1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ادھار دینا

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از غوری, ‏16 مارچ 2019۔

  1. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    ادھار کے معنی ہیں کسی خاص معیاد کے لئے وعدہ پر کچھ لینا۔ آئندہ ادائیگی کے وعدہ پر کچھ لین دین کرنا۔کسی ضرورت مند کی فوری مالی مدد کے لئے قرض دینا، کسی حاجت مند کو (طے شدہ وقت کے لئے) کوئی چیز مستعار دینا۔

    ادھار یا قرض دو فریقوں کے درمیان
    پیسوں کی شکل میں لی گئی رقم یا کسی سامان یا اجناس کی وصولی ہوتی ہے۔ جسے حسب وعدہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ قرض دینے والے کو قرض خواہ اور قرض لینے والے قرض دار کہتے ہیں۔

    انسان کی پوری کوشش ہونا چاہیے کہ اس کو دوسرے شخص سے قرض لینے کی نوبت نہ آئے۔ کیونکہ قرض لینا کوئی اچھا فعل نہیں اور شریعت بھی قرض لینے کو مستحسن عمل قرار نہیں دیتی۔ بلکہ انتہائی مجبوری اور لاچاری کی حالت میں انسان کو قرض لینے کا قدم اٹھانا چاہیے۔ اور قرض دار کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ ادھار لی گئی رقم کیسے، کب اور کہاں سے واپس کرے گا۔ اور بہتر یہی ہے اتنی رقم ہی ادھار لی جائے جو قرض دار کو واپس کرنے میں آسانی ہو۔ ایک مہذب ، ایمان دار اور باشعور انسان کو قرض لیتے ہوئے بار بار سوچنا چاہیے اور اپنی و اپنے خاندان کی ساکھ کو قائم رکھتے ہوئے اتنی رقم ہی قرض لینی چاہیے جسے واپس کرنے کے لئے مالی وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔

    ہر ایک باعزت شخص یہی چاہے گا کہ اسے کبھی بھی قرض لینے کی نوبت نہ آئے۔ کیونکہ قرض لینا تو آسان ہوتا ہے مگر جب واپسی کا موقع آتا ہے تو انسان خود کو بے بس اور لاچار سمجھتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی قرض سے پناہ مانگتے تھے۔

    ملاحظہ ہو ایک حدیث:-
    أنَّ رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ کَانَ یَدْعُوْ فِی الصَّلاَةِ، وَیَقُوْلُ:اللہُمَّ اِنِّی أعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَأثَم وَالْمَغْرَم،فَقَال قَائِلٌ:ما أکثر مَا تَسْتَعِیْذُ یَا رَسُوْلَ اللہ مِنَ الْمَغْرَم؟ قال:اِنَّ الرَّجُل اِذَا غَرِمَ حَدَّثَ فَکَذَبَ، وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ۔(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الاستقراض، باب من استعاذ من الدَین،رقم الحدیث:2397)

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا مانگتے تو فرماتے :اے اللہ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔کسی نے عرض کیا، یا رسول اللہ!کیا بات ہے کہ آپ قرض سے اکثر پناہ مانگتے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آدمی جب قرض دار ہوتا ہے تو بات کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے ،وعدہ کرتا ہے اور اس کے خلاف کرتا ہے۔

    اور سنن النسائی کی روایت ہے:

    عن النَّبِیِّ صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ قَالَ: أَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الْکُفْرِ وَالَدَّیْن․ فَقَالَ رَجُلٌ:تَعْدِلُ الدَّیْنَ بالکفُرْ؟فَقَالَ:نَعَم․(سنن النسائی، کتاب الاستعاذہ،2/315،قدیمی)

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں،کفر سے اور قرض سے ۔تو ایک آدمی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ،آپ قرض کو کفر کے برابر فرمارہے ہیں؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں ۔

    مندرجہ بالا احادیث میں قرض کو کفر کے برابر کہا گیا ہے اور قرض کی وجہ سے انسان جھوٹ کا مرتکب بھی ہوسکتا ہے۔

    اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ قرض لینا معیوب ہے۔ انسان کو کوشش کرنا چاہیے کہ حتی الامکان قرض کا بوجھ نہ اٹھائے کیونکہ یہ وہ بوجھ ہے جسے اتارنا بہت مشکل ہے اور بوجھل جسم کے ساتھ زندگی گزارنا ممکن نہیں۔

    قرض انسانی تعلقات کے لئے زہر قاتل ہے۔ قرض دار جب وقت پر پیسے نہ ادا کرسکے تو مزید وقت کے لئے بار بار عذر پیش کرتا ہے اور دروغ گوئی سے کام لیتا ہے۔

    اگر آپ کو اپنے دوستوں پر اندھا یقین ہوکہ وہ کسی بھی صورت آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے بلکہ زندگی بھر آپ کے ساتھ رہیں گے تو یہ طریقہ آزما کردیکھیں آپ کو قرض کی بدفطرتی کا اندازہ ہوجائے گا اور یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں قرض سے پناہ مانگتے تھے:-

    اپنے غریب دوستوں کو قرض دے دو اور امیر دوستوں سے قرض مانگو۔ مطلب یہ کہ غریب دوستوں کو قرض کی رقم دے دو اور امیر دوستوں سے صرف قرض کے لئے تقاضہ کرو۔ امیر لوگوں سے رقم حاصل نہیں کرنی۔ بہت جلد دونوں طبقے کے دوست آپ کو چھوڑ کر رفو چکر ہوجائیں گے۔

    قرض ایسی لعنت ہے جو خونی رشتوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتی ہے۔ اپنی رقم کی واپسی کے لئے لوگ ایک دوسرے کو قتل کردیتے ہیں۔

    قرض ایسا بوجھ ہے جو انسان کو خود چکانا ہوتا ہے یا اس کے اہل و عیال ادا کرتے ہیں۔ قرض کی رقم اللہ تعالی بھی معاف نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان کا جنازہ پڑھایا جارہا ہوتو یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر کسی انسان کا میت کے ذمے لین بنتا ہے تو فلاں وارث سے رابطہ کرے۔

    اس کے علاوہ ایک قرض ایسا ہے جسے قرض حسنہ کہتے ہیں ۔ قرض حسنہ آپ دو طریقوں سے دے سکتے ہو۔ ایک یہ کہ قرض خواہ یہ کہے کہ یہ رقم میں قرض دار کو اس کی جائز ضرورت کے پیش نظر دے رہا ہوں تاکہ وہ اپنی مشکل سے بر وقت نکل سکے۔ اور جب بھی اس کے پاس پیسے ہوں واپس کردے اور اگر نہ ہوں تو بھی کوئی بات نہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ قرض خواہ اپنے قرض دار کو یہ کہے کہ میں یہ رقم اللہ کے لئے تمہیں دے رہا ہوں اور اس کا اجر میں صرف اللہ سے ہی لوں گا۔ تم پہ کوئی بوجھ نہیں۔

    قرض حسنہ صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے ہوتا ہے۔ قرض حسنہ انسان اور اللہ تعالی کے مابین کاروبار ہے جس میں اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ آپ کے دیئے مال کو کئی گنا بڑھا کر آپ کو واپس لوٹائے گا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:- مَن ذَالَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضٰعِفُهُ لَهُ اَضْعَافاً كَثِيْرَةً-’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے۔ تو اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر زیادہ دے۔(البقرۃ:245)

    اللہ تعالی نے انسانی معاشرے میں کسی کو امیر بنایا ہے تو کسی کو غریب، تاکہ یہ نظام کائنات چلتا رہے، فرمان الہی ہے کہ:- أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ۔ (سورہ زخرف آیت 32)

    کیا یہ لوگ تمہارے پروردگار کی رحمت کو بانٹتے ہیں؟ ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے اور جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں تمہارے پروردگار کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے۔

    قرض حسنہ بہت اعلی عبادت ہے۔ جو لوگ صاحب استطاعت ہیں، اہل ثروت ہیں، انہیں چاہیے کہ اپنے مال میں سے لوگوں کی مالی مدد کریں۔ اگر کچھ رقم خرچ کرکے کسی کی جان بچا سکتے ہیں تاکہ پورا کنبہ بکھرنے نہ پائے، آپ کسی کی تعلیم کے اخراجات اٹھا کر اس کی تعلیم مکمل کروا سکتے ہیں تاکہ ایک انسان اپنی زندگی کو اچھے طریقے سے گزارنے کے قابل ہوسکے۔ آپ کسی کو چھوٹے موٹے کام کے لئے اس کی مالی مدد کرسکتے ہو تاکہ وہ اپنا گھر چلا سکے۔ کسی متوسط گھرانے کی مالی مدد کرکے ان کی بیٹی کی شادی انجام تک پہنچا سکتے ہو تاکہ کسی کا گھر بس جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔

    اللہ تعالی اس کائنات کے خالق ہیں، مالک ہیں اور رب ہیں۔ اللہ تعالی سے بہتر کوئی نہیں جانتا کس کو کیا، کب اور کیسے دینا ہے۔ ہماری زندگی میں کئی ادوار ایسے آتے ہیں جب ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور کبھی ہم اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ کسی کی مدد کرسکیں۔

    یہی انسانیت ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کا غمخوار اور مددگار ہو۔ اگر ہم بے حس ہو کر ضرورت مندوں سے لاتعلق ہوکر اپنی زندگی گزارنا شروع کردیں تو آپ حقیقی خوشیوں سے محروم ہوجائیں گے۔ انسانی مدد کرکے جو خوشی ملتی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ کیونکہ یہ بڑے نصیب کی بات ہے کہ اللہ تعالی کسی انسان کو اس قابل بنائے کہ وہ دوسروں کے چہروں پہ خوشیاں بکھیر دینے کی اہلیت رکھتا ہو۔

    ادھار لیتے ہوئے انسان صرف اور صرف اتنی رقم ادھار لے جو آپ کی آمدنی میں سے بآسانی ادا ہوسکے ۔ ایک ملازم پیشہ انسان صرف اور صرف اتنی رقم ادھار لے جسے وہ اگلے مہینے کی تنخواہ سے ادا کرسکتا ہو۔ بامر مجبوری آپ تھوڑی بڑی رقم بھی ادھار لے سکتے ہیں جو آپ ذیادہ سے ذیادہ چھ ماہ کے دوران اپنی تنخواہ میں سے تھوڑی تھوڑی ادا کرسکتے ہوں۔

    اور ادھار دیتے ہوئے آپ بہت محتاط رہیے۔ جب بھی کوئی رقم کا تقاضہ کرے۔ آپ اس کی ضرورت کو ضرور دیکھئے اور اچھی طرح یقین کرلیجئے کہ وہ واقعی ضرورت مند ہے اور یہ ضرورت جائز ہے۔ پھر ادھار کی رقم کے بارے میں یقین دہانی کرلیجئے کہ وہ کیسے اور کہاں سے ادا کرے گا۔

    جاری ہے۔۔۔۔۔
     
    Last edited: ‏16 مارچ 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    بقیہ حصہ۔۔

    ہر انسان کی دولت یا سرمایہ بہت قیمتی ہوتا ہے اور اللہ تعالی نے جو مال آپ پر انعام کیا ہے اسے فضول لٹانا نہیں چاہیے۔

    کچھ لوگ آپ کی ظاہری حالت اور اٹھنے بیٹھنے سے یہ تاثر لیتے ہیں کہ آپ بہت رئیس زادے ہیں۔ جبکہ آپ بھی انھی کی طرح ملازمت کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ کم ظرف ، کوتاہ نظر اور خود غرض لوگ، آپ کی شفقت اور بے نیازی کو آپ کی بے وقوفی سمجھتے ہیں اور اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کس طرح آپ سے مالی فائدہ اٹھایا جائے۔اور اپنے مذموم مقاصد کے لئے وہ ایسا جال بنتے ہیں کہ آپ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ کیا معاملہ ہے۔ اس سلسلہ میں ، میں ایک سچا واقعہ شیئر کر رہا ہوں تا کہ قارئین خبردار ہوں کہ دنیا میں کیسے کیسے عجیب کردار ہیں۔ جن میں اتنی اخلاقی جرات یا اخلاقی پستی ہے کہ کسی کے پیسوں سے پلاٹ خریدیں۔

    ایک مرتبہ میں نے اپنے گھر دعوت پہ چند فیملیوں کو مدعو کیا ۔ ان میں سے ایک فیملی کے سربراہ نے دعوت کے دوران یہ کہا کہ واپڈا ٹاؤن لاہور میں 10 مرلے کا پلاٹ مل رہا ہے۔ جب انھوں نے ایک آدھ بار دوسروں کے ہاں دعوت پہ اس پلاٹ کا مزید ذکر کیا تو میں یہ سمجھا کہ ان صاحب کو یہ پلاٹ پسند ہے اور اس کی ادائيگی کے لئے رقم کا انتظام نہیں کرپارہے۔ میں نے از راہے ہمدردی ان سے پوچھا کہ کتنے پیسے چاہیں۔ کہنے لگے کہ 10،000 ڈالر ۔ میں نے انھیں جب یہ رقم دی تو مزید 2،000 ڈالر کا مطالبہ کردیا۔

    چند ہفتے گزرنے کے بعد جب میں نے رقم کی ادائيگی کے لئے استفسا ر کیا تو موصوف کا جواب یہ تھا کہ آپ کو رقم واپس چاہیے؟ مجھے بہت غصہ آیا ، مگر ضبط کرگیا۔ اور یہ معلوم ہوا کہ موصوف کے پاس تو پیسے ہی نہیں جو ادا کرسکیں۔ قصہ مختصر کہ مجھے اس خطیر رقم کی وصولی کے لئے ایک کمیٹی کا آغاز کرنا پڑا، جس میں انھیں شامل کیا اور آخری کمیٹی ان کے نام سے نکلتی جو مجھے موصول ہوتی۔ اس طرح دو مرتبہ کمیٹیاں ڈال کر ان سے رقم وصول کی گئی۔ گویا دو برس اور چند ماہ بعد اپنی رقم واپس ملی۔ ایک تو میری رقم ٹوٹ گئی اور دوسرے پریشانی علیحدہ۔

    اندازہ لگائیے لوگ اپنے فائدے کے لئے کس حد تک اخلاقی انحطاط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جبکہ اہل ایمان اور اہل علم دوسرے کے سرمایے کو ایک امانت سمجھتے ہیں۔

    اسلام میں اسی وجہ سے قرض کے معاملے کے لئے یہ اصول وضع کیا گیا ہے تاکہ زحمت اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے:- یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ إِلَی أَجَلٍ مُسَمًّی فَاکْتُبُوہُ۔۔۔ وَاسْتَشْہِدُوا شَہِیدَیْنِ مِنْ رِجَالِکُمْ(البقرة: 282)

    ترجمہ :“اے ایمان والوں جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کروتواُسے لکھ لیا کرو۔اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو۔”

    اس کے علاوہ جب آپ کوئی بڑی رقم ادھار دے رہے ہوں اور آپ کو احتمال ہوکہ قرض دار آپ کا سرمایہ واپس کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ ایسے میں اپنے سرمایہ کی یقینی واپسی کے لئے قرض دار سے کو ئی شے سونے کی یا دیگر قیمتی شے یا زمین کے کاغذات کو بطور ضمانت رکھ لیں۔

    جب قرض دار اپنے قرض خواہ سے قرض لے تو اس کو احسان سمجھنا چاہیے کہ اس نے میری ضرورت پوری کی ۔ قرض کو وقت پر ادا کرنے کی کوشش کرے اور طلب کرنے سے پہلے خود ہی اس کے پاس جا کر ادا کردے،نہ یہ کہ اس کو آج کل پر ٹالتا رہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ظلم فرمایا ہے۔

    ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی نے قرض لیااور قرض لینے کے بعد ادائیگی پر قدرت کے باوجود قرض ادا نہیں کرتااور بار بار چکر لگواتا رہتا ہے،اس بیچارے نے احسان کیا،لیکن اسے احسان کا بدلہ یہ ملاکہ وہ اپنی چیز کو حاصل کرنے میں سر گرداں ہے،اس طرز عمل سے بچنا چاہیے، اس لیے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ اس پریشانی میں بد دعا دے دے ،جس کی قبولیت میں شک نہیں۔

    اگر کوئی شخص بلاوجہ ٹال مٹول کرے، تو شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اس کو جیل میں ڈال دیا جائے۔ ( سنن ابن ماجہ، ابواب الصدقات، باب الحبس فی الدین، رقم الحدیث:2427)

    اگر کوئی اس نیت سے قرض لیتا ہے کہ ادا نہیں کروں گا تو وہ ایسا ہے جیسے حرام کھارہا ہو۔

    اگر کوئی قرض لے کر ہڑپ کرجاتا ہے اور قرض دینے والا اس سے قرض کی وصول یابی کی قدرت نہیں رکھتاتو یہ قرض آخرت میں (قرض دار کی ) نیکیوں کی صورت میں اس سے وصول کیا جائے گا۔

    اگر کسی نے کئی لوگوں سے قرض لیا یا کئی لوگوں کا حق کھایا، جن کو اب جانتا نہیں تو جس طرح ممکن ہو ان لوگوں کو تلاش کرے اور ان کو ان کا حق واپس کرے ، وہ نہ ہوں تو ان کے والدین یا اولاد کو دے دے، اگر ان کو تلاش کرنا ممکن نہ ہو توایسی صورت میں جتنی مقدار میں قرض لیا ہے یا حقوق کھائے ہیں اتنی مقدار صدقہ کرے۔ اور یہ نیت کرے کہ اس کا ثواب اصل مالک کو پہنچ جائے۔

    جب بھی کوئی آپ سے رقم کا مطالبہ کرے تو فوری طور ہاں یا نہ میں جواب نہ دیں بلکہ چند دن کا وقت مانگ لیں۔ اس دوران اپنے مالی حالات اور اپنی ذمہ داریوں پر صدق دل سے غور کریں اور قرض لینے والے کی ضرورت اور اس کی مالی حالت پر عمیق طریقے سے غور کریں۔ اور کسی کو رقم دینے سے پہلے دلی اطمینان کرلیں تاکہ حالات قابو میں رہیں اور تعلقات کو بٹہ نہ لگے۔ مالی معاملات میں کسی کو اندھیرے میں رکھنے سے بہتر ہے صاف جواب دے دیں۔ بار بار پچھتانے سے بہتر ہے ایک بار کا پچھتانا۔ تاہم حقیقی ضرورت مند اور غیرت مند لوگوں کی مدد کے لئے جس قدر ممکن ہو ضرور مدد کریں۔ کیونکہ انسانی مدد سے آپ ناصرف دوسرے کی مشکل آسان کرتے ہیں، بلکہ اللہ تعالی کی خوشنودی کے بھی مستحق ہونے کے ساتھ ساتھ آپ اپنے آپ کو اچھا انسان بنانے کے عمل کو جاری رکھتے ہیں اور اپنے تقوی اور نفس کی تربیت کے عمل کو بھی جاری رکھتے ہیں۔

    ادھار سے متعلق بہت سے ضرب المثل ہیں، انھیں ضرور یاد رکھیں۔

    ادھار دینا غم میں پڑنا ہے

    ادھار دینا لڑائی مول لینا۔
    ادھار دیجئے دشمن کیجئے۔
    ادھار دیا گاہک کھویا۔


    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    قرض ِ حسنہ کیا ہے؟
     
  4. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    اس کے علاوہ ایک قرض ایسا ہے جسے قرض حسنہ کہتے ہیں ۔ قرض حسنہ آپ دو طریقوں سے دے سکتے ہو۔ ایک یہ کہ قرض خواہ یہ کہے کہ یہ رقم میں قرض دار کو اس کی جائز ضرورت کے پیش نظر دے رہا ہوں تاکہ وہ اپنی مشکل سے بر وقت نکل سکے۔ اور جب بھی اس کے پاس پیسے ہوں واپس کردے اور اگر نہ ہوں تو بھی کوئی بات نہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ قرض خواہ اپنے قرض دار کو یہ کہے کہ میں یہ رقم اللہ کے لئے تمہیں دے رہا ہوں اور اس کا اجر میں صرف اللہ سے ہی لوں گا۔ تم پہ کوئی بوجھ نہیں۔

    قرض حسنہ صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے ہوتا ہے۔ قرض حسنہ انسان اور اللہ تعالی کے مابین کاروبار ہے جس میں اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ آپ کے دیئے مال کو کئی گنا بڑھا کر آپ کو واپس لوٹائے گا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:- مَن ذَالَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضٰعِفُهُ لَهُ اَضْعَافاً كَثِيْرَةً-’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے۔ تو اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر زیادہ دے۔(البقرۃ:245)
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    وَاِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلَي مَيْسَرَةٍ وَاَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ’

    اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہوتو اسے(سے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت دو اوراگر قرض معاف ہی کردد تو تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے ، اگرتم سمجھو۔‘‘(البقرۃ:280)
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اجتماعی ، فنی اور زرعی تعاون کرنا۔ اجتماعی تاوان کی ضمانت و کفالت ، کاشتکاروں اور فنون کے ماہرین کو مالی مدد دینا جوان کو مالی لحاظ سے مستحکم کرے ، ان کی پیدوار کو بڑھائے اور جس کے نتیجے میں امت خیروبرکت سے مالامال ہو ،مدارس کھولنا ، ہسپتال تعمیرکرنا اور معذوروں کی بحالی کے لیے ادارے قائم کرنا بھی باہمی تعاون کے ضمن میں آتاہے ۔ اللہ تعالی نے جامع انداز میں فرمایا ہے:
    وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْويٰ’’
    نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو۔‘‘(المائدۃ:2)
    اس باہمی تعاون کے سائے میں معاشرہ پھلے پھولے گا اور یہ سود جیسے گناہ سے محفوظ ہوگا۔
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ۔ تحریر کی تکمیل کے لئے جہاں جہاں قرآنی آیات کی ضرورت محسوس کی تو گوگل کرنے پہ مجھے بھی یہ آیات ملی تھیں۔
    لیکن اختصار اور ذاتی ادھار تک محدود رہنے کو میں نے ترجیح دیا۔
    تاہم راہنمائی کے لئے بہت بہت شکریہ۔

    جزاک اللہ۔
     
    Last edited: ‏17 مارچ 2019

اس صفحے کو مشتہر کریں