1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

احمد فراز

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زیرک, ‏8 دسمبر 2012۔

  1. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد فراز

    بجھا ہے دل تو غمِ یار اب کہاں تو بھی
    بسانِ نقش بہ دیوار اب کہاں تو بھی

    بجا کہ چشمِ طلب بھی ہوئی تہی کیسہ
    مگر ہے رونقِ بازار اب کہاں تو بھی

    ہمیں بھی کارِ جہاں لے گیا ہے دور بہت
    رہا ہے در پۓ آزار اب کہاں تو بھی

    ہزار صورتیں آنکھوں میں پھرتی رہتی ہیں
    مری نگاہ میں ہر بار اب کہاں تو بھی

    اُسی کو وعدہ فراموش کیوں کہیں اے دل
    رہا ہے صاحبِ کردار اب کہاں تو بھی

    مری غزل میں کوئی اور کیسے در آۓ
    ستم تو یہ ہے کہ اے یار، اب کہاں تو بھی

    جو تجھ سے پیار کرے تیری لغزشوں کے سبب
    فراز ایسا گنہگار اب کہاں تو بھی

    احمد فراز
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد فراز

    دشتِ افسُردہ میں اِک پھول کھِلا ہے، سو کہاں
    وہ کسی خوابِ گریزاں میں مِلا ہے، سو کہاں
    ہم نے مدّت سے کوئی ہِجو، نہ واسوخت کہی
    وہ سمجھتے ہیں ہمیں اُن سے گِلہ ہے، سو کہاں
    ہم تیری بزم سے اُٹھے بھی تو، خالی دامن
    لوگ کہتے ہیں کہ ہر دُ کھ کا صِلہ ہے، سو کہاں
    آنکھ اسی طور برستی ہے، تو دل رِستا ہے
    یوں تو ہر زخم قرینے سے سِلا ہے، سو کہاں
    بارہا، کوچۂ جاناں سے بھی ہو آئے ہیں
    ہم نے مانا کہیں جنت بھی دِلا ہے، سو کہاں
    جلوۂ دوست بھی دُھندلا گیا آخر کو فرازؔ
    ورنہ کہنے کو تو غم، دل کی جلِا ہے، سو کہاں

    احمد فرازؔ
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد فراز

    وہ جو آ جاتے تھے آنکھوں میں‌ ستارے لے کر
    جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر
    چھاؤں میں بیٹھنے والے ہی تو سب سے پہلے
    پیڑ گرتا ہے تو آ جاتے ہیں آرے لے کر
    وہ جو آسودۂ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم
    اب کے موج آئی تو پلٹے گی کنارے لے کر
    ایسا لگتا ہے کہ ہر موسمِ ہجراں میں بہار
    ہونٹ رکھ دیتی ہے شاخوں پہ تمہارے لے کر
    شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش
    پِھرتا رہتا تھا جو گلیوں میں غبارے لے کر
    نقدِ جاں صرف ہوا کلفتِ ہستی میں‌ فرازؔ
    اب جو زندہ ہیں‌تو کچھ سانس ادھارے لے کر

    احمد فرازؔ
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد فراز

    نہ جانے ایسی بھی کیا بات تھی سخن میں میرے
    ہزار تِیر ترازو رہے بدن میں میرے
    یہ کیسا درد کا سیلاب جی سے گزرا ہے
    یہ کس نے آگ لگا دی ہے پیرہن میں میرے
    ترے وصال کے نشّے، ترے فراق کے دکھ
    تمام ذائقے محفوظ ہیں بدن میں میرے
    دلِ فریب زدہ، پھر نئے فریب میں ہے
    کہ تذکرے ہیں بہت تیری انجمن میں میرے
    نہیں کہ زیست ہی اپنی قبائے مفلس تھی
    فرازؔ سینکڑوں پیوند ہیں کفن میں میرے

    احمد فرازؔ
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. شاہدندیم
    آف لائن

    شاہدندیم ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2013
    پیغامات:
    4,145
    موصول پسندیدگیاں:
    338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد فراز

    جو چل سکو تو کوئی ایسی چال چل جانا
    مجھے گماں بھی نہ ہو اور تم بدل جانا
    یہ شعلگی ہو بدن کی تو کیا کیا جائے
    سو لازمی تھا ترے پیرہن کا جل جانا
    تمہیں کرو کوئی درماں ، یہ وقت آپہنچا
    کہ اب تو چارہ گروں کو بھی ہاتھ مل جانا
    ابھی ابھی تو جدائی کی شام آئی تھی
    ہمیں عجیب لگا زندگی کا ڈھل جانا
    سجی سجائی ہوئی موت زندگی تو نہیں
    مورخوں نے مقابر کو بھی محل جانا
    یہ کیا کہ تو بھی اسی ساعتِ زوال میں ہے
    کہ جس طرح ہے سبھی سورجوں کو ڈھل جانا
    ہر ایک عشق کے بعد اور اس کے عشق کے بعد
    فراز اتنا بھی آساں نہ تھا سنبھل جانا


    احمد ‌فراز
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد فراز

    جدائیاں تو مقدر ہیں پھر بھی جان سفر
    کچھ اور دور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ہیں


    رہ وفا میں حریف خرام کوئی تو ہو
    سواپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں


    توسامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
    یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں


    یہ کون لوگ ہیں موجود تیری محفل میں
    جولالچوں سے تجھے ، مجھ کو جل کے دیکھتے ہیں


    یہ قرب کیا ہے کہ یک جاں ہوئے نہ دور رہے
    ہزارایک ہی قالب میں ڈھل کے دیکھتے ہیں


    نہ تجھ کو مات ہوئی ہے نہ مجھ کو مات ہوئی
    سواب کے دونوں ہی چالیں بدل کے دیکھتے ہیں


    یہ کون ہے سر ساحل کے ڈوبنے والے
    سمندروں کی تہوں سے اچھل کے دیکھتے ہیں


    ابھی تلک تو نہ کندن ہوئے نہ راکھ ہوئے
    ہم اپنی آگ میں ہر روز جل کے دیکھتے ہیں


    بہت دنوں سے نہیں ہے کچھ اسکی خیر خبر

    چلوفرازکوئے یار چل کے دیکھتے ہیں
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    سلسلے توڑ گیا ، وہ سبھی جاتے جاتے
    ورنہ اتنے تو مراسم تھے ، کہ آتے جاتے
    شکوۂ ظلمتِ شب سے ، تو کہیں‌ بہتر تھا
    اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
    کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
    پھر بھی اک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے
    جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ، ورنہ ہم بھی
    پابجولاں ہی سہی، ناچتے گاتے جاتے
    اِس کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
    تم فرازؔ! اپنی طرف سے تو ، نبھاتے جاتے

    لگتا ہے کہ اب چاہتیں آساں ہیں زیادہ
    عشاق ہیں کم ، چاک گریباں ہیں زیادہ
    اک آدھ کوئی صاحب دل بھی ہے فروکش
    اب کوچۂ دلدار میں درباں ہیں زیادہ
    مدت سے کوئی جانبِ مقتل نہیں آیا
    قاتل بھی توقع سے پشیماں ہیں زیادہ
    جس تاج کو دیکھوں وہی کشکول نما ہے
    اب کے تو فقیروں سے بھی سلطاں ہیں زیادہ
    ہر ایک کو دعویٰ ہے یہاں چارہ گری کا
    اب دل کے اجڑ جانے کے امکاں ہیں زیادہ
    کیاکیا نہ غزل اس کی جدائی میں کہی
    ہم پر شبِ ہجراں ترے احساں ہیں زیادہ
    لوگوں نے تو جو زخم دئیے تھے سو دئیے تھے
    کچھ تیرے کرم ہم پہ مری جاں ہیں زیادہ
    مشاطۂ دنیا سے کہے کون فرازؔ اب
    ہم یار کی زلفوں سے پریشان ہیں زیادہ

    کرتے بھی کیا جانا پڑا پھر سے اسی قاتل کے پاس
    ہم بارہا ہو آئے ہیں چارہ گرانِ دل کے پاس
    کچھ بے گہر کی سیپیاں کچھ بے مسافر کشتیاں
    دریا نے رخ بدلہ تو کیا باقی رہا ساحل کے پاس
    جن جن کو تھا زعمِ وفا، پندارِ جاں، دعوائے دل
    محفل سجی تو جمع تھے سب صاحبِ محفل کے پاس
    اس عشق و ترک میں ناصح کہاں سے آگیا
    یہ اختیار آنکھوں ہے یہ فیصل ہے دل کے پاس
    کیا خضر اور کیا راہبر حیران ہیں اس بات پر
    کیوں خوش نشیں ہے قافلہ اک راندۂ منزل کے پاس

    یہ جان کر بھی کہ دونوں کے راستے تھے الگ
    عجیب حال تھا جب اس سے ہو رہے تھے الگ
    یہ حرف و لفظ ہیں دنیا سے گفتگو کے لئے
    کسی سے ہم سخنی کے مکالمے تھے الگ
    خیال ان کا بھی آیا کبھی تمہیں جاناں
    جو تم سے دور ، بہت دور جی رہے تھے الگ
    ہمی نہیں ہیں ، ہماری طرح کے اور بھی لوگ
    عذاب میں تھے جو اوروں سے سوچتے تھے الگ
    اکیلے پن کی اذیت کا اب گلہ کیسا
    فرازؔ خود ہی تو اپنوں سے ہو گئے تھے الگ

    کل پُرسشِ احوال جو کی یار نے میرے
    کس رشک سے دیکھا مجھے غمخوار نے میرے
    بس ایک ترا نام چھپانے کی غرض سے
    کس کس کو پکارا دلِ بیمار نے میرے
    یا گرمئ بازار تھی یا خوف زباں تھا
    پھر بیچ دیا مجھ کو خریدار نے میرے
    ویرانی میں بڑھ کر تھے بیاباں سے تو پھر کیوں
    شرمندہ کیا ہے در و دیوار نے میرے
    جب شاعری پردہ ہے فراز ؔاپنے جنوں کا
    پھر کیوں مجھے رُسوا کیا اشعار نے میرے

    ہر کوئی طرۂ پیچاک پہن کر نکلا
    ایک میں پیرہن خاک پہن کر نکلا
    اور پھر سب نے یہ دیکھا کہ اسی مقتل سے
    میرا قاتل ،میری پوشاک پہن کر نکلا
    ایک بندہ تھا کہ اوڑھے تھا خدائی ساری
    اک ستارہ تھا کہ افلاک پہن کر نکلا
    ایسی نفرت تھی کی اس شہر کو جب آگ لگی
    ہر بگولہ خس و خاشاک پہن کر نکلا
    ترکش و دام عبث لے کے چلا ہے صیاد
    جو بھی نخچیر ہے فتراک پہن کر نکلا
    اس کے قامت سے اسے جان کئے لوگ فرازؔ
    جو لبادہ بھی وہ چالاک پہن کر نکلا

    خود کو تیرے معیار سے گھٹ کر نہیں دیکھا
    جو چھوڑ گیا، اُس کو پلٹ کر نہیں دیکھا
    میری طرح، تُو نے شبِ ہجراں نہیں کاٹی
    میری طرح، اس تیغ پہ کٹ کر نہیں دیکھا
    تُو دشنۂ نفرت ہی کو لہراتا رہا ہے
    تُو نے کبھی دشمن سے لپٹ کر نہیں دیکھا
    تھے کوچۂ جاناں سے پرے بھی کئی منظر
    دل نے کبھی اس راہ سے ہٹ کر نہیں دیکھا
    اب یاد نہیں مجھ کو فراز ؔاپنا بھی پیکر
    جس روز سےبکھرا ہوں سِمٹ کر نہیں دیکھا

    نئے سفر میں ابھی ایک نقص باقی ہے
    جو شخص ساتھ نہیں اُس کا عکس باقی ہے
    اُٹھا کے لے گئے دزدانِ شب چراغ تلک
    سو، کور چشم پتنگوں کا رقص باقی ہے
    گھٹا اُٹھی ہے مگر ٹوٹ کر نہیں برسی
    ہوا چلی ہے مگر پھر بھی حبس باقی ہے
    اُلٹ پلٹ گئی دنیا وہ زلزلے آئے
    مگر خرابہِ دل میں وہ شخص باقی ہے
    فرازؔ آئے ہو تم اب رفیقِ شب کو لیے
    کہ دور جام نہ ہنگامِ رقص باقی ہے

    منزلیں ایک سی، آوارگیاں ایک سی ہیں
    مختلف ہو کے بھی سب زندگیاں ایک سی ہیں
    کوئی قاصد ہو کہ ناصح ، کوئی عاشق کہ عدو
    سب کی اس شوخ سے وابستگیاں ایک سی ہیں
    دشتِ مجنوں نہ سہی ،تیشۂ فرہاد سہی
    سفرِ ِعشق میں واماندگیاں ایک سی ہیں
    یہ الگ بات کہ احساس جدا ہوں، ورنہ
    راحتیں ایک سی ، افسردگیاں ایک سی ہیں
    صوفی و رند کے مسلک میں سہی لاکھ تضاد
    مستیاں ایک سی، وارفتگیاں ایک سی ہیں
    وصل ہو ، ہجر ہو ، قربت ہو کہ دوری ہو فرازؔ
    ساری کیفیتیں ، سب تشنگیاں ایک سی ہیں

    کل نالۂ قمری کی صدا تک نہیں آئی
    کیا ماتمِ گل تھا کہ صبا تک نہیں آئی
    آدابِ خرابات کا کیا ذکر یہاں تو
    رندوں کو بہکنے کی ادا تک نہیں آئی
    تجھ ایسے مسیحا کے تغافل کا گلہ کیا
    ہم جیسوں کی پرسش کو قضا تک نہیں آئی
    جلتے رہے بیغ صرفہ ، چراغوں کی طرح ہم
    تو کیا، ترے کوچے کی ہوا تک نہیں آئی
    کس جادہ سے گزرا ہے مگر قافلۂ عمر
    آوازِ سگاں ، بانگِ درا تک نہیں آئی
    اس در پہ یہ عالم ہوا دل کا کہ لبوں پر
    کیا حرفِ تمنا کہ دعا تک نہیں آئی
    دعوائے وفا پر بھی طلب دادِ وفا کی
    اے کشتۂ غم تجھ کو حیا تک نہیں آئی
    جو کچھ ہو فرازؔ اپنے تئیں ، یار کے آگے
    اس سے تو کوئی بات بنا تک نہیں ہوئی​
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    غمِ حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
    غمِ حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
    چلے آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
    ازل سے کہہ دو کہ رُک جائے دو گھڑی
    سُنا ہے آنے ک وعدہ نبھا رہا ہے کوئی
    وہ اس ناز سے بیٹھے ہیں لاش کے پاس
    جیسے روٹھے ہوئے کو منا رہا ہے کوئی
    پلٹ کر نہ آ جائے پھر سانس نبضوں میں
    اتنے حسین ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں