1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اختر شیرانی کی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏30 اپریل 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ایک نوجوان بت تراش کی آرزو
    ایک ایسا بت بناؤں کہ دیکھا کروں اسے
    آسودہ ہے خیال کا پیکر بنا ہوا
    خواب عدم میں مست ہے جوہر بنا ہوا
    اک مرمریں حجاب سے پیدا کروں اسے
    —————————————
    پھولوں میں جیسے جذبۂ نکہت نہفتہ ہو
    یا جلوے بیقرار ہوں آغوش رنگ میں
    یوں اُس کی روح خفتہ ہے دامانِ سنگ میں
    ظلمت میں جیسے نور کی صورت نہفتہ ہو
    ———————————————
    دن رات صبح و شام میں پوجا کروں اسے
    میرا گداز روح جبیں سے مچل پڑے
    اس کی نظر سے جذب محبت ابل پڑے
    ساز نفس کو توڑ کے گویا کروں اسے
    فن خواب مرگ بن رہے بت ساز کے لیے
    دنیا پکارتی رہے آواز کے لیے
    (اختر شیرانی)
    (شعرستان)
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    غزل
    (اختر شیرانی)

    سمجھتا ہوں میں سب کچھ، صرف سمجھانا نہیں‌آتا
    تڑپتا ہوں مگر اَوروں کو تڑپانا نہیں آتا

    مرے اشعار مثلِ آئینہ شفاف ہوتے ہیں
    مجھے مفہوم کو لفظوں میں اُلجھانا نہیں‌ آتا

    میں اپنی مشکلوں کو دعوتِ پیکار دیتا ہوں
    مجھے یُوں عاجزی کے ساتھ غم کھانا نہیں آتا

    میں ناکامِ مسّرت ہوں مگر ہنستا ہی رہتا ہوں
    کروں کیا مجھ کو قبل از موت مر جانا نہیں آتا

    یہ میری زیست خود اک مستقل طوفان ہے اختر
    مجھے اِن غم کے طوفانوں سے گھبرانا نہیں آتا
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    لیلئٰ عشق کو درکار ہیں دیوانے چند
    نجد میں پھر نظر آنے لگے ویرانے چند

    اللہ اللہ تری آنکھوں کا چھلکتا ہُوا کیف
    جیسے مستی میں اُلٹ دے کوئی پیمانے چند

    اب بھی آغاز جوانی کے فسانے ہیں یاد
    اب بھی آنکھوں میں ہیں آباد پری خانے چند

    چٹکیاں لینے لگا دل میں نشاطِ طفلی
    آج یاد آ گئے بھولے ہوئے افسانے چند

    دل کہیں راز محبت کو نہ کر دے افشا
    آج محفل میں نظر آتے ہیں بیگانے چند

    بجلیاں کالی گھٹاؤں میں ہیں یوں آوارہ
    جیسے کہسار پہ رقصاں ہوں پری خانے چند

    کیا کہوں کیا ہے خدا اور مذاہب کا ہجوم
    اِک حقیقت پہ ہیں چھائے ہوئے افسانے چند

    حافظ و بیدل و خیّام ہوں یا غالب و میر
    بادۂ شعر کے ہیں بس یہی مستانے چند

    بزم ہستی سے نکالے گئے اختر کیا جلد
    ابھی پینے بھی نہیں پائے تھے پیمانے چند

    اختؔر شیرانی
     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بھلا کیوں نہ ھوں راتوں میں نیندیں بے قرار اس کی
    کبھی لہرا چکی ھو جس پہ زلف مشکبار اس کی

    امید وصل پر دل کو فریب صبر کیا دیجیئے
    ادا وحشی صفت اس کی نظر بیگانہ وار اس کی

    برا ھو اس تغافل کا کہ تنگ آکر یہ کہتا ھوں
    مجھے کیوں ھو گئ الفت مرے پروردگار اس کی

    یہاں کیا دیکھتے ھو ناصحو، گھر میں دھرا کیا ھے
    مرے دل کے کسی پردے میں ڈھونڈو یادگار اس کی

    جفائے ناز کی میں نے شکایت ،ھائے کیوں کی تھی
    مجھے جینے نہیں دیتی نگاہ شرمسار اس کی

    ھمیں عرض تمنا کی جسارت ھو تو کیونکر ھو
    نگاہیں فتنہ ریز اس کی ادائیں حشر بار اس کی

    اختر شیرانی
     
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    وہ مرے دل کا حال کیا جانے!
    سوزِ رنج و ملال کیا جانے!

    ہر قدم فتنہ ہے ، قیامت ہے
    آسماں تیری چال کیا جانے

    صبر کو سب کمال کہتے ہیں
    عاشقی یہ کمال کیا جانے

    خون ہوتا ہے کس کی حسرت کا
    میرا رنگیں جمال کیا جانے

    وہ غریبوں کا حال کیوں پوچھے
    وہ غریبوں کا حال کیا جانے

    کھو گیا ہو جو دل تصوّر میں
    وہ فراق و وصال کیا جانے

    سیلِ خوں کیوں رواں ہے آنکھوں سے
    موسمِ برشگال کیا جانے

    مر رہے ہیں فراق میں اختر ؔ
    وہ مگر اپنا حال کیا جانے

    (اخترؔ شیرانی)
     
  6. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    زمان ہجر مٹے دور وصل یار آئے
    الٰہی اب تو خزاں جائے اور بہار آئے

    ستم ظریفیٔ فطرت یہ کیا معمہ ہے

    کہ جس کلی کو بھی سونگھوں میں بوئے یار آئے

    چمن کی ہر کلی آمادۂ تبسم ہے

    بہار بن کے مری جان نو بہار آئے

    ہیں تشنہ کام ہم ان بادلوں سے پوچھے کوئی

    کہاں بہار کی پریوں کے تخت اتار آئے

    ترے خیال کی بے تابیاں معاذ اللہ

    کہ ایک بار بھلائیں تو لاکھ بار آئے

    وہ آئیں یوں مرے آغوش عشق میں اخترؔ

    کہ جیسے آنکھوں میں اک خواب بے قرار آئے
     
  7. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

    اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں
    ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر!
    پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم
    تو اور ہمیں ناشاد نہ کر!
    قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ
    یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر!
    یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر!
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

    جس دن سے ملے ہیں دونوں کا
    سب چین گیا، آرام گیا
    چہروں سے بہار صبح گئی
    آنکھوں سے فروغ شام گیا
    ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا
    ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
    غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر!
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

    راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں
    رو رو کے دعائیں کر تے ہیں
    آنکھوں میں تصور،دل میں خلش
    سر دھنتے ہیں آہیں بھرتےہیں
    اے عشق! یہ کیسا روگ لگا
    جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں؟
    یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر!
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

    یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں
    رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ
    ہر وقت تپش، ہر وقت خلش بے
    خواب ہوں میں،بیدار ہے وہ
    جینے سے ادھر بیزار ہوں میں
    مرنے پہ ادھر تیار ہے وہ
    اور ضبط کہے فریاد نہ کر!
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

    جس دن سے بندھا ہے دھیان ترا
    گھبرائےہوئے سے رہتے ہیں
    ہر وقت تصور کر کر کے
    شرمائے ہوئے سے رہتے ہیں
    کملائے ہوئے پھولوں کی طرح
    کملائے ہوئے سے رہتے ہیں
    پامال نہ کر، برباد نہ کر!
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

    بیددر! ذرا انصاف تو کر!
    اس عمر میں اور مغموم ہے وہ!
    پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی
    تاروں کی طرح معصوم ہے وہ!
    یہ حسن ، ستم! یہ رنج،غضب!
    مجبور ہوں میں! مظلوم ہے وہ!
    مظلوم پہ یوں بیداد نہ کر
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

    اے عشق خدارا دیکھ کہیں
    وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو !
    وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو !
    وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو !
    ناموس کا اس کے پاس رہے
    وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو!
    اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر!
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

    امید کی جھوٹی جنت کے
    رہ رہ کے نہ دکھلا خواب ہمیں!
    آئندہ کی فرضی عشرت کے
    وعدوں سے نہ کر بیتاب ہمیں!
    کہتا ہے زمانہ جس کو خوشی
    آتی ہے نظر کمیاب ہمیں!
    چھوڑ ایسی خوشی کویاد نہ کر!
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

    کیا سمجھےتھےاور تو کیا نکلا
    یہ سوچ کےہی حیران ہیں ہم!
    ہے پہلے پہل کا تجربہ اور
    کم عمر ہیں ہم، انجان ہیں ہم!
    اے عشق ! خدارا رحم و کرم!
    معصوم ہیں ہم ،نادان ہیں ہم!
    نادان ہیں ہم، ناشاد نہ کر!
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

    وہ راز ہے یہ غم آہ جسے
    پا جائے کوئی تو خیر نہیں!
    آنکھوں سےجب آنسو بہتےہیں
    آجائے کوئی تو خیر نہیں!
    ظالم ہے یہ دنیا، دل کو یہاں
    بھا جائے کوئی تو خیر نہیں!
    ہے ظلم مگر فریاد نہ کر!
    اے عشق ہمیں بر باد نہ کر!

    دو دن ہی میں عہد طفلی کے
    معصوم زمانے بھول گئے!
    آنکھوں سےوہ خوشیاں مٹ سی گئیں
    لب کووہ ترانےبھول گئے!
    ان پاک بہشتی خوابوں کے
    دلچسپ فسانے بھول گئے!
    ان خوابوں سے یوں آزاد نہ کر!
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

    اس جان حیا کا بس نہیں کچھ
    بے بس ہے پرائے بس میں ہے
    بے درد دلوں کو کیا ہے خبر
    جو پیار یہاں آپس میں ہے
    ہے بے بسی زہر اور پیار ہے رس
    یہ زہر چھپا اس رس میں ہے
    کہتی ہے حیا فریاد نہ کر!
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

    آنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا
    ہر جذب نہاں پر رو دینا!
    آہنگ طرب پر جھک جانا
    آواز و فغاں پر رو دینا!
    بربط کی صدا پر رو دینا
    مطرب کے بیاں پر رو دینا!
    احساس کو غم بنیاد نہ کر!
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

    ہر دم ابدی راحت کا سماں
    دکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر!
    للہ حبابِ آب رواں پر
    نقش بقا تحریر نہ کر!
    مایوسی کے رمتے بادل پر
    امید کے گھر تعمیر نہ کر!
    تعمیر نہ کر، آباد نہ کر !
    اے عشق ہمیں بر باد نہ کر!

    جی چاہتا ہے اک دوسرے کو
    یوں آٹھ پہر ہم یاد کریں!
    آنکھوں میں بسائیں خوابوں کو
    اور دل میں خیال آباد کریں!
    خلوت میں بھی ہوجلوت کاسماں
    وحدت کو دوئی سےشاد کریں!
    یہ آرزوئیں ایجاد نہ کر!
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

    دنیا کا تماشا دیکھ لیا
    غمگین سی ہے ، بے تاب سی ہے!
    امید یہاں اک وہم سا ہے
    تسکین یہاں اک خواب سی ہے!
    دنیا میں خوشی کا نام نہیں
    دنیا میں خوشی نایاب سی ہے!
    دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر!
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

    (اختر شیرانی)
     
    زنیرہ عقیل اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    کلوپیٹرا
    وادئ نیل پہ طاری تھا بہاروں کا سماں

    جلوۂ سبزۂ گل سے تھیں فضائیں شاداب
    نشۂ بادِ بہاری سے ہوائیں شاداب

    محوِ پرواز تھا رنگین ستاروں کا سماں
    مائلِ رقص ہو جس طرح شراروں کا سماں

    نورِ انجم سے تھیں وادی کی ادائیں شاداب
    نکہت و رنگ کی آوارہ گھٹائیں شاداب

    چار سو بال فشاں میکدہ زاروں کا سماں
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    یک بیک شفق اندام ستارہ ٹوٹا

    بن کے اک غنچۂ زرّیں گرا وادی میں
    اور اک خواب نما پھول کھلا وادی میں

    دیکھتے دیکھتے نیرنگِ نظارہ ٹوٹا

    جلوۂ فطرتِ رنگیں کی تھی تنویر اس میں
    ایک عورت کی پریشان تھی تصویر اس میں

    (اختر شیرانی)
    شعرستان​
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    کسی کمزور کو جینے کا نہ ہوگا کوئی حق
    اب تو کچھ ایسا ہی سامان ہوا چاہتا ہے

    جو ممالک ہیں نہتے ، ہیں فنا کے قابل
    اہل طاقت کا یہ ایمان ہوا چاہتاہے

    اس زمانے میں ہیں کم مایہ جو اقوام ، ان کے
    کفن و گو ر کا سامان ہوا چاہتا ہے

    پھر برسنے کو ہیں اقصائے زمیں پر فتنے
    پھر بپا حشر کا طوفان ہوا چاہتا ہے

    مطلع دہر پہ چھانے کو پھر جنگ کا ابر
    امن کا گلکدہ ویران ہوا چاہتا ہے

    اختر شیرانی ۔۔
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    ہت خوب۔ عمدہ انتخاب ہے۔ شیئر کرنے کا شکریہ!

    اختر شیرانی اردو شاعری میں شاید پہلا رومانی شاعر ہے جس نے لڑکیوں کے نام لے لے کر شاعری کی ہے
    اس کے علاوہ "بہارِ حسن کا تُو غُنچۂ شباب ہے سلمیٰ" اور مشہور زمانہ نظم "یہی وادی ہے وہ ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی" وغیرہ اس سلسلے میں‌ کافی مشہور ہیں۔
     
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    وعدہ اس ماہرو کے آنے کا

    یہ نصیبہ سیاہ خانے کا

    کہہ رہی ہے نگاہ دز دیدہ

    رخ بدلنے کو ہے زمانے کا

    ذرے ذرے میں بے حجاب ہیں وہ

    جن کو دعوی ہے منہ چھپانے کا

    حاصل عمر ہے شباب مگر

    اک یہی وقت ہے گنوانے کا

    چاندنی خامشی اور آخر شب

    آ کہ ہے وقت دل لگانے کا

    ہے قیامت ترے شباب کا رنگ

    رنگ بدلے گا پھر زمانے کا

    تیری آنکھوں کی ہو نہ ہو تقصیر

    نام رسوا شراب خانے کا

    رہ گئے بن کے ہم سراپا غم

    یہ نتیجہ ہے دل لگانے کا

    جس کا ہر لفظ ہے سراپا غم

    میں ہوں عنوان اس فسانے کا

    اس کی بدلی ہوئی نظر توبہ

    یوں بدلتا ہے رخ زمانے کا

    دیکھتے ہیں ہمیں وہ چھپ چھپ کر

    پردہ رہ جائے منہ چھپانے کا

    کر دیا خوگر ستم اخترؔ

    ہم پہ احسان ہے زمانے کا
     
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہار آئی ہے مستانہ گھٹا کچھ اور کہتی ہے

    مگر ان شوخ نظروں کی حیا کچھ اور کہتی ہے

    رہائی کی خبر کس نے اڑائی صحن گلشن میں

    اسیران قفس سے تو صبا کچھ اور کہتی ہے

    بہت خوش ہے دل ناداں ہوائے کوے جاناں میں

    مگر ہم سے زمانے کی ہوا کچھ اور کہتی ہے

    تو میرے دل کی سن آغوش بن کر کہہ رہا ہے کچھ

    تری نیچی نظر تو جانے کیا کچھ اور کہتی ہے

    مری جانب سے کہہ دینا صبا لاہور والوں سے

    کہ اس موسم میں دہلی کی ہوا کچھ اور کہتی ہے

    ہوئی مدت کے مے نوشی سے توبہ کر چکے اخترؔ

    مگر دہلی کی مستانہ فضا کچھ اور کہتی ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں