ہیں۔

    ہند کی زبانوں میں صرف اردو ہی ایک ایسی زبان ہے جو عموماً اس ملک میں دور دور تک پھیلی اور کئی قوموں کی آنکھ کی پتلی بنی ہوئی ہے۔ ہندوستانی ریاستوں میں بھی اس کا رواج ایسا ہے کہ چاہے جہاں کھڑے ہو کر بول لو۔ سننے والے مطلب کو جھٹ سمجھ جائیں گے۔ اس کے بولنے والے چھ سات کروڑ

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    صفحہ 2


    سے کم نہیں اور ان کا شمار روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔

    اب ہم اس بات کو دریافت کریں کہ اردو زبان کہاں سے نکلی۔ کس طرح مروّج ہوئی اور کب سے اس کا دور شروع ہوا؟ ان سوالوں کے جواب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم یہاں کچھ تھوڑی سی ہند کی قدیمی تاریخ پر نظر ڈالیں۔

    عالموں نے پتا لگایا ہے کہ کوئی ساڑھے تین ہزار برس ہوئے جب اس ملک کے اصلی باشندے اور لوگ تھے۔ روایتوں، نشانوں، لاٹوں، کتبوں، سکوں اور ہندوؤں کی مذہبی کتابوں سے پورے طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مسیح ع سے کوئی ہزار سوا ہزار برس پہلے شمال کی طرف سے ایک قوم اس ملک میں ائی۔ یہ قوم ایرین کے نام سے نامزد ہے۔ ہزاروں برس ہوئے جب ان کے بزرگ بحیرۂ اسود اور بحیرۂ اخضر یعنی بلیک سی اور کاسپین سی کےمابین جیجون اور سیحون کے سیراب کئے ہوئے وسیع میدانوں اور کوہ قاف کے ارد گرد کے زرخیز قطعوں میں رہتے تھے۔ ان کے رہنے سہنے کا طرز سادہ تھا اور ایک مدت تک وہ یوں ہی ایک ساتھ مل جل کر رہے۔ وہ زمین کو جوت کر اپنے لیے اناج پیدا کرتے تھے۔ غالباً اسی سبب سے انہیں ایرین کہا ہے کیونکہ اس لفظ کے معنی ہل چلانے والے کے ہیں۔ ان اضلاع میں جہاں یہ رہتے تھے غلہ کی افراط تھی کیونکہ چاروں طرف پانی بہتات سے تھا اور زمین نہایت زرخیز تھی۔ مگر جب ان کی آبادی یہاں تک بڑھی کہ اس حصہ میں گنجائش نہ رہی تو مجبوراً مکان اور روزی کی تلاش میں انہیں ادھر ادھر جانا پڑا۔ اس وقت کی کوئی تاریخ اب موجود نہیں، تو بھی زبانوں کے مطالعہ سے

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    صفحہ 3


    معلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں ہندوؤں، ایرانیوں، ارمینیوں، رومیوں، روسیوں اور جرمن قبیلوں کے بزرگ ایک ساتھ رہتے اور ایک زبان بولتے تھے۔ کیونکہ ان کی زبانوں کے بہت سے لفظ ملتے ہیں اور صرف و نحو کے قاعدے بھی بہت کچھ یکساں ہیں۔ جگہ کی تنگی اور معاش کی کمی کی وجہ سے آخر انہیں ایک دوسرے سے جدا ہونا پڑا۔ جدائی کے بعد اور اور ملکوں کی آب و ہوا اور نئی نئی ضرورتوں کے تقاضوں نے قدیمی مادری زبان کے بہت لفظ اور محاورے بھلا دئیے اور زبان میں بڑا فرق پیدا کر دیا۔ زبان دان اور محقق ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کے دو بڑے جتھے ہزاروں لاکھوں آدمیوں کے اپنے اصلی وطن کو چھوڑ کر مشرق اور مغرب کی طرف روانہ ہوئے۔ مشرق میں برِّ اعظم ایشیا اور مغرب میں بّرِ اعظم یورپ اس وقت کہیں کہیں آباد تھے۔ ورنہ ساری زمین گھنے گھنے جنگلوں سے بھری تھی۔ شروع ہی شروع میں تو انہوں نے پہاڑوں کے دامنوں، جنگلوں کی گودوں اور دریاؤں کے سیراب کناروں میں اپنے ڈیرے ڈالے ہوں گے اور پھر میدانوں کو صاف کر کے شہروں اور بستیوں کی بنیاد ڈالی ہو گی۔ جو جتھا مغرب کی طرف گیا وہ آہستہ آہستہ عنقریب سارے یورپ میں پھیل گیا اور وہاں مختلف حصوں میں آج تک موجود ہے۔ حال کی ساری فرنگستانی قومیں ان ہی کی اولاد ہیں۔

    دوسرا جتھا مشرق کی طرف بڑھا۔ آرمینیا اور ایران کی سرسبز وادیوں اور چراگاہوں میں ان کے اور ان کے جانوروں کے لیے بہت خورش تھی۔ چنانچہ بہت سے وہاں بھی رہ گئے۔ باقی لوگ قندہار اور کابل سے ہوتے ہوئے ہندوکش پہاڑوں کو

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    صفحہ 3


    الٹ کر پنجاب میں آئے۔ یہ لوگ سفید رنگ، خوبصورت، دراز قامت اور بہادر تھے۔ ان کا گذارہ زیادہ تر مویشی اور کاشتکاری پر تھا۔ پنجاب کے شاداب میدان جو ہریالی اور سبزہ سے ڈھکے ہوئے تھے انہیں بہت پسند آئے۔ ان کی رہائش کا طریقہ بہت سادہ تھا اور وہ تہذیب کے ایک خاص درجے تک پہنچ گئے تھے۔ بڑے بوڑھوں کی تعظیم، اہل و عیال کی محبت، برادری کی حفاظت اور مستورات کی عزت کا انہیں بہت خیال تھا۔ ان کے درمیان شادی بییاہ کی رسم تھی اور عشرت پسندی کو برا جانتے تھے۔ ویدوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے وقت کا ایک معقول حصہ عبادت اور پوجا پاٹ میں صرف کرتے اور دھرم اور پُن کو لازمی سمجھتے تھے۔ ان کی طبیعت میں استقلال اور ان کے مزاج میں سنجیدگی تھی۔ جب دشمن کا مقابلہ کرتے تو ایسے جم کر اور دل توڑ کر لڑتے کہ مخالف کے چھکے چھوٹ جاتے اور جب خدا کی یاد کرتے تو تن، دھن اور من تینوں اس میں لگا دیتے تھے۔

    ان کی زبان بھی شائستہ اور پاکیزہ تھی اور ہر طرح کے مطلب کو وضاحت کے ساتھ ادا کرنے کے لیے ان کے پاس سادہ اور فصیح لفظوں کا پورا ذخیرہ تھا۔

    یورپ میں انہوں نے قدیم زمانہ میں یونان اور رومۃ الکبریٰ کی سلطنتیں قائم کیں۔ جرمنی، روس، فرانس اور برطانیہ کی قومیں جو اسی اصل سے ہیں اب اپنے قدرتی جذبات کو دکھا رہی ہیں۔ ایشیا میں انہوں نے ایران کو قبضہ میں کیا اور ہند کو اپنے راجوں اور مہاراجوں سے بھر دیا۔ ان کا ایسا اقبال ہے کہ جہاں کہیں گئے تخت اور تاج کے مالک بنے اور ان کے علم و حکمت، مذہب اور تہذیب کے مرکز جا بجا پائے جاتے ہیں۔ ان کی زبانیں

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    صفحہ 5


    پیاری اور شاندار ہیں۔ یونانی، لاطینی، ایرانی، سنسکرت، جرمنی، فرانسیسی اور انگریزی ایسی زبانیں ہیں جو دنیا میں بے نظیر ہیں اور ان ہی قوموں کی بدولت یہ ساری برکت اور رونق ہے۔ یہی سب سے بڑے صاحب فن اور اہلِ ہنر ہیں اور روئے زمین ان ہی کے زیر قدم ہے۔

    ان قوموں کا ایک ہی اصل و نسل سے ہونا اس سے ثابت ہے کہ ان کی زبانوں کے بہت سے لفظ اور صرف و نحو کے قواعد آپس میں ملتے ہیں۔ نمونہ کے طور پر خانی رشتوں کے لفظ دیکھو بالکل ایک ہی ہیں۔


    ہندوستانی۔۔۔انگریزی۔۔۔سنسکرت۔۔۔یونانی۔۔۔لاطینی۔۔۔قدیم ایرانی

    باپ۔۔۔فادر۔۔۔پتر۔۔۔پاتر۔۔۔پاتر۔۔۔پتر

    ماں ۔۔۔مدر۔۔۔ماتر۔۔۔ماتر۔۔۔ماتر۔۔۔متر

    بھائی۔۔۔بردر۔۔۔بھراتر۔۔۔فراتر۔۔۔فراتر۔۔۔براتر

    بیٹی۔۔۔ڈوٹر۔۔۔دوہتر۔۔۔تُھگاتر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دُغدر

    بہن۔۔۔سسٹر۔۔۔سواسر۔۔۔۔۔۔۔سورر۔۔۔۔۔۔۔۔


    اسی طرح گنتی کے ہندسے بھی ایک سے دس تک ملتے ہیں۔ یہ پکے ثبوت ہیں کہ ایک وقت ان زبانوں کے بولنے والوں کے باپ دادا ایک ہی جگہ بود و باش کرتے تھے۔ جدا ہو کر چونکہ کچھ یورپ میں اور کچھ ایران میں اور ہند میں آباد ہوئے اس لیے ان کو انڈو۔یوروپین نام دیا ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    صفحہ 6


    یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ عالموں نے دنیا کی کل زبانوں کو تین بڑے حلقوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر حلقہ میں کئی کئی شاخیں ہیں۔

    پہلا حلقہ تو انڈو یورپین کہلاتا ہے جس میں سنسکرت، قدیم ایرانی، یونانی، لاطینی، ارمنی، فرانسیسی، جرمنی اور روسی زبانیں ہیں۔

    دوسرا حلقہ سیمیٹک یا سامی کہلاتا ہے جس میں عربی، عبرانی، کلدانی اور قبطی زبانیں شامل ہیں۔

    تیسرا حلقہ تورانی ہے اس کی شاخوں میں دنیا کی اور زبانیں پائی جاتی ہیں ۔

    اب پھر اصلی مطلب پر آئیں۔ ہم نے پہلے بتایا کہ ایرین قوم کے جو لوگ آب و دانہ کی تلاش میں مشرف کی طرف چلے ان میں سے ایک شاخ ایران میں داخل ہوئی وہاں لوگوں نے بادشاہی قائم کی اور سیکڑوں برس تک آس پاس کے سارے ملکوں پر حکومت کرتے رہے۔ وہیں زرتشت نے آتش پرستی کو رواج دیا اور پجاریوں کے لئے خاص طرح کے مندر بنوائے جن کا نام "دَیر" رکھا۔ ایرین قوم کی دوسری شاخ ہند میں آئی ان کی لڑائی کے ہتھیار اعلیٰ درجے کے ہوں گے کیونکہ انہوں نے اس ملک کے اصل باشندوں کو جو ڈرور یا دراودی نسل سے تھے، شکست دی۔ دراودی لوگ جو زبان، رونگ، روپ، صورت، شکل، چال، ڈھال، مذہب، ملت اور رسم و رواج میں ان سے مختلف تھے ایک مدت تک بڑی دلیری کے ساتھ فتح یاب ایرین کے مقابلہ میں مشغول رہے مگر پسپا ہی ہوتے گئے۔ جنہوں نے ان فاتحوں کی اطاعت منظور کی وہ شودر کہلائے اور اپنے حاکموں کی خدمت کرنے لگے

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    صفحہ 7


    باقی پہاڑوں اور جنگلوں میں جا گھسے یا دکن کو چل دئیے۔ کول، بھیل، گونڈ، سنتال انہیں لوگوں کی اولاد ہیں اور دیکھنے میں اکثر پست قد اور سیہ فام ہیں۔

    جو دکن کو گئے انہوں نے وہاں بڑی زبردست سلطنتوں کی بنیاد ڈالی۔ ان کی زبانیں تامل، تلوگو، کناری اور ملیالم ہیں جو سنسکرت سے کچھ لگاؤ نہیں رکھتی ہیں۔ گو چند الفاظ سنسکرتکے ان میں شامل ہو گئے ہیں۔

    ایرین خاندان کے لوگ ہند میں آ کر ہندو کہلائے اور اس ملک کو انہوں نے آریہ ورت اور بھارت ورش نام دئیے۔ یہ لوگ سب سے پہلے پنجاب اور گنگا جمنا کے دوآبہ میں مقیم ہوئے ان کی زبان سنسکرت تھی جو قدیم ایرانیوں کی زبان سے بہت ملتی ہے۔ قدیم ایرانیوں کی زبان کا پتا ان کی مقدس کتاب "ژند" سے ملتا ہے۔ ژند اور ویدوں کی زبانیں بہت ملتی ہیں اور صد ہا الفاظ تو بعینہ یکساں ہیں۔ عبارت کی ترکیب اور بندش بھی دونوں میں بہت درجہ تک ایک ہی طرح کی ہے۔ ذیل کی فہرست بطور نمونہ پیش کرتا ہوں۔

    فارسی۔۔۔سنسکرت

    پدر۔۔۔پدر ۔۔۔(باپ)

    مادر ۔۔۔ ماتر ۔۔۔(ماں)

    برادر ۔۔۔بھراتر۔۔۔(بھائی)

    پور۔۔۔ پتر ۔۔۔(بیٹا)

    بار۔۔۔بھار۔۔۔(بوجھ)

    انگشت۔۔۔انگشٹ۔۔۔(انگلی، انگوٹھا)

    سَر۔۔۔شِر۔۔۔(سِر)

    پا۔۔۔پاو۔۔۔(پاؤں)

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    صفحہ 8


    دختر۔۔۔ دوہتر۔۔۔(بیٹی)

    اسپ ۔۔۔ اشو۔۔۔ (گھوڑا)

    زانو۔۔۔ جانوں۔۔۔ (جانگھ)

    بوم۔۔۔ بھوم۔۔۔ (زمین)

    در۔۔۔ دوار ۔۔۔ (دروازہ)

    چرم ۔۔۔چرم۔۔۔(چمڑا)

    گاؤ۔۔۔ گؤ۔۔۔(گائے)

    مگس۔۔۔ مکشکا۔۔۔(مکھی)

    شغال۔۔۔ شرگال۔۔۔ (گیدڑ)

    دیر۔۔۔ دھیر۔۔۔(دیر)

    دند۔۔۔دنت۔۔۔(دانت)

    تارک۔۔۔تالک۔۔۔(تالو)

    دوشن۔۔۔دوشن۔۔۔(کندھا)

    ابرو۔۔۔بھرو۔۔۔(بھون)

    شاخ۔۔۔شاکھا۔۔۔(ڈالی)

    سفید ۔۔۔شویت۔۔۔(سفید)

    سیاہ۔۔۔شیام۔۔۔(کالا)

    کُلاغ۔۔۔کاگ۔۔۔(کوا)

    میش۔۔۔میش۔۔۔(بھیڑ)

    خر۔۔۔کھر۔۔۔(گدھا)


    اسی طرح سیکڑوں لفظ پیش کئے جا سکتے ہیں جو ژند اور سنسکرت میں یکساں ہیں۔ ان سے صاف ظاہر ہے کہ یہ دونوں زبانیں بہنیں ہیں جنہوں نے ایک ہی ساتھ پرورش پائی گو پیچھے الگ الگ گھر کر لیا۔
    ۔۔۔۔۔

    دوسرا باب


    مختلف پراکرت زبانیں اور دیسی بولیاں


    ہم نے پہلے باب میں بتایا تھا کہ ایرین فتح یابوں نے پہلے پنجاب میں اپنے قدم

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
    شکیل احمد خان نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 26
    کام چلانے کو عربی اور فارسی کے لفظ بھاشا میں ملا کر بولنے لگے
    اس بات کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ زبان کی ترقی اس وقت بڑے زور کے ساتھ ہوتی ہے جب اس میں مذہب کو دخل ہوجاتا ہے ۔ دیدن کے بدولت دیکھو سنسکرت کا کیا فروغ ہوا ۔ بودھ مذہب کے سبب سے پراکرت نے کیا رنگ دکھایا قرآن نے عربی کا کیا درجہ بنایا ۔ بیبل نے انگریزی میں کیسی رونق پیدا کردی ، اسی طرح پندرھویں اور سولھویں صدیوں میں ایک بڑی مذہبی تحریک پیدا ہوئی ۔ مسلمانوں سے پہلے ہند میں خاص کر دو نسل کے آدمی تھے ۔ یعنی ایرین اور دراودی ۔ ایرین حاکم تھے اور دراودی ان کے محکوم ۔ پرمدتوں سے ایک ساتھ رہتے تھے ۔ دراودی قوم پر ہندؤں کا ایسا اثر ہوا کہ ان میں سے عنقریب سارے ہندو مذہب کو ماننے لگے ۔ جب مسلمان یہاں آئے تو اپنے دین کو ساتھ لائے اور شروع میں ان دونوں میں نہایت سخت عداوت تھی ۔ ہندو مسلمانوں کو شودر سمجھتے اور مسلمان ہندؤں کو کافر اور بت پرست کہتے تھے ۔ مگر مسلمان جب یہاں جم گئے اور ملک ہند کو اپنا وطن ماننے لگے اور ہندؤں کی طبعیت اور دینی رسوم سے واقف ہوگئے اور ادھر ہندو بھی ان کے مزاج اور خصلت کو پہچان گئے تو نفرت اور سختی کے بجائے کچھ کچھ دوستانہ قائم ہونے لگا ۔ اب چند ایسے لوگ بھی پیدا ہوگئے جنہوں نے چاہا کہ کوئی ایسا طریق نکالیں جو ہندو اور مسلمان دونوں کے نزدیک اچھا اور مرغوب ہو تاکہ ہندو اور مسلمان دونوں اس طریق پر چل کر ایک دوسرے سے محبت اور ہمدردی کے ساتھ پیش آئیں چنانچہ پندرھویں صدی میں کبیر نے اور سولھویں صدی میں گرونانک اس طرح کی کوشش کی ۔ اور
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ 9


    جمائے۔ اس ملک کے اصلی باشندے ان سے شکست کھا کر ادھر ادھر جنگلوں اور پہاڑوں میں گھس گئے۔ کچھ جان بچا کر بھاگے اور دکن اور مشرق کی طرف چل دئیے۔ جو رہ گئے انہوں نے فتح یابوں کی خدمت اختیار کی۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سو ، دوسو برس تک ایرین قوم کے نئے نئے جتھے لگاتار پنجاب کی طرف اپنے وطن سے آتے رہے۔ ان نئے آنے والوں کو مشکل سے یہاں جگہ ملی اور انہیں اپنے ہی قدیم بھائیوں سے جنگ کرنی پڑی۔ انجام یہ ہوا کہ ان نو واردوں کے زور و غلبہ کے سبب ان ایرین لوگوں کو جو پہلے سے پنجاب اور گنگا اور جمنا کے قریب آباد تھے اب خود بھی مشرق اور مغرب اور جنوب کی طرف ہٹنا پڑا اور اپنا پہلا گھر چھوڑنا پڑا۔ یہ بیچ کا حصہ جو کوہِ ہمالیہ سے لے کر جنوب میں کوہِ وندھیاچل تک اور مشرق میں سرہند سے لے کر مغرب میں گنگا اور جمنا کے سنگم تک ہے اب ان نووارد ایرین لوگوں کے قبضہ میں آیا۔ اسے وہ لوگ مدھ پردیش یعنی ملکِ متوسط بولتے تھے۔ اس وسطی حصہ میں ایرین قوم کا زور رہا اور یہاں ان کی زبان ملاوٹ سے بچی رہی اور ان کے چوگرد ان کے ایرین بھائی تھے جنہیں انہوں نے ادھر ادھر مشرق اور مغرب اور جنوب کی طرف ہٹا دیا تھا۔ پس نتیجہ یہ ہوا کہ ایرین نسل کے لوگ اب سارے پنجاب، سندھ، گجرات، صوبجات متحدہ بہار، بنگالہ، آسام اور اڑیسہ میں پھیل گئے اور دراوری قومیں جو یہاں پہلے سے رہتی تھیں ان کے دباؤ سے اور پیچھے ہٹ گئیں۔

    اب خاص دو باتیں شروع ہو گئیں۔ اوّل۔ ایرین نسل کے بہت سے

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ 12


    اور پراکرت عام ملکی اور روز مرہ کی زبان ٹھہری اور دونوں کی خاص حد بندھ گئی اور دونوں میں خاص فرق ہو گیا۔ یہ پہلی پراکرت تھی جو سنسکرت کے مقابلہ میں سادہ اور عام فہم زبان تھی اور ویدوں کے زمانہ میں بولی جاتی تھی۔

    اب سنو کہ اس پراکرت میں اور کیا کیا تبدیلیاں ہوئیں۔ روز مرہ کے کام اور ہر وقت کے لین دین اور بات چیت کے لیے پیچیدہ زبان استعمال نہیں کرتے بلکہ چھوٹے چھوٹے لفظوں اور آسان عبارتوں سےکام لیتے ہیں۔ اس لیے اب آہستہ آہستہ پہلی پراکرت کی اصلی صورت بدلنے لگی اور زبان میں سادگی اور سلجھاؤ پیدا ہونے لگا۔ اور سیکڑوں برس تک اس سلجھاؤ کا کام جاری رہا اتنے میں بودھ مذہب کے بانی شاکیا منی مگدھ دیس یعنی بہار کے علاقہ میں پانچ سو تینتالیس 543 برس قبل سنہ عیسوی پیدا ہوئے۔ اس وقت پراکرت کی بہت علامتیں اور نشانیاں اور پیچیدگیاں جو سنسکرت سے ملتی تھیں دور ہو گئی تھیں اور جگہ جگہ کی پراکرت اور قطعہ قطعہ کی بولی الگ الگ تھی۔ اس پراکرت زبان کی خاص چار 4 قسمیں تھیں۔

    1۔ پشاچی

    2۔ مہاراشتٹری

    3۔ ماگدھی

    4۔ سورسینی

    یہ دوسرا پراکرت تھی شاکیا منی یا بدھا نے مگدھ کی پراکرت میں وعظ شروع کای۔ مگدھ کو آج کل بہار کہتے ہیں۔ اسی زمانہ میں جین مت کے بانی مہابیر نے بھی اپنے مذہب کو پھیلایا اور ماگدھی میں اپنی تصنیفیں چھوڑیں۔ عورت، مرد، بچے، بوڑھے، امیر، غریب، پڑھے، ان پڑھے سب کی یہی زبان تھی۔ بدھا کے مذہب نے بہت ترقی کی اور تھوڑے ہی برسوں کے اندر دھرم، راج، دستور، رسم و آئین سب بدل گئے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ 13


    ماگدھی درباری، عدالتی اور کتابی زبان ہو گئی اور طرح طرح کی تصنیفیں اس میں ہونے لگیں۔ کتب خانے اس زبان کی کتابوں سے بھر گئے اور بودھ مذہب کی بدولت اس نے بڑی رونق اور عزت حاصل کی یہاں تک کہ ماگدھی بولنے والوں کا یہ بھی دعویٰ ہوا کہ ہماری زبان اور زبانوں اور سنسکرت کی ماں ہے۔ خدا کی شان کہ وہ زبان جو پہلے عام ملکی بولی جاتی تھی اس وقت سنسکرت کو پیچھے ہٹا کر آپ سلطنت کی گدی پر بیٹھ گئی اور سارا راج پاٹ سنبھال لیا اور کوئی تیرہ سو برس تک اپنا جلوہ دکھاتی رہی۔ یہی ماگدھی بودھ مذہب کے راجاؤں کے عہد میں پالی کھلائی اور اسی میں مہاراجہ اشوکا کے فرمان میناروں اور سلِوں اور لاٹوں پر کھدے پائے جاتے ہیں۔ جب تک بودھ مذہب والوں کا زور رہا سنسکرت زبان کی بے قدری ہی اور برہمن دبے رہے۔

    آخر چھٹی صدی عیسوی سے راجہ بکرما جیت کی بدولت برہمنوں اور سنسکرت نے زور پکڑنا شروع کیا اور 800ء کے شروع میں شنکر اچارج کی برکت سے برہمنوں نے بودھ مذہب پر فتح پائی اور سنسکرت کی بہار شروع ہوئی۔ دوسری پراکرت کا زمانہ یوں ختم ہوا۔ مگر تو بھی لوگوں کی زبان یہی دوسری پراکرت تہی۔ گو سنسکرت اب پھر علمی اور درباری زبان ہو گئی اب رفتہ رفتہ یہ پراکرت بھی اپنے صورت بدلنے لگی۔ اور 1000ء تک پہنچتے پہنچتے اس نے وہ رنگ و روپ پا لیا جو پرانے زمانہ کی ہندی سے ملتا ہے۔ 800ء سے 1000ء تک تیسری پراکرت کا زمانہ ہے۔ اس میں سنسکرت کے اور پراکرتوں کے لفظ بدلتے بدلتے

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ 14


    اس صورت میں ہو گئے جس میں اب وہ ہندی میں اکثر دکھائی دیتے ہیں۔

    ہم نے پہلے بتایا کہ دوسری پراکرت میں خاص چار قسمیں تھیں۔ یعنی پشاچی، مہاراشٹری، ماگدھی، سورسینی۔ ماگدھی پراکرت بگڑ کر اور بدل کر مشرقی ہندی ہوئی جسے بہار اور بنارس کی طرف بولتے تھے۔ سورسینی سے برج بھاشا نکلی جو دہلی، متھرا، آگرہ اور ان کے گرد و نواح میں بولی جاتی تھی۔ یہی برج بھاشا ہماری اردو زبان کی ماں ہے۔ اور محمود غزنوی کے زمانہ میں دہلی اور آگرہ کے اطراف میں مروج تھی۔ اسی پر فارسی اور عربی کا وہ اثر ہوا جو آج تک دکھائی دیتا ہے۔ فارسی اور عربی کا اثر یہاں کی اور دیسی زبانوں پر بھی ہوا جو پراکرت سے نکلی تھیں۔ مگر برج بھاشا پر اسلامی فاتحوں کا ایسا گہرا رنگ چڑھا جسے زمانہ مٹا نہ سکا۔ یہ بھاشا کم سے کم 900 برس سے چلی آ رہی ہے۔ اور کروڑوں اس کے بولنے والے ہیں۔ 900 برس نے کچھ نہ کچھ تراش چھانٹ اور کمی و بیشی اس میں کی ہے ۔ پر اس کا عام حلیہ اور پنجر وہی ہے جو گیارھویں صدی کے شروع میں تھا۔ اس بھاشا کے سب سے سرگرم اور زبردست حامی راجپوت تھے جو بودھ مذہب والوں اور برہمنوں کے زوال کے بعد عنقریب سارے ہندوستان پر قابض اور حکمران ہو گئے۔ نویں صدی عیسوی سے ان کا عروج شروع ہوا اور دو سو برس کے اندر دہلی، قنوج، اجمیر، گجرات، مالوہ، میواڑ، بہار، بنگالہ اور کچھ دکن کے حصہ کے یہ مالک ہو گئے۔ انہوں نے اپنی ریاستوں کو خوبصورت مکانوں اور عالی شان مندروں

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  5. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 27
    اپنی پاکیزہ زندگی اور محبت آمیز کلام سے ہزاروں چیلے بنائے ایک نے کبیر پنتھ اور دوسرے نے سکھ مذہب قائم کیا ۔ یہاں ہمیں ان کے کلام سے مقصد ہے ۔ دونوں نے اپنا دینی کام ہندی زبان میں کیا ۔ مگر اس ہندی میں سیکڑوں لفظ عربی اور فارسی کے ہیں ۔ اور ان کی ہندی بھی وہ ہندی ہے جسے ہر کوئی آسانی سے سمجھ لے گا ۔ اس زبان کا نمونہ ہم آگے دیں گے ۔ یہاں اتنا یاد رکھنا چاہیے کہ ان دونوں بزرگوں کی برکت سے اس وقت کی زبان کو پورا پورا رواج ہوگیا ۔ اور عام فہم اور فارسی ملی ہوئی ہندی پنجاب سے لے کر بنگالہ تک پھیل گئی ۔
    پندرھویں صدی کے آخر میں جب سکندر لودھی دہلی کا بادشاہ تھا ہندؤں کو فارسی پڑھنے کا شوق ہوا ۔ اب تک شائستہ اور مہدب ہندو فارسی کو نفرت کی نظر سے دیکھتے آئے تھے اسی لئے اس کا مطالعہ نہیں کیا ۔ رفتہ رفتہ جب نفرت اور عداوت کم ہوئی تو سب سے پہلے کائستھون نے فارسی پڑھی اور شاہی دفتر میں داخل ہوئے ۔ پھر کیا تھا ؟ اب تو راستہ کھل گیا اور پڑھے لکھے ہندو فارسی کے لفظ اور محاورے بےدھڑک بھاشا میں ملا کر بولنے لگے اور عورت اور مرد اور بچہ بچہ کی زبان سے چاروں طرف وہ عبارتیں سنائی دینے لگیں جن میں عربی اور فارسی کے لفظ بھرے تھے ۔
    اتنے میں 1526ء سے افغانوں کی جگہ مغلوں کا تسلط ہوگیا ۔ بابر اور ہمایوں کے عہد میں تو بہت کچھ بدانتظامی رہی مگر اکبر کے زمانے سے امن شروع ہوا ۔ اکبر بادشاہ ہر طرح سے قابل تعظیم ہے ۔ وہ بڑا بہادر اور سمجھدار تھا
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 28
    اور اس کے مزاج میں بہت ملنساری اور ہمدردی تھی ۔ اس نے ہندؤں کے دلوں میں اپنی دلیری کی بھی دھاک جمائی اور اپنی محبت کا بھی سکہ بٹھایا اور مصلحت جان کر ڈاڑھی منڈوا دی اور ہندو مہاراجوں کی طرح کھڑکی دار پگڑی باندھ لی ۔ محل میں ہندو شہزادیاں آگئیں ۔ دربار میں ہندو وزیر اور مشیر بنے ۔ اکبر نے ان کا دل یہاں تک ہاتھ میں لیا کہ وہ سلطنت مغلیہ کے سب سے بڑے جان نثار محافظ بن گئے ۔ اس میل جول سے زبان کو بھی ترقی ہوئی اکبر کے دربار میں ہر قسم کے عالم ، فاضل اور شاعر جمع تھے ۔ اور بادشاہ کو سب سے محبت تھی اور سب کا لحاظ تھا ۔ ہندو شہزادوں کے ساتھ رہ کر مسلمانوں کو اب یہ شوق ہوا کہ سنسکرت پڑھیں ۔ چنانچہ فیضی اور خانخانان نے سنسکرت زبان میں وہ غضب کی لیاقت پیدا کی کہ کئی مشہور کتابوں کا ترجمہ سنسکرت سے فارسی میں کرڈالا نلدمن ، راماین اور مہابھارت وغیرہ فارسی میں انہیں کی ترجمہ کی ہوئی ہیں ۔ اس طرح آپس کا ربط ضبط روزبروز بڑھتا گیا اور مسلمانوں اور ہندو شیر و شکر ہوتے گئے ۔
    اکبر کا زمانہ تاریخی اعتبار سے نہایت سعید و قابل یادگار ہے ۔ اس کے دربار میں نو آدمی تھے جو نورتن کہلاتے ہیں ان کے نام یہ ہیں
    1 : راجہ بیربل
    2 : راجہ مان سنگہ
    3 : راجہ ٹوڈرمل
    4 : حکیم حمام
    5 : ملا دوپیازہ
    6 : فیضی
    7 : ابو الفضل
    8 : میرزا عبدالرحیم خانخانان
    اور 9 : تانسین ۔
    ان کے صلاح مشورے اور حسن انتظام سے ملک میں چاروں طرف سینکڑوں برس کے بعد لوگوں کو امن و چین نصیب ہوا
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ 15


    سے بھر دیا۔


    تیسرا باب


    ملکِ ہند میں مسلمانوں کا دخل


    اب ہم یہ دیکھیں کہ اس ملک میں مسلمان کب اور کس طرح آئے۔ سب سے پہلے 712ء میں بابک کے حاکم حجاج نے محمد قاسم کو ایک فوج دے کر سندھ کی طرف روانہ کیا تا کہ داہر کو جو اس وقت سندھ کا برہمن راجہ تھا ، سزا دے۔ داہر نے ایک عربی جہاز کو کراچی کے قریب لوٹ لیا تھا۔ محمد قاسم نے داہر کو شکست دی اور اس ک اسر خلیفہ ولید کے پاس بھیج دیا۔ اور چند برسوں کے اندر سارا سندھ اور ملتان عرب کی سلطنت میں داخل کر لیا۔ یہ ملک اس وقت سے لے کر پورے تین سو برس تک مسلمان حاکموں کے قبضہ میں رہے اور 1010ء محمود غزنوی کے تحت میں آئے۔

    محمود غزنوی کے حملے اور فتوحات نہایت مشہور ہیں۔ پنجاب اس وقت میں برہمن شاہی خاندان کے راجاؤں کے ہاتھ میں تھا۔ محمود نے اپنے متواتر حملوں سے سندھ اور پنجاب کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ اس نے پچیس برس کے اندر سترہ حملے کیے اور شمالی ہند کی دوست سے اپنے دارالحکومت غزنی کو دلھن کی طرح آراستہ کیا۔ اس کا یہ حال تھا کہ جدھر جاتا دشمن پر پانی پھیرتا چلا جاتا اور تاخت و تاراج اور لوٹ مار

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ 16


    کر کے اپنے م لک کو لوٹ جاتا۔ وہ علوم و فنون کا مربّی تھا اور اس کے دربار میں شاعروں اور اہل کمال کا جمگھٹا رہتا تھا۔ ہندوؤں پر اس کا اثر یہ ہوا کہ انہیں مسلمانوں کے نام سے دہشت اور نفرت ہو گئی۔ محمود کے انتقال کےک بعد اس کی عظیم الشان سلطنت کچھ عرصہ بعد ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ تو بھی پنجاب برابر مسلمانوں کے قبضہ میں رہا۔ آخر 1186ء میں شہاب الدین محمد غوری نے پنجاب کو محمود کے خاندان سے لے لیا اور غزنویوں کو خاک میں ملا دیا۔ ہند کی حالت اس وقت نازک اور افسوس ناک تھی۔ بنگالہ، قنوج، بندیل، کھنڈ، مالوہ اور گجرات وغیرہ میں ہندو ریاستیں تھیں جو آپس میں ایک دوسرے کی دشمن تھیں۔ دہلی اور اجمیر کے علاقوں میں پرتھی راج کی حکومت تھی۔ ان جھگڑوں اور تفرقوں کو دیکھ کر شہاب الدین غوری کو ہمت ہوئی کہ دہلی پر فوج کشی کرے۔ 1191ء میں تو اس نے شکست کھائی مگر 1192ء میں پرتھی راج کو شکست فاش دے کر دہلی، اجمیر، قنوج، گوالیار، گجرات، کالنجر، بنارس اور بہار کو بھی اس نے اپنی سلطنت میں ملا لیا۔ اب راجپوتوں کا زور اور حوصلہ ٹوٹ گیا اور ہند میں ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے قدم جم گئے۔ جب محمد غوری 1206ء میں مارا گیا تو اس کے سپہ سالار قطب الدین ایبک نے دہلی کے تخت پر قبضہ کر لیا۔ یوں مسلمانوں کی پہلی خود مختار سلطنت ہند میں قائم ہوئی اور بادشاہ خود اسی ملک میں رہنے لگا۔ اب مسلمانوں کا زور دن بدن بڑھنے اور اور ان کا اثر پھیلنے لگا۔

    1206ء سے 1526ء تک حکومت کا یہی سلسلہ قائم رہا۔ اتنا فرق ضرور ہوا کہ آج کوئی خاندان تخت و تاج کا مالک ہے اور کل کوئی۔ آئے دن ہنگامہِ جنگ اور معرکہِ رزم رہتا تھا۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ 17


    زبردست نہال ہو جاتے تھے اور زیردست پابال۔ اور ایک بات یہ بھی ہوئی کہ دور دور تک ہندو ریاستیں مسلمانوں کے ہاتھ لگیں۔ جب دہلی میں کوئی زبردست بادشاہ ہوتا تو یہ ریاستیں اس کی مطیع ہو جاتیں اور جب موقع ملتا تو آزاد ہو جاتی تھیں۔ اس زمانہ میں ہندوؤں پر تو ہمیشہ آفت ہی ٹوٹتی رہتی تھی۔ جب موقع ملتا ان کے مندر اور شوالے توڑے جاتے اور ان کی عورتیں لونڈیاں اور ان کے مرد مارے یا غلام بنائے جاتے تھے۔ اسی وجہ سے اس زمانہ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کا میل جول دامن چولی کا سا نہ ہوا۔ یہاں یہی حال تھا کہ 1526ء میں بابر نے جو تیمور کے خاندان سے تھا پانی پت پر دہلی کے بادشاہ ابراہیم لودھی کو شکست دی اور ہند میں سلطنت مغلیہ کی بنیاد ڈالی۔ اس کے جانشینوں کے عہد میں مغلوں کی سلطنت کو وہ جاہ و جلال نصیب ہوا جو ان کے پہلے ہند میں کبھی کسی مسلمان طاقت کو حاصل نہ ہوا تھا۔ اکبر، جہانگیر، شاہجہان اور اورنگ زیب ایسے نام ہیں جو قیامت تک روشن رہیں گے۔ لیکن اس زبردست خاندان کو بھی رفتہ رفتہ زوال ہوا اور 1857ء میں تیموری خاندان کی بادشاہت کا چراغ گل ہو گیا۔ یوں مسلمانوں نے پورے ساڑھے چھ سو برس تک ہند میں سلطنت کی اور چاروں طرف اپنے تسلط اور اقتدار کی یادگاریں چھوڑی ہیں۔ ان کی شان و شوکت اور عزم و استقلال اور حشمت و شکوہ کا حال نہایت ہی دلچسپ اور عبرت انگیز ہے۔ پر وہ چیز جو سب سے زیادہ ہمیں ان کی باتیں یاد دلائے گی اور قیامت تک ان کے نام کو زندہ اور روشن رکھے گی، وہ اردو زبان ہے۔ یہ ان کی فصاحت کے باغ
     
  8. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ 18


    کا وہ رنگین پھول ہے جو سدا گمکتا ہی رہے گا۔ یہ ان کے سخن پروری کا وہ چراغ ہے جو ہمیشہ چمکتا ہی رہے گا۔ قومیں آئیں گی اور چلی جائیں گی۔ سلطنتیں قائم ہوں گی اور مٹ جائیں گی پر ہماری اردو زبان کے اقبال کا دور ہر گز کبھی ختم نہ ہو گا اور اس کے گلشن میں خزاں کی آمد نہ ہوگی ۔


    چوتھا باب


    مسلمان بادشاہوں کی زبان


    محمود غزنوی اور اس کے سپاہی ایک طرح کی فارسی بولتے تھے۔ جس میں بہت سے ترکی کلمے بھی داخل ہو گئے تھے۔ اسی طرح محمد غوری اور اس کے لشکر کی زبان بھی یہی فارسی تھی۔ غزنی محمود کا دارالسلطنت تھا اور وہاں شاہی دربار میں عالموں اور شاعروں کا جمگھٹا رہتا تھا۔ جب قطب الدین ایبک نے 1206ء میں خود مختاری حاصل کر لی اور دہلی کو اپنا پایہِ تخت قرار دیا تو یہ شہر فارسی بولنے والوں کا مرکز بن گیا۔ اب بادشاہ اور اس کی فوج یہاں ہی رہنے لگی۔ فارسی علمی، درباری اور کتابی زبان تھی اور فوجی، ملکی اور عدالتی کاروائیاں اسی میں ہوتی تھیں۔ بھاشا کی نسبت اس میں زیادہ شیرینی اور صفائی تھی اور اس کے حروف بھی ہندی حروف کے مقابلہ میں خوش نما تھے۔ لہذا بہت جلد یہ زبان اس ملک میں مانوس ہو گئی اور بھاشا نے اس کے اثر کو خوشی خوشی قبول نہیں کیا۔ چونکہ اس زبان پر

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ 19


    پہلے ہی عربی کا بڑا اثر ہو چکا تھا۔ اس لیے اس کی تھوڑی سی کیفیت یہاں لکھنی ضروری ہے۔ اس کتاب کے پہلے باب میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو ایرین اپنے اسلی وطن کو چھوڑ کر مشرق کی طرف روانہ ہوئے ان میں ایک جتھا ایران میں گیا اور دوسرا ہند میں آیا۔ یہی ایرین ایران میں جا کر ایرانی کہلائے اور ہند میں آ کر ہندو۔ یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ قدیم ایرانی زبان اور سنسکرت آپس میں بہت زیادہ ملتی ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک ہی دادا کی اولاد ہیں۔ اس کا بھی بیان ہو چکا کہ سنسکرت سے بہت سی دیسی زبانیں پیدا ہوئی مثلاً کشمیری، پنجابی، گجراتی، ہندی، اردو، مراٹھی، بنگلہ وغیرہ۔ اور یہ سب آج تک بولی جاتی ہیں اور روز بروز ان میں ترقی ہے اور ان کے بولنے والوں کا شمار بڑھتا جاتا ہے۔ اب سنو کہ قدیم ایرانی زبان پر جو سنسکرت کی بہن ہے کیا گزرا۔

    جب ایرین لوگوں نے سارے ایران پر قبضہ کر لیا اور حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی تو ان کی زبان اور ان کے مذہب نے بھی اس کے ساتھ بڑا فروغ پایا۔ ان کی مقدس کتاب کا نام ژند یا ژنداوستا ہے۔ ژند کی زبان سنسکرت سے بہت ملتی ہے۔ سیکڑوں برس تک ایرانی بادشاہوں نے بڑی شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی۔ لیکن جب 331 قبل عیسوی میں سکندر اعظم نے ایران کو فتح کر کے اپنے قلمرو میں شامل کر لیا تو ژند کی قدر جاتی رہی اور ایرانیوں کے لیے مصیبت کے دن شروع ہوئے۔ قریب پانچ سو برس تک وہ دبے رہے اور غیر قوموں کی خدمت اور اطاعت کرتے رہے۔ ان پانچ سو برسوں میں ان کی زبان


    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ 20


    بہت کچھ بدل گئی۔ پرانے محاورے اور زبان اور قواعد کی بہت سی باتیں دور ہو گئیں۔

    اب لوگ ایک سادہ اور بدلی ہوئی زبان بولنے لگے جس میں کچھ تھوڑی بہت ملاوٹ غیر زبانوں کی بھی تھی۔ اس کا نام پہلوی تھا اور یہ قدیم ایران زبان کی بیٹی تھی۔

    اتنے میں پھر زمانہ کی گردش نے ایرانیوں کو ملک کا مالک بنا دیا۔ 226ء میں ساسانیوں کی بدولت نئے سرے سے ایرانیوں کا غلبہ ہوا اور پہلوی ان کے دربار اور ملک کی زبان بنی۔ چار سو برس تک یہی حالت رہی۔ علوم و فنون، مذہب اور حکمت کی کتابیں پہلوی زبان میں لکھی گئیں اور قدیم زمانہ کی کتابیں جمع کی گئیں۔ مگر زمانہ نے ایک دفعہ پھر چکر کھایا اور 637ء میں عرب لوگوں نے قادسیہ کے میدان پر ایرانیوں کو شکست فاش دی اور چند برسوں کے اندر سارے ملک کو اپنے قبضے میں کر لیا۔ ایرانی اب ایک بالکل نئی قوم کے مطیع ہوئے اور اس نئی قوم کے ساتھ ایک بالکل نیا مذہب اور نئی زبان ملک میں آئی۔ یہ نیا مذہب اسلام تھا اوریہ نئی زبان عربی۔ اسلام نے اس ملک میں ایسی جڑ پکڑی کہ سو برس کے اندر وہ عنقریب ساری قوم کا مذہب بن گیا۔ جن ایرانیوں کو اسلام لانا منظور نہ ہوا وہ اپنی جان اور ایمان لے کر ہند کی طرف بھاگے اور بندر ، سورت اور گجرات میں آ کر پناہ لی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اب پارسی کہلاتے ہیں۔

    جب اسلام سارے ملک میں پھیل گیا تو لازمی تھا کہ عربزی زبان بھی چاروں طرف اپنا رنگ جمائے کیونکہ یہ حاکمِ وقت کی زبان تھی اور حاکموں کی

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ 21


    زبان میں عجیب شان ہو تی ہے۔ چنانچہ عربی رانی بن کر مسندِ عدالت اور تخت سلطنت پر بیٹھی اور پہلوی کو لونڈی کا درجہ ملا۔ بڑا خوف تھا کہ جس طرح اسلام نے ایران کے پرانے مذہب کو وہاں سے اڑایا۔ عربی زبان بھی پہلوی کا نام و نشان مٹائے لیکن ایرانیوں نے مذہب تو بدلا پر اپنی زبان نہیں بدلی۔ عربی زبان زور اور فصاحت سے بھری ہے اور ایرانیوں نے بڑے شوق سے اسے سیکھا۔ مگر اپنی مادری زبان نہیں چھوڑی۔ بلکہ عربی کے لفظوں کو بڑی خوبی کے ساتھ اپنی زبان میں نگینے کی طرح جڑ دیا۔ عربی لفظوں کے داخل ہونے سے پہلوی میں بڑا لطف اور سہانا رنگ پیدا ہو گیا۔ اور اسی ملی جلی لطیف اور رنگین زبان کو فارسی کہتے ہیں۔ اسی فارسی نے آہستہ آہستہ ایسی شہرت اور مقبولیت پائی کہ محمود غزنوی کے زمانہ میں ایران، ترکستان اور افغانستان کی درباری اور علمی زبان کا درجہ رکھتی تھی۔ محمود اور محمد غوری اسی زبان کو ہند میں اپنے ساتھ لائے اور قطب الدین ایبک کے عہد سے اسی زبان میں علمی مجلسیں جمنے لگیں۔ سلطان غیاث الدین بلبن کے زمانہ میں ایسی مجلسوں کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ اسی فرخندہ آثار بادشاہ کے اوصاف و خصائل بہت اعلےٰ درجے کے تھے۔ یہ 1265ء میں تخت نشین ہوا اور اکیس برس تک اس نے کارہائے سلطنت کو بڑی سنجیدگی اور فہم و انصاف کے ساتھ انجام دیا۔ گو اس کے زمانہ میں ہندوؤں کو معزز عہدوں کا ملنا بند ہو گیا تاہم اس نے کبھی اپنی رعایا پر ظلم نہیں کیا۔ اس کے عہد میں دہلی کو وہ شان و شوکت حاصل ہوئی کہ باہر کے سلاطین اس کی دوستی کو اپنا فخر سمجھتے تھے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ 22


    اسی زمانہ میں وسط ایشیا میں مغلوں نے عجیب کہرام مچا رکھا تھا۔ ان کے متواتر حملوں نے سلطنتوں کو برباد کر دیا اور مسلمانوں کے لیے قیامت پیدا کر دی۔

    بہت سے بادشاہوں اور شاہزادوں نے بھاگ کر ہند میں بلبن کے ہاں پناہ لی۔ یہاں ان کی بڑی قدر ہوئی اور وہ اکثر دربار میں موجود رہتے تھے۔ بلبن اور اس کا بڑا بیٹا سلطان محمد علم و ہنر کے نہایت شوقین اور ارباب علم و فضل کے بڑے قدر دان تھے۔ محمود و سنجر کے دربار میں تو کیا اہلِ دانش اور باکمال لوگوں جمگھٹا تھا جیسا بلبن کے دربار میں تھا۔ امیر خسرو اور امیر حسن علاء سنجری ان ہی کے دربار کے روشن ستارے تھے۔ ان کی غزل خوانی اور نوا سنجی نے دہلی کو رشکِ شیراز اور ہم پلہِ اصفہان بنا دیا تھا۔

    جلال ادین فیروز شاہ اور سلطان علاء الدین جو خلجی خاندان کے بادشاہ تھے، علماء و فضلا اور دیگر صاحبِ کمال کو ہمیشہ انعام و اکرام دیتے اور ان کی بڑی تعظیم کرتے تھے۔ اسی طرح غیاث الدین تغلق اور اس کے جانشینوں کے عہد میں عالموں اور شاعروں کی بڑی آؤ بھگت رہی۔ غرض کل افغان بادشاہوں کے زمانہ میں برابر دربار اور ملکی امور میں فارسی زبان کا زور رہا۔

    سولہویں صدی میں جب بابر نے ہند میں افغانی بادشاہت کی جگہ سلطنت مغلیہ قائم کی تو اس وقت بھی چاروں طرف فارسی ہی کا دور دورہ تھا۔ اور مغلوں کے دربار اور فوج کی یہی زبان تھی۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
    Last edited: ‏29 ستمبر 2020
    ساتواں انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 29
    اکبر نے اپنی اصلی طاقت اور قدرتی لیاقت کو ہندؤں کے ساتھ جنگ میں تول لیا تھا اس لئے کبھی وہ شمشیر سے کام لیتا کبھی تدبیر سے ۔ ہندؤں کے ساتھ ناطے رشتے بھی ایسے پیدا کیے کہ ایک ہندو شہزادی جہانگیر کی ماں تھی اور اس کی زوجہ ۔ دربار میں ہر قسم کے لوگوں کا اجتماع رہتا تھا ۔ پادری ، پنڈت ، پارسی ، صینی ، شعیہ اور سنی ۔ سب پر بادشاہ کی نظر شفقت رہتی ۔ شعراء اور اہل کمال کے ساتھ گویے اور مطرب بھی برابر بیٹھے دکھائی دیتے ۔ ہندؤں اور ہندو مذہب کے ساتھ اسے بڑی ہمدردی اور دلچسپی تھی ۔ ہندو اس دلجوئی اور محکوم نوازی کو دیکھ کر اس پر سو { 100 } دل سے قربان ہوگئے ۔ ادھر راجہ ٹوڈرمل نے یہ حکم نکالا کہ فارسی میں مال گزاری اور محصول کے حساب کتاب رکھے جائیں ۔ ہندو شوق سے فارسی سیکھنے اور فارسی لیاقت پر فخر کرنے لگے ۔
    صدیوں بعد جن ہندؤں کو ایسی بےفکری اور امان حاصل ہوئی تو قومی دماغ نے بھی یک بیک نہایت نورانی اور موثر پیرایہ میں اپنا جلوہ دکھایا ۔ کہاں پہلے افغانوں کے عہد میں مندر توڑے جاتے اور بتوں اور پجاریوں کی آفت آتی تھی ۔ کہاں اب ایسی مہربانی اور عدل و انصاف کہ ہندو جاتریوں سے پیسہ بھی محصول نہیں لیا جاتا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کہیں تانسین بیٹھے الاپ رہے ہیں کہیں سورداس جی بھجن گا رہے ہیں ۔ کہیں تلسی داس راماین کو ہندی میں منظوم کررہے ہیں ۔ بادشاہ کو جیسے موسیقی ، مصوری ، نقاشی ، سنگ تراشی اور فن عمارت کو مربی ہونے کا شوق تھا ایسے ہی کتابوں کو جمع کرنے کا بھی تھا ۔ چنانچہ اس کے کتب خانے میں
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 30
    کوئی چوبیس ہزار کتابوں کا مجموعہ تھا جن کی قیمت کوئی سات کروڑ روپے کے قریب تھی ۔ اکبر اور مغل امراء کو باغ باغیچوں کا بھی شوق تھا ۔ لہذا جابجا بڑی خوشنما باڑیاں دکھائی دینے لگیں جن میں قسم قسم کے پھل اور میواجات کے درخت ہوتے ۔ امن ، آزادی اور خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ چاروں طرف شاہی سڑکیں اور پل سرائے اور کوئے بنائے گئے اور کاشتکاری ، دستکاری اور تجارت کو ازحد ترقی ہوئی ۔
    ان سارے حالات پر غور کرکے ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ خاص کر اس عہد میں اور اکبر کے بعد اس کے جانشینوں کے زمانے میں عربی و فارسی الفاظ کی کثرت کے ساتھ بھاشا میں داخل ہوجانا اور اس ملی جلی زبان کا مانوس و مروج ہونا کس قدر سہل اور ضروری تھا ۔
    ان افغان اور مغل بادشاہوں کے زمانے میں بڑی بڑی تبدیلیاں ملک میں ہوئیں اور رسم ، دستور ، دین ، علم و فنون ، حکمت اور حکومت سب پر ان کا اثر بجلی کی طرح دوڑ گیا ۔ وہ اپنے ساتھ اس ملک میں نیا مذہب نئے خیالات ، نئے طریقے اور نئی زبان لائے ۔ یہاں کی قومیں ایرین یا دراودی ان نئے حکمرانوں کی نظر میں برابر تھیں ۔ اب ایک نئی دنیا تھی اور نئی روشنی کا زمانہ ہر چیز اور ہر بات میں اب کچھ اور ہی لطف تھا اور اور ہی رنگ ۔ مسلمان حاکموں کی صحبت میں رہ کر یہاں کے باشندوں کا بھی کچھ اور ہی ڈھنگ ہونے لگا ۔ لباس بدلا ، ملنے جلنے کے قاعدے بدلے ، رہنے سہنے کے طریق بدلے ، ملکی قانون بدلا ۔ یہاں تک کہ
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ23


    پانچواں باب


    ہندی پر عربی اور فارسی زبانوں کا اثر


    ہم دوسرے باب میں بتا چکے ہیں کہ آگرہ، متھرا اور دہلی میں اور ان کے گرد و نواح میں بھاشا بولی جاتی تھی۔ اور یہ بھاشا سنسکرت اور پراکرت سے نکلی تھی۔ یہ خیال کہ ہندی کے لفظ یوں ہی اتفاق سے مسلمانوں کے زمانہ میں اور ان ہی کی صحبت میں پیدا ہو گئے بالکل غلط ثابت ہوا۔ ہم خود عقل سے یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ جب شمال کی طرف سے مسلمان بادشاہوں نے گیارہویں صدی عیسوی میں ہند پر حملے شروع کر دئیے۔ اس وقت ہندوؤں کی ضرور کوئی خاص زبان ہو گی جسے راجا اور پرجا دونوں بولتے ہوں گے۔ اور جس میں ہر طرح کی کارروائی ہوتی ہو گی۔ ہندوؤں کی زبردست ریاستیں اس وقت موجود تھیں۔ اور مالوہ، گجرات، بندیل کھنڈ، قنوج وغیرہ میں ان کے بڑے بڑے مہاراجہ حکومت کرتے تھے۔ آزادی، راج پاٹ، عیش و آرام سب کچھ انہیں حاصل تھا۔ اور لوگ باگ کوئی نہ کوئی زبان بولتے ہوں گے۔ پس وہ کون سی زبان تھی جسے سب بولتے تھے؟ یہ زبان سنسکرت اور پراکرت کی بیٹی بھاشا تھی جو دہلی کی اطراف میں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور یہ ہم جانتے ہیں کہ زبان سیکڑوں برس میں پھیلتی ہے اور خاص شکل و

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ24


    صورت اختیار کرتی ہے۔ یوں ہی بھاشا میں صدیوں کی تیاری دکھائی دیتی ہے۔ اور اسی بھاشا پر عربی اور فارسی کا اثر پڑا۔

    شروع میں یہ اثر ذرا کم تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مسلمان بادشاہ ہند میں آتے اور لوٹ مار کر کے پھر افغانستان کی طرف چلے جاتے تھے۔ محمود غزنوی کے سترہ حملے مشہور ہیں۔ وہ طوفان کی طرح آتا تھا اور اپنا کام کر کے پھر غزنی کو لوٹ جاتا تھا۔ اس کے جانشینوں کے عہد میں اکثر مار دھاڑ رہی۔

    محمد غوری کے زمانہ میں بھی یہی حال رہا۔ جب 1206ء سے دہلی میں مسلمان بادشاہی شروع ہوئی تو پھر ہر طرف اور ہر وقت جنگ کی تیاریاں رہنے لگیں ۔ پہلے تو پچاس ساتھ برس میں ملک پر آفت آیا کرتی تھی۔ اب خانہ جنگی اور بے اطمینانی دن رات کی مہمان ہو گئی۔ ابھی ایک خاندان تخت پر بیٹھا ہے ، ابھی دوسرا۔ آج مالوہ پر چڑھائی ہے تو کل گجرات پر، ادھر افغان امراء آپس میں خون ریزی کر رہے ہیں، ادھر شمال کی طرف غنیم کو روکنے کے لیے فوج بھیجی جا رہی ہے۔ اسی زمانہ میں ایشیا میں عجیب کہرام مچا ہوا تھا۔ چنگیز خان کا دور تھا اور سارے ایشیا میں کھلبلی تھی وہ اپنی لاکھوں سپاہ کو لے کر ادھر ادھر سلطنتوں کو اجاڑتا اور نیست و نابود کرتا پھرتا تھا۔ خاص کر ملک فارس اور بغداد کی طرف ہر دم کا فتنہ و فساد تھا۔ نہ جان کی خیریت تھی نہ مال کی۔ نہ بادشاہ کی سلامتی تھی نہ رعایا کی۔ عالم و فاضل اپنا اپنا وطن چھوڑ کر بھاگے۔ چنانچہ غیاث الدین بلبن بادشاہ دہلی کے دربار میں جس نے 1265ء سے

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ25


    1287ء تک حکومت کی۔ اور ملک کے پندرہ بادشاہ اور بہت سے عالم و فاضل جمع تھے۔ پس یہ زمانہ گویا خون کا زمانہ تھا۔ بھلا ایسے حال میں جب سب کو جان اور مال کی پڑی تھی۔ زبان کی طرف کس کا خیال ہوتا؟ ہندو اپنے راج پاٹ اور گھر بار کو سنبھالتے یا بھاشا کی خبر لیتے؟ یہاں تو ہند کے میدان خون سے رنگین تھے۔ زبان کی رنگینی کی طرف کس کی توجہ ہو سکتی تھی؟ صاف ظاہر ہے کہ ایسے حال میں بہت کم کتابیں تصنیف ہوئی ہوں گی اور جو کچھ ہوئیں بھی وہ فارسی میں۔ ہندوؤں کو اگر چین ملتا تو کچھ کر گزرتے۔

    تاہم ایک بات تو ضروری ہوئی کہ مسلمان فاتحوں کی زبان کا اثر بھاشا پر ہونے لگا۔ اور یہ اثر خصوصاً اس وقت سے زیادہ ہوا جب محمود غزنوی نےہند پر حملے شروع کر دئیے۔ بے شک اس زمانہ کی کوئی بھاشا کی کتاب نہیں جس سے ہم اس اثر کا اندازہ کریں۔ پر یہ ناممکن ہے کہ کوئی قوم سترہ حملے کرے اور پھر بھی یہاں کی زبان پر اس کا کوئی اثر نہ ہو۔ محمد غوری اور پرتھی راج کے زمانہ کی ایک کتاب ہے اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ عربی اور فارسی کے بہت سے لفظ بھاشا میں آ گئے تھے اور ان کا استعمال خود پرتھی راج کے دربار میں ہوتا تھا۔ افغان بادشاہوں کے زمانہ میں عربی اور فارسی کا اثر اور زور کے ساتھ ہونے لگا کیونکہ انہوں نے ہندوستان کو اپنا گھر بنا لیا تھا۔ تو بھی آئے دن کی سازشوں اور لڑائیوں اور فاتحوں اور مفتوحوں کی سخت نفرت و عداوت کے سبب سے وہ اثر ایسا نہ ہوا کہ بھاشا کی رنگت کو بالکل بدل دے۔ اتنا ضرور ہوا کہ

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  12. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ35


    لفظوں کو انگریزی کا جزو نہیں کہہ سکتے ۔ مگر اردو اس طرح سنسکرت، دراوری، عربی اور فارسی لفظوں سے مل کر بنی ہے کہ بولتے وقت ہمیں ضرور ہی ان چاروں زبانوں سے کام لینا پڑتا ہے۔ مثلا گھر کو خوب صاف رکھو۔ شام کو تازی ہوا کھاؤ، اس سے کھانا ہضم ہوتا ہے۔ اس عبارت میں صاف اور ہضم دونوں عربی لفظ ہیں مگر یہ اردو زبان کے ایسے جزو ہیں کہ ان کی جگہ اور کوئی لفظ آ ہی نہیں سکتے۔ اسی طرح خوب، شام اور ہوا فارسی ہیں اور تازی فارسی لفظ تازہ کا مؤنث ہے۔ ان فارسی لفظوں کی بجائے بھی کوئی اور لفظ نہیں آ سکتے۔ گھر اصل میں سنسکرت لفظ گِرہ ہے بگڑ کر گھر ہوا ۔ کو دراوری ہے۔ رکھنا، کھانا اور ہونا غالباً دراوری مصدر ہیں ۔ اور اب ہندی الفاظ کہلاتے ہیں۔ ایسے ہی ذرا اس عبارت کو دیکھو۔ "وہ بہت دنوں سے بیمار ہے اور علاج بھی مدت سے ہو رہا ہے۔ پر اب تک کچھ فائدہ نظر نہیں آتا۔ حالت اس کی اب ایسی ہے کہ جسم میں خون باقی نہیں رہا۔ اب تو بس خدا ہی کا آسرا ہے۔" یہ عبارت بالکل سادہ ہے اور اسے ہر کوئی سمجھ لے گا۔ سارے لفظ روز مرہ کے لفظ ہیں اور سب کی زبان پر چڑھے ہوئے ہیں۔ مگر اب شرح کر کے دیکھو کہ کس کس زبان کے لفظوں سے یہ عبارت بنی ہے۔ بیمار، خون، بس، خدا یہ فارسی کلمے ہیں۔ علاج، مدت، فائدہ، نظر، حالت، جسم، باقی یہ سب عربی کلمے ہیں۔ سنسکرت کا فقط ایک لفظ آیا یعنی آسرا۔ باقی جتنے الفاظ ہیں وہ سب ہندی ہیں۔ ان ہندی لفظوں میں کون کون سے دراوری زبان کے لفظ ہیں، ہم نہیں بتا سکتے ، پر اتنا جانتے ہیں کہ ہندی پراکرت کی بیٹی ہے اور پراکرت میں

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ36

    دراوری کلمے بھرے ہوئے ہیں۔ لہذا اوپر کی عبارت میں جو ہندی الفاظ ہیں ان میں سے کئی بلاشبہ دراوری لفظ ہوں گے۔ ایسی عبارت سے ایک اور بات ثابت ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ عربی اور فارسی کا بہت بڑا اور گہرا اثر بھاشا پر ہوا۔ عورت، مرد، پڑھے، ان پڑھے، شریف، رذیل سب کے منہ سے بولتے وقت بے ساختہ عربی اور فارسی لفظ ہندی لفظوں کے ساتھ جھڑنے لگتے ہیں۔ اگر کچھ فرق ہے تو صرف اتنا کہ بولتے اور لکھتے وقت کوئی عربی اور فارسی کے تھوڑے لفظ استعمال کرتا ہے کوئی زیادہ۔ لکھنؤ والے ہندی الفاظ کی بجائے فارسی اور عربی لفظوں کا استعمال کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں پر اردو زبان کی خوبی اس کی سادگی اور سلاست میں ہے۔ جو چھوٹے چھوٹے عام فہم لفظوں سے کام لے سکتا ہے۔ اس کی عبارتیں سلیس اور سادہ ہوں گی۔ اور جو عربی اور فارسی کے رنگ کو زیادہ ملائے گا اس کی بات مشکل سے سمجھ میں آئے گی۔

    جو کچھ اب تک بتایا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ کسی نے خاص یہ کوشش کبھی نہیں کی کہ بھاشا کے ساتھ عربی اور فارسی کو بلا کر ایک نئی زبان بنائے۔ بلکہ جس طرح قدرتی طور پر پراکرت زبان پیدا ہوئی اور پھر پراکرت سے بھاشا نکلی اسی طرح قدرتی طور پر بھاشا سے اردو بنی۔ زبان ایسی چیز نہیں جسے کوئی شخص ایجاد کرے اور اگر چند آدمی مل کر خاص لفظ اور محاورے ایجاد کریں وت جب تک انہیں عوام قبول نہ کریں وہ لفظ اور محاورے زبان کا جزو نہیں بن سکتے۔ اصلی ٹکسالی زبان وہی ہے جس نے خاص و عام میں مقبولیت اور رواج پایا ہو۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ37


    ہم اردو کے بارے میں یہ دعوٰے برے زور کے ساتھ کرتے ہیں کہ وہ خاص کسی قوم کی تحریک اور کوشش سے پیدا نہیں ہوئی۔ نہ اسے ہندوؤں نے بنایا نہ مسلمانوں نے اور نہ کسی خاصل مصلحت اور تدبیر سے وہ بنی۔ گیارہویں صدی عیسوی میں بھاشا اپنی پرانی صورت میں دہلی، متھرا اور آگرہ کے اطراف میں بولی جاتی تھی۔ اسی زمانہ میں شمال سے ہن پر مسلمان قوموں کے حملے شروع ہو گئے اور ان حملوں کے بعد یہاں مسلمان بادشاہی قائم ہو گئی۔ جب بادشاہی قائم ہوئی تو ہندو مسلمانوں کے محکوم بنے۔ اب ضرور تھا کہ مسلمان حاکموں کی فارسی زبان کا اثر بھاشا پر ہو۔ چنانچہ جب ان دونوں قوموں کا رشتہ حاکم اور محکوم کا ہوا تو اب قاعدے کے مطابق ان کا گہرا تعلق ہوا اور محض ضرورت کے سبب سے عام لوگوں کو ایک دوسرے کی زبان کے لفظ ملا کر بولنا پڑا۔ مسلمانوں کو اپنی رعایا کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی بھاشا بولنی پڑی اور ہندوؤں کو اپنی بات اور مطلب سمجھانے کے لیے مسلمانوں کے آگے بھاشا کے ساتھ فارسی ملانی ضرور ہوئی۔ یوں آہستہ آہستہ بالکل قدرتی طور پر بھاشا میں عربی اور فارسی کے لفظ شامل ہونے لگے۔ ایسے حال اور ایسی آب و ہوا میں اردو نے جنم لیا اور پرورش پائی اور اب سیکڑوں برس کے استعال سے اس میں وہ لطف اور رنگ پیدا ہو گیا ہے جو مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کے نزدیک نہایت پیارا اور خوش نما ہے۔ یہی ایک زبان ہے جو نہ خاص مسلمانوں کی میراث ہے نہ ہندوؤں کی بلکہ دونوں قوموں نے ملک کر اسے پالا پوسا اور اس کی سیوا ٹہل کی ہے۔ اور اس کے بناؤ سنگار میں دونوں نے ہاتھ لگایا ہے۔ اس لیے ایک اعلیٰ اور سچے معنی

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ38


    میں زبانِ اردو ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی ساختہ پرداختہ ہے اور دونوں کی لاڈلی بنی ہوئی ہے۔ اور خصوصاً دو تین سو برسوں کی محنتوں اور مشق سے اس میں وہ بلا کی جادو بیانی اور فصاحت و بلاغت کی قوت بھر دی ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور گہرے سے گہرے خیال اس میں بڑے زور و اثر کے ساتھ ادا ہو سکتے ہیں۔ اور منجملہ اور قدرتی جوہر و اوصاف کے اس میں ایسی غضب کی شیرینی اور نزاکت ہے کہ لفظوں میں ان کا بیان بھی نا ممکن ہے۔ ذرا کوئی اردو کے شاعروں اور نامی مصنفوں کے طلسم خانہ کو دیکھے تو وہ خود ہی قائل ہو جائے گا کہ ہمارا دعویٰ بالکل صحیح ہے۔


    ساتواں باب


    اردو زبان کا شروع 1001ء سے 1206 ء تک


    اس بات سے اکثر کو بڑا تعجب ہو گا کہ اردو زبان کوئی نو سو برس ہوئے جب شروع ہوئی۔ پر یہ بات بالکل درست ہے اور ہم اسے تاریخ سے ثابت کریں گے۔ ہم نے پچھلے باب میں بتایا کہ اردو خاص کر چار زبانوں سے مل کر بنی ہے یعنی سنسکرت، دراوری، عربی اور فارسی سے۔ ہم نے یہ بھی بتایا کہ بھاشا سورسینی پراکرت کی بیٹی ہے اور سور سینی پراکرت میں سنسکرت اور دراوری زبانوں کی آمیزش ہے۔ بھاشا کی عمر بھی ہم نے نو سو برس بتائی ہے۔ اب سنو کہ اصل واقعہ کیا ہے۔ 1000ء میں

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
    ساتواں انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 61
    اور ہندو شاہزادے بادشاہ کے وزیر اور مشیر بنے ۔ اور مسلمانوں امراء نے پڑھ کر سنسکرت کی کتابوں کا ترجمہ فارسی میں کیا ۔ اب ذرا سوچو کہ ہندؤں اور مسلمانوں کے میل ملاپ کے لئے اور کیا چاہیے تھا ؟ محل میں ہندو شہزادیاں بھاشا بول رہی ہیں ۔ دربار میں ہندو مشیر اور وزیر بھاشا بول رہے ہیں ۔ علمی مجلسوں میں سنسکرت اور فارسی کے عالم آپس میں زبانیں ملا کر بات چیت کر رہے ہیں ۔ ایسے قریبی تعلق سے ضرور تھا کہ فارسی اور عربی لفظ بہت ہی زیادہ بھاشا میں مل جائیں اور یہ ملی ہوئی زبان نہ فقط عوام کے درمیان بولی جائے بلکہ خاص بادشاہ کے دربار میں اور محل میں سنائی دے اور پھر اس زبان کا ہر جگہ رواج ہو ۔ لہاذا اب نئی اردو کا زمانہ آیا ۔
    عام طور پر لوگ خیال کرتے ہیں کہ اردو شاہجہاں بادشاہ کے وقت میں شروع ہوئی ۔ یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اردو اس وقت سے شروع ہوئی جب سے عربی اور فارسی کا دخل بھاشا میں ہونے لگا ۔ اور یہ ہم پہلے ہی بتاچکے ہیں ۔
    شاہجہاں کے وقت سے نئے اردو کی ترقی بےشک شروع ہوئی اور اردو کو علمی زبان ہونے کا موقعہ ہاتھ آیا ۔ بات اصل میں یہ ہے کہ شاہجہاں نے 1648ء میں پرانی دلی کے قریب نیا شہر آباد کیا اس نے اس نئے شہر کو شاہجہاں آباد نام دیا ۔ موجودہ دہلی وہی شاہجہاں آباد ہے ۔ اسی شہر میں شاہجہاں نے موجودہ لال قلعہ بنوایا اور لال قلعے کے اندر دربار عام ، دربار خاص ، موتی مسجد اور شاہی محل وغیرہ تعمیر کرائے ۔ اب سے آئندہ یہ نئی دہلی دارالسلطنت رہی ۔ جب سے اورنگ زیب
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ39


    بھاشا دہلی، متھرا، آگرہ اور اجمیر کے اطراف میں بولی جاتی تھی۔ اور ہندوستان کے اور اور حصوں میں دیسی بولیاں تھیں جو اور پراکرتوں سے نکلی تھیں۔ ان دیسی بولیوں سے ہمیں اس وقت کوئی مطلب نہیں۔ ہم تو دکھانا چاہتے ہیں کہ اردو زبان 1001ء سے شروع ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سچ مچ اردو اس ہی وقت سے شروع ہے؟ ہمارا جواب ہے کہ ہاں۔ اردو زبان درحقیقت اس ہی زمانہ سے شروع ہوئی ۔ اب ذرا سوچو کہ اردو کا جنم کس طرح ہوا۔ دہلی اور اس کے گرد و نواح میں بھاشا لوگوں کی بولی تھی۔ اسی میں وہ بات چیت کرتے اور اسی سے ان کا مطلب حل ہوتا تھا۔ اب تک عربی یا فارسی کا خمیر اس میں داخل نہیں ہوا تھا۔ ادھر یہ حال تھا ادھر شمال سے محمود غزنوی سیاہ آندھی کی طرح اٹھا اور 1001ء میں پنجاب کے راجہ جیپال کو شکست دے کر اس کے ملک کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ حملہ آور بہادر ہونے کے ساتھ وہ عالموں اور فاضلوں کا بڑا قدر دان بھی تھا۔ اس کی فیاضی کی شہرت سن کر دور دور سے اہلِ کمال اس کے دربار میں جمع ہو گئے۔ فردوسی جو فارسی زبان میں سب سے نامی شاعر ہوا ہے محمود کے دربار میں رہتا تھا۔ پنجاب میں اب محمود کی طرف سے کچھ فوج اور شاہی افسر چھوڑے گئے۔ ان سبھوں کی زبان فارسی تھی۔ پنجاب کو فتح کرنے کے بعد محمود نے ہند پر سولہ حملے اور کئے اور گجرات، قنوج، مالوہ، بندیل کھنڈ اور کالنجر تک دھاوا مارتا تھا۔ ہندو محمود کے نام سے کانپتے تھے اور اس کی خونریزی اور لوٹ مار کے سبب سے چاروں طرف ملک میں سناٹا تھا۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ40


    ایک موقعہ پر وہ بہت سے ہندوؤں کو قید کر کے غزنی لے گیا اور انہیں وہاں غلاموں کی طرح دو دو روپئے بیچا۔ اب ذرا غور کرو کہ کیا یہ ممکن ہے کہ محمود ہند پر اتنے حملے کرے اور ہندوؤں کی ریاستوں کو یوں پامال کرے اور پنجاب میں اپنی کچھ فوج رکھے اور اس کی زبان یعنی فارسی کا کوئی اثر یہاں کی بھاشا پر نہ ہو؟ اس سوال کا جواب ہر شخص یہی دے گا کہ عربی اور فارسی کے لفظ ضرور اس ہی کے وقت سے بھاشا میں داخل ہونے لگے۔ اور جب سے عربی اور فارسی لفظوں کا دخل بھاشا میں ہوا تب ہی سے اردو شروع ہوئی۔ ہاں اتنا ضرور یاد رکھنا پڑے گا کہ یہ اثر بہت ہلکا سا تھا کیونکہ وہ یہاں کبھی جما ہی نہیں۔ اگر وہ ہندوستان کو فتح کر کے یہیں رہنے لگتا اور غزنی کے بدلے دہلی یا آگرہ کو اپنا دارالحکومت بناتا تو بہت جلد فارسی اور بھاشا کے ملاپ سے اردو پیدا ہو جاتی۔ پر وہ ہند میں آتا تھا اور ہندو ریاستوں کو لوٹ لاٹ کر غزنی واپس چلا جاتا تھا۔ اس لیے اس کے عہد میں بہت کم تبدیلی ہوئی۔

    محمود کی وفات کے بعد اس کے جانشینوں کے زمانہ میں بھی برابر فتنہ و فساد رہا۔ ساتھ ہی ساتھ بارہویں صدی کے بیچ سے غوریوں کی طاقت بڑھنے لگی اور انہوں نے محمود کے خاندان کو غزنی سے نکال کر پنجاب کی طرف بھگا دیا۔ اب گویا غزنوی خاندان کی سلطنت فقط پنجاب اور سندھ پر محدود رہی۔

    پچیس تیس برس کے اندر 1186ء میں محمد غوری نے یہاں سے بھی انہیں نکالا اور پنجاب اور سندھ کو اپنی قلمرو میں ملا لیا۔ جب تک محمد غوری زندہ رہا وہ

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ41


    راجپوتوں سے لڑتا بھڑتا رہا۔ آخر اس کے انتقال کے بعد 1206ء میں دہلی شہر مسلمانوں کا دارالحکومت بنا۔

    محمود غزنوی کے وقت سے لے کر محمد غوری کے زمانے تک بھاشا پر فارسی کا اتنا اثر ہوا کہ کوئی ستر اسی لفظ عربی اور فارسی کے بھاشا میں داخل ہو گئے۔ پرتھی راج کے دربار میں اس وقت ایک بڑا مشہور شاعر تھا جس کا نام چند بردائی تھا۔ اس شخص نے ہندی نظم میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام پرتھی راسو ہے۔ یہ کتاب تین موٹی موٹی جلدوں میں ہے اور اس کے کوئی ستر حصے ہیں چند بردائی نے اپنی نظم میں پرتھی راج کا سارا حال دیا ہے۔ محمد غوری کا اور اس کی شکست کا حال بھی اس کتاب میں ہے۔ چند بردائی کا کلام اس وقت کی ہندی زبان کا آئینہ ہے۔ اور اس کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فارسی کے خمیر نے ہندی پر کتنا اثر کیا۔ محمد غوری سے پہلے دہلی کی اطراف پر تو مسلمانوں کا قبضہ بھی نہیں ہوا تھا تو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ پرتھی راج جیسے آزاد اور زبردست ہندو راجہ کے دربار میں بیسیوں لفظ فارسی کے ہندی کے ساتھ ملا کر بولے جاتے ہیں۔

    پس ہم صفائی کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ اردو زبان کا بیج گیارہویں اور بارہویں صدیوں میں پھوٹا اور قطب الدین ایبک کے زمانے تک چھوتی چھوتی نرم اور نازک پتیاں بھی نکل آئیں۔ چونکہ ابھی تھوڑے ہی سے فارسی اور عربی لفظ ہندی میں داخل ہوئے تھے اس لیے ہندی کا اصلی رنگ تبدیل نہیں ہوا پر انتا تو ضرور ہوا کہ اردو کی بنیاد پڑ گئی۔ اب ذرا تھوڑے سے نمونے بھی

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ42


    دیکھ لو۔ ایک موقعہ پر چند بردائی کہتا ہے ۔ مصرع۔ صاحب سلام سب کری آئے۔ یعنی صاحب سلامت کر آئے۔ پھر جب پرتھی راج پدماوتی کو لے کر قنوج سے بھاگا تو اس کا بیان چند بردائی نے یوں کیا ؎

    بھئی خبر نگر باہر سنائے

    بدما وتی ہر لئے جائے

    پھر آگے شاعر کہتا ہے ۔ ع۔ لے چلیو شتابی کر پہاڑ فوج۔ خبر اور فوج عربی زبان کے لفظ ہیں۔ اور شتابی بمعنی جلدی اور رخ دونوں فارسی کلمے ہیں جو عربی اور فارسی لفظ پرتھی راج راسو میں بار بار آئے ہیں ان میں سے تھوڑے سے یہاں نقل کرتا ہوں۔ مثلا شہر، تلوار، مقام، فرمان، پیش، حکم، نشان، پیلوان، گرز، کمان، تیر، تسبیح، سلطان، تازی (یعنی عربی گھوڑا)، زین، روز، حضور، تیغ، فوج، شاہزادے، امراء، کاغذ، سوار، زور آور، بیحال، بازار، رعیت، شاہان، موج، مال، تخت، دربار، جواہر، زنجیر، جانور، شکار وغیرہ

    یہ یاد رہے کہ محمد غوری سے یہ لفظ ہندی میں شامل ہو گئے تھے ورنہ چند بردائی انہیں اپنی کتاب میں پہلے شامل نہ کرتا۔ پس ہمیں پکا ثبوت مل گیا کہ اردو زبان کا شروع اسی زمانہ میں ہوا۔ اور یہ خیال بالکل غلط ہے کہ اردو مغل بادشاہوں کے وقت میں پیدا ہوئی۔

    اب ہم اس وقت کی بھاشا کا بھی نمونہ پیش کرتے ہیں۔ پدما وتی رانی کے پاس ایک طوطا تھا جسے وہ بہت چاہتی تھی۔ چند بردائی کہتا ہے ؎

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  15. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ43


    تھی محل رکھت بھئی۔ گئی کھیل سب بھول۔ یعنی اسی (طوطے کو) اپنے محل میں رکھتی تھی اور سب کھیل بھول گئی۔ دیکھو ساڑھے سات سو برس ہوئے جب یہ عبارت لکھی گئی اور پھر بھی اسے ہر کوئی آج سمجھ سکتا ہے۔ پرتھی راج کا ایک درباری سات روز تک دربار سے غیر حاضر رہا جب راجہ کو معلوم ہوا کہ وہ کچھ ناراض ہے تو آپ اس کے گھر گیا اور اسے منا پھسلا کر اپنے ساتھ لایا۔ جب وہ دربار میں آ گیا تو چند بردائی کو حکم ہوا کہ کوئی داستان سنائے۔ اس درباری کا نام "کانہہ" تھا۔ اب دیکھو کہ شاعر کس طرح سے اس مضمون کو ادا کرتا ہے ؎

    سات دوس جب گئے

    کانہہ دربار نہ آئے

    تب پرتھی راج کمار

    آپ منائے گَرہ جائے

    پھر ملے چند بردائی آئے

    کچھ کہی بات پچھلی سنائے

    یہاں فقط دو لفظ سنسکرت کے ایسے ہیں جنہیں آج کے دن ہر شخص نہیں سمجھ سکتا۔ دوس دن کو کہتے ہیں ۔ گَرہ بگر کر ہندی میں گھر ہو گیا۔ باقی لفظ ہر کوئی سمجھ لے گا۔

    ایک دفعہ پدماوتی رانی نے اپنے طوطے کے گلے سے ایک خط باندھ کر اسے اڑا دیا وہ خط پرتھی راج کے لئے تھا۔ جب طوطا جواب لے کر آیا تو رانے نے اسے دیکھا تو شاعر کہتا ہے ؎

    سُگّا دیکھت من میں ہنسی۔ کیو چلن کو ساج

    سُگّا طوطے کو کہتے ہیں۔ یہ پراکرت لفظ ہے۔ اور ساج فارسی ساز ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ44


    جس کے معنی تیاری کرنے کے ہیں۔ سو معنی یہ ہوئے کہ پدماوتی طوطے کو دیکھ کر دل میں ہنسی اور چلنے کا ساز و سامان کیا۔ ایک جگہ چندبردائی کہتا ہے ؎

    اپنے اپنے ڈیرے آئے۔ سب گھائل کے گھاؤ بندھائے

    دیکھو کیسی صاف اور سادہ عبارت ہے اور کون ایسا ہندوستانی ہے جو اسے پڑھتے ہی سمجھ نہ لے؟ ایک جگہ شاعر کہتا ہے ؎

    اپنے گھر تب آئے کر۔ تیل لیو من ایک

    یعنی اپنے گھر آ کر ایک من تیل لیا۔ ایک جگہ اور وہ کہتا ہے ؎

    یہی تیرتھ آئے ہتے۔ کئے آگئے کوئی کام

    یعنی اسی تیرتھ کو آئے تھے۔ آگے کیا کوئی کام ہے؟

    ان مثالوں سے ثابت ہے کہ اس وقت کی عام بول چال اور کام کاج کے لیے عنقریب وہی لفظ آتے تھے جو اب بھی اکثر ہندی اور اردو میں آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چندبردائی کی کتاب "پرتھی راج راسو" میں سیکڑوں لفظ ایسے بھی ہیں جن کا صحیح مطلب سمجھنا یا سمجھایا مشکل ہے۔ اور ہزاروں لفظ ایسے بھی ہیں جو فقط بھاشا یا ہندی میں استعمال کئے جاتے ہیں اور اردو میں نہیں آتے۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ زبان سیکڑوں برس میں بن کر تیار ہوتی ہے اور جوں جوں مدت گذرتی ہے نئے محاورے، نئے لفظ خاص کر نیا تلفظ پیدا ہو جاتا ہے۔ انگریزی کی موجودہ شکل و صورت کوئی ایک ہزار برس میں بنی ہے۔ اگر ہم بارہویں صدی کی انگریزی عبارتیں پڑھیں تو مشکل سے سمجھ میں آئیں گی۔ بارہویں صدی کی انگریزی

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ45


    میں سیکڑوں ہزاروں لفظ ایسے ہیں جو اب کبھی استعمال نہیں کئے جاتے۔ اور صرف و نحو میں بھی بہت تبدیلی ہو گئی۔ ٹھیک اسی طرح ہندی کا حال سمجھ لو۔

    بھاشا پراکرت سے نکلی تھی اور زبان ٹھیک سے منجھی نہیں تھی۔ تو بھی عام طور پر لوگوں کے بیچ میں ایک ایسی زبان بولی جاتی تھی جو اب کی ہندی سے بہت مل جاتی ہے۔ جو ضمیرین ہم اب استعمال کرتے ہیں وہ اس وقت موجود تھیں۔ مثلاً تو، تم، وہ، وے، ہوں، یا میں، ہم۔ گنتی کے سارے لفظ اس وقت بولے جاتے ہیں بہت کچھ اُس وقت بھی بولے جاتے تھے۔ تعجب تو یہ ہے کہ ہم بارہویں صدی کی گنتی کو دیکھتے ہیں اور وہ بیسویں صدی کی گنتی سے مل جاتی ہے۔

    "پرتھی راج راسو"کو پڑھ کر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے اسم جو ہم آج کے دن بولتے ہیں اس وقت بھی ٹھیک اسی صورت میں بولے جاتے تھے۔ مثلاً دن، رات، پھول، دیپک، مالا، لاج، بات، ہاتھ یا ہتھ، پاؤں، مُکھ، دانت، تن، دھن، من، جوبن، تِلک، سمندر، چوٹ، گھر، رُت، برکھا، بادل یا بدّل، پاپ، پُن، بیر، سورما، برس، دلہا، دلہن، دیس، بھیس، آس، مالی، بھید، ترنگ، مورت، سورج، پیٹ، امنگ، روپ، راگ، باجا، رس، پیار، چھایا، پھول، پھل، کاج، ڈیرہ، کھیل، ہل، پتی، بھلا، برا، لوگ، سیانا، گھٹا، ناؤ، لمڈھیک، ہنس، سارس، بگلا، بطخ، مگرمچھ، کچھوا، مور، کوئل، لنگور، ہرن، ہاتھی

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ46


    اونٹ، گاڈی یا گاڑی، پانی وغیرہ

    اب ایک چھوتی سی فہرست فعلوں کی بھی لو مثلاً آنا، جانا، کھانا، پینا، گانا، بجانا، سونا، رہنا، سہنا، کہنا، بولنا، تولنا، کھولنا، سمجھنا، سمانا، ڈھونڈنا، بڑھنا، دیکھنا، کرنا، لینا، دینا، سننا، چمکنا، گھٹنا، جیتنا، ہارنا، ملنا، ہلنا، لوٹنا، مارنا، بھاگنا، اٹھانا، لوٹنا، لگنا، لگانا، مانگنا، تھکنا، بسنا، سوجھنا، سوچنا، نگلنا، بھرنا، دھرنا، پوچھنا، لکھنا، پڑھنا، سیکھنا، پونچھنا، پھونچنا، جھومنا، چھوڑنا، چھوٹنا، ٹوٹنا، پوجنا، جینا، مرنا، سلانا، سدھارنا، اٹھنا، بیٹھنا، ماننا، اترنا، چڑھنا، ٹھیرنا، جڑنا، کھجنا، بھولنا، ہونا، سکنا، کانپنا، پکڑنا، پسارنا، جھولنا وغیرہ۔

    یہ سارے اسم اور فعل چند بروائی کی کتاب "پرتھی راج راسو" سے لئے گئے ہیں۔ اور بطور نمونے کے یہاں لکھے گئے یہ پکا ثبوت ہے کہ روز مرہ کے استعال کے تقریباً سارے لفظ جنہیں ہم اب بولتے ہیں اس وقت بھی بولے جاتے تھے ہم سادہ اور چھوٹے چھوٹے لفظوں میں بات چیت کرتے ہیں تو اس زبان کو بولتے ہیں جو نو سو برس پہلے پرتھی راج کے وقت میں بولی تھی۔ کہیں کہیں تلفظ میں اور لفظوں کی صورت میں کچھ تبدیلی تو ضرور ہوئی پر زبان وہی ہے جو اس زمانہ میں مروج تھی۔ اور اسی زبان پر فارسی اور عربی کا اثر ہوا۔ پرتھی راج کے عہد تک یہ اثر بہت محدود رہا۔ اسی لیے ہم نے فقط اتنا ہی بتایا کہ اردو اس وقت شروع ہوئی۔ اگر "پرتھی راج راسو" کو چھوڑ کر کوئی اور کتاب بھی اس

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ47


    زمانہ کی ہمارے ہاتھ لگتی تو ہمیں اور بھی صفائی کے ساتھ معلوم ہو جاتا کہ اس وقت کیسے کیسے خیال تھے اور کیسی کیسی باتیں اور کس کس طرح کے محاورے اور لفظ استعامل کئے جاتے تھے۔ تو بھی اتنا تو ہمیں ضرور معلوم ہوا کہ اس وقت کی ہندی اس وقت کی ہندی سے بہت ملتی ہے۔ اور وہ بے شمار لفظ جو اب ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں آتے ہیں عام طور پر ہر وقت اور ہر کام کے لئے بولے جاتے تھے۔


    آٹھواں باب


    پرانی اردو کا زمانہ 1206ء سے لے کر 1526ء تک


    پچھلے باب میں ہم نے بتایا کہ اردو کی بنیاد گیارہویں اور بارہویں صدیوں میں پڑی اور ہم نے نمونہ کے طور پر تھوڑے سے لفظ پرتھی راج کے زمانہ کے پیش کئے اور یہ بھی دکھایا کہ اس وقت کی زبان کیسی تھی۔ بھاشا کے مشکل لفظ ہم نے اس لئے پیش نہیں کئے کہ ان کی ضرورت نہیں تھی اور ہم نے یہ بھی بتایا کہ گیارہویں اور بارہویں صدیوں میں عربی اور فارسی کا بہت کم اثر ہندی پر ہوا۔ لیکن جب 1206ء میں قطب الدین ایبک نے دہلی میں سب سے پہلے مسلمان بادشاہی قائم کی تو ہندوؤں اور مسلمانوں کا نہایت قریبی تعلق

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  16. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ48


    شروع ہوا۔ اور ہر طرف سے یہاں کی زبان پر فارسی کا دباؤ پڑا۔ اب آٹھوں پہر ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہنے لگے اور ہر وقت ہندو رعایا اپنے مسلمان حاکموں کی زبان سننے لگی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے ٹوٹی پھوتی ہندی سیکھ لی اور ہندو فارسی پڑھنے لگے۔ اور پندرہویں صدی تک نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہندو شاہی دفتروں میں ملازم ہوئے اور عام طور پر ہندو اور مسلمان بھاشا میں سیکڑوں ہزاروں لفظ فارسی کے ملا کر بولنے لگے۔ اسی ملی جلی زبان کو پرانی اردو کہتے ہیں اور اسی کے کچھ نمونے ہم پیش کرتے ہیں۔ یہ ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ 1206ء سے 1526ء تک ملک میں برابر کھلبلی اور بے امنی رہی اور آئے دن لڑائی رہتی تھی اردو زبان کی طرف کسی کا خاص خیال نہیں ہوا۔ اسی سبب سے اس زمانے کی کوئی اچھی تصنیف زبان کے متعلق نہیں ہے تو بھی یہ کہنا درست ہو گا کہ افغان بادشاہوں کے وقت میں کثرت سے فارسی کے لفظ ہندی میں داخل ہوئے اور خاص اردو کے محاورے تیار ہونے لگے۔ اور ہندی کی شکل و صورت بھی کچھ بدلنے لگی۔ ان افغان بادشاہوں کا زمانہ 1206ء سے 1526ء تک ہے۔

    اب ذرا یہ بھی دیکھو کہ ان افغان بادشاہوں کے وقت میں کیسی اردو بولی جاتی تھی۔ اس زمانہ کے شروع میں دہلی شہر میں ایک بڑا مشہور شاعر تھا جس کی فارسی کتابیں آج تک بڑے شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ یہ شاعر امیر خسرو تھا۔ یہ ترکی خاندان سے 1255ء میں پٹیالی میں پیدا ہوا۔ یہ قصبہ پٹیالی پہلے مومن آباد

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ49


    کے نام سے مشہور تھا۔ امیر خسرو اپنی جوانی کے شروع سے دہلی شہر میں آ کر رہنے لگا۔ اس وقت غیاث الدین بلبن دہلی کا بادشاہ تھا۔ بلبن نے اسے دربار میں بلایا اور اس کی بڑی عزت کی۔ بلبن کی وفات کے تین برس بعد دہلی کا تخت خلجی کے ہاتھ لگا۔ خلجی بادشاہوں نے بھی اس کی بڑی عزت کی اور ہمیشہ انعام و اکرام دیتے رہے۔ 1320ء میں غیاث الدین تغلق نے دہلی کے تخت پر قبضہ کر لیا اور خسرو کے ساتھ بری آؤ بھگت سے پیش آیا۔ پانچ برس کے بعد 1325ء میں خسرو نے انتقال کیا۔ ان دنوں نظام الدین اولیاء کی بڑی شہرت تھی۔ امیر خسرو ان کے شاگرد تھے اور مرتے دم تک ان کے نمونے اور ہدایت پر چلتے رہے۔ حضرت سلطان المشائخ کے ساتھ انہیں بڑی قلبی محبت تھی۔ 94 برس کی عمر میں حضرت نے وفات پائی۔ امیر خسرو اس وقت لکھنوتی میں تھے۔ اس حسرت ناک خبر کو سنتے ہی دہلی روانہ ہوئے۔ یہاں پہنچ کر بال کٹوائے اور منہ سیاہ کر لیا۔ اور مزار پر آئے۔ اپنا سر مزار مبارک پر دے مارا اور بڑی دردناک اور رقت انگیز آواز میں یہ کہا۔


    گوری سووے سیج پر مکھ پر ڈالے کیش(بال)

    چل خسرو گھر آپنے سانجھ بھئی چھوں دیش (چاروں طرف)


    چھ مہینے کے بعد اس دارِ ناپائدار سے رحلت کی اور اپنے مرشدِ کامل کے قریب پائین میں دفن ہوئے۔

    امیر خسرو کا زمانہ نہایت پر آشوب اور اندوہناک زمانہ تھا۔ خاندانِ غلاماں

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ50


    کا چراغ ان کے دیکھتے دیکھتے گل ہوا۔ خلجیوں کا ستارہِ اقبال ان کے سامنے طلوع ہوا اور ان ہی کے سامنے غروب ہوا۔ غیاث الدین تغلق ان کے سامنے دہلی کا بادشاہ ہوا۔ انہوں نے گیارہ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا اور ان میں سے اکثروں کے نہایت مقرب مشیر اور دوست رہے۔ اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کیسا خوفناک اور سیاہ زمانہ ہو گا جس میں اخلاق کا خون کھلم کھلا ہوتا اور تلوار تخت و تاج والوں کے سروں پر کھیلا کرتی تھی۔ سلطنت کے انقلاب کے سبب اکثر شریف خاندانوں اور اہلِ فضل و کمال کی بھی شامت آ جاتی تھی۔

    امیر خسرو نے فارسی میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں جو آج تک موجود ہیں۔ ان ہی نے ایک بھٹیاری کے لڑکے کے لئے خالق باری بھی لکھی جو چھ سو برس سے آج تک برابر مکتبوں میں پڑھائی گئی ہے۔ ہندی میں بھی انہوں نے بہت سے گیت بنائے اور راگ نکالے جو اب تک گائے جاتے ہیں۔ پر سب سے زیادہ ان کی پہیلیاں، مکرنیاں اور دو سخنے مشہور ہیں۔ پہلے ان کی پہیلیوں کی بہار دیکھو مثلاً ناخن کی پہیلی ؎


    بیسوں کا سر کاٹ لیا

    نا مارا نہ خون کیا


    اسی طرح نبولی کی پہیلی دیکھو کیسی خوبصورتی سے کہی ہے ؎


    ترور (پیڑ) سے ایک تریا (عورت) اتری اس نے بہت رجھایا

    باپ کا اس کے نام جو پوچھا آدھا نام بتایا

    آدھا نام بتایا خسرو کون دیس کی بولی

    وا کا نام جو پوچھو میں نے اپنا نام نبولی


    آری اور موری کی پہیلیاں دیکھو کیسی خوبی سے کہی ہیں۔؎


    ایک ناری (عورت) وہ دانت دنتیلی

    دبلی پتلی چھیل چھبیلی

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
    ساتواں انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 62
    تخت پر بیٹھا دہلی کو برابر اس بات کا شرف حاصل رہا کہ بادشاہ یہاں رہتا تھا ۔ اب ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ اردو ایسے حال میں دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرے گی اور شہر دہلی اس کا اصلی گھر اور وطن ہوگا ۔
    جب بادشاہ اور سارے ارکان دولت اس نئے دارالخلافہ میں رہنے لگے تو زبان نے بھی ایک نیا رنگ پکڑا ۔ اب تک اس بھاشا کو جس میں عربی اور فارسی کے لفظ داخل ہوگئے تھے کوئی خاص نام نہیں ملا تھا ۔ اتفاق ایسا ہوا کہ شاہی لشکر کے بازار کو اردو کہتے تھے اور چونکہ یہ ملی ہوئی زبان سب سے زیادہ اسی بازار میں بولی جاتی تھی اس لئے اس زبان کو بھی اردو کہنے لگے ۔ اب روز بروز بھاشا کے الفاظ اور محاورے کم ہونے لگے اور ان کی جگہ عربی اور فارسی کے الفاظ اور محاورے زبان میں داخل ہوتے گئے ۔ ان کے سوا بہت سے نئے محاورے اور الفاظ ترجمہ ہوکر اردو کا جزو بن گئے ۔ اب ذرا ہم مثال دے کر دکھائیں گے کہ بھاشا نے مسلمان حاکموں کی زبان سے کیا کیا لیا جس سے اس کی صورت بدل کر اردو ہوگئی ۔
    1 -- ان چیزوں کے نام لیے جو مسلمانوں کے ساتھ آئیں اور اپنے نام بھی ساتھ لائیں ۔ مثلا لباس میں چوغا ، کرتہ ، لبادہ ، قبا ، آستین ، گریبان ، عمامہ ، دستار ، ازار ، پائجامہ ، پوستین ، برقع ، نقاب ، شال ، دوشالہ ، رومال ، تکیہ ، گاؤتکیہ وغیرہ
    مسلمانوں کے بہت سے کھانے ، تیوہار اور گھر کی چیزوں کے نام بھی لے لئے مثلا شیرمال ، باقرخانی ، پلاؤ ، زردہ ، بریانی ، قورمہ ، قلیہ ، مربا ، اچار
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ51


    جب واتریا (عورت) کو لاگے بھوک

    ہرے سوکھے چباوے روکھ (پیڑ)

    جو کوئی بتاوے تا کے بلہاری (قربان)

    خسرو کہے میں میں بتاؤں درے آری


    ساون بھادوں بہت چلت ہے، ماہ پوس میں تھوڑی

    امیر خسرو یوں کہے، تو بوجھ پہیلی موری


    آرسی کی پہیلی میں دیکھو اس وقت کی ہندی کیسی بل کھا رہی ہے۔ ؎


    ایک نار پیا کو بھانی (پسند)

    تن وا کا سگرو جون پانی

    آب رکھے پر پانی نانھ

    پیا کو راکھے ہردے(دل) مانھ (میں)


    اب ذرا امیر خسرو کی چند مکرنیوں کے لطف کو بھی دیکھو ؎

    سگری (سب) رین (رات) موہے سنگ جاگا

    بھور (صبح) بھئی تب بچھڑن لاگا

    اس کے بچھڑے پھاٹت ہِیا (دل)

    اے سکھی ساجن؟ نا سکھی دِیا (بتی)


    وہ آوے تب شادی ہوئے

    اس بن دوجا (دوسرا) اور نہ کوئے

    میٹھے لاگیں وا کے بول

    اے سکھی ساجن؟ نا سکھی ڈھول


    آپ ہِلے اور موہے ہلاوے

    وا کا ہلنا مورے من بھاوے

    ہل ہلا کر ہوا نسنکھا(فارغ)

    اے سکھی ساجن؟ نا سکھی پنکھا


    دو سخنے بھی امیر خسرو کے مشہور ہیں اور ان میں کچھ اور ہی رنگ ہے مثلاً

    گوشت کیوں نہ کھایا۔ ڈوم کیوں نہ گایا؟ گلا نہ تھا

    جوتا کیوں نہ پہنا ۔ سموسہ کیوں نہ کھایا؟ تلا نہ تھا

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ52


    ان مثالوں میں ہمیں زیادہ تر ہندی کے لفظ ملتے ہیں تو بھی ہمیں اتنا تو معلوم ہو جاتا ہے کہ تیرہویں صدی کے آخر اور چودہویں صدی کے شروع میں کس طرح کی ہندی بولی جاتی تھی۔ اس زمانے میں منجھتے منجھتے بھاشا صاف ہونے لگی اور موقعہ سے فارسی کے لفظ بھی ملائے جانے لگے۔ اوپر کے دو سخنوں کو دیکھو۔ ایک ایک لفظ میں آج کل کی اردو کا رنگ بھرا ہے۔ امیر خسرو کی ایک غزل ہے جس میں ایک مصرع فارسی میں کہا ہے ایک ہندی میں۔ ہندی کے دو مصرع یہاں نقل کرتا ہوں۔

    ع۔ سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

    ع۔ کسے پڑی ہے جو جا سنائے پیارے پی کو ہماری بتیاں

    واہ! کیا جادو بھری زبان تھی۔ یہ گل انہوں نے چودہویں صدی میں کھلائے تھے اور آج بیسویں صدی میں بھی ان میں وہی تازگی اور خوشبو ہے۔

    ان کے ہندی کلام کا ایک اور نمونہ معہ اس کے قصہ کے دیتا ہوں۔ ان کے محلہ کے کنارے چّمو نام کی ایک بڑھیا ساقن رہتی تھی۔ اس کی دکان پر دن رات لوگوں کا ہجوم رہتا اور بھنگ اور چرس وغیرہ اڑا کرتیں۔ جب امیر خسرو آتے جاتے دکھائی پڑ جاتے تو وہ ادب سے سلام کر لیتی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ ایک بھٹیاری کے بیٹے کے لئے آپ نے خالق باری لکھ دی تو وہ بھی عرض کرنے لگی کہ اس لونڈی کے نام پر بھی کچھ فرما دیجیے تاکہ آپ کے طفیل سے اس کا نام بھی یادگار رہ جائے۔ دو چار دفعہ کے تقاضوں کے بعد آپ نے ذیل کے اشعار لکھ کر دے دئیے۔

    اوروں کی چوپہری باجے۔ چّمو کی اٹھ پہری

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ53


    باہر کا کوئی آئے ناہیں۔ آئیں سارے شہری

    صاف صوف کر آگے راکھے جس میں ناہیں توسل

    اوروں کے جہاں سینگ سماوے چّمو کے ہاں موسل

    بادشاہوں کے ہاں اس زمانہ میں چوپہری نوبت بجا کرتی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ بی چّمو کے ہاں اٹھ پہری بجتی ہے یعنی یہ بادشاہوں سے بھی بڑی ہے اور اس کے ہاں گنوار کا کام نہیں ۔ سب سفید پوش شہری آتے ہیں۔ یہ بھنگ ایسا صاف کرتی ہے کہ اس میں کوئی تنکا نہیں رہتا۔ اور وہ بھنگ ایسی گاڑھی ہوتی ہے کہ اس میں موسل کھڑا ہو جائے۔ گو اوروں کی بھنگ میں فقط سینگ کھری ہوتی ہے۔

    خالق باری مختلف بحروں میں اسی غرض سے لکھی گئی تھی کہ عربی و فارسی لفظوں کے معنی ہندی میں نظم کی صورت حفظ کرا دئیے جائیں۔ یہ پہلے کئی جلدوں میں تھی۔ پر آج کل اس کا ایک چھوٹا سا اختصار بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستانی زبان کے بہت سے لفظ جو عام طور پر آج کل مروج ہیں اس زمانہ میں بھی جب خسرو زندہ تھی بعینہ اسی صورت میں استعال کئے جاتے تھے۔ اب کچھ نمونے بھی دیکھ لو۔


    اسمُ اللہ خدا کا ناؤں

    گرما دھوپ سایہ ہے چھاؤں

    قوت، نیرو، زور، بل آن

    سارق، دُرز، چور ہے جان

    مرد منس زن ہے استری

    قحط کال، وبا ہے مری

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ54


    دوش کال رات جو گئی

    امشب آج رات جو بھئی

    ترا بگفتم میں تجھ کیہا

    کجا بماندی، تو کت رہیا

    بیا برادر، آؤ رے بھائی

    بنشین مادر ، بیٹھ ری مائی

    آتش آگ آب ہے پانی

    خاک دھول جو باؤ ارؤانی


    ایک دوسری بحر میں کیا کہا ہے اس کا بھی ذرا ملاحظہ ہو


    ارض دھرتی، فارسی باشد زمین

    کوہ در ہندی، پہاڑ آمد یقین

    کاہ ہیزم، گھاس کاتھی جانئے

    اینٹ ماٹی، خشت و گِل پہچانئے

    سنگ پاتھر جانئے برک اٹھاؤ

    اسپ میران ہندوی گھوڑا چلاؤ

    موش چوہا، گربہ بلی، مار ناگ

    سوز درشتہ، بہندی سوئی تاگ


    ایک اور بحر نقل کرتا ہوں اس کی بھی سیر دیکھ لو۔


    بزرگی ، بڑائی و پیری بڑھاپا

    نکوئی بھلائی، جوانی تناپا

    دروغ و دگر کذب تم جھوٹھ جانو

    بزرگ و کلاں را بڑا جان مانو

    بہندی زبان خانہ ہم بیت گھر ہے

    چو خوف و خطر بیم ہم ترس ڈر ہے

    تمنا ، وہم، آرزو، چاؤ کہیے

    ید و دست ہاتھ و قدم پاؤں کہیے

    چراغ است دِیا، فتیل است باتی

    بود جّد دادا، نبیر است ناتی

    گرہ عقد باشد، بتازی و لیکن

    بہندی بود گانٹھ بشنو تو ازمن

    کثیر و فراواں و بسیار افزوں

    بسے بہت کہیے سبھی جانیو توں

    پدر بات باشد چو اُمّ است مادر

    سناں بھال برگستوان است پاکھر

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ55


    ذُباب و مگس ماکھی و پشّہ ماچھر

    بود ریگ بالو و سنگریزہ کانکر


    دیکھو ان ہندی لفظوں کو لکھے چھ سو برس ہو گئے پھر بھی کیا صاف پہچانے جاتے اور تقریباً اسی طرح آج تک بولے جاتے ہیں۔

    اب ہم پندرہویں صدی کی زبان کا تھوڑا سا نمونہ دیتے ہیں۔ پندرہویں صدی میں کبیر برے مقدس اور نامی بھگت ہوئے ہیں۔ بنارس میں ایک مسلمان جلاہے کے ہاں 1380ء میں پیدا ہوئے تھے۔ مدتوں فقیروں اور جوگیوں کی سنگت میں رہے۔ پھر بابا رامانند کے چیلے بنے۔ ان کی وفات کی تاریخ ٹھیک سے معلوم نہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ چالیس برس کی عمر میں انتقال کیا اور کوئی کہتا ہے کہ اسی برس کے بزرگ ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کا بہت بڑا اثر اس زمانے کے لوگوں پر ہوا اور اب ان کے ماننے والے کبیر پنتھی کہلاتے ہیں۔ ان کے بھجن اور گیت ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو بھائے اور نصیحت سے لبریز ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ چاہے کسی مذہب کا آدمی انہیں پڑھے دل پر اثر ہی ہوتا ہے۔ ان کی باتیں تھیں یا موتی کے دانے؟ کلام تھا یا شہد کا ٹپکا۔ مضمون آسمان سے اتار کر لاتے اور اسے قند کے ٹکڑوں میں لوگوں کی نذر کرتے تھے۔ دیکھو چند روزہ زندگی کی کیسی تصویر اس بجھن میں کھینچی ہے۔


    چھٹت پِران (جسم) کایا کیسے روئی

    چھوڑ چلا نر (آدمی) موہی

    میں نے جانا کیا سنگ چلے گی

    یا کارن مل مل دھوئی

    اونچے نیچے مندر چھوڑے

    گائے بھینس گھر گھوڑی

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  19. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ56


    تریا (عورت) تو کلونی (شریف) چھوری

    چھوڑی پتُرن (بیٹے) کی جوڑی

    موٹی جھوٹی گزی منگائی

    بنا کاٹھ کی گھوری

    چار جنے(آدمی) مِل لے گئے اس کو

    پھونک دیا جیسے ہوری

    بھولی تریا روون لاگی

    بچھڑ گئی میری جوڑی

    کہت کبیر سنو بھائی سادھو

    جن جوڑی واہی توڑی


    کبیر جی اکثر فارسی اور عربی کے لفظ بھی استعمال کر جاتے تھے جیسے ایک بھجن کے شروع میں کہا گیا ع

    کر گزران غریبی سے ، مغروری کس پر کرتا ہے

    بھلا بتاؤ کہ اس عبارت میں اور آج کل کی اردو میں کتنا فرق ہے؟ اگر کوئی اسی مضمون کو اب کہے تو ان ہی لفظوں میں کہے گا۔ ایک اور بھجن یہاں نقل کرتا ہوں۔ ذرا ہندی اور فارسی کی ملاوٹ پر غور کرنا۔ عربی اور فارسی لفظوں کے نیچے خط کھنچا ہو گا۔ اس بھجن میں موت کو چور سے تشبیہہ دی ہے۔


    تم رہنا خوب ہشیار

    نگر میں چور جو آوے گا

    تفنگ، تیر، تلوار نہ برچھی

    نہ بندوق چلاوے گا

    بھیت (دیوار) نہ پھوڑے اور نہ پھاندے

    نا کومل لگاوے گا

    ایک فریاد چلے نہ تیری

    ایسا لشکر آوے گا

    دیکھیں سب پروار (رشتہ دار) کھڑے ہو

    توہے چھین لے جاوے گا

    کوئی کھوجی کھوج نہ پاوے

    لاکھ جو عقل دوڑاوے گا

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ57


    کام (خواہش) کرودھ (غصہ) اور لوبھ(لالچ) موہ

    جو ان کو دور بھگاوے گا

    صاحب کی درگاہ میں پیارے

    کھلے کواڑے جاوے گا


    ایک اور بھجن کے رنگ کو دیکھو کیسا چوکھا اور پیارا ہے۔


    میں اپنے رام کو رجھاؤں

    وہی بھجن گُن گاؤں

    گنگا جاؤں نہ جمنا جاؤں

    نہ کوئی تیرتھ نہاؤں

    ڈالی چھیڑوں نہ پتا چھیڑوں

    نہ کوئی جیو ستاؤں

    پات پات میں پربھو بست ہے

    تاہی کو سیس(سر) نواؤں(جھکاؤں)

    او شدھ (ددا) کھاؤں نہ بوتی کھاؤں

    نہ کوئی بید بلاؤں

    پورن برھم (خدا) جو ہے ابی ناشی (امر)

    میں تاہی کو نبض دکھاؤں

    جوگی ہوؤں نہ جٹا بڑھاؤں

    نہ انگ بھبوت رماؤں

    جو رنگ رنگے آپ بدھاتا (مالک)

    اور کیا رنگ چڑھاؤں

    کہیں کبیر سنو بھائی سادھو

    میں وا ہی کے بھجن گُن گاؤں


    ایک اور بھجن دیکھو کیسے سادہ لفظوں سے کام لیا ہے

    ؎ سُمرن غوطے کھاؤ گے


    کا لے کر یہاں جنم لیو ہے

    کا لے کر چلے جاؤ گے

    مٹھی باندھ کے جنم لیو ہے

    ہاتھ پسارے جاؤ گے

    یہ تن ہے کاغذ کی پڑیا

    بوند پڑے گل جاؤ گے

    کہیں کبیر سنو بھائی سادھو

    ایک نام بِنا پچتاؤ گے

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ58


    کبیر جی کا کلام پندرہویں صدی کی زبان کا نمونہ ہے ۔ چونکہ وہ بنارس کے رہنے والے تھے اور بنارس میں خاص ہندی کا زیادہ رواج تھا اس لیے کبیر جی کے اکثر بھجن ہندی میں ہیں۔ پھر بھی دیکھو کیسی عام فہم زبان ہے اور کس قدر آج کل کی عام بولی سے مل جاتی ہے۔ اور جب اس میں فارسی کے لفظ مل جاتے تھے تو کیسی خوبصورت پیدا ہو جاتی تھی۔ یہی ملی جلی زبان اس وقت ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں میں رائج تھی۔ اور اسی کا نام ہم نے پرانی اردو رکھا ہے ۔

    چند اور بھجن نقل کئے جاتے ہیں۔ ذرا ان کو بھی دیکھ لو


    بھجن

    یہی گھڑی یہی ویلا (وقت) سادھو

    یہی گھڑی یہی ویلا رے

    لاکھ خرچ پھر ہاتھ نہ آوے

    ماس (آدمی) جنم سہیلا (اچھا) رے

    نا کوئی سنگی نا کوئی ساتھی

    جاتا بھنور اکیلا رے

    کیوں سویا؟ اٹھ جاگ سویرے

    کال (موت) دیت ہے ہیلا (ہلانا) رے

    کہت کبیر گوبند گن گاؤ

    جھوٹا ہے سب جگ میلا رے


    بھجن

    نام سُمر پچھتائے گا من

    نام سُمر پچھتائے گا

    پاپی جیا را لوبھ کرت ہے

    آج کال اٹھ جائے گا

    لالچ لاگے جنم گنوایا

    مایا بھرم بھلائے گا

    دھن جوبھن (جوانی) کا گربھ (غرور) نہ کیجے

    کاغذ سا گل جائے گا

    جب جم (ملک الموت) گیس (بال) گہے پٹکے

    تا دن کچھ نہ بسائے گا

    دھرم راج جب لیکھا (حساب) مانگے

    کیا من مورکھ (بےوقوف) دکھائے گا

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ59


    سمرن بھجن دَیا (رحم) کر جگ میں

    ان سب کا پھل پائے گا

    کہیں کبیر سنو بھائی سادھو

    بھو ساگر (دنیا کا سمندر) تر جائے گا


    بھجن

    پی لے پیالا ، ہو متوالا

    پیالا پریم ہری رس کا رے

    بالا پن (لڑکپن) سب کھیل گنوایا

    تَرُن (جوان) بھیا (ہوا) ناری (عورت) بس کا رے

    بِردھ (بڈھا) بھیا کف وایو (ہوا) نے گھیرا

    تن سے جائے نہیں کھٹکا رے

    ناست سنگ نہ کتھا کیرتن (بھجن)

    نا پربھو چرنن (قدم) پریم رچا رے

    اب ہُون سوچ سمجھ اگیانی (بے عقل)

    اس جگ میں نہیں کوئی اپنا رے

    کام (خواہش)، کرودھ(غصہ)، لوبھ (لالچ)، ایرشا(حسد)

    ان میں نِش دن رہت پھنسا رے

    بھوک ملاس باسنا (عیش و عشرت کی خواہش) جگ کی

    گلے بِچ جم کا پھند پڑا رے

    مات(ماں) ، پتا (باپ)، بھائی ، سُت (بیٹا)، بندھو

    سنگ نہیں کوئی جائے سکا رے

    جب لگ جیوے ہری گُن گائے

    دھن جوبن دِن ہے دس کا رے


    بھجن

    جگت میں خبر نہیں کل کی


    سکرت (اچھے کام) کر لے، رام سمر لے، کو جانے کل کی

    جھوت کپٹ کر مایا جوڑی، بات کرے چھل کی

    پاپ کی پوٹ (گٹھری) دھری سِر اوپر، کیسے ہو ہلکی

    کایا (جسم) اندر ہنسا(روح) بولے، کرنی کر کل کی

    جب یہ ہنسا نکل جائے گا، مٹی جنگل کی

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ60


    کام کرودھ مَدھ لوبھ نوارو (چھوڑو)، چھوڑو چھل بل کی

    گیان بیراگ دیا من راکھو، کہیں کبیر اصل کی


    نواں باب


    نئی اردو کا زمانہ ۔ 1526ء سے لے کر زمانہ حال تک


    گذرے باب میں ہم نے پرانی اردو کے چند نمونے دئیے۔ افغان بادشاہوں کے زمانہ میں جہاں کہیں مسلمانوں کا زور تھا اسی طرح کی ملی جلی زبان بولی جاتی تھی۔ مغلوں کے آنے سے پہلے جب خاندانِ تغلق کے آخری دو بادشاہ ہوئے تو افغانی سلطنت کمزور ہو گئی اور دور دور کے صوبوں نے آزادی اختیار کی۔ جونپور، مالوہ، گجرات، بنگالہ اور دکن میں اب چھوٹی چھوٹی مسلمان بادشاہتیں پیدا ہو گئیں۔ چنانچہ ان ہی بادشاہتوں کو ایک ایک کر کے اکبر نے فتح کیا اور انہیں اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ ان چھوتی بادشاہتوں کی بدولت اردو زبان کو جڑ پکڑنے اور ترقی کرنے کا بہت بڑا موقع ملا۔ دکن میں اردو نے ایسی ترقی کی کہ خاص کر احمد نگر، بیجا پور اور گولکنڈہ کے بادشاہی درباروں میں اردو زبان میں شاعری بھی ہونے لگی۔ اس کا مفصل حال ہم پیچھے لکھیں گے۔

    نئی اردو کا زمانہ مغل بادشاہوں کے وقت سے شروع ہوا۔ ہم نے پہلے بتایا کہ اکبر کے عہد میں ہندو شاہزادیاں بادشاہی محل میں داخل ہوئیں

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
    ساتواں انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحه 63
    گلاب ، بیدمشک ، خوان ، طشتری ، رکابی ، کفگیر ، چمچہ ، سینی ، حمام ، صابون ، شیشہ ، شمعدان ، فانوس ، تنور ، نماز ، روزہ ، عید ۔
    فوجی الفاظ بھی اسی طرح داخل ہوئے مثلا فوج ، لشکر ، سپہ سالار ، تیر ، تفنگ ، بندوق وغیرہ ۔ اسی طرح معماری کے متعلق عربی اور فارسی اصطلاحیں اردو میں آگئیں ۔ مثلا ردہ ، ساہول { اصل میں ترکی لفظ شاقول ہے } سہ درہ ، تہ زمین ، برج ، محراب ، ستون ، دروازہ ، فرش ، صحن ، زنجیر ، منبر ، دیوار ، کرسی ، مینارہ ، طاق ، استرکاری ، تہخانہ ، پشتیبان ، کہگل ، گردا ، زینہ ، باورچی خانہ ، پیخانہ ، قدمچہ ، بدررو ، بنیاد ، گلی ، آتشدان ، بازو ، میخ ، سقف ، دالان ، دہلیز ، خشت ، برجی ، ہشت پہل ، مقبرہ ، مکان ، محل ، دکان ، زنانخانہ وغیرہ ۔
    2 -- بہت سے عربی فارسی لفظ ایسے ہیں جو بھاشا کے لفظوں کو ہٹا کر ان کی جگہ سنبھال بیٹھے ہیں ۔ اب اگر ان کی جگہ ہندی لفظ بولیں تو مشکل سے کوئی انہیں سمجھے گا ۔ ان میں سے چند لفظ یہ ہیں ۔ قلم ، دوات ، گواہ ، قرض ، تربوز ، عمر ، چرخہ ، مزدور ، دلال ، کرایہ دار ، ہوا ، وکیل ، جلاد ، صراف ، محل ، حویلی ، نقطہ ، وزیر ، مہر ، حلوا ، مسخرا ، تاریخ ، نصیحت ، لحاف ، توشک ، چادر ، دیباچہ ، فہرست ، قانون ، صورت ، شکل ، چہرہ ، مزاج ، طبعیت ، زمین ، صحیح ، معدہ ، برف ، فاختہ ، قمری ، کبوتر ، بلبل ، طوطہ ، پر ، آرزو ، خودغرض ، قصور ، جرم ، جلاب ، رقعہ ، عینک ، اتفاق ، غلط ، ہاضمہ ، وقف ، غرور ، مصیبت
     
  21. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 64
    تدبیر ، علاج ، سوال ، جواب ، صندوق ، تخت ، لگام ، زین ، رکاب ، تنگ ، نعل ، صفحہ ، فرق ، حرف ، سطر ، جملہ ، عبارت ، خط ، نصیب ، قسمت ، تقدیر ، قول ، حضور ، جناب ، اشرفی ، دوا ، آرہ ، زکام ، وقف زمانہ ، مستول ، بادبان ، جہاز ، ملاح ، پردہ ، مربع ، لفظ ، معنی ، عورت ، مرد ، مطلب ، مال ، خزانہ ، ظلم ، تمام ، نہایت ، خوبصورت ، زنگ ، ترازو ، صبح ، شام ، مقدمہ ، پیشی ، سپاہی ، درزی ، شہد ، میدان ، چربی ، اصطبل ، دوست ، حاکم ، منصف وغیرہ
    3 -- اسم فاعل عربی اور فارسی کے نےشمار اردو میں بھرے ہیں ۔ اسی طرح اسم مفعول بھی ۔ ان کی فہرست بہت لمبی چوڑی ہوگی ۔ اس لئے فقط چند مثالیں دی جاتی ہیں ۔ اسم فاعل میں دیکھو ، جلدباز ، شتربان ، ظالم ، قاصد ، معلم ، محرر ، مخبر ، مجرم ، مقابل ، مناسب ، منتظم ، معترض وغیرہ عام طور پر جتنے عربی اور فارسی کے فاعل ہیں اردو میں یا تو آئے ہیں یا آسکتے ہیں ۔ ایسے ہی عربی اور فارسی کے سارے مفعول آئے یا آسکتے ہیں مثلا محکوم ، مظلوم ، ملزم ، منجمند ، مختصر ، مقدر وغیرہ ۔ اردو میں اس قسم کے ہزاروں اسم فاعل اور مفعول کی صورت میں آگئے ہیں ۔
    4 -- ہندی میں دو قسم کے مصدر ہیں ایک تو مصدر مفرد کہلاتے ہیں ۔ جیسے جھنجلانا ، کھسیانا ، سوچنا ۔ دوسرے مصدر مرکب کہلاتے ہیں کیونکہ وہ دو یا زیادہ لفظوں سے مل کر بنتے ہیں جیسے پرسن ہونا ، باٹ دیکھنا ،
     
  22. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ66


    اب ذرا اردو کی امیری پر غور کرو۔ ہندی کے سارے سادہ اور عام فہم لفظ اور محاورے اس میں موجود ہیں۔ صرف و نحو کے قواعد بالکل ہندی ہیں۔ مگر جب اس ہندی میں اوپر کی مثالوں کے مطابق بے شمار اسم اور مصدر اور ہزاروں تشبیہیں اور استعارے اور محاورے عربی اور فارسی کے داخل ہو جائیں تو بھلا بتاؤ کہ پھر اس ملی جلی زبان میں کیسا زور اور اثر، کیسی رنگینی اور وسعت پیدا ہو جائے گی۔ یہی ملی جلی زبان اردو ہے اور اسی وجہ سے جب عربی اور فارسی زیور سے پورے طور آراستہ ہو کر یہ نئی اردو محفلوں اور درباروں میں آئی تو سب دیکھنے والے اس کے حسن و انداز کو دیکھ کر ہکا بکا ہو گئے۔ اور نہایت ادب کے ساتھ اسے علمی مسند پر بٹھایا۔ اور مغل بادشاہوں کے زیر سایہ اسے عزت کی جگہ دی۔ اب ہم اگلے باب میں نئی اردو کے کچھ تھوڑے سے کرشمے بتائیں گے۔

    ایک بات یہاں نہایت قابل غور ہے ۔ چونکہ یہ ملکی امن اور مذہبی آزادی کا زمانہ تھا۔ اس لئے ایک طرف تو ایک نئی زبان پیدا ہو کر اپنے رنگ و روپ کے بناؤ سنگار میں لگی تھی اور دوسری طرف ہندی شاعری اپنی خوبیوں اور آن بان کی جلوہ نمائیوں سے لاکھوں کے دل لبھا رہی تھی۔ اگر کوئی پوچھے کہ سولہویں صدی کے عالم ہندو کیسی زبان پسند کرتے تھے تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ انہوں نے مشرقی ہندی یعنی کاشی کی زبان کو خالص ہندی کا نمونہ مانا تھا۔ اس زبان کے سب سے مشہور اور قابل قدر بولنے اور لکھنے والے تلسی داس جی تھے۔ اگر کوئی

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ67


    کہے کہ عام طور پر پوجا پاٹ اور گیان دھیان کے لئے کون سی زبان کام میں آتی تھی تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ مذہبی امور کے لئے عام طور پر مغربی ہندی یعنی برج بھاشا استعمال کی جاتی تھی۔ سورداس جی کے بھجن اسی زبان میں ہیں۔ دونوں میں ہم عربی و فارسی کی ملاوٹ دیکھتے ہیں۔ مشرقی ہندی میں تو کم اور مغربی ہندی میں زیادہ۔ پر لوگ باگ لین دین اور کار و بیوہار اور ملکی معاملات کے لئے وہ زبان بولتے تھے جس میں عربی و فارسی کے لفظ بہ کثرت استعمال ہوتے تھے۔ اسی روز مرہ کی زبان کو ریختہ یا اردو کا نام دیا جاتا ہے۔ ایک مدت تک یہ زبان بازاروں، محفلوں اور لوگوں کے گھروں میں بڑھتی اور زور پکڑتی رہی۔ اور جب اسی میں شاعری بھی ہونے لگی تو اس کی وہ مخصوص صورت ہو گئی جس سے ہم خوب واقف ہیں۔ ہم سولہویں صدی کی ہندی کے بھی کچھ نمونے دیکھ لیں۔

    تلسی داس جی ایک برہمن کے ہاں 1533ء میں پیدا ہوئے۔ چونکہ ہندوؤں کے خیال کے بموجب بری گھڑی میں پیدا ہوئے اس لئے انہیں یوں ہی ایک جگہ ڈال دیا۔ اتفاق سے ایک جوگی ادھر سے گذرا اور بچہ کو بے ولی وارث پڑا دیکھ کر پاس آیا اور اٹھا کر لے گیا۔ جب بچہ بڑا ہوا تو عرصہِ دراز تک اسی جوگی کے ساتھ وہ بھی پھرتا رہا۔ بعد میں ایک مدت تک قصبہِ باندہ میں دونوں کا قیام رہا۔ تلسی داس جی کے اوائل عمر کی یہ تاریخ ہے۔ جوگی کے انتقال کے بعد بنارس میں جا کر وہ رہنے لگے۔ چالیس برس کی عمر کے بعد تصنیف کا کام شروع کیا۔ اور کوئی اکتالیس برس تک اسی میں مصروف رہے۔ انہوں نے رامائن کو

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ68


    ہندی میں منظوم کیا جو تلسی کرت رامائن کے نام سے مشہور ہے۔ انہوں نے اور کتابیں بھی لکھیں اور بہت سے بھجن بنائے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے 91 برس کی عمر میں 1614ء میں وفات پائی۔

    یہ ہم نہیں بتا سکتے کہ تلسی داس جی کی ملاقات کبھی اکبر بادشاہ سے بھی ہوئی یا نہیں۔ غالباً تلسی داس جی اکبر کے دربار میں کبھی نہیں آئے۔ اسی لئے ان کا نام نہ تو آئین اکبری میں اور نہ کسی اسلامی تاریخ میں آیا ہے۔ روایتوں سے فقط اتنا معلوم ہوتا ہے کہ راجہ مان سنگھ اور میرزا عبدالرحیم خانخاناں ان کے دوست تھے۔ خدا کی شان کہ جو لڑکا پیدائش کے بعد ہی منحوس سمجھ کر ہلاک ہونے کے لیے یونہی پھینک دیا گیا وہ اپنی عمر کو پہنچ کر ایسی کتاب کا مصنف ہوا جسے ساڑھے تین سو برس سے کروڑوں ہندو پڑھتے اور حفظ کرتے آئے ہیں۔

    تلسی کرت رامائن زبان اور مضمون دونوں حیثیتوں سے ایک بے نظیر کتاب ہے۔ اس دعویٰ میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اس زمانہ میں تلسی داس جی آدمیوں میں خواہ وہ مسلمان ہوں یا ہندو سب سے بڑے اور اعلےٰ درجے کے اوصاف سے موصوف تھے۔ اکبر اور اس کے جانشینوں کی سلطنت خاک میں مل گئی۔ پر تلسی داس جی نے رامائن کے ذریعہ سے اپنے لئے ایک ایسی سلطنت قائم کی ہے جس کا زور اور اثر روز افزوں ترقی پر ہے۔ ان کے بقائے دوام کا سہرا ایسے پھولوں سے بنا ہے جن کا رنگ کبھی پھیکا نہ پڑے گا اور جن کی مہک مشک و عنبر سے بڑھ کر لوگوں کے دماغوں کو معطر اور ان کی روحوں کو خوش اور

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ69


    تر و تازہ کرے گی۔

    تلسی داس جی کا کلام نہایت پر اثر اور خالص اور روحانی رس سے بھرا ہے۔ رامائن کی زبان وہ شستہ اور پاکیزہ ہندی ہے جو دلوں پر جادو کا سا حکم رکھتی ہے۔ پر آپ کے بہت سے بھجن ایسے بھی ہیں جو سادہ اور روز مرہ کی ہندی میں ہیں۔ مثلاً

    بھجن

    جن کے ہِردے (دل) میں ہری نام بسے

    تِن اور کا نام لیا نہ لیا

    جن کے من میں پربھو کے رنگ رنگے

    تِن تَن کا بستر (کپڑا) سیا نہ سیا

    جن کے گھر ایک سپوت جیا

    تِن لاکھ کپوت جیا نہ جیا

    جن کے دوارے (دروازہ) پر گنگ بہے

    تِن کوپ (کنواں) کا نیر (پانی) پیا نہ پیا

    جن بات کری پر مارتھہ (عقبیٰ) کی

    تِن ہاتھ سے دان دیا نہ دیا

    تلسی جن چرن (قدم) گہے ہری کے تِن انّیہ (اور) دیو (دیوتا) سیا نہ سیا


    بھجن

    پربھو جی ۔ تم کو میری لاج(شرم)

    سدا سدا میں شرن تہاری۔ سنو گریب نواج

    پتت (پاپی)ادھارن (عہد) برد تہاری۔ شردن سنی اواج

    ہوں(میں) تو پتت پُرائن (پرانا) کہیے۔ پار اتارو جہاج

    اگھ (پاپ) کھنڈن دکھ بھنجن (دور کرنا) جن کے۔ یہی تہارو کاج (کام)

    تلسی داس پر کرپا (رحم) کیجئے۔ بھگتی دان دیہو آج


    ذرا ہندی کے ساتھ فارسی کی بھی آمیزش دیکھنا۔ غریب نواز، آواز اور

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  23. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ71


    جو کچھ لکھ راکھی گوپالا۔ میٹ سکے نا کوئی

    دکھ سکھ لابھ (فائدہ) الابھ (نقصان) سمجھ تم۔ کاہے مرت ہو روئی

    سورسداس سوامی کرو (رحیم) نامے۔ رام چرن من پوئی


    نمونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ سولہویں صدی میں اس طرح کی ہندی لکھتے اور بولتے تھے۔ عوام بات چیت کرتے وقت عربی و فارسی کے لفظ زیادہ استعمال کرتے۔ پر زبان درحقیقت ہندی ہی تھی۔


    دسواں باب


    نئی اردو ۔ نظم کا زمانہ


    ہم گذرے بابوں میں صاف یہ بتا چکے ہیں کہ افغان بادشاہوں کے زمانہ میں آہستہ آہستہ عربی اور فارسی لفظ ہندی یا بھاشا میں داخل ہوتے رہے اور ان کے داخل ہونے سے جو ملی ہوئی زبان پیدا ہوئی اس کا نام ہم نے پرانی اردو رکھا۔ مگر جب مغل بادشاہوں کا عہد آیا تو یہی ملی ہوئی زبان ایک نئے رنگ روپ میں ظاہر ہوئی۔ کیونکہ لباس، کھانے پینے کی چیزوں اور رہنے سہنے کی جگہوں کے متعلق اب عنقریب سارے عربی اور فارسی کے لفظ استعمال ہونے لگے اور ان ہی زبانوں کی صرف و نحو اور لغات سے اب ہندی کو مالا مال

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ72


    کرنے لگے۔ اسی سبب سے ہم نے مغل بادشاہوں کے عہد کو نئی اردو کا زمانہ کہا ہے اور ہم نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ مغل بادشاہوں کے لشکر کے بازار کو اردو کہتے تھے اور چونکہ عربی اور فارسی آمیز ہندی سب سے زیادہ وہیں بولی جاتی تھی اس لئے اس مخلوط زبان کا نام بھی اردو ہو گیا۔

    اب یہ دیکھنا چاہیے کہ کس وقت سے ہندی اور اردو میں خاص ایسا فرق پیدا ہو گیا کہ اردو ایک الگ زبان مانی گئی؟ کس طرح سے امتیاز کیا کہ ہندی اسے کہتے ہیں اور اردو اسے؟ اردو زبان تو صدیوں سے تیار ہو رہی تھی اور دور دور تک بولی جاتی تھی۔ پر کس زمانے سے اس نے اپنا طرز اور انداز بالکل نیا اور نرالا کر لیا؟ کب اس میں اتنی طاقت اور لیاقت پیدا ہوئی کہ ہندی نمونوں اور سانچوں کو چھوڑ کر اس نے ایک نئی پوشاک اختیار کی؟ اس کا علمی دور کب سے اور کس طرح شروع ہوا؟ اس کا جواب بہت غور طلب ہے اور اس میں سوچ اور دھیان کی ضرورت ہے۔ ہم نے چندبردائی، امیر خسرو اور کبیر جی کے کلام کے کچھ نمونے پہلے دئیے ہیں۔ ان کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرح کی ملی جلی زبان تو پیدا ہو گئی تھی جو ہندی سے فرق تھی۔ تو بھی وہ ملی جلی زبان ہندی بھجنوں، گیتوں اور دوہروں میں اپنی بہار دکھاتی رہی۔ جب تک یہ حال رہا اس وقت تک ہندی اور اردو میں کوئی خاص فرق نہیں ہوا۔ پر جب مسلمان حاکموں کی توجہ پورے طور پر اس مخلوط زبان کی طرف ہوئی تو انہوں نے ہندی بھجنوں اور گیتوں کے وزنوں کو چھوڑ کر فارسی بحروں کو اردو

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ73


    شاعری کے لئے اختیار کی۔ لہذا جب سے اردو زبان فارسی نظم کی پوشاک پہن کر ظاہر ہوئی اس وقت سے اس میں اور ہندی میں فرق ہو گیا اور اردو کا علمی دور شروع ہوا۔ اور چونکہ فارسی نظم کی پوشاک اردو نے مغل بادشاہوں کے زمانے میں پہنی اسی لئے عام طور پر مغلوں کے عہد کو کتابی اردو کے ظہور کا زمانہ سمجھتے ہیں۔

    اب سنو کہ اردو نے کب سے فارسی نظم کا جامہ اختیار کیا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ نظم ہی سے پہلے اردو کی ابتدا ہوئی اس سے پہلے اردو کی کوئی خاص قدر نہ تھی بلکہ اسے گری پڑی چیز کے برابر سمجھتے تھے۔ غالباً اسی سبب سے اردو نظم کو شروع میں ریختہ نام دیا۔ کیونکہ ریختہ کے معنی گرے پڑے کے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ریختہ نام اس لئے دیا کہ اس میں الگ الگ زبانوں کے لفظ پڑے ہوئے ہیں۔ بہر حال اسی ریختہ کے نام سے پہلے پہل اردو نظم مشہور ہوئی۔ اردو شاعری میں دہلی اور لکھنؤ میں نہیں بلکہ دکن میں سب سے پہلے جلوہ نما ہوئی اور گولکنڈہ اور بیجا پور کے مسلمان بادشاہوں کے دربار میں اسے بری مقبولیت حاسل ہوئی۔ جس وقت شمالی ہند اکبر بادشاہ کے نام سے گونج رہا تھا اور اس کے دربار میں فارسی کا دور تھااس وقت گولکنڈہ اور بیجا پور کی مجلسوں اور محفلوں میں نظم اردو گل افشانی کرتی تھی۔ یہاں نہ فقط عالم اور شاعر جمع تھے جن کی فارسی تصنیفیں اب تک موجود ہیں بلکہ اردو زبان کی

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    صفحہ 74 ۔۔۔۔۔۔ موجود نہیں


    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  24. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 65
    مار دالنا ، موہ کرنا ۔ اس طرح کے سینکڑوں ہزاروں ہندی مصدر اردو میں آگئے ۔ اور ان ہی کے وزن پر عربی اور فارسی سے مصدر لئے گئے ۔ چند ان میں سے ایسے ہیں جو مفرد ہیں جیسے فرسودن سے فرمانا ، گذشتن سے گزرنا ، ترقیدن سے تڑکنا ، لرزیدن سے لرزنا ، شرم سے شرمانا ، گرم سے گرمانا وغیرہ ۔ باقی سارے مرکب مصدر ہیں جو فارسی اور ہندی یا عربی اور ہندی کے میل سے پیدا ہوئے ۔ جیسے آسودہ ہونا ، راضی ہونا ، بیمار پڑنا ، انتظام کرنا ، امتحان لینا ، دور جانا وغیرہ ۔ اس قسم کے ہزاروں مصدر بنائے گئے اور اردو میں داخل کیے گئے ۔
    5 -- جس طرح ہندی والوں نے سیکڑوں عربی اور فارسی لفظوں کا تلفظ اپنے موافق بنا لیا ۔ اسی طرح اردو والوں نے بہت سے ہندی لفظوں کو اپنا تلفظ دے دیا ہے ۔ اور ان کی عربی یا فارسی صورت بنالی ہے ۔ جیسے سونپھ ، چیکھ ، شلاکھ ، جٹل ، چٹکھارا ، گٹ ، گڑپ ، چکھ پکھ ، شکرکند ، جات وغیرہ کو سونف ، چیخ ، سلاخ ، زٹل ، چٹخارہ ، غٹ ، غڑپ ، چخ پخ ، شکرقند ، اور ذات { بمعنی قوم } بولتے اور لکھتے ہیں ۔ ان کے علاوہ سیکڑوں حروف جو خاص فارسی میں آتے ہیں اردو میں بھی شامل ہوگئے ۔ جن کی وجہ سے اردو کی صورت ہندی سے بہت فرق ہوگئی ۔ جیسے ہندی میں حرف استثنا پر اور پرنتو ہے ان کی جگہ مگر ، لیکن ، الا وغیرہ بولتے اور لکھتے ہیں ۔ ایسے ہی وا اور اتھوا ہندی کے حرف تردید ہیں ۔ ان کی جگہ فارسی سے یا اور خواہ لے لیا ۔
     
  25. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ75


    کہ وہ 1680ء میں پیدا ہوا۔ اس کے بچپن اور نوجوانی کا حال ہمیں بہت کم معلوم ہے اور یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ اس نے کہاں اور کتنی تعلیم پائی۔ کوئی پچیس ، چھبیس برس کی عمر میں اس نے شہر دہلی کا رخ کیا۔ وہ اورنگ زیب عالمگیر کا زمانہ تھا۔ اور سلطنت مغلیہ اپنے زوروں پر تھی۔ یہاں پہنچ کر وہ شاہ سعد اللہ گلشن کا مرید ہوا اور ان سے شعر میں اصلاح لیتا رہا پھر کچھ عرصہ کے بعد دکن کو لوٹ گیا۔ اس وقت تک اردو شاعری محض ایک دودھ پیتے بچے کی طرح تھی۔ ولی کی کوشش اور برکت سے اس نے چلنا پھرنا اور دوڑنا سیکھا۔ اس نے ایران کی شاعری کا رنگ اردو میں جمایا اور اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے ایک نیا راستہ نکالا۔ اس کے بعد دہلی اور لکھنؤ کے شاعروں نے اس رستہ کے ارد گرد اپنی خوبصورت دکانیں سجائیں اور اپنی سریلی آوازوں اور میٹھے بول سے راہ چلنے والوں کے دل و دماغ کو خوش اور تازہ کیا۔ اسی سبب سے اسے "بابائے ریختہ" یعنی اردو نظم کا باپ کہتے ہیں اور وہ ہر طرح سے اس عالی رتبہ اور لقب کے لائق ہے۔

    دو طرح سے ولی کا بہت برا اثر اردو نظم پر ہوا۔ اول۔ عربی اور فارسی کی عنقریب ساری بحریں اردو میں آ گئیں اور آئندہ کے لئے اردو شاعری کا نمونہ ہو گئیں۔ دوم۔ ان بحروں کے ساتھ عربی اور فارسی کی اصطلاحیں، شاعرانہ محاورے، استعارے اور تشبیہیں بھی ساری کی ساری اردو میں آ گئیں۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ ولی کے بعد ایسے شاعر پیدا ہو گئے جنہوں نے اردو نظم کے باغ کو

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ76


    فارسی گلشن سے ملا دیا۔

    اگر کوئی جاننا چاہے کہ ولی کے زمانہ میں مسلمان امیر اور شریف کس طرح کی اردو بولتے تھے تو وہ ولی کے دیوان کو دیکھے۔ کیونکہ یہ اس عہد کی زبان کی بولتی تصویر ہے۔ کہیں کہیں اس میں ایسے لفظ ملتے ہیں جو اب یا تو بالکل متروک ہو گئے یا ان کی صورت بدل گئی۔ مثلاً سُوں، سیں اور سیتی بدل کر "سے" ہو گئے۔ کوں اور ہمن میں کوں کی جگہ اب "کو" اور "ہم کو" بولتے ہیں۔ جگ منے کی جگہ اب "دنیا میں " بولتے ہیں۔ موہن، سریجن، یپ، پیتم کی جگہ "معشوق، محبوب یا پیارا " بولتے ہیں۔ انجھواں آنسو کی جمع تھی اب بالکل متروک ہے۔ بچن، نِت، مکھ اور نین کے بدلے اب کلام، ہمیشہ، منہ اور آنکھ کہتے ہیں۔ اکثر اس زمانہ میں ہندی کے لفظ اردو میں زیادہ آتے تھے۔ اب یہ دستور بھی اٹھ گیا ہے۔ کچھ تھوڑا سا نمونہ بھی اس وقت کی زبان کا دیکھ لو۔ ولی نے اپنی ایک غزل میں دہلی کے بادشاہ محمد شاہ کی طرف یوں اشارہ کیا ہے ؎


    دل ولی کا لے لیا دلی نے چھین

    جا کہو کوئی محمد شاہ سوں


    چند غزلیں یہاں نقل کی جاتی ہیں ان سے ولی کے کلام کی سادگی معلوم ہو گی


    تجھ لب کی صفت لعلِ بدخشاں سے کہوں گا

    جادو ہے تری نین غزالاں سے کہوں گا

    دی حق نے تجھے بادشہی حسن نگر کی

    یہ کشورِ ایراں میں سلیماں سے کہوں گا

    زخمی کیا مجھ کو تری پلکوں کی انی نے

    یہ زختم ترا خنجر و بھالا سے کہوں گا

    بے صبر نہ ہو اے ولی اس درد سے ہر گاہ

    جلدی سے ترے درد کی درماں سے کہوں گا

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ77


    ذیل کی غزل کے لفظوں کو دیکھو کیسے چھوٹے چھوتے اور سادے ہیں۔


    بے وفائی نہ کر خدا سوں ڈر

    جگ ہنسائی نہ کر خدا سوں ڈر

    ہے جدائی میں زندگی مشکل

    آ جدائی نہ کر خدا سوں ڈر

    اس سوں جو آشنائی ڈر کر ہے

    آشنائی نہ کر خدا سوں ڈر

    آرسی دیکھ کر نہ ہو مغرور

    خود نمائی نہ کر خدا سوں ڈر

    اے ولی غیر آستانہِ یار

    جبہ سائی نہ کر خدا سوں ڈر


    جس وقت اے سریجن تو بے حجاب ہو گا

    ہر ذرہ تجھ جھلک سوں جوں آفتاب ہو گا

    مت جا چمن موں لالہ بلبل پہ مت ستم کر

    گرمی سوں تجھ نگہ کی گلگل گلاب ہو گا

    مت آئینہ کو دکھلا اپنا جمال روشن

    تجھ مکھ کی تاب دیکھے آئینہ آب ہو گا

    نکلا ہے وہ ستم گر تیغ ادا کوں لے کر

    سینہ پہ عاشقاں کے اب فتحیاب ہو گا

    رکھتا ہے کیوں جفا کو مجھ پر روا اے ظالم

    محشر مٰں تجھ سیں آخر میرا حساب ہو گا

    مجھ کوں ہوا ہے معلوم اے مستِ جامِ خونیں

    تجھ انکھڑیاں کے دیکھے عالم خراب ہو گا

    ہاتف نے یوں دیا ہے مجھ کو ولی بشارت

    اس کی گلی میں جا تو مقصد شتاب ہو گا


    محمد شاہ کی سلطنت کے دوسرے یا تیسرے برس ولی پھر دہلی آیا۔ محمد شاہ نے 1719ء سے 1748ء تک سلطنت کی۔ جب ولی دوسری دفعہ یہاں آیا تو اپنا دیوان بھی ساتھ لایا۔ اس دیوان کو پڑھ کر دہلی والوں کو بھی شاعری کا شوق ہوا۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ78


    اور دیکھتے دیکھتے شاعروں کے دو بڑے گروہ پیدا ہو گئے۔ ایک گروہ کا استاد ظہور الدین حاتم تھا اور دوسرے کا خانِ آرزو۔ ان کی اصلاح اور تربیت کی بدولت اردو نظم میں بڑا زور اور جوش پیدا ہو گیا اور سودا، میر تقی، مرزا جان جاناں، خواجہ میر درد وغیرہ کی وہ غزل خوانیاں شروع ہوئیں جنہوں نے اردو زبان میں فارسی نظم کی رنگینی اور قوت بھر دی اور اس کے سوکھے ساکھے تن میں زندگی کا دم پھونک دیا۔ گلیوں کوچوں میں، گھروں اور بازاروں میں یہاں تک کہ شاہی دربار میں سب کے سب اردو غزلیں گانے اور ان کے ن نمکین مضمونوں سے اپنے دل بہلانے لگے۔ اتنے میں زمانہ کا رنگ کچھ بدلنے لگا اور مغلوں کی سلطنت پر دشمنوں کا وار شروع ہوا۔ 1739ء میں نادر شاہ نے دہلی کو لوٹا اور کروڑوں روپیوں کا مال یہاں سے لے گیا۔ مغل بادشاہوں کا نہایت بیش قیمت تخت طاؤس بھی اس کے ساتھ گیا۔ پھر 1756ء میں احمد شاہ دُرانی نے دہلی لوتی۔ بعد اس کے 1759ء میں مرہٹوں نے دہلی پر قبضہ کر لیا۔ سلطنت تباہی میں آ گئی۔ امیر امراء مٹنے لگے۔ مشاعرے پھیکے ہو گئے۔ مجلسیں درہم برہم ہوئیں۔ لکھنؤ میں اس وقت بڑی رونق تھی اور وہاں کے نواب بڑے فیاض اور قدردان تھے۔ اہلِ کمال ان کی شہرت سن کر سیدھے منہ اٹھائے وہیں دوڑے چلے گئے۔ اب دہلی کی طرح لکھنؤ بھی شعر و سخن کا مرکز ہوا اور شاعروں کو جاگیریں اور وظیفے ملنے لگے۔ لکھنؤ کے مشاعرے اور محفلیں دہلی کے شاعروں سے آباد ہوئیں اور وہاں کی آب و ہوا میں رہ کر اردو نظم نے وہ خوش رنگی، نزاکت اور شیرینی حاصل کی

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ79


    جو بیان سے باہر ہے۔ رفتہ رفتہ خود لکھنؤ کی مٹی سے ایسے لوگ اتھے جو اپنے کلام سے دلوں میں آگ لگانے لگے۔ چنانچہ اگر کوئی اس کا ثبوت چاہتا ہے تو وہ آتش اور ناسخ، انیس اور دبیر کے کلام کو ذرا پڑھ کر دیکھے۔

    اگرچہ لکھنؤ بھی شعر و سخن کا مرکز بن گیا تو بھی دہلی میں جو اس کا وطن تھا برابر شاعروں کا جمگھٹا رہا۔ اور جب یہاں بادشاہوں کو ذرا بھی موقع ملا انہوں نے بھی شاعروں کی قدردانی کی۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں شاہ عالم ثانی دہلی کا بادشاہ ہوا۔ یہ خود بھی شاعر تھا اور آفتاب اس کا تخلص تھا۔ اس بادشاہ نے اردو نظم میں چار دیوان تصنیف کئے۔ خدا کی شان دیکھو شاہجہاں اور اورنگ زیب کی اولاد کو اردو شاعری میں نام حاصل کرنے کاشوق ہوا۔ کس کی عربی اور کس کی فارسی؟ اب تو اردو ہی سب کی نظروں میں پیاری ہو گئی۔ اور جس طرح لکھنؤ میں غدر کے زمانہ تک اس کا چراغ روشن رہا۔ اسی طرح دہلی میں بھی چاروں طرف اسی کا اجالا تھا۔

    اردو نظم نے اب اپنا سکہ ایسا جمایا کہ لوگ باگ شاعروں کے کلام سے سند پکڑنے لگے۔ اگر کبھی کسی استعارے یا محاورے پر بحث ہو پڑتی تو کسی شاعر کے کلام سے ثبوت نکال کر پیش کر دیتے تھے۔ اردو نظم کی خوبی اور عیب کو ہم پیچھے بتائیں گے۔ یہاں فقط یہی دکھانا ہے کہ نظم کی بدولت اردو کو اب علمی اور تہذیبی زبان کا رتبہ ملا۔ شاعر جو کچھ کہتے تھے بہت سوچ سمجھ کر اور نہایت فصیح پیرایہ میں کہتے تھے۔ اور سننے والے جھٹ اس کو یاد کر لیتے تھے۔ ان کی زبان پر نہ کسی کو اعتراض ہو سکتا تھا نہ کلام

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  26. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ80


    اور ان ہی کی دن رات کی کوششوں سے عجیب سلاست اور زور، خوبصورتی اور رنگینی اردو میں آ گئی۔ اور جب تک ان کا کلام ہمارے پاس رہے گا اردو زبان کو ہر گز زوال نہ ہو گا۔

    ولی کی غزلوں کے نمونہ سے ظاہر ہے کہ اردو میں اس وقت تک پوری صفائی اور سلاست نہیں پیدا ہوئی تھی۔ ضرور تھا کہ ایسے لوگ اٹھیں جو زبان اردو کو خراط چڑھائیں اور لفظ لفظ میں فصاحت اور خوبصورتی پیدا کر دیں۔ وہ شخص جنہوں نے اس کام کو انجام دیا چار تھے۔ یعنی مرزا جان جاناں، سودا، میر تقی اور خواجہ میر درد۔ ان چاروں استادوں کے نام پہلے بھی آ چکے ہیں۔ اردو زبان پر ان کا بہت بڑا احسان ہے کیونکہ ان ہی کی محنتوں سے اردو زبان میں صفائی اور چمک دمک پیدا ہوئی۔ ولی نے فقط ایک نیا ڈھنگ قائم کر دیا تھا اور اردو نظم کے باغ کی داغ بیل لگائی تھی۔ ان چاروں بزرگوں نے اس باغ کی زمین کا کندن کیا۔ سارے پتھر اور روڑے نکال کر پھینکے۔ کوڑا کڑکٹ اور جھاڑ جھنکار سب صاف کیا۔ الگ الگ روشیں بنائیں اور کیاریاں لگائیں۔ اور ان کو اس طرح پانی دیا کہ سارے باغ میں بیل بوٹے لہک اتھے۔ ان چاروں کے آگے دو مشکلیں تھیں۔ ایک تو انہیں بھاشا کے ان لفظوں کو چھانٹنا تھا جو فارسی اور عربی لفظوں کے ساتھ پورے طور پر میل نہیں کھاتے ۔ دوسرے انہیں فارسی نظم کے محاوروں کو اردو میں اتارنا تھا۔ یہ دونوں کام نہایت مشکل تھے مگر ان دونوں میں وہ کامیاب ہوئے اور اردو زبان میں وہ تاثیر اور وقت پیدا

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ81


    کر دی کے ان کے بعد ذوق، غالب اور حالی کو اپنی جادو بیانی اور نازک خیالی کا موقع ملا۔

    مرزا جان جاناں، سودا، میر تقی اور خواجہ میر درد اٹھارہوں صدی کے شاعر تھے۔ ذوق، غالب، داغ اور حالی انیسویں صدی میں ہوئے ہیں۔ اب ہم اٹھارہویں صدی کے کلام کا کچھ نمونہ دے کر دکھائیں گے کہ اٹھارہویں صدی میں کیسی اردو بولی جاتی تھی۔

    مرزا جان جاناں کا تخلص مظہر تھا۔ ذیل کی غزل ان ہی کی ہے۔ ذرا غور سے دیکھنا کہ فارسی اور عربی لفظ اور استعارے اور تشبیہیں کس خوبی کے ساتھ اردو میں جمائی گئی ہیں۔


    چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹا کر کارواں اپنا

    نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا

    یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتی

    اگر ہوتا چمن اپنا گل اپنا باغباں اپنا

    الم سے یاں تلک روئیں کہ آخر ہو گئیں رسوا

    ڈبایا ہائے آنکھوں نے مژہ کا خاندان اپنا

    رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی

    مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشقِ بدگماں اپنا

    میرا جی جلتا ہے اس بلبلِ بے کس کی غربت پر

    کہ جس نے آسرے پر گل کے چھوڑا آشیاں اپنا

    جو تونے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے

    غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہربان اپنا

    کوئی آزردہ کرتا ہے سجن اپنے کو ہے ظالم

    کہ دولت خواہ اپنا مظہرؔ اپنا جان جان اپنا


    اب ایک سودا کی غزل نقل کی جاتی ہے۔ اس کا نام مرزا محمد رفیع تھا اور اس کے کلام پر دہلی کو فخر ہے۔ اس کے شعروں میں ہر طرح کا رنگ جھلکتا ہے۔ وہ ہجو کرنے میں

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ82


    یکتا تھا۔


    جو گذری مجھ پہ اسے مت کہو ہوا سو ہوا

    بلا کشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا

    مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر

    مرے لہو کو تو دامن سے دھو ہوا سو ہوا

    پہنچ چکا ہے سرِ زخم دل تلک یارو

    کوئی سِیو کوئی مرہم کرو ہوا سو ہوا

    کہے ہے سن کے مری سرگذشت وہ بے رحم

    یہ کون ذکر ہے جانے بھی دو ہوا سو ہوا

    خدا کے واسطے آ درگذر گنہ سے مرے

    نہ ہوگا پھر کبھی اے تند خو ہوا سو ہوا

    یہ کون حال ہے احوالِ دل پہ اے آنکھو

    نہ پھوٹ پھوٹ کے اتنا بہو ہوا سو ہوا

    دیا اسے دل و دیں اب یہ جان ہے سودا

    پھر آگے دیکھئے جو ہو سو ہو ، ہوا سو ہوا


    میر محمد تقی لیاقت اور کلام میں بڑے زبردست مانے گئے ہیں۔ دہلی کے بادشاہ شاہِ عالم کے دربار میں وہ کچھ مدت تک رہے۔ مگر جب یہاں گذارہ کی کوئی اچھی صورت نہ دیکھی تو دل تنگ کر لکھنؤ چلے گئے۔ وہاں پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ آج کہیں مشاعرہ ہے آپ بھی وہاں تشریف لے گئے اور ایک گوشہ میں جا بیٹھے۔ لکھنؤ کے بانکے ان کی پوشش اور انداز پر ہنس پڑے۔ جب کسی نے پوچھا کہ آپ کا وطن کہاں ہے تو اسی وقت بیٹھے بیٹھے یہ شعر کہے۔


    کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنوں

    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

    رہتے تھے منتخب ہی جہان روزگار کے

    اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا

    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے


    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ83


    ان کو سنتے ہی سمجھ گئے کہ یہ صاحبِ کمال ہیں اور بڑے ادب سے مرتے دم تک پیش آئے۔ میر صاحب کے چھ دیوان ہیں اور ان کا کلام پاکیزہ اور سلیس مانا گیا ہے۔ ان کی ایک مشہور غزل یہاں نقل کی جاتی ہے۔ ذرا محاوروں کو دیکھنا کیسے بھلے معلوم ہوتے ہیں۔


    کوفت سے جان لب پہ آئی ہے

    ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے

    لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر

    شوق سے بات کیا بڑھائی ہے

    آرزو اس بلند بالا کی

    کیا بلا میرے سر پہ لائی ہے

    دیدنی ہے شکستگی دل کی

    کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے

    ہے تصنع کہ لعل ہیں وہ لب

    یعنی اک بات سی بنائی ہے

    دل سے نزدیک اور اتنا دور

    کس سے اس کو کچھ آشنائی ہے

    بے ستوں کیا ہے؟ کوہ کن کیسا؟

    عشق کی زور آزمائی ہے

    یاں ہوئے خان سے برابر ہم

    واں وہی ناز و خود نمائی ہے

    مرگِ مجنوں سے عقل گم ہے میر

    کیا دِوانے نے موت پائی ہے


    خواجہ میر درد۔ اردو زبان کے چار رکنوں میں سے ایک ہیں۔ دیوان ان کا مختصر مگر کلام دل سوز ہے۔ ذیل کی غزل ان ہی کی ہے ۔


    تہمتِ چند اپنے ذمے دھر چلے

    جس لئے آئے تھے سو ہم کر چلے

    زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

    ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ84


    کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا

    ایک دم آئے اِدھر اودھر چلے

    دوستو! دیکھا تماشا یاں کا بس

    تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے

    آہ بس مت جی جلا تب جانئے

    جب ترا افسوں کوئی اس پر چلے

    شمع کی مانند ہم اس بزم میں

    چشم تر آئے تھے دامن تر چلے

    ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے

    وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے

    ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے

    ساتھ اپنے اب اسے لے کر چلے

    جوں شرر اے ہستی بے بود یاں

    بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے

    ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ

    جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

    دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب

    کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے


    ہم نے اٹھارہویں صدی کے کافی نمونے دے دئیے ہیں۔ ان کے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارہویں صدی کی اردو ولی کے زمانہ کی اردو سے بدرجہا صاف اور پر معنی ہے۔ لفظ لفظ میں شوخی ہے اور غزلیں تاثیر میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ انیسویں صدی کے شاعر بھی جو غدر سے پہلے ہوئے عنقریب یہی رنگ و جوہر دکھاتے ہیں۔

    اردو نظم کا سب سے بڑا دھبا یہ ہے کہ اس میں اکثر صرف شاعرانہ نازک خیالی ہے۔ فرضی محبت کی غیر مفید باتیں اس میں شروع سے آخر تک بھری ہیں۔ زبان تو بے شک صاف و سلیس ہوتی گئی اور شاعروں کی بدولت بے شمار

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  27. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 96
    یا رب یا نجواب = منہ پیٹتا ہوں اور سر پٹکتا ہوں کہ جو کچھ لکھا چاہتا ہوں نہیں لکھ سکتا ہوں ۔ الہی حیات جادوانی نہیں مانگتا ۔ پہلے انوار الدولہ سے مل کر سرگزشت بیان کروں پھر اس کے بعد مروں ۔ روپیہ کا نقصان اگرچہ جانکاہ اور جانگزا پر بموجب تلف المال خلف العمر عمرفزا ہے ۔ جو روپیہ ہاتھ سے گیا ہے اس کو عمر کی قیمت جانیے اور ثبات ذات اور بقائے عرض و ناموس کو غنیمت جانیے ۔ اللہ تعالی وزیر اعظم کو سلامت رکھے اور اس خاندان کے نام و نشان و عزد شان کو برقرار تاقیامت رکھے وغیرہ
    اس نمونہ سے ظاہر ہے کہ ذوق اور غالب کے زمانہ میں فارسی اور عربی لفظ اردو میں بہت استعمال ہوتے تھے ۔ اب بھی عالمانہ اور رنگین اردو ایسے ہی سانچے میں ڈھالی جاتی ہے اور عام طور پر سادہ لفظوں کے بدلے مشکل لفظوں کو لانا علمیت کا ثبوت جانتے ہیں ۔ تو بھی اس زمانہ میں سادگی اور سلاست کا زیادہ خیال کیا جاتا ہے اور یہ بھی کوشش ہے کہ جہاں تک ممکن ہو بامحاورہ اردو لکھیں اور بولیں ۔
    بارھواں باب
    اردو میں انگریزی کا دخل -- اس کے فائدے اور نقصان
    سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دہلی اور لکھنو کی اردو سندی اور
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 97
    ٹکسالی ہے ۔ اور یہ ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ ان دونوں شہروں کے بادشاہ اردو کے عالموں اور شاعروں کی بڑی قدر کرتے اور انہیں انعام و اکرام سے ممتاز کرتے رہتے تھے ۔ ان ہی فیاض دل بادشاہوں کی بدولت شاعروں کو موقع ملا کہ اردو میں فارسی اور عربی کے رنگ و لطف کو پیدا کریں ۔ اگر وہ ان کی قدردانی اور ہمت افزائی نہ کرتے تو ان شاعروں کو ہرگز یہ حوصلہ نہ ہوتا کہ اپنا سارا سارا وقت اردو زبان کی درستی اور بناوٹ میں لگائیں ۔ مشرقی ملکوں میں اکثر یہی ہوا ہے کہ عالموں اور شاعروں نے زبان کی آراستگی اور اصلاح میں اپنی جانیں کھپائیں اور بادشاہوں اور سرداروں نے انہیں انعام اور صلے دیے اور جو کچھ اور ملکوں میں ہوتا آیا وہی ہند میں بھی ہوا ۔ سنسکرت اور پراکرت کے عالموں پر راجوں مہاراجوں کا ہاتھ رہا ۔ فارسی کے شاعروں کو افغان اور مغل بادشاہوں نے اپنے درباروں میں عالی رتبے اور منصب دیے ۔ اور جب اردو شاعری کا زمانہ آیا تو اس کے قدردان بھی بیجاپور ، گولکنڈہ ، دہلی اور لکھنو کے درباروں میں نکل آئے ۔ پہلے بابوں میں ذرا تفصیل کے ساتھ یہ سب بتایا گیا ہے ۔ اب ہم دیکھیں کہ اردو میں انگریزی لفظوں کا دخل کیوں کر ہونے لگا ۔
    یہاں یہ مقصود نہیں ہے کہ ہم دولت انگلشیہ کی تاریخ لکھیں ۔ ہم سب اس سے واقف ہیں کہ 1857ء کے غدر میں دہلی اور لکھنو کے بادشاہوں کے تخت و تاج خاک میں مل گئے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملکی انتظام کی
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ85


    محاورے بھی رائج ہو گئے لیکن عاشقانہ مضمون کو چھوڑ اور کسی طرف اردو نظم نے بہت کم رخ کیا۔ اس لئے اور مضمون کو موثر طور پر ادا کرنے کی قابلیت اس میں کم ہے۔ ہاں! اتنا ضرور ہوا کہ ایک نہایت ہی میٹھی اور پر جوش زبان تیار ہو گئی جس کے دامن پھولوں اور موتیوں سے بھرے ہیں۔ اور جس کی امیری اور شیرینی بری بڑی زبانوں کو شرمندہ کر دیتی ہے۔ جنہیں یہ پیاری زبان میراث میں ملی ہے ان کا فرض ہے کہ اس میں ایسی کتابیں لکھیں اور مضمون باندھیں جو پڑھنے والوں کے لئے ہر طرح سے فائدے مند ہوں۔


    گیارہواں باب


    نئی اردو ۔ نثر کی ابتدا اور ترقی


    ہم نے پچھلے باب میں کچھ حال اردو نظم کا دیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ شاعروں کی کوششوں سے اردو زبان میں رنگینی اور لطافت، زور اور جوش پیدا ہو گیا۔ مگر انہوں نے غضب یہ کیا کہ اپنی ساری دماغی قوت فرضی محبت اور فرضی جدائی کی تصویریں کھینچنے میں صرف کی۔ بے شک ان کے ہاتھ کے لگائے ہوئے باغ خوشبودار پھولوں سے مہک رہے ہیں اور ہم خوشی خوشی ان ہی پھولوں کو توڑ کر اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لئے مالا اور گجرے اور ہار بناتے ہیں۔ انہیں اپنی

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ86


    میزوں پر رکھتے ہیں اور ان ہی کے گلدستوں سے اپنے طاقوں کو سجاتے ہیں۔ مگر ہم یہ پوچھتے ہیں کہ پھولوں کے سوا کوئی اور چیز بھی ہمیں ان کے گلشنوں میں نظر آتی ہے؟ چاہے ہم ان پھولوں سے کھیلیں چاہے ان کا عطر کھنچوائیں۔ ان کی گمک سے دماغ معطر اور ان کے جوبن سے دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ پر کہیں کوئی پھلدار اور میوہ دار پیڑ بھی اس چمن میں ہے؟ ہار اور عطر مشاعروں اور محفلوں میں ضروری ہیں پر ان کے علاوہ روز مرہ کی زندگی کے لئے اور اور چیزیں بھی ضروری ہیں۔ ہم دن رات تو عطر اور ہار سے کام نہیں لیتے۔ ہمیں دنیا میں جینا بھی ہے اور جہاں اور قومیں علم و حکمت میں ترقی کر رہی ہیں ہمیں بھی تو کچھ کرنا ہے۔ شاعروں کے ہم شکر گزار ہیں کہ انہوں نے دل بہلانے کا ایک شغل نکالا۔ آپ بھی خوب قہقہے مار مار کر ہنسے اور دوسروں کو بھی ہنسایا۔ اور ساتھ ہی ساتھ زبان اردو کو آئینہ کی طرح چمکا دیا۔ مگر ترقی کا بھی کوئی رستہ نکالا یا برابر اپنے ہی گلشن کی پھلواریوں میں سیر کرتے اور پریوں اور حوروں کا خواب دیکھتے رہے؟ آج کے دن کیسا انمول زذخیرہ ہمارے پاس ہوتا اگر نظم کے علاوہ حکمت اور اخلاق، مذہب اور تاریخ کی کتابیں یہ بزرگ تصنیف کرتے۔ ہمارے بچوں کی گودیں، لڑکیوں کی چولیاں اور جوانوں کے دامن ان موتیوں سے بھرے ہوتے جن کا آج ہماری دکانوں اور بازاروں میں کال ہے۔ ہم علمی باتوں کے لئے در در محتاج نہ پھرتے اگر ہمارے پاس بھی علمی کتابیں ہوتیں۔ مشاعرے سونے ہیں اور محفلوں کے چراغ گل ہو گئے۔ وہ بلبلیں اڑ گئیں اور وہ گلشن

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ87


    ویران ہیں جہاں پہلے لوگ باگ ہنستے کھیلتے آتے تھے اور جھومتے جھامتے چلے جاتے تھے۔ دنیا کے بازار میں اب حکمت کی مانگ ہے اور سب اسی کے خریدار ہیں۔ وہ ناچ رنگ کے وقت گئے اب تو زمانہ سب کو نچا رہا ہے۔ اور چاروں طرف یہی پکار ہے کہ چاندنی راتیں گئیں۔ اپنی اپنی بتیاں بالو اور اپنے اپنے فانوس روشن کرو۔ اور اپنے اپنے بزرگوں کی وہ تصنیفیں پڑھ کر سناؤ جو لڑکیوں اور لڑکوں، عورتوں اور مردوں سب کے لئے مفید ہوں۔ افسوس! ہم کیا پڑھیں؟ اگر ہمارے پاس کچھ ہے بھی تو ادھورا یا کچا پکا۔ یا غزلیں ہیں یا داستانیں۔ اس رام کہانی کے سوا اور ہمیں کچھ نہیں آتا۔ تعجب آتا ہے کہ سودا اور میر کے زمانے میں صاف اور فصیح اور پرزور اردو بولی جائے لیکن نثر میں کتابیں نہ لکھی جائیں۔ اس کا فقط ایک ہی سبب معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر جگہ فارسی کا مطالعہ ہوتا تھا اور شاہی دفتروں میں سب کچھ فارسی زبان میں لکھا جاتا تھا۔ فارسی میں علمی کتابیں بہت ہیں اور یہی خیال کیا گیا کہ فارسی کو چھوڑ کر اردو میں ایسی کتابیں لکھنی گویا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ دہلی میں اس وقت بادشاہی تھی اور مغل بادشاہ گو اردو بولنے لگے تھے۔ تو بھی عدالتی کارروائیاں فارسی میں ہوتی تھیں۔ کیونکہ اسی زبان میں بابر اور ہمایوں کے وقت سے کیا، قطب الدین ایبک کے زمانے سے سب کچھ ہوتا چلا آیا تھا۔ اور فارسی کے سامنے ایسے حال میں اردو کی دال گلنی مشکل تھی۔ پس ہم دیکھتے ہیں کہ اردو نثر میں کتاب لکھنے کی ضرورت

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ88


    کسی نے محسوس نہ کی۔ اور اگر کسی نے شروع میں کچھ لکھا بھی تو اردو تصنیف سے اسے اس وقت کوئی خاص شہرت حاصل نہ ہوئی۔

    اردو نثر کی طرف بزرگوں کی توجہ نہ ہونے سے آج نہ فقط ہمارے پاس اس زمانہ کی کوئی اچھی علمی تصنیف نہیں بلکہ علمی اصطلاحوں کی بھی کمی ہے اورزبان اردو باوجود اپنی امیری کے کوئی بڑا علمی درجہ نہیں رکھتی۔ اگر ہم چاہیں کہ لڑکیوں اور لڑکوں کے ہاتھ میں اردو کتابیں دیں جن سے انہیں علمی اور اخلاقی فائدہ ہو تو ایسی کتابیں بہت کم ہیں۔ اب تو رفتہ رفتہ ایسے لوگ پیدا ہوتے جاتے ہیں جو اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر افسوس یہی ہے کہ پرانے وقتوں کا کوئی اچھا ذخیرہ ہمارے پاس نہیں۔

    اردو کی تاریخ میں یہ ایک عجیب بات ہے کہ نظم اور نثر دونوں کو باہر والوں سے تحریک ملی۔ نظم کا کچھ حال ہم لکھ چکے ہیں۔ اب نثر کی کہانی سنو۔ سترہویں صدی اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں انگریز بمبئی، سورت، مدراس اور کلکتہ میں آباد تھے۔ آہستہ آہستہ ان کی طاقت بڑھی اور اٹھارہویں صدی میں ایک اچھی خاصی سلطنت کے یہ مالک ہوئے۔ کلکتہ میں ان کا بڑا قلعہ تھا اور اس قلعہ کے متعلق ایک کالج تھا۔ اس کالج میں افسروں کو اردو بھی پڑھائی جاتی تھی۔ مگر دقت یہ تھی کہ نثر میں معقول کتابیں نہیں تھیں جو نصاب میں داخل کی جاتیں۔ لہذا بری ضرورت ہوئی کہ اردو کے عالموں کو انعام و اکرام کی ترغیب دے کر کہا جائے کہ اردو نثر میں

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ89


    تھوڑی سی تصنیفیں بہم پہنچائیں۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ صاحب اس وقت فورٹ ولیم کالج کے تعلیمی محکمہ کے مہتمم تھے۔ انہوں نے اردو اور ہندی کے عالموں کو کلکتہ بلوا کر ان سے اردو اور ہندی کتابیں لکھوائیں۔ یوں اردو اور ہندی میں سندی کتابیں تصنیف ہوئیں۔ اور یہی اس زمانہ کی یادگاریں ہیں۔ ان کا تھورا سا حال ذیل میں دیا جاتا ہے۔

    میر محمد عطا حسین خان تحسین نے 1798ء میں امیر خسرو کی مشہور فارسی کتاب چہار درویش کا ترجمہ اردو میں۔ یہ غالباً سب سے پہلی اردو تصنیف تھی اور اس کانام نو طرز مرصع تھا۔ 1799ء میں میر شیر علی افسوس نے باغ و بہار اردو لکھی۔ یہی دو کتابیں اٹھارہویں صدی کے اخیر کی اردو نثر کی نشانی ہیں۔ انیسویں صدی میں اردو نثر نے اپنا زور دکھایا۔ اس لئے یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ اردو نثر انیسویں صدی کی بیٹی ہے۔ اس صدی کے شروع میں فورٹ ولیم کالج کے استعمال کے لئے کئی کتابیں تصنیف ہوئیں۔ سید محمد حیدر بخش حیدری نے طوطا کہانی، آرائشِ محفل، دہ مجلس، گلزارِ دانش اور تاریخ نادری لکھی۔ سید حیدری کی تصنیفیں 1801ء سے شروع ہوئیں اور 1828ء میں ان کا انتقال ہوا۔ میر بہادر علی حسینی نے 1802ء میں اخلاق ہندی اور نثر بے نظیر لکھی۔ میر امن لطف دہلوی نے باغ و بہار لکھی۔ یہ کتاب بھی نو مرصع کی طرح امیر خسرو کی چہار درویش کا

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  30. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ90


    ترجمہ ہے۔ ان دونوں ترجموں میں صرف اتنا ہے کہ میر امن نے چہار درویش کا قصہ تو وہی رکھا جو امیر خسرو کا ہے۔ مگر فارسی اصل کی پیروی نہیں کی بلکہ دہلی کی اردو میں وہ قصہ لکھا ہے۔ برعکس اس کے تحسین نے نوطرز مرصع میں فارسی اصل کے ڈھنگ کو بھی قائم رکھا اور لفظوں کی بھی رعایت کی۔ باغ و بہار کی طرز عبارت اب تک اردو والوں کو بہت پسند ہے۔ اور وہ بڑے شوق سے اسے پڑھتے ہیں۔ میر امن نے باغ و بہار 1801ء میں لکھنی شروع کی اور 1802ء میں اسے ختم کیا۔ اسی سال انہوں نے حسین واعظ کاشفی کی فارسی کتاب اخلاق محسنی کی طرح اردو میں ایک کتاب لکھی اور اس کا نام گنج خوبی رکھا۔ اس کتاب میں انہوں نے سادہ لفظوں میں اخلاق کے اصول بیان کئے ہیں۔ حفیظ الدین احمد نے 1803ء ابوالفضل کی فارسی کتاب عیار دانش کا ترجمہ اردو میں کیا اور اس کا نام خرد افروز رکھا۔ نہال چند لاہوری نے گل بکاؤلی کی فارسی مثنوی کا ترجمہ اردو میں کیا۔ اور اسے مذہب عشق کا نام دیا۔ کاظم علی جوان نے اردو میں سکنتلا ناٹک اور دستور ہند لکھی۔ ان عالموں کے ہم شکر گزار ہیں کہ انہوں نے بری جانفشانی سے اردو نثر میں ایسی کتابیں لکھی ہیں جو زبان اور طرز کے اعتبار سے اب تک سبھوں کو نمونے کا کام دیتی ہیں۔ یہ بزرگ نثر کی عمارت اٹھانے والے ہیں۔ اور ان کی برکت سے اردو میں اور لطافت اور پاکیزہ کلامی پیدا ہو گئی۔ اب کچھ تھوڑا سا نمونہ بھی انیسویں صدی کے شروع

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ91


    کی اردو کا دیا جاتا ہے۔ باغ و بہار میں جسے میر امن نے 1802ء میں لکھا پہلا درویش اپنا قصہ یوں شروع کرتا ہے۔

    اے یاران میری پیدائش اور وطن بزرگوں کا ملکِ یمن ہے۔ والد اس عاجز کا ملک التجار خواجہ احمد نام سوداگر بڑا تھا۔ اس وقت میں کوئی مہاجن یا بیوپاری ان کے برابر نہ تھا۔ اکثر شہروں میں کوٹھیاں اور گماشتے خرید و فروخت کے واسطے مقرر تھے۔ اور لاکھوں روپے اور نقد اور جنس ملک ملک کی گھر میں موجود تھی۔ ان کے یہاں دو لڑکے پیدا ہوئے۔ ایک تو یہی فقیر ہے جو کفی سیلی پہنے ہوئے مرشدوں کے حضور میں حاضر ہے اور بولتا ہے۔ دوسری ایک بہن جس کو قبلہ گاہ نے اپنے جیتے جی اور شہر کے سوداگر بچے سے اس کی شادی کر دی تھی۔ وہ اپنی سسرال میں رہتی تھی۔ غرضکہ جس گھر میں اتنی دولت اور ایک لڑکا اس کے لاڈ پیار کا کیا ٹھکانا ہے۔ مجھ فقیر نے بڑے چاؤ چور سے ماں باپ کے سایہ میں پرورش پائی اور پڑھنا لکھنا اور سپاہ گری کا کسب و فن اور سوداگری کا بہی کھاتہ روزنامچہ سیکھنے لگا۔ چودہ برس تک نہایت خوشی اور بے فکری سے گذری۔ اور کچھ دنیا کا اندیشہ دل میں نہ آیا۔ یک بیک ایک ہی سال میں والدین قضائے الہی سے مر گئے۔ عجب طرح کا غم ہوا جس کا بیان نہیں کر سکتا۔ یکبارگی یتیم ہو گیا۔ کوئی سر پر بوڑھا بڑا نہ رہا۔ اس مصیبت ناگہانی سے رات دن رویا کرتا تھا۔ کھانا پینا سب چھوٹ گیا۔ چالیس دن جوں توں کر کے کٹے۔ چہلم میں اپنے بیگانے چھوٹے

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ92


    بڑے جمع ہوئے۔ جب فاتحہ سے فراغت ہوئی سب نے فقیر کو باپ کی پگڑی بندھوائی اور سمجھایا کہ دنیا میں سب کے ماں باپ مرتے آئے ہیں اور اپنے تئیں بھی ایک روز مرنا ہے پس صبر کرو اور اپنے گھر کو دیکھو۔ اب باپ کی جگہ تم سردار ہوئے۔ اپنے کاروبار ، لین دین سے ہوشیار رہو۔ وہ تسلی دے کر رخصت ہوئے۔ گماشتے ، کاروباری، نوکر چاکر جتنے تھے آن کر حاضر ہوئے۔ نذریں دیں اور بولے۔ کوٹھی نقد و جنس کی اپنی نظر مبارک سے دیکھ لیجیے۔ یکبارگی جو اس دولت بے انتہا پر نگاہ پڑی آنکھیں کھل گئیں۔ دیوان خانے کی تیاری کو حکم کیا۔ فراشوں نے فرش بچھا کر جھٹ پردے چلمنیں پرتکلف لگا دیں اور اچھے اچھے خدمت گار خوش دیدار نوکر رکھے۔ سرکار سے زرق برق کی پوشاکیں بنوا دیں۔ فقیر مسند پر تکیہ لگا کر بیٹھا۔ ویسے ہی آدمی غنڈے پھانکڑے مفت بر کھانے پینے والے جھوٹے خوشامدی آکر آشنا ہوئے اور مصاحب بنے۔ ان سے آٹھ پہر کی صحبت رہنے لگی۔ ہر کہیں کی باتیں اور زٹلیں واہی تباہی ادھر ادھر کی کرتے اور کہتے۔ اس جوانی کے عالم میں کیت کی شراب یا گلِ گلاب کھنچوائیے۔ نازنین معشوقوں کو بلوا کر ان کے ساتھ پیجیے اور عیش کیجیے۔ غرض آدمی کا شیطان آدمی ہے۔ ہر دم کے کہنے سے اپنا مزاج بھی بہک گیا اور شراب اور ناچ اور جوئے کا چرچا شروع ہوا۔ پھر تو یہ نوبت پہنچی کہ سوداگری بھول کر تماش بینی اور دینے لینے کا سودا ہوا۔ اپنے نوکر اور رفیقوں نے جب یہ غفلت دیکھی تو جو جس کے ہاتھ پڑا لے گیا۔ گویا لوٹ مچا دی۔ کچھ خبر نہ تھی کہ کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے اور کہاں سے آتا ہے اور کدھر جاتا ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ93


    مالِ مفت دلِ بے رحم۔ اس فضول خرچی کے آگے اگر گنج قارون کا ہوتا تو بھی وفا نہ کرتا۔ کئی برس کے عرصے میں یہ حالت ہوئی کہ فقط ٹوپی اور لنگوتی باقی رہی۔ آشنا دوست جو دانت کاٹی روٹی کھاتے تھے اور چمچہ بھر خون اپنا ہر بات میں نثار کرتے تھے کافور ہو گئے۔ بلکہ راہ باٹ میں اگر کہیں بھینٹ ملاقات ہو جاتی تو آنکھیں چرا کر منہ پھیر لیتے۔ کوئی بات کاپوچھنے والا نہ رہا جوکہے یہ کیا تمہارا حال ہوا۔ سوائے غم اور افسوس کے کوئی رفیق نہ ٹھہرا۔ اب دمڑی کی ٹھڈیاں میسر نہیں جو چبا کر پانی پیوں۔ دو تین فاقے کڑاکے کر کے کھینچے۔ تاب بھوک کی نہ لا سکا لاچار بے حیائی کا برقع منہ پر ڈال کر یہ قصد کیا کہ بہن کے پاس چلیے۔

    اس طرح کی اردوانیسویں صدی کے شروع میں بولی جاتی تھی۔ کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج کی بدولت اس اردو کو کتابی صورت میں رواج ہوا۔ ادھر وہ مصنف جن کا ذکر اوپر ہوا اپنا کام کر رہے تھے۔ ادھر ایک اور بزرگ اپنے مذہبی وعظوں کو اس عام فہم اور پر لطف زبان میں پھیلانے کی کوشش میں لگے تھے۔ اور جب مذہب کا ہاتھ کسی زبان پر ہوتا ہے تو وہ زبان بہت جلد ترقی کرتی ہے۔ یہ بزرگ سید احمد تھے جو ہند میں وہابی فرقے کے بانی ہوئے ہیں۔ یہ 1782ء میں پیدا ہوئے اور شاہ عبدالعزیز اور ان کے بھائی عبدالقادر کے شاگرد ہوئے۔ اس وقت دہلی میں شاہ صاحب کی علمی لیاقت، مذہبی گرم جوشی اور حسنِ سیرت کا چاروں طرف چرچا تھا۔ انہوں نے قرآن کی ایک تفسیر لکھی ہے جس کا نام تفسیر عزیزیہ ہے۔ اور ان کے بھائی عبدالقادر نے 1803ء میں

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ94


    قرآن کا ترجمہ اردو میں کیا۔ ان دونوں بھائیوں کے قدموں میں رہ کر سید احمد نے بہت بری علمی لیاقت پیدا کی اور اپنے پر جوش وعظ شروع کئے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں بہت سے مسلمان ان کے پیرو ہو گئے اور شمالی ہند میں عجیب مذہبی تحریک قائم ہو گئی۔ پھر وہ کلکتہ ہوتے ہوئے مکہ کو حج کے لئے گئے اور حج کے بعد قسطنطنیہ تشریف لے گئے۔ وہاں ان کی بڑی خاطر ہوئی اور عنقریب چھ برس تک وہ سلطان روم کی عملداری میں ادھر ادھر گشت کرتے رہے۔ ہند کو واپس آ کر انہوں نے جہاد کی ترغیب دی اور 1831ء میں مقتول ہوئے۔ ان کا ایک بڑا سرگرم پیرو تھا جس کا نام اسمٰعیل تھا۔ یہ بڑا زبردست مصنف تھا۔ اس نے ایک مشہور کتاب لکھی ہے جس کا نام تقویۃ الایمان ہے۔ سید احمد کے پیروؤں نے اور بھی کتابیں لکھی ہیں جو اب تک موجود ہیں۔ پس ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مذہب کے سبب اردو نثر کو کیسی ترقی ہوئی۔

    اب اردو زبان میں اتنی قوت اور قابلیت پیدا ہو گئی اور ساتھ ہی اس کے اس نے اس قدر رواج پایا کہ سب اسی کو لکھتے اور بولتے تھے اور اسی کے علمی رتبہ کو برھانے کی کوشش کرنے لگے۔ اس حال کو دیکھ کر آخر 1835ء میں سرکاری دفتروں اور عدالت گاہوں سے فارسی ہٹائی گئی اور اردو میں ساری کارروائیاں تحریر ہونے لگیں۔ جب یہ سارے سبب مل گئے اور اردو علمی اور درباری زبان ہو گئی اور ادھر مشرقی اور مغربی تعلیم کا بھی زور ہوا تو اردو میں اخبار جاری ہوئے اور لوگ شوق سے انہیں خریدنے اور پڑھنے لگے۔ اتنے میں 1837ء میں دہلی میں

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اردو زبان کی تاریخ ۔۔۔۔۔صفحہ95


    لوحی چھاپہ خانے قائم ہوئےا ور اردو کتابیں اور اخبار کثرت سے چھپنے اور بکنے لگے۔ اب تو چاروں طرف اردو ہی اردو کا زور ہو گیا۔ یہاں تک کہ بہادر شاہ نے جو دہلی کے آخری مغل بادشاہ تھے اپنے دربار میں اردو عالموں اور شاعروں کو جمع کیا اور خود بھی اپنا تخلص ظفر کر کے اردو میں شعر کہے۔ ذوق اور غالب ان ہی کے دربار کے آفتاب و ماہتاب تھے۔ ذوق نے 1854ء میں انتقال کیا اور غالب غدر کے بعد بارہ برس تک جیتے رہے اور 1969ء میں وفات پائی۔

    ہم نے انیسویں صدی کے شروع کی زبان کا نمونہ دیا ہے۔ اب دیکھو کہ غالب کے زمانے میں کیسی اردو بولی جاتی تھی۔ اس کی کیفیت پورے طور پر غالب کے خطوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ غالب جن کا پورا نام اسد اللہ خاں غالب تھا، جیسے نظم میں پوری دسترس رکھتے تھے ویسے ہی نثر کے بھی بادشاہ تھے۔ ان کے خطوط اور رقعات دو کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں۔ ایک کا نام اردوئے معلّٰے اور دوسری کا عودِ ہندی ہے۔ یہاں ایک خط نمونہ کے طور پر عود ہندی سے نقل کرتا ہوں۔


    نواب انور الدولہ سعد الدین خان بہادر کے نام


    "حضرت پیر و مرشد! اگر آج میرے سب دوست اورعزیز یہاں فراہم ہوتے اور ہم اور وہ باہم ہوتے تو میں کہتا کہ آؤ اور رسم تہنیت بجا لاؤ۔ خدا نے پھر وہ دن دکھایا کہ ڈاک کا ہرکارہ انور الدولہ کا خط لایا۔ یا ع اینکہ من بینم بہ بیداریست

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں