1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اخلاق کی اہمیت اور ضرورت

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از ابو تیمور, ‏25 دسمبر 2013۔

  1. ابو تیمور
    آف لائن

    ابو تیمور ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2012
    پیغامات:
    61,873
    موصول پسندیدگیاں:
    6,599
    ملک کا جھنڈا:
    ">اخلاق کی اہمیت اور ضرورت
    حضور اکرم:drood: کو اللہ تعالیٰ نے جہاں بہت سارے کمالات وامتیازات وصفات سے مالا مال فرمایا تھا‘ ان میں سے ایک بڑی صفت ”خلق عظیم“ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ :drood: کے اخلاق کی تعریف بھی فرمائی‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ”وانک لعلیٰ خلق عظیم“۔ ( سورة القلم:۴)
    ترجمہ:․․․․”اور بے شک آپ اخلاق (حسنہ) کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں“۔
    جو شخص بھی آپ :drood: کے قریب ہوا ،وہ آپ کے اخلاق کو دیکھ کر مفتوح ہوکر رہ گیا۔
    خلق کے لغوی معنی ہیں :عادت اور خصلت۔ اور حسن خلق سے مراد خوش اخلاقی‘ مروت‘ اچھا برتاؤ‘ اچھا رویہ اور اچھے اخلاق ہیں ۔

    اخلاق کی دو قسمیں ہیں
    ۱:-عام اخلاق‘

    اخلاق کی معمولی قسم یہ ہے کہ آدمی کا اخلاق جوابی اخلاق ہو کہ جو مجھ سے جیساکرے گا‘ میں اس کے ساتھ ویسا کروں گا۔ یہ اس کا اصول ہو‘ جو شخص اس سے کٹے وہ بھی اس سے کٹ جائے‘ جو شخص اس پر ظلم کرے وہ بھی اس پر ظلم کرنے لگے‘ جو شخص اس کے ساتھ برائی کرے وہ بھی اس کے لئے برا بن جائے‘ یہ عام اخلاق ہے۔
    ۲:-اعلیٰ اخلاق ۔
    اس کے مقابلے میں اعلیٰ اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے رویے کی پرواہ کئے بغیر اپنا رویہ متعین کرے۔ اس کا اخلاق اصولی ہو ،نہ کہ جوابی۔ اعلیٰ اخلاقیات اس کا ایک عام اصول ہو‘ جس کو وہ ہرجگہ برتے‘ خواہ معاملہ موافق کے ساتھ ہو یا مخالف کے ساتھ‘ وہ جوڑنے والا ہو ،حتی کہ اس کے ساتھ بھی جو اس سے برا سلوک کرے‘ اور وہ نظر انداز کرنے والا ہو حتی کہ اس سے بھی جو اس پر ظلم کرتا ہو۔

    حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ:drood: نے فرمایا:
    ”تم لوگ امتعہ نہ بنو کہ یہ کہنے لگو کہ لوگ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے اور لوگ براکریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ ظلم کریں گے‘ بلکہ اپنے آپ کو اس کا خوگر بناؤ کہ لوگ اچھا سلوک کریں تب بھی تم اچھا سلوک کرو اور لوگ براسلوک کریں تو تم ان کے ساتھ ظلم نہ کرو۔ “ (مشکوٰة المصابیح)
    اور فرمایا جو تم سے کٹے تم اس سے جڑو‘ جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کرو اور جو تمہارے ساتھ برا سلوک کرے تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
    حضرت سعید ابن ہشام تابعی رحمة اللہ علیہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا کہ رسول اللہ :drood: کے اخلاق کیسے تھے؟ انہوں نے جواب دیا:
    ”کان خلقہ القرآن“ یعنی آپ :drood: کا اخلاق تو قرآن تھا۔
    گویا قرآن کی صورت میں مطلوب زندگی کا نقشہ آپ :drood: نے جو دوسروں کے سامنے پیش کیا‘ خود آپ :drood: اسی نقش میں ڈھل گئے۔
    حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال تک آپ :drood: خدمت کی مگر کبھی آپ :drood: نے اف تک نہ کہا اور نہ کبھی میرے کسی کام کے بابت آپ :drood: نے کہا کہ تم نے اس کو کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہیں کیا اس کے بابت آپ :drood: نے کبھی یہ نہ کہا کہ تم نے اس کو کیوں نہیں کیا؟وہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے۔ (صحیحین)
    حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ یہودی عالموں کی جماعت رسول اللہ :drood: کے پاس آئی‘ جب وہ لوگ آپ :drood: کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا:”السام علیکم“ (تباہی ہو تم پر) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے سنا تو ان سے برداشت نہ ہو سکا‘ انہوں نے کہا بلکہ تم لوگ غارت ہوجاؤ اور تم پر خدا کی لعنت ہو‘ آپ :drood: نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اس قسم کے جواب سے منع فرمایا اور کہا: خدا مہربان ہے اوروہ ہر کام میں مہربانی کو پسند کرتا ہے۔
    حقیقت بھی یہ ہے کہ مخالف کا دل جیتنے کے لئے اس سے بڑا کوئی حربہ نہیں ہوسکتا کہ اس کی بدزبانی کا جواب نرم باتوں سے دیا جائے‘ کسی نے خوب کہا ہے:
    ” ہتھیار کے حملے کی تاب لانا تو ممکن ہے مگر کردار کے حملے کے مقابلے میں کوئی ٹھہر نہیں سکتا“
    یہاں ہرشخص کو اپنی ہار ماننی پڑتی ہے۔
    اخلاق کی بلندی یہ ہے کہ کہنے والا جو کچھ کہے اس پر خود عمل کرتا ہو‘ کمزوروں کے ساتھ وہ رعایت وشرافت کا وہی طریقہ اختیار کرے جو کوئی شخص طاقتورکے ساتھ کرتا ہے‘ اپنے لئے جو اس کے پاس معیار ہو وہی معیار دوسروں کے لئے بھی ہو‘ مشکل حالات میں بھی وہ اپنے اصولوں سے نہ ہٹے‘ حتی کہ دوسروں کی طرف سے پریشان کرنے کے وقت یا کسی کی طرف سے پست کردار کا مظاہرہ ہو تب بھی وہ اعلیٰ کردار پر قائم ہے‘ رسول اللہ :drood: اس اعتبار سے اخلاق کے کمال درجہ پر تھے‘ آپ :drood: نے کبھی اعلیٰ اخلاق کو نہیں چھوڑا‘ کوئی مصلحت یا کوئی اختلاف یا ذاتیات آپ کو اخلاق سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
    ایک بوڑھی عورت کا قصہ مشہور ہے وہ ہر روز آپ :drood: پر کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی‘ ایک دن حضور :drood: اس کے مکان کے پاس سے حسب معمول گزرے تو آپ :drood: پر کسی نے کوڑا نہ پھینکا تو آپ :drood: نے محلہ والوں سے دریافت کیا کہ فلاں مائی خیریت سے تو ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ تو بیمار ہے‘ آپ :drood: یہ سنتے ہی صحابہ کرام کو ساتھ لے کر اس بڑھیا کی تیمار داری کے لئے اس کے گھر چلے گئے‘ مائی نے دیکھا کہ یہ وہی شخص ہے جس پر میں روزانہ کوڑا پھینکا کرتی تھی مگر وہ برا ماننے اور کچھ کہنے کے بجائے خاموشی اور شرافت سے برداشت کرکے چلاجاتا تھا اور آج وہی میری تیمارداری کے لئے آگیا ہے‘ یہ دیکھ کروہ بہت متأثر ہوئی اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ عام انسان نہیں‘ واقعی خدا کا پیغمبر ہے‘اسے اپنی غلطی کااحساس ہوگیا‘اس نے حضور :drood: سے معافی مانگی اور آپ پر ایمان لے آئی‘
    گویا یہ آپ کے اخلاق کا اثر تھا‘ اسی طرح بے شمار واقعات ایسے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اخلاق انسان کی وہ صلاحیت ہے جس میں انسانیت کی تکمیل ہوتی ہے اور اگر انسانیت میں سے اخلاق کی صفت نکال لی تو باقی صرف حیوانیت رہ جاتی ہے‘ اس لئے آپ :drood: نے ارشاد فرمایا:”اکمل المؤمنین ایمانا احسنہم اخلاقا“۔
    امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے ”ادب المفرد“ میں حضرت ام الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی رحمت عالم :drood: کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ:
    ”میزان عمل میں کوئی چیز حسن اخلاق سے بھاری نہ ہوگی“۔
    حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب رسول اللہ :drood: نے یمن کا عامل بناکر بھیجا تو وصیت فرمائی کہ:
    ” لوگوں کے ساتھ آسانی کا برتاؤ کرنا اور سختی سے پیش نہ آنا اور ان کو خوشخبری سنانا اور نفرت نہ دلانا اور آپس میں متفق رہنا اور اختلاف نہ کرنا“۔(بخاری)
    ایک حدیث میں آپ :drood: نے ارشاد فرمایا کہ:
    ”قیامت کے روز مجھے سب سے زیادہ محبوب اور مجھ سے سب سے زیادہ قریب تر وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں گے۔“
    دین اسلام میں اخلاق کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ آپ :drood: جو دعا مانگتے تھے کہ
    ”اے اللہ جس طرح تونے مجھے خوبصورت پیدا فرمایا ہے اسی طرح مجھے خوبصورت اخلاق بھی عطا فرما“۔
    آپ :drood: نے اخلاق حسنہ کے لئے اتنی دعائیں اور اتنی تاکید اس لئے فرمائی ہے کہ انسان اخلاق ہی سے بنتا ہے اور عمدہ سیرت سب سے بڑی سفارش ہوتی ہے اور انسان کی پہچان بھی اخلاق سے ہوتی ہے۔
    اللہ رب العزت ہم سب کو اپنے پیارے نبی :drood: والے اخلاق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کی جملہ تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین


    یہ مواد جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاون کراچی کے شمارہ ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الاول:۱۴۳۱ھ - مارچ: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 3 سے لیا گیا ہے
     
  2. محمدعبداللہ خان کورائی
    آف لائن

    محمدعبداللہ خان کورائی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اگست 2017
    پیغامات:
    3
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    "حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے کچھ اہم پہلو"
    اخلاق کا لفظ ذہن میں آتے ہی ایک ایسا خاکہ ابھر کر سامنے آجاتاہے کہ جس کو ہر آدمی اپنانے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ اخلاق انسان کاایک ایسا جز ہے کہ جس کے اندر یہ صفت پائی جاتی تو سمجھ لیجئے کہ وہ کامل انسان ہے، اخلاق ایک ایسی دوا ہے جو دل و دماغ دونوں کو غذا پہنچاتا ہے، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے علم اور عبادت کی زینت اخلاق کو قرار دیا ہے، قیامت کے دن مومن کے میزان عمل میں کوئی چیز حسن اخلاق سے زیادہ باوزن نہیں ہوگی، اسی طرح مومن اپنے حسن اخلاق ہی کی وجہ سے ہمیشہ روزہ رکھنے اور تہجد گزار کا مرتبہ حاصل کرلیتا ہے، مسلم شریف کی روایت ہے کہ ”نیکی حسن اخلاق کا نام ہے اور برائی وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تمہیں ناپسند ہو کہ لوگ اسے جانیں۔“ (رواہ مسلم و ابوداؤد)

    ترمذی شریف میں ایک جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق کے اعتبار سے سب سے اچھاہو“ چنانچہ عظمت اخلاق آخری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز ہے، سارے انبیاء اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے دنیا میں آ ئے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ہدایت کے آخری رسول ہیں، یا یوں سمجھئے کہ قرآنی نظریہ اخلاق ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نمونہ اخلاق ہیں، جب نظر یہ عمل میں ڈھلتا ہے تو کمی بیشی عموماً ہوجاتی ہے، مگر اخلاق کا نظریہ جتنا معقول اورمستحکم ہے اتنا ہی مستحکم اخلاق کا نمونہ بھی ہے، اسی لیے دنیا کے بیشتر مفکرین اور معلّمین کی نظر میں اخلاق کا درس خوشنما نظر آتاہے،مگر جب ان کے قریب جائیے تو فکر وعمل کا تضاد اور گفتار و کردار کااختلاف سامنے آتا ہے؛ لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی گفتار جتنی پاکیزہ ہے، کردار اتناہی پاکیزہ نظر آتا ہے، تعلیم جتنی روشن نظر آتی ہے، سیرت اتنی صیقل دکھائی دیتی ہے، کہیں پر کوئی جھول یا کسی قسم کا کھوٹ نہیں، اوراس میں کوئی شک نہیں کہ آپ واقعی اس اعزاز کے مستحق تھے؛ کیوں کہ وہ کون سا خلق حسن ہے جو آپ کی ذات گرامی میں نہیں تھا، حیاء جس کو تمام اخلاق میں سب سے افضل اور عظیم ترین خلق قرار دیاگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی میں اس کے دخل کا یہ حال تھا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باکرہ اور بے نکاح لڑکی اپنے پردے میں جس قدر حیا کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حیا دار تھے۔

    غصہ کو دبانا اور ضبط کرنا بڑی اعلیٰ صفت ہے جو برسوں کی ریاضت کے بعد کسی کو حاصل ہوتی ہے، اس کے فضائل بیان کردینا تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا بڑا مشکل ہے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر یہ اعلیٰ صفت کوٹ کوٹ کر بھی ہوئی تھی، اگر سیرت کا مطالعہ غور سے کیا جائے تواس کی مثال قدم قدم پر ملیں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا جب مکہ سے ہجرت کرکے (اونٹ پر سوار ہوکر) مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہورہی تھیں، تو راستہ میں ہبار بن اسود نامی ایک شخص نے انہیں اتنی تیزی سی نیزہ مارا کہ وہ اونٹ سے گرپڑیں، حمل ساقط ہوگیا، اس صدمہ سے تاب نہ لاسکیں اور اللہ کو پیاری ہوگئیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس حادثہ کی خبر ہوئی تو آپ بہت غضب ناک ہوئے اور آپ کو اس بات سے بہت صدمہ ہوا، جب بھی اس حادثہ کی یاد تازہ ہوجاتی تو آب دیدہ ہوجاتے؛ لیکن جب ہبار بن اسود اسلام لے آئے اور معافی کی درخواست کی، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں معاف کردیا۔
     
  3. محمدعبداللہ خان کورائی
    آف لائن

    محمدعبداللہ خان کورائی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اگست 2017
    پیغامات:
    3
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    شاکر شجاع آبادی
    شاکر شجاع آبادی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سرائیکی زبان کے مشہور اور ہر دل عزیز شاعر ہیں۔ جسے سرائیکی زبان کا شیکسپیئر اور انقلابی شاعر کہا جاتا ہے۔​
    پیدائش
    ملتان، پنجاب، پاکستان شہری پاکستان وجۂ
    شہرت شاعرمذہب اسلام شریک حیات شبنم شاکر (1991–تاحال)3بچے
    نام
    ان کا اصل نام محمد شفیع ہے اور تخلص شاکرؔ ہے، شجاع آباد کی نسبت سے شاکر شجاع آبادی مشہور ہے۔
    ولادت
    شاکر شجاع آبادی کی پیدائش 25 فروری 1968ء کوشجاع آباد کے ایک چھوٹے سے گاوٗں راجہ رام میں ہوئی جو ملتان سے ستر 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ 1994ء تک بول سکتے تھے، اس کے بعد فالج کا حملہ ہوا جس کے باعث درست طور پر بولنے سے قاصر ہیں اور ان کا پوتا ان کی ترجمانی کرتا رہا۔
    اعزاز
    حکومت پاکستان کی طرف سے اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے 14 اگست 2006ء میں انہیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی ملا۔
    تصنیفات
    لہو دا عرقپیلے پتربلدین ہنجومنافقاں تو خدا بچاوےروسیں تو ڈھاڑیں مار مار کےگلاب سارے تمہیں مبارککلامِ شاکرخدا جانےشاکر دیاں غزلاں شاکر دے دوہڑے
    منتخب کلام
    ”کیہندے کتّے کھیر پیون کیہندے بچّے بھکھ مرن
    رزق دی تقسیم تے ہک وار ول کجھ غور کر غیر مسلم ہے اگر مظلوم کوں تاں چھوڑ دے اے جہنمی فیصلہ نہ کر اٹل کجھ غور کر
    “”72 حور دے بدلے گزارہ ہک تے کر گھنسوں
    71 حور دے بدلے اساں کوں رج کے روٹی دے
    “”نجومی نہ ڈراوے دے اساکوں بدنصیبی دے
    جڈاں ہتہاں تے چھالے تھئے لکیراں خود بدل ویسن
    “”دل ساڈا شاکر شیشے دا
    ارمان لوہار دے ہتھ آگئے

    "اتھاں کہیں کو ناز اداواں دا"
    "اتھاں کہیں کو نا ز وفاواں دا"
    "آسا پیلے پتر درختاں دے"
    "ساہکوں راہند ے خو ف ہواواں دا"
     
  4. محمدعبداللہ خان کورائی
    آف لائن

    محمدعبداللہ خان کورائی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اگست 2017
    پیغامات:
    3
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    علامہ محمد اقبال کا مختصر تعارف
    پیدائش
    جمعہ 3 ذوالقعدہ 1294ھ/ 9 نومبر 1877ء
    محلہ چوڑی گراں، سیالکوٹ، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند)، برٹش راج، موجودہ پنجاب، پاکستان
    وفاتجمعرات 20 صفر 1357ھ/ 21 اپریل1938ء
    (عمر: 60 سال 5 ماہ 12 دن شمسی، 62 سال 3 ماہ 18 دن قمری)
    جاوید منزل، لاہور، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند)، برٹش راج، موجودہ علامہ اقبال روڈ،لاہور، پنجاب، پاکستان
    اقامتمکان نمبر 597-B، کوچہ جلوٹیاں، بھاٹی دروازہ، اندرون لاہور
    (فروری 1900ء- جون 1905ء)
    جاوید منزل، لاہور (1935ء- 1938ء)
    قومیتہندوستانی
    دیگر نامشاعر مشرق، حکیم الامت
    مادر علمیسکاچ مشن ہائی اسکول (مرے کالجسیالکوٹ،
    گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور،
    ٹرینیٹی کالج، کیمبرج،جامعہ کیمبرج،کیمبرج شائر، مشرقی انگلستان
    جامعہ میونخ، میونخ، جرمنی
    اہم تصانیفاسرار خودی، اسرار خودی، پیامِ مشرق،زبورِعجم، جاوید نامہ (مزید کام)
    مذہبسنی اسلام

    اصلی ویب سائٹ
    عہدبیسویں صدی فلسفہ
    علاقہبرطانوی راج
    شعبہ عمل
    اردو شاعری، فارسی شاعری، قانون
    اہم نظریات
    دو قومی نظریہ، خطبہ الہ آباد (29 دسمبر1930ء)
    مؤثر شخصیات

    متاثر شخصیات

     

اس صفحے کو مشتہر کریں