1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ادب پارے

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از حریم خان, ‏1 جون 2011۔

  1. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    مزاحیہ ادب سے انتخاب
    سب ٹیچر اپنے مضمون کے علاوہ کوئی اور مضمون پڑھانے سے ہچکچاتے تھے۔ ماسٹر فاخر حسین، واحد استاد تھے جو ہر مضمون پڑھانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے، حالانکہ انہوں نے بی اے " وایا بھٹنڈہ" کیا تھا۔ مطلب یہ کہ پہلے منشی فاضِل کیا، انگلش گریمر انہیں بالکل نہیں آتی تھی۔ وہ چاہتے تو انگریزی کا سارا گھنٹا ہنس بول کر یا پند و نصائح میں گزار سکتے تھے۔ لیکن ان کا ضمیرایسی "دفعہ الوقتی" کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ دوسرے استادوں کی طرح لڑکوں کو مصروف رکھنے کی غرض سے وہ اِملا بھی لکھوا سکتے تھے۔ مگر اس حیلے کو وہ اپنے تبحرِ علمی اور منصبِ عالمانہ کے خلاف سمجھتے تھے۔ چنانچہ جس بھاری پتھر کو سب چُوم کر چھوڑ دیتے، اُسے یہ گلے میں ڈال کر بحرِ علوم میں کود پڑتے۔ پہلے گریمر کی اہمیت پر لیکچر دیتے ہوئے یہ بنیادی نکتہ بیان کرتے کہ ہماری گائیکی کی بنیاد طبلے پر ہے، گفتگو کی بنیاد گالی پر، اسی طرح انگریزی کی اساس گریمر ہے۔ اگر کمال حاصل کرنا ہے تو پہلے بنیاد مضبوط کرو۔ ماسٹر فاخر حسین کی اپنی انگریزی کی عمارت فنِ تعمیر کے کمال کا "نادر نمونہ اور یکے از ہفت عجائباتِ عالم" تھی۔ مطلب یہ کہ بغیر نیو کی تھی، بیشتر جگہ تو چھت بھی نہیں تھی اور جہاں تھی، اسے چمگادڑ کی طرح اپنے پیروں کی اَڑواڑ سے تھام رکھا تھا۔ اس زمانے میں انگریزی بھی اردو میں پڑھائی جاتی تھی۔ لہٰذا کچھ گِرتی ہوئی دیواروں کو اردو اشعار کے برمحل پشتے تھامے ہوئے تھے۔ بہت ہی "منجھے اور گِھسے " ہوئے ماسٹر تھے۔ سخت سے سخت مقام سے آسان گزر جاتے تھے۔ مثلاً "پرسنگ" کروا رہے ہیں۔ اپنی دانست میں نہایت آسان سوال سے ابتداء کرتے۔ بلیک بورڈ پر "ٹُو گو" لکھتے اور لڑکوں سے پوچھتے، اچھا بتاؤ یہ کیا ہے؟ ایک لڑکا ہاتھ اٹھا کر جواب دیتا، "سمپل انفینی ٹِو"، اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے فرماتے، بالکل ٹھیک۔ لیکن دیکھتے کہ دوسرا اُٹھا ہوا ہاتھ ابھی نہیں گِرا۔ اس سے پوچھتے، "آپ کو کیا تکلیف ہے؟" وہ کہتا، نہیں سر! "ناؤن انفینی ٹِو" ہے. فرماتے، "اچھا آپ اُس لحاظ سے کہہ رہے ہیں"۔ اب کیا دیکھتے ہیں کہ کلاس کا سب سے ذہین لڑکا ابھی تک ہاتھ اُٹھائے ہوئے ہے۔ اس سے کہتے، "آپ کا سگنل ابھی تک ڈاؤن نہیں ہوا۔ کہیے، کہیے"! وہ کہتا یہ "گرنڈیل انفینی ٹِو"ہے جو :ریفلیکسِو ورب" سے مختلف ہوتا ہے۔ "نیسفیلڈ" گریمر میں لکھا ہے۔ اس مرحلے پر ماسٹر فاخر حسین پر واضح ہو جاتا کہ:

    گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

    لیکن بہت سہج اور نکتہ فہم انداز میں فرماتے، "اچھا! تو گویا آپ اُس لحاظ سے کہہ رہے ہیں"! اتنے میں نظر اُس لڑکے کے اُٹھے ہوئے ہاتھ پر پڑی جو ایک کانوینٹ سے آیا تھا اور فر فر انگریزی بولتا تھا۔ اس سے پوچھا ویل، ویل، ویل؟

    اس نے جواب دیا:

    Sir! I am afraid, this is an intransitive verb.

    فرمایا، "اچھا! تو گویا آپ اُس لحاظ سے کہہ رہے ہیں"!

    تحریر: مشتاق احمد یوسفی

    :آبِ گم : دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ: سے اقتباس

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    تحریر: آفتاب اقبال

    عملی زندگی میں کئی سال لگاتار "جھک" مارنے کے بعد ہم بالآخر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صورتحال خواہ کچھ بھی ہو، خربوزے، بیوی اور ڈرائیور کی کبھی تعریف نہیں کرنی چاہئے۔ یہ تینوں لوگ " تعریف سنتے ہی "چوڑ" ہو جاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا ہم نے چند روز پہلے خربوزے کو اپنے کالمانہ قصیدے کا موضوع بنایا۔ ہمارا خیال تھا کہ اس حوصلہ افزائی کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور یہ سلسلہِ مٹھاس یونہی جاری و ساری رہے گا مگر یقین کیجئے، وہ دن اور آج کا دن، مذکورہ کالم چھپتے ہی یہ "سبزی نما پھل" اپنا اصلی رنگ جمانے لگا۔ آج کل جس قماش کے خربوزے آ رہے ہیں اس سے کم از کم ہمیں تو یہی گمان گزرتا ہے کہ جیسے پورے ملک کو شوگر ہو گئی ہے اور ہمارے کسان اور زمیندار بھائی انتہائی حکیمانہ طور پر محتاط کاشتکاری کر رہے ہیں۔

    اسی فیاضی میں ہم سے دوسری حماقت یہ ہوئی کہ اپنے ڈرائیور کی تعریف کر بیٹھے۔ ویسے خدا لگتی ہے بھی یہی کہ یہ آدمی ہر قسم کی احمقانہ اور ڈرائیورانہ قباحتوں سے پاک اور بے حد مختلف قسم کا آدمی واقع ہوا ہے۔ مثلاً "انتہائی منحوس حد تک خاموش طبع" ہے جس کی بناء پر ہمارا اپنا ذوقِ تقریر خوب پنپتا رہتا ہے۔ ہٹا کٹا اور تنومند ہونے کے باوجود جب بولتا ہے تو دل یہ سوچ کر جذبہِ ہمدردی سے سرشار ہو جاتا ہے کہ اور کچھ ہو نہ ہو، اس بیچارے کو ٹی بی، خناق‘ کالی کھانسی، خسرہ اور پولیو ضرور ہے۔ ایک روز شومئی قسمت سے ہم اس کمبخت کی "تعریف کا ارتکاب" کر بیٹھے، یہ غالباً خربوزے کی تعریف سے دو دن بعد کا سانحہ ہے، بس پھر کیا تھا۔ اب تو یوں لگتا ہے جیسے اس نے چربِ زبانی میں ڈپلوما کر لیا ہے۔ ہر موضوع پر نان سٹاپ بولتا چلا جاتا ہے۔ بلکہ اب تو کثرت گفتار سے اس کی شکل بھی ہمارے دوست "عزیزی ناہنجار" کی طرح ہوتی چلی جا رہی ہے۔ منیر نیازی مرحوم نے لاہور کے ایک نہایت باتونی شاعر کے بارے میں یہ تاریخی فقرہ داغ کر اُسے تاریخ میں ایک منفرد مقام دلا دیا کہ "بول بول کر اس کمبخت کا منہ بڑا اور سر چھوٹا ہو گیا ہے۔ ادھر بھی تقریباً یہی حال ہے۔ اتنی باتیں تو دورانِ حجامت ہمارا ہیئر سٹائلسٹ نہیں بتاتا، جتنی یہ آج کل اٹھتے بیٹھتے بتانے لگا ہے۔

    جہاں تک ہماری بیگم صاحبہ کا تعلق ہے تو جناب ان سے بہتر خاتون شاید ہی اس کرہِ ارض پر موجود ہو۔ ان کے جنتی ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ پچھلے کئی سال سے ہمیں برداشت کرتی چلی آ رہی ہیں، تاہم یہ عارضہ انہیں بھی بڑی شدّت سے لاحق ہے کہ تعریف کا اثر ان پر بھی تقریباً وہی ہوتا ہے جو خربوزوں اور ڈرائیوروں پر ہوا کرتا ہے۔ آپ بھی بہت جلد "چوڑ" ہو جاتی ہیں۔ خیر، اس موضوع پر مزید کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ "فی الحال ہمارا گھر سے نکلنے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں"۔

    "خربوزے، ڈرائیور، بیگم اور اوباما" سے اقتباس
     

اس صفحے کو مشتہر کریں