1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

احمد فرازؔ کی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏20 اپریل 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    غزل
    وارفتگی میں دل کا چلن انتہا کا تھا
    اب بت پرست ہے جو نہ قائل خدا کا تھا
    مجھ کو خود اپنے آپ سے شرمندگی ہوئی
    وہ اس طرح کہ تجھ پہ بھروسہ بلا کا تھا
    وار اس قدر شدید کہ دشمن ہی کر سکے
    چہرہ مگر ضرور کسی آشنا کا تھا
    اب یہ کہ اپنی کشتِ تمنا کو روئیے
    اب اس سے کیا گلہ کہ وہ بادل ہوا کا تھا
    تو نے بچھڑ کر اپنے سر الزام لے لیا
    ورنہ فراز کا تو یہ رونا سدا کا تھا

    احمد فرازؔ
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جس آگ سے جل اُٹّھا ہے جی آج اچانک
    پہلے بھی مرے سینے میں بیدار ہُوئی تھی
    جس کرب کی شدّت سے مری رُوح ہے بےکل
    پہلے بھی مرے ذہن سے دوچار ہُوئی تھی
    جس سوچ سے میں آج لہو تُھوک رہا ہُوں
    پہلے بھی مرے حق میں یہ تلوار ہُوئی تھی

    وہ غم، غَمِ دُنیا جسے کہتا ہے زمانہ
    وہ غم! مجھے جس غم سے سروکار نہیں تھا
    وہ درد کہ ہر دَور کے انسان نے جھیلا
    وہ درد مرے عِشق کا معیار نہیں تھا
    وہ زخم کہ ہر سینے کا ناسُور بنا تھا
    وہ زخم مجھے باعثِ آزار نہیں تھا

    دُنیا نے تڑپ کر مرے شانوں کو جھنجھوڑا
    لیکن مرا احساس، غَمِ ذات میں گُم تھا
    آتی رہیں کانوں میں المناک پکاریں
    لیکن مرا دل اپنے ہی حالات میں گُم تھا
    میں وقت سے بیگانہ، زمانے سے بہت دُور
    جام و مے و مینا و خرابات میں گُم تھا

    دربار کی تفریح کا ساماں تھا مرا فن
    ہاتھوں میں مرے ظرفِ گدا، لب پہ غزل تھی
    شاہوں کی ہوا خواہی مرا ذوقِ سُخن تھا
    ایوانوں کی توصیف و ثنا اوجِ عمل تھی
    اور اِس کے عوض لعل و جواہر مجھے ملتے
    ورنہ مرا انعام فقط تیغِ اجل تھی

    چھیڑے کبھی میں نے لب و رخسار کے قصے
    گاہے گل و بلبل کی حکایت کو نِکھارا
    گاہے کسی شہزادے کے افسانے سُنائے
    گاہے کیا دُنیائے پرستاں کا نظارا
    میں کھویا رہا جن و ملائک کے جہاں میں
    ہر لحظہ اگرچہ ، مجھے آدم نے پُکارا

    برسوں یُونہی دِل جمعیٔ اورنگ کی خاطر
    سَو پُھول کِھلائے کبھی سَو زخم خَرِیدے
    میں لکھتا رہا، ہجو بغاوت منشوں کی
    میں پڑھتا رہا، قصر نشینوں کے قصیدے
    اُبھرا بھی، اگر دِل میں کوئی جذبۂ سرکش
    اِس خوف سے چُپ تھا، کہ کوئی ہونٹ نہ سی دے

    لیکن یہ طِلِسمات بھی تادیر نہ رہ پائے
    آخر! مے و مینا و دف و چنگ بھی ٹُوٹے
    یُوں دست و گریباں ہُوئے اِنسان و خُداوند
    نخچِیر تو تڑپے قَفَسِ رنگ بھی ٹُوٹے
    اِس کشمکشِ ذرہ و انجم کی فضا میں
    کشکول تو کیا افسر و اورنگ بھی ٹُوٹے

    میں دیکھ رہا تھا کہ مرے یاروں نے بڑھ کر
    قاتل کو پُکارا ،کبھی مقتل میں صدا دی
    گاہے رَسَن و دار کے آغوش میں جُھولے
    گاہے حَرَم و دَیر کی بُنیاد ہِلا دی
    جس آگ سے بھرپُور تھا ماحول کا سینہ
    وہ آگ مرے لوح و قلم کو بھی پلا دی

    اور آج شکستہ ہُوا ہر طوقِ طلائی
    اب فن مرا دربار کی جاگیر نہیں ہے
    اب میرا ہنر ہے مرے جمہوُر کی دَولت
    اب میرا جنوُں خائفِ تعزیر نہیں ہے
    اب دل پہ جو گزرے گی، وہ بےٹوک کہوُں گا
    اب میرے قلم میں کوئی زنجیر نہیں ہے​


    احمد فرازؔ
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
    یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں

    یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
    کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

    زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے
    ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں

    دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی
    دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں

    اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
    بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں

    آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
    رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں

    مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
    دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جانا! جاناں !

    اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا
    سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں

    ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
    ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں

    جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے
    شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں

    ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا
    غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں

    ہم، کہ روٹھی ہوی رُت کو بھی منالیتےتھے
    ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں

    ہوش آیا تو سب ہی خاک تھے ریزہ ریزہ
    جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں

    احمد فراز

     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    دولتِ درد کو دنیا سے چھپا کر رکھنا
    آنکھ میں بوند نہ ہو دل میں سمندر رکھنا
    کل گئے گزرے زمانوں کا خیال آئے گا
    آج اتنا بھی نہ راتوں کو منور رکھنا
    اپنی آشفتہ مزاجی پہ ہنسی آتی ہے
    دشمنی سنگ سے اور کانچ کا پیکر رکھنا
    آس کب دل کو نہیں تھی ترے آ جانے کی
    پر نہ ایسی کہ قدم گھر سے نہ باہر رکھنا
    ذکر اس کا ہی سہی بزم میں بیٹھے ہو فراز
    درد کیسا ہی اٹھے ہاتھ نہ دل پر رکھنا

    (احمد فراز)
     
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    " مَیں اور تُو "

    روز جب دُھوپ پہاڑوں سے اُترنے لگتی
    کوئی گھٹتا ہُوا بڑھتا ہُوا بیکل سایہ
    ایک دِیوار سے کہتا کہ مِرے ساتھ چلو

    اور زنجیرِ رفاقت سے گُریزاں دِیوار
    اپنے پندار کے نشے میں سدا اِستادہ
    خواہشِ ہمدمِ دِیرِینہ پہ ہنس دیتی تھی

    کون دِیوار، کسی سائے کے ہمراہ چلی
    کون دِیوار، ہمیشہ مگر اِستادہ رہی
    وقت دِیوار کا ساتھی ہے نہ سائے کا رفیق

    اور اب سنگ و گُل و خشت کے ملبے کے تَلَے
    اُسی دیوار کا پِندار ہے ریزہ ریزہ
    دُھوپ نِکلی ہے، مگر جانے کہاں ہے سایہ

    احمد فراؔز
     
  6. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    ایک صنم تراش جس نے برسوں
    ہیروں کی طرح صنم تراشے
    آج اپنے صنم کدے میں تنہا
    مجبور نڈھال زخم خوردہ

    دن رات پڑا کراہتا ہے

    چہرے اجاڑ زندگی کے
    لمحات کی ان گنت خراشیں
    آنکھوں کے شکستہ مرقدوں میں
    روٹھی ہوئی حسرتوں کی لاشیں
    سانسوں کی تھکن بدن کی ٹھنڈک
    احساس سے کب تلک لہو لے

    ہاتھوں میں کہاں سکت کے بڑھ کر
    خود ساختہ پیکروں کو چھو لے
    یہ زخمِ طلب یہ نامرادی
    ہر بت کے لبوں پہ ہے تبسم

    اے تیشہ بدست دیوتاؤ !
    انسان جواب چاہتا ہے
     
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ایک دیوانہ یہ کہتے ہوئے ہنستا جاتا
    کاش منزل سے بھی آگے کوئی رستا جاتا
    اے میرے ابر گریزاں مری آنکھوں کی طرح
    گر برسنا ہی تجھے تھا تو برستا جاتا
    آج تک یاد ہے اظہار محبت کا وہ پل
    کہ مری بات کی لکنت پہ وہ ہنستا جاتا
    اتنے محدود کرم سے تو تغافل بہتر
    گر ترسنا ہی مجھے تھا تو ترستا جاتا

    احمد فراز
     
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    کہا تھا کس نے تجھے آبرو گنوانے جا
    فراز اور اسے حال دل سنانے جا
    کل اک فقیر نے کس سادگی سے مجھ سے کہا
    تری جبیں کو بھی ترسیں گے آستانے جا
    اسے بھی ہم نے گنوایا تری خوشی کے لئے
    تجھے بھی دیکھ لیا ہے ارے زمانے جا
    بہت ہے دولت پندار پھر بھی دیوانے
    جو تجھ سے روٹھ چکا ہے اسے منانے جا
    سنا ہے اس نے سوئمبر کی رسم تازہ کی
    فراز تو بھی مقدر کو آزمانے جا

    احمد فراز
     
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    وفا کے خواب، محبت کا آسرا لے جا
    اگر چلا ہے تو جو کچھ مجھے دیا لے جا
    مقامِ سُود و زیاں آ گیا ہے پھر جاناں
    یہ زخم میرے سہی، تِیر تو اٹھا لے جا
    یہی ہے قسمتِ صحرا، یہی کرم تیرا
    کہ بوند بوند عطا کر، گھٹا گھٹا لے جا
    غرورِ دوست سے اتنا بھی دل شکستہ نہ ہو
    پھر اس کے سامنے دامانِ التجا لے جا
    ندامتیں ہوں تو سر بارِ دوش ہوتا ہے
    فراز جاں کے عوض آبرو بچا لے جا

    احمد فراز
     
  10. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    دکھ کی دو اک برساتوں سے کب یہ دل پایاب بھرا
    وہ تو کوئی دریا لے آیا دریا بھی سیلاب بھرا
    سوچا تھا غم کو غم کاٹے زہر کا زہر بنے تریاق
    اب دل آبلہ آبلہ ہے اور شیشئِہ جاں زہراب بھرا
    تم آ جاتے تو اس رات کی عمر بھی لمبی ہو جاتی
    ابھی تھا دیواروں پر سبزہ ابھی تھا صحن گلاب بھرا
    جانے ہجر کی رات کہ وصل کی رات گزار کے آئے ہو
    آنکھیں نیندوں نیند بھری ہیں جسم ہے خوابوں خواب بھرا

    احمد فراز
     
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تجھ پر بھی نہ ہو گمان میرا
    اتنا بھی کہا نہ مان میرا
    میں دکھتے ہوئے دلوں کا عیسیٰ
    اور جسم لہو لہان میرا
    کچھ روشنی شہر کو ملی تو
    جلتا ہے جلے مکاں میرا
    یہ ذات یہ کائنات کیا ہے
    تو جان مری جہان میرا
    تو آیا تو کب پلٹ کے آیا
    جب ٹوٹ چکا تھا مان میرا
    جو کچھ بھی ہوا یہی بہت ہے
    تجھ کو بھی رہا ہے دھیان میرا

    احمد فراز
     
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دلربا سا
    اب ذہن میں نہیں ہے پر، نام تھا بھلا سا
    ابرو کھچے کھچے سے آنکھیں جھکی جھکی سی
    باتیں رکی رکی سی، لہجہ تھکا تھکا سا
    الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں
    بن جائے جنگلوں میں جس طرح راستہ سا
    خوابوں میں خواب اس کے یادوں میں یاد اس کی
    نیندوں میں گھل گیا ہو جیسے کہ رتجگا سا
    پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی میں
    وہ ہر طرح سے لیکن اوروں سے تھا جدا سا
    اگلی محبتوں نے وہ نا مرادیاں دیں
    تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا
    کچھ یہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہیں تھے روئے
    کچھ زہر میں بُجھا تھا احباب کا دلاسا
    پھر یوں ہوا کے ساون آنکھوں میں آ بسے تھے
    پھر یوں ہوا کہ جیسے دل بھی تھا آبلہ سا
    اب سچ کہیں تو یارو ہم کو خبر نہیں تھی
    بن جائے گا قیامت اک واقعہ ذرا سا
    تیور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
    وہ اجنبی تھا لیکن لگتا تھا آشنا سا
    ہم دشت تھے کہ دریا ہم زہر تھے کہ امرت
    ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہیں تھا پیاسا
    ہم نے بھی اُس کو دیکھا کل شام اتفاقاً
    اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا

    احمد فراز
     
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تپتے صحراؤں پہ گرجا، سرِ دریا برسا
    تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا
    کتنے طوفانوں کی حامل تھی لہو کی اک بوند
    دل میں اک لہر اٹھی، آنکھ سے دریا برسا
    کوئی غرقاب، کوئی ماہیِ بے آب ہوا
    ابرِ بے فیض جو برسا بھی تو کیسا برسا
    چڑھتے دریاؤں میں طوفان اٹھانے والے
    چند بوندیں ہی سرِ دامنِ صحرا برسا
    طنز ہیں سوختہ جانوں پہ گرجتے بادل
    یا تو گھنگھور گھٹائیں نہ اٹھا، یا برسا
    ابر و باراں کے خدا، جھومتا بادل نہ سہی
    آگ ہی اب سرِ گلزارِ تمنا برسا
    اپنی قسمت کہ گھٹاؤں میں بھی جلتے ہیں فراز
    اور جہاں وہ ہیں وہاں ابر کا سایہ برسا

    احمد فراز
     
  14. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
    وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
    اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار مرا
    سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا
    صبح دم چھوڑ گیا نکہتِ گل کی صورت
    رات کو غنچۂ دل میں سمٹ آنے والا
    کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے
    وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا
    تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا
    آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا
    منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ میں
    کون آئے گا یہاں کون ہے آنے والا
    کیا خبر تھی جو مری جاں میں گھلا ہے اتنا
    ہے وہی مجھ کو سرِ دار بھی لانے والا
    میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
    ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
    تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
    دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

    احمد فراز
     
  15. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جسم شعلہ ہے جبھی جامۂ سادہ پہنا

    میرے سورج نے بھی بادل کا لبادہ پہنا

    سلوٹیں ہیں مرے چہرے پہ تو حیرت کیوں ہے

    زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا

    خواہشیں یوں ہی برہنہ ہوں تو جل بجھتی ہیں

    اپنی چاہت کو کبھی کوئی ارادہ پہنا

    یار خوش ہیں کہ انہیں جامۂ احرام ملا

    لوگ ہنستے ہیں کہ قامت سے زیادہ پہنا

    یار پیماں شکن آئے اگر اب کے تو اسے

    کوئی زنجیر وفا اے شب وعدہ پہنا

    غیرت عشق تو مانع تھی مگر میں نے فرازؔ

    دوست کا طوق سر محفل اعدا پہنا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں