1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اخوت کی اہمیت ۔۔۔۔۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏26 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    اخوت کی اہمیت ۔۔۔۔۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری

    اسلامی اُخوت وہ عالمگیر رابطہ وحدت اور رشتۂ یگانگت ہے جو تمام جغرافیائی، نسلی، لسانی، ملکی اور وطنی حدودو قیود سے آزاد اور امتیازات سے وراء الوراء ہے۔ یہ وہ روحانی رشتہ ہے جو مادی علائق ور وابط سے منزہ اور بالا تر ہے۔ وحیِ ربانی کی آیاتِ بینات اور صاحبِ وحی ورسالتؐ کے ارشاداتِ مقدسہ میں اس کی تفصیلات و تمثیلات کے مستقل ابواب موجود ہیں، ارشادِ الٰہی ہے: ترجمہ ’’ تم (ایک دوسرے کے) دشمن (خون کے پیاسے) تھے، پس اللہ نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیداکردی، اب تم اُس کے انعام ورحمت سے (ایک دوسرے کے) بھائی ہو گئے ۔‘‘ (آل عمران:103)
    ارشادِ نبوی ﷺ ہے:’’ ایک مو من دوسرے مومن کیلئے عمارت کے رَدّوں کی مانند ہے، جس کا ایک رَدَّا دوسرے رَدّے کو مضبوط ومحکم کرتا ہے۔ اور (آپ ﷺنے اس تمثیل کا مشاہدہ کرانے کیلئے اپنی ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کرلیں اور فرمایا)اس طرح۔‘‘(صحیح البخاری، ابواب المظالم والقصاص، باب نصرالمظلوم، ج:1ص 331، ط: قدیمی)

    نیز ارشاد ہے:’’ مومنوں کی مثال باہمی دوستی، شفقت و عاطفت اور ایک دوسرے پر مہربان ہونے میں جسم (کے اعضاء ) کی مانند ہے، جب جسم کا کوئی ایک عضو مر ض میں مبتلا ہوتا ہے تو تمام جسم کے اعضاء بیماری کی تکلیف کی وجہ سے راتوں کو جا گنے اور بخار کا اثر قبول کرنے میں اس کا سا تھ دیتے ہیں (اور پورا جسم بیمار ہوجاتا ہے)۔‘‘(بخاری ومسلم بروایت نعمان بن بشیرؓ)

    اس کے با لمقابل اس رابطہ وحدت اور رشتۂ اُخوت کو پارہ پارہ کر دینے کے بارے میں شدید وعیدیں اور بلیغ مثالیں آئی ہیں، چنانچہ ارشاد ہے: فرمایا: ’’کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ کے درجے سے بھی افضل (عبادت) نہ بتلاؤں؟ ‘‘(صحابہؓ نے) عرض کیا: کیوں نہیں! (ضرور بتلائیے) فرمایا: ’’(وہ عبادت) باہمی تعلقات کی اصلاح (خوشگوار بنانا) ہے، اس لیے کہ اس کے مقابلہ پر آپس کے تعلقات کو بگاڑنا (اور خراب کرنا) ہی مونڈ دینے والی (معصیت) ہے، اسکامطلب یہ نہیں کہ یہ (حرکت) بالوں کو مو نڈ تی ہے، بلکہ یہ تو (پوری قوم کے) دین (وایمان) کو مونڈ ڈالتی ہے (تباہ کر دیتی ہے)۔‘‘(ابودائود،ترمذی، بروایت ابوالدرداء ؓ)

    دنیائے اسلام کے لیے مسلمانوں کے باہمی اتحاد و تعاون سے بڑھ کر کوئی نعمت اور رحمت نہیں، جس طرح دنیا میں مسلمانوں کے تخرّْب (دھڑے بندی) اور افتراق سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں، قرآن کریم کی آیتِ کریمہ :’’ یا تم کو مختلف گر وہوں میں بانٹ دے اور ایک دوسرے سے لڑادے (خانہ جنگی کے عذاب میں مبتلا کر دے)۔‘‘ (الانعام:65) میں اسی عذاب کا ذکر فرمایا ہے۔

    آج اگر مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک کے مسلمانوں میں باہمی اتحاد و تعاون اور تنظیم کی روح کار فرما ہوجائے تو یقینا دنیا کی سب سے بڑی طاقت اسلام اور مسلمانوں کی طاقت ہو۔ خدا کا شکر ہے کہ جہادِ پاکستان کے موقع پر اس اسلامی اتحاد و تعاون کی ہلکی سی جھلک سامنے آگئی اور ترکی، ایران، عرب اور جاوہ نے پاکستان کی اعانت وامداد کرکے وحدتِ اسلامی کا بھولا ہوا سبق مسلمانوں کو یاد دلایا اور اب محسوس ہوتا ہے کہ یہ جہاد کیا تھا‘ نسیمِ رحمتِ الٰہی کا ایک ایسا جھونکا تھا جس نے اسلامی اُخوت ووحدت کی لہر بجلی کی طرح دنیا کے مسلمانوں میں دوڑادی اور مشاہدے میں آگیا کہ باہمی اتحاد اور اپنے حق کیلئے جہاد ہی ایسی نعمت ہے جس کے ذریعے حق تعالیٰ کی رضا و خو شنودی کی سعادت اور دنیا کی عزت وعظمت میسر آ سکتی ہے اور اسی نعمت سے محرومی مسلمانوں کی دنیا اور آخرت دونوں میں ذلت اور رسوائی کا باعث بنتی ہے۔ خاتم الانبیاء ﷺ نے اسی حقیقت کی طرف اُمت کو ذیل کے الفاظ میں متوجہ فرمایا ہے:’’ جہاد قیامت کے دن تک جاری رہے گا۔‘‘ (المعجم الاوسط)

    اندرونِ ملک میں بھی اسی نعمت کی برکت سے پوری قوم میں بے نظیر اتحاد ویگانت اور ہمدردی و تعاون کے جذبات یکدم بیدار ہوگئے، تمام جماعتی اور سیاسی تفرقے مٹ گئے، ایثار و سرفروشی کے احساسات بروئے کار آگئے اور چشم زدن میں اہلِ پاکستان اس عظیم نعمت سے سر فراز ہوگئے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

    درحقیقت پاکستان کا یہ دور نہایت مبارک و مسعود ہے جس میں قوم کو بہت بڑی سعادت سے ہمکنار ہونا نصیب ہوااور برسوں کے خوابِ غفلت سے پوری قوم بیدار ہوگئی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تاریخِ اسلام میں مسلمانوں کی تر قی وبرتری کا راز سربستہ منکشف ہوگیا، آیاتِ جہاد اور احادیثِ قتال فی سبیل اللہ کے حقائق وبرکات کا مشاہدہ ہوگیا۔

    کاش! مسلمان اس عظیم الشان نعمتِ الٰہی کا صرف زبانی شکر یہ کے بجائے حقیقی شکر یہ ادا کریں اور اُس منحوس زندگی کو یکسر ختم کر دیں جو غضبِ الٰہی اور قہرِ خدا وندی کو دعوت دیا کرتی ہے۔ اربابِ اقتدار کا بھی فرض ہے کہ اللہ کی دی ہوئی اس طاقت وقدرت سے صحیح فائدہ اُٹھائیں اور اس ملک میں اللہ تعالیٰ کا قانونِ رحمت وحکمت کی رہنمائی میں ملک کے اندر ایک صالح معاشرے کی تشکیل کریں اور اس شکرِ نعمت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے وعدے:ترجمہ ’’ اگر تم نے شکر کیا تو ہم تمہیں زیادہ دیں گے اور اگر تم نے کفر کیا تو (یاد رکھو) میرا عذاب بڑا سخت ہے۔‘‘ (ابراہیم:7) کے مطابق دنیا میں اور زیادہ سے زیادہ عزت وعظمت اور طاقت وقوت کی نعمت سے فراز ہوں اور آخرت میں رضائے الٰہی اور ابد ا لآباد تک رہنے والی لا ز وال نعمتوں سے مالا مال ہوں۔مگر اس مقصد کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ خود غرضی سے اپنا دامن چھڑا کر احکم الحاکمین کی بارگاہِ جلال وکبریا میں سرِ نیاز خم کریں اوررب العالمین کی بارگاہِ قدس میں سر بسجود ہوکر کونین کی نعمتوں اور سعادتوں سے سربلند اور سرخرو ہوں۔ یہ درست ہے کہ معاشرہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ یکدم اصلاح ممکن نہیں، تاہم مدبرانہ تدریجی نظام کے ساتھ مز ید اقدامات کے جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں ایک با وقار ،باعزت اور خوددار وطاقتور قوم کی تشکیل ناگزیر ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کا ملہ اور آخرت کی مسئو لیت پر کامل یقین وایمان موجود ہو اور عہدِ حاضر کے تجربات و مشاہدات سے استفادہ کرنے والی عقل، صحیح عزمِ راسخ اور خود اعتمادی کی طاقت میسر ہو تو دنیا کی کوئی مشکل بھی مشکل نہیں ہے، مگر درحقیقت یقین محکم ہونے کے بجائے کمزور، عقل کامل ہونے کے بجائے ناقص اور عزم راسخ ہونے کے بجائے متزلزل اور احساسِ کمتری غیر شعوری طور پر مسلط ہوچکا ہے۔ اسی قصور اور خامی کی وجہ سے صورتِ حال میں مؤثر انقلاب آفریں اقدامات کی ہمت نہیں ہوتی۔جس طرح عوام اور قوم کے دوسرے طبقوں میں انتشارو افتراق اور تخرّْب (گر وہ بندی) کار فرما ہے، اسی طرح علماء کرام کے طبقوں اور دینی اداروں میں بھی تشتّت وافتراق موجود ہے، نہ صرف مختلف مکاتبِ فکر کے علماء میں بلکہ ایک ہی مکتب ِ فکر کے بزرگوں میں بھی یہی صورت حال کار فر ما ہے۔ دین کیلئے یہ انتشارو افتراق سانحۂ عظیم ہے۔

    کاش! یہ سب متحد ومتفق ہوجائیں۔ آپس میں کلی ارتباط واتحاد، تعاون وتنا صر اور ہم آہنگی و یگانگت موجود ہو اور سب ایک نظام میں منسلک ہوں۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں