1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

احمد ندیمؔ قاسمی کی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏30 اپریل 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سپردگی کا بھی معیار ہونا چاہیے تھا
    تری انا کو خبردار ہونا چاہیے تھا

    مزاجِ تُند کی تلوار کُند کرنے کو
    تجھے کسی کا پرستار ہونا چاہیے تھا

    وفورِ عشق نے اس کو بھی موم کر ڈالا
    جسے مزاج میں کہسار ہونا چاہیے تھا

    وہ جس کے سر میں شعورِ جمال بھی ہوتا
    اُسی کو صاحبِ دستار ہونا چاہیے تھا

    بہار میں بھی ببولوں سے ڈھک گئی ہے زمیں
    اسی نواح میں گلزار ہونا چاہیے تھا

    فصیلِ شہر سے بھی دھوپ چھن کے آنے لگے
    یہاں تو سائہِ دیوار ہونا چاہیے تھا

    ملا ہے حکم جسے بجلیاں گرانے کا
    اسی کھٹا کو گہربار ہونا چاہیے تھا

    ندیم سارے زمانے کا دُکھ سمیٹ ، مگر
    کچھ اپنے غم کا بھی اظہار ہونا چاہیے تھا
    احمد ندیمؔ قاسمی
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    شیخ کھڑا ہے دم بخود عالمِ بے مثال میں
    عمر گزار دی مگر محفلِ قیل و قال میں

    واعظِ انتہا پسند! آپ کے پندِ سود مند
    بار نہ پا سکے ، مری مملکتِ جمالّ میں

    یوں تو مرے حبیب کا سادہ سا اِک وجود تھا
    عشق نے نور بھر دیا عام سے خدوخال میں

    ہجر کی شاہراہ پر ، جتنے دیے جلے بُجھے
    اتنے ستارے پِس گئے گردشِ ماہ و سال میں

    میرے بیانِ ظلم پر لوگ خموش کیوں رہے
    عمر گزر گئی اسی زخم کے اندمال میں

    لب جو کُھلے ندیمؔ کے واعظِ شہر چیخ اٹھا
    یعنی بلا کی دھار تھی سہل سے اک سوال میں
    احمد ندیمؔ قاسمی
    اگست 2003ء
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عورت
    وجود میرا کہیں ہے بھی ، یا کہیں بھی نہیں

    اُدھر میں دعوتِ شرب و طعام کے ہمراہ
    وہ ناگزیر ضرورت رہی ہوں، جس کے بغیر
    ہر ایک عیش کی تقریب نامکمل ہے

    اِدھر میں چلتی ہوئی اِک مشین کا پرزہ
    جو گھس گیا ہو تو کوڑے کے ڈھیر کا حصہ

    اُدھر میں ملکہِ عالم کہ جس کے حسن کا سحر
    شہنشہوں کو کھلونا بنائے رکھتا ہے

    اِدھر میں صبح سے تا صبح ایک خادمہ ہوں
    کہ جس کا ہاتھ ذرا سا رُکے ،تو بارشِ سنگ
    کچھ ایسے برسے کے سب کچھ اُدھیڑ کر رکھ دے

    میں اس تضاد کی چکی میں پِس رہی ہوں سدا
    مرا وجود قیامت بھی اور مصیبت بھی!
    احمد ندیمؔ قاسمی
     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جانے کہاں تھے اور چلے تھے کہاں سے ہم
    بیدار ہو گئے کسی خواب گراں سے ہم

    اے نو بہار ناز تری نکہتوں کی خیر
    دامن جھٹک کے نکلے ترے گلستاں سے ہم

    پندار عاشقی کی امانت ہے آہ سرد
    یہ تیر آج چھوڑ رہے ہیں کماں سے ہم

    آؤ غبار راہ میں ڈھونڈیں شمیم ناز
    آؤ خبر بہار کی پوچھیں خزاں سے ہم

    آخر دعا کریں بھی تو کس مدعا کے ساتھ
    کیسے زمیں کی بات کہیں آسماں سے ہم
    احمد ندیم قاسمی
     
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تو جو بدلا تو زمانہ بھی بدل جائے گا
    گھر جو سلگا تو بھرا شہر بھی جل جائے گا

    سامنے آ کہ مرا عشق ہے منطق میں اسیر
    آگ بھڑکی تو یہ پتھر بھی پگھل جائے گا

    دل کو میں منتظر ابر کرم کیوں رکھوں
    پھول ہے قطرۂ شبنم سے بہل جائے گا

    موسم گل اگر اس حال میں آیا بھی تو کیا
    خون گل چہرۂ گلزار پہ مل جائے گا

    وقت کے پاؤں کی زنجیر ہے رفتار ندیمؔ
    ہم جو ٹھہرے تو افق دور نکل جائے گا

    احمد ندیم قاسمی
     
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مداوا حبس کا ہونے لگا آہستہ آہستہ
    چلی آتی ہے وہ موج صبا آہستہ آہستہ

    ذرا وقفہ سے نکلے گا مگر نکلے گا چاند آخر
    کہ سورج بھی تو مغرب میں چھپا آہستہ آہستہ

    کوئی سنتا تو اک کہرام برپا تھا ہواؤں میں
    شجر سے ایک پتا جب گرا آہستہ آہستہ

    ابھی سے حرف رخصت کیوں جب آدھی رات باقی ہے
    گل و شبنم تو ہوتے ہیں جدا آہستہ آہستہ

    مجھے منظور گر ترک تعلق ہے رضا تیری
    مگر ٹوٹے گا رشتہ درد کا آہستہ آہستہ

    پھر اس کے بعد شب ہے جس کی حد صبح ابد تک ہے
    مغنی شام کا نغمہ سنا آہستہ آہستہ

    شب فرقت میں جب نجم سحر بھی ڈوب جاتے ہیں
    اترتا ہے مرے دل میں خدا آہستہ آہستہ

    میں شہر دل سے نکلا ہوں سب آوازوں کو دفنا کر
    ندیمؔ اب کون دیتا ہے صدا آہستہ آہستہ

    احمد ندیم قاسمی
     
  7. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    کس کو قاتل میں کہوں کس کو مسیحا سمجھوں
    سب یہاں دوست ہی بیٹھے ہیں کسے کیا سمجھوں

    وہ بھی کیا دن تھے کہ ہر وہم یقیں ہوتا تھا
    اب حقیقت نظر آئے تو اسے کیا سمجھوں

    دل جو ٹوٹا تو کئی ہاتھ دعا کو اٹّھے
    ایسے ماحول میں اب کس کو پرایا سمجھوں

    ظلم یہ ھے کہ ھے یکتا تیری بیگانہ روی
    لطف یہ ھے کہ میں اب تک تجھے اپنا سمجھوں

    (احمد ندیم قاسمی)
     
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تدفین

    چار طرف سناٹے کی دیواریں ہیں

    اور مرکز میں اک تازہ تازہ قبر کھدی ہے

    کوئی جنازہ آنے والا ہے

    کچھ اور نہیں تو آج شہادت کا کلمہ سننے کو ملے گا

    کانوں کے اک صدی پرانے قفل کھلیں گے

    آج مری قلاش سماعت کو آواز کی دولت ارزانی ہوگی

    دیواروں کے سائے میں اک بہت بڑا انبوہ نمایاں ہوتا ہے

    جو آہستہ آہستہ قبر کی جانب آتا ہے

    ان لوگوں کے قدموں کی کوئی چاپ نہیں ہے

    لب ہلتے ہیں لیکن حرف صدا بننے سے پہلے مر جاتے ہیں

    آنکھوں سے آنسو جاری ہیں

    لیکن آنسو تو ویسے بھی

    دل و دماغ کے سناٹوں کی تمثالیں ہوتے ہیں

    میت قبر میں اتری ہے

    اور حد نظر تک لوگ بلکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں

    اور صرف دکھائی دیتے ہیں

    اور کان دھرو تو سناٹے ہی سنائی دیتے ہیں

    جب قبر مکمل ہو جاتی ہے

    اک بوڑھا جو ''وقت'' نظر آتا ہے اپنے حلیے سے

    ہاتھوں میں اٹھائے کتبہ قبر پہ جھکتا ہے

    جب اٹھتا ہے تو کتبے کا ہر حرف گرجنے لگتا ہے

    یہ لوح مزار ''آواز'' کی ہے!
     
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اک محبت کے عوض ارض و سما دے دوں گا

    تجھ سے کافر کو تو میں اپنا خدا دے دوں گا

    جستجو بھی مرا فن ہے مرے بچھڑے ہوئے دوست

    جو بھی در بند ملا اس پہ صدا دے دوں گا

    ایک پل بھی ترے پہلو میں جو مل جائے تو میں

    اپنے اشکوں سے اسے آب بقا دے دوں گا

    رخ بدل دوں گا صبا کا ترے کوچے کی طرف

    اور طوفان کو اپنا ہی پتا دے دوں گا

    جب بھی آئیں مرے ہاتھوں میں رتوں کی باگیں

    برف کو دھوپ تو صحرا کو گھٹا دے دوں گا

    تو کرم کر نہیں سکتا تو ستم توڑ کے دیکھ

    میں ترے ظلم کو بھی حسن ادا دے دوں گا

    ختم گر ہو نہ سکی عذر تراشی تیری

    اک صدی تک تجھے جینے کی دعا دے دوں گا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں