1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

احسان دانش کی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏20 اپریل 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    لُطف و سجود ہوچکا کیف کہاں نماز میں
    ہو گئی گُم نِگاہِ شوق جلوہِ کعبہ ساز میں

    راہِ حرم سے بیخودی کھینچ ہی لائی سُوئے دیر
    لے تو چلی تھی بےدِلی دام گہہِ نیاز میں

    پِھر وہی قلبِ عِشق میں ذوقِ کلیم جاگ اُٹھا
    کوند رہی ہیں بِجلیاں چشمِ نظارہ باز میں

    دِل پہ برس برس پڑا ابرِ شرابِ ارغواں
    ہائے وہ سُرخ سے خطوط دِیدہِ نِیم باز میں

    تابِ نظارہ ہو نہ ہو رُخ سے نقاب اُٹھا بھی دے
    جلوہِ صد حیات ہے ایک نگاہِ ناز میں

    مَسلکِ شیخ و برہمن شیوہِ بندگی نہیں
    دیکھ رواں دواں نہ ہو وادیِ اِمتِیاز میں

    جھوم رہی ہیں ٹہنیاں جھول رہی ہیں کونپلیں
    اُف رے سُرُورِ گُستَری خلوتیانِ راز میں

    جان کا کیا ہے جائے گی موت کا کیا ہے آئے گی
    کیوں رہے شرَحِ زِندگی حلقۂ دامِ راز میں

    (احسان دانش)
     
    غوری اور سید شہزاد ناصر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    نہ سیو ھونٹ نہ خوابوں میں صدا دو ھم کو
    مصلحت کا یہ تقاضا ھے ، بھلا دو ھم کو

    جرم سقراط سے ھٹ کر نہ سزا دو ھم کو
    زہر رکھا ھے تو یہ آب بقا دو ھم کو

    بستیاں آگ میں بہہ جائیں کہ پتھر برسیں
    ھم اگر سوئے ھوئے ھیں جگا دو ھم کو

    ھم حقیقت ھیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب ؟
    ہاں اگر حرف غلط ھیں تو مٹادو ھم کو

    خضر مشہور ھو الیاس بنے پھرتے ھو
    کب سے ھم گم سم ھیں ھمارا تو پتہ دو ھم کو

    زیست ھے اس سحرو شام سے بیزار و زبوں
    لالہ گل کی طرح رنگ قبا دو ھم کو

    شورش عشق میں ھے حسن برابر کا شریک
    سوچ کر جرم تمنا کی سزا دو ھم کو
     
    سید شہزاد ناصر اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    پُرسشِ غم کا شکریہ ، کیا تجھے آگہی نہیں
    تیرے بغیر زندگی، درد ہے زندگی نہیں
    دور تھا اک گزر گیا ، نشہ تھا اک اُتَر گیا
    اب وہ مقام ہے جہاں شکوہٴ بیرخی نہیں
    تیرے سوا کروں پسند، کیا تری کائنات میں
    دونوں جہاں کی نعمتیں ، قیمتِ بندگی نہیں
    لاکھ زمانہ ظلم ڈھائے ، وقت نہ وہ خدا دکھائے
    جب مجھے ہو یقیں کہ تُو، حاصلِ زندگی نہیں
    دل کی شگفتگی کے ساتھ، راحتِ مےکدہ گئی
    فرصتِ مہ کشی تو ہے ، حسرتِ مہ کشی نہیں
    زخم پے زخم کھاکے جی ، اپنے لہو کے گھونٹ پی
    آہ نہ کر ، لبوں کو سی ، عشق ہے دل لگی نہیں
    دیکھ کے خشک و زرد پھول ، دل ہے کچھ اس طرح ملول
    جیسے تری خزاں کے بعد ، دورِ بہار ہی نہیں
     
    عامر شاہین، سید شہزاد ناصر اور نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    غزل

    یہ بجا کہ حسن ہی حسن ہے مرے گرد و پیش مگر نہیں
    تری آرزو کی حُدود میں کسی آرزو کا گزر نہیں

    وہ کلیم تھے! جو بہل گئے تری برق زیرِ نقاب سے
    جو تجلیوں سے ہو مطمئن وہ مرا مزاجِ نظر نہیں

    یہ خیالِ خام نہ کر کبھی کہ غلامِ وقت ہے آدمی
    تری زندگی کی بلندیاں یہ نظامِ شمس و قمر نہیں

    یہ بجا کہ دِیر و حرم میں ہیں تری عظمتوں کی علامتیں
    مرے دل کو اپنا یقیں دلا مجھے اعتبارِ نظر نہیں

    یہ مراقبے، یہ مکاشفے، یہ مجاہدے، یہ مجادلے
    تری منزلیں ہیں یہ واقعی؟ یامجھے شعورِ سفر نہیں

    یہ ہجومِ لالہ چمن چمن، یہ گھٹا میں برق کا بانکپن
    ہو سُجودِ شوق میں رُخ کدھر؟ تری جلوہ گاہ کدھر نہیں

    مری جستجو کی رسائیاں ہیں ترے حدودِ جمال تک
    مجھے دو جہاں سے غرض ہی کیا مری دو جہاں پہ نظر نہیں

    مرے سجدہ ہائے دل و نظر ہیں خراب کب سے اِدھر اُدھر
    مجھے اس قدر تو پتا چلے کہ کدھر ہیں آپ کدھر نہیں

    یہ قیام گاہ کا ہے اثر کہ مآل پر بھی نظر نہیں
    ہے سفر کا وقت قریب تر مگر اہتمامِ سفر نہیں

    مجھے بزم خوب کہے تو کیا مجھے دادِ شعر ملے تو کیا
    تری آرزو کا یہ کمال سب مری شاعری کا ہنر نہیں

    یہ چمن یہ دانشِ بے نوا، جو گِھرا ہے ابر شرر فشاں
    کسی سامری کا ہے شعبدہ، یہ سحر تو میری سحر نہیں
     
    سید شہزاد ناصر اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    نظر فریبِ قضا کھا گئی تو کیا ہوگا؟
    حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا؟

    بزعمِ ہوش تجلی کی جستجو بے سود
    جنوں کی زد پہ خرد آ گئی تو کیا ہوگا؟

    نئی سحر کے بہت لوگ منتظر ہیں مگر
    نئی سحر بھی جو کجلا گئی تو کیا ہوگا؟

    نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھ کو
    میں بے ادب ہوں ہنسی آ گئی تو کیا ہوگا؟

    شبابِ لالہ و گل کو پکارنے والو
    خزاں سرشت بہار آ گئی تو کیا ہوگا؟

    خوشی چھنی ہے تو غم کا بھی اعتماد نہ کر
    جو روح غم سے بھی اکتا گئی تو کیا ہوگا؟

    یہ فکر کر کہ ان آسودگی کے دھوکوں میں
    تری خودی کو بھی موت آ گئی تو کیا ہوگا؟

    لرز رہے ہیں جگر جس سے کوہساروں کے
    اگر وہ لہر یہاں آ گئی تو کیا ہوگا؟

    وہ موت جس کی ہم احسانؔ سن رہے ہیں خبر
    رموزِ زیست بھی سمجھا گئی تو کیا ہوگا؟
    ***
    احسانؔ دانش​
     
    سید شہزاد ناصر اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    رنگ تہذیب و تمدن کے شناسا ھم بھی ھیں
    صورت آئینہ مرھون تماشا ھم بھی ھیں

    حال و مستقبل کا کیا ھم کو سبق دیتے ھیں
    اس قدر تو واقف امروز و فردا ھم بھی ھیں

    بادل نخواستہ ھنستے ھیں دنیا کیلیے
    ورنہ یہ سچ ھے پشیماں ھم بھی ھیں

    کچھ سفینے ھیں کہ طوفاں سے ھے جن کی ساز باز
    دیکھنے والوں میں اک بیرون دریا ھم بھی ھیں

    دیکھنا ھے تو دیکھ لو اٹھتی ھوئی محفل کا رنگ
    صبح کے بجھتے چراغوں کا سنبھالا ھم بھی ھیں

    کاگذی ملبوس میں ابھری ھے ہر شکل حیات
    ریت کی چادر پہ اک نقش کف پا ھم بھی ھیں

    جابجا بکھرے نظر آتے ھیں آثار قدیم
    پی گئیں جس کو گگزر گاھین وہ دریا ھم بھی ھیں
     
    سید شہزاد ناصر اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    دیکھوں، دیکھوں، کیا عجوبہ ہے، ذرا دینا اِدھر
    قائدِ اعظمؒ کی ہے تصویر سو کے نوٹ پر

    ذہن بھٹکا ہے یہ کس کا، یہ ستم کس نے کیا؟
    میری خوش طبعی میں شامل زہرِ غم کس نے کیا؟

    مصلحت، کہہ کر زبانِ حال سی دی جائے گی؟
    کیا اسی تصویر سے رشوت بھی لی، دی جائے گی؟

    دل لرز اٹھے، نہ کیوں اِس خواب کی تعبیر سے؟
    رات دن ہو گی سمگلنگ بھی اسی تصویر سے؟

    کیا مسلماں اس طرح بھی لائیں گے مجھ پر عذاب؟
    کیا اسی تصویر سے جا کر خریدیں گے شراب؟

    لوگ کیا کھیلیں گے میری روح کی تنویر سے؟
    ملک بھر میں کیا جوا ہو گا اسی تصویر سے؟

    کلمہ گو کیا یوں بھی لُوٹیں گے مرا صبر و قرار؟
    کیا اِسی تصویر سے چکلوں میں ہو گا کاروبار؟

    نوٹ پر تصویر دانشؔ انحرافِ دین ہے
    یہ جنابِ قائدِ اعظمؒ کی اک توہین ہے

    احسان دانش
     
  8. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    جبیں کی دھول ، جگر کی جلن چھپائے گا
    شروع عشق ھے وہ فطرتاً چھپائے گا

    دمک رھا ھے جو نس نس کی تشنگی سے بدن
    اس آگ کو نہ تیرا پیراھن چھپائے گا

    ترا علاج شفاگاہ عصر نو میں نہیں
    خرد کے گھاؤ تو دیوانہ پن چھپائے گا

    حصار ضبط ھے ابر رواں کی پرچھائیں
    ملال روح کو کب تک بدن چھپائے گا

    نظر کا فرد عمل سے ھے سلسلہ درکار
    یقیں نہ کر ، یہ سیاہی کفن چھپائے گا

    کسے خبر تھی کہ یہ دور خود غرض اک دن
    جنوں سے قیمت دار و رسن چھپائے گا

    ترا غبار زمیں پر اترنے والا ھے
    کہاں تک اب یہ بگولا تھکن چھپائے گا
     
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جشنِ بےچارگی

    ہے داغِ دل اک شام سیہ پوش کا منظر
    تھا ظلمتِ خاموش میں شہزادۂ خاور

    عالم میں مچلنے ہی کو تھے رات کے گیسو
    انوار کے شانوں پہ تھے انوار کے گیسو

    یہ وقت اور اک دخترِ مزدور کی رخصت
    واللہ قیامت تھی قیامت تھی قیامت

    نوشاہ کہ جو سر پہ تھا باندھے ہوئے سہرا
    بھرپور جوانی میں تھا اترا ہوا چہرا

    اندوہ ٹپکتا تھا بشاشت کی نظر سے
    مرجھائے سے رخسار تھے فاقوں کے اثر سے

    کرتا بھی پرانا سا تھا پگڑی بھی پرانی
    مجبور تھی قسمت کے شکنجوں میں جوانی

    نوشاہ کے جو ساتھ آئے تھے دو چار براتی
    ہر اک کی جبیں سے تھی عیاں نیک صفاتی

    توقیر کے، الفت کے، شرافت کے مرقعے
    ایثار کے، ایمان کے، غیرت کے مرقعے

    ہمراہ نفیری تھی نہ باجا تھا نہ تاشا
    آنکھوں میں تھا بے مہریِ عالم کا تماشا

    مجمع تھا یہ جس خستہ و افسردہ مکاں پر
    تھا بھیس میں شادی کے وہاں عالمِ محشر

    دالان تھا گونجا ہوا رونے کی صدا سے
    اک درد ٹپکتا تھا عرقناک ہوا سے

    اماں کی تھی بیٹی کی جدائی سے یہ حالت
    چیخوں میں ڈھلے جاتے تھے جذباتِ محبت

    تھا باپ کا یہ حال کہ اندوہ کا مارا
    اٹھتا تھا تو دیوار کا لیتا تھا سہارا

    وہ آپ کہیں اور تھا اور جان کہیں تھی
    سینے میں کوئی شے تھی جو قابو میں نہیں تھی

    افلاس کے آرے جو جگر کاٹ رہے تھے
    ارمان سب اپنا ہی لہو چاٹ رہے تھے

    لڑکی کا یہ عالم تھا کہ آپے کو سمیٹے
    گڑیا سی بنی بیٹھی تھی چادر کو سمیٹے

    تھی پاؤں میں پازیب نہ پیشانی میں ٹیکا
    اس خاکۂ افلاس کا ہر رنگ تھا پھیکا

    انصافِ زمانہ تھا یا تقدیر کا چکر
    ماں باپ کو آیا نہ تھا جوڑا بھی میسر

    یوں کہنے کو دلہن تھی یہ مزدور کی دختر
    اماں کا دوپٹہ تھا تو ابا کی تھی چادر

    آخر نہ رہا باپ کو جذبات پہ قابو
    تھرانے لگے ہونٹ ٹپکنے لگے آنسو

    کہنے لگا نوشاہ سے اے جانِ پدر سن
    اے وجہِ سکوں، لختِ جگر، نورِ نظر سن

    گرچہ مری نظروں میں ہے تاریک خدائی
    حاضر ہے مری عمر کی معصوم کمائی

    کی لاکھ مگر ایک بھی کام آئی نہ تدبیر
    مجبور ہوں مجبور یہ تقدیر ہے تقدیر

    اس سانولے چہرے میں تقدس کی ضیا ہے
    یہ پیکرِ عفت ہے یہ فانوسِ حیا ہے

    اس کے لئے چکی بھی نئی چیز نہیں ہے
    بیٹی ہے مری دخترِ پرویز نہیں ہے

    غربت میں یہ پیدا ہوئی غربت میں پلی ہے
    خود داری و تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہے

    زنہار یہ زیور کی تمنا نہ کرے گی
    ایسا نہ کرے گی کبھی ایسا نہ کرے گی

    شکوہ اسے تقدیر کا کرنا نہیں آتا
    ادراک کی سرحد سے گزرنا نہیں آتا

    ہے صبر کی خوگر اسے فاقوں کی ہے عادت
    ماں باپ سے پائی ہے وراثت میں قناعت

    اسکی بھی خوشی ہو گی تمہاری جو رضا ہو
    تم اس کے لئے دوسرے درجے پہ خدا ہو

    پھر آ کے کہا بیٹی سے یہ نرم زباں سے
    بچی مری رخصت ہے تو اب باپ سے ماں سے

    اے جانِ پدر دیکھ وفادار ہی رہنا
    آئے جو قیامت بھی تو ہنس کھیل کے سہنا

    دل توڑ نہ دینا کہ خدا ساتھ ہے بیٹی
    لاج اس مری داڑھی کی ترے ہاتھ ہے بیٹی

    آیا جو نظر مجھ کو یہ جانکاہ نظارہ
    احسان نہ آنکھوں کو رہا ضبط کا یارا

    تپنے لگی ہر سانس مری سوزِ نہاں سے
    اتنا ہے مجھے یاد کہ نکلا یہ زباں سے

    اے خالقِ کونین یہ تو نے بھی سنا ہے
    دنیا کا گماں ہے کہ غریبوں کا خدا ہے

    تو جن کا خدا ان کا ہو گردش میں ستارہ
    کیا تیرے کرم کو یہ ستم بھی ہے گوارا؟

    کس طرح نہ ہو دل کو بھلا رنج و محن دیکھ
    مزدور کے اس زندہ جنازے کا کفن دیکھ

    احساس کبھی دل سے جدا ہو نہیں سکتا
    انسان ہے انسان، خدا ہو نہیں سکتا
     
  10. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو
    کس رُخ کی چل رہی ہے ہوا دیکھ کر چلو

    زندہ ہے دل تو اس میں محبت بھی چاہیے
    آنکھیں جو ہیں تو راہِ وفا دیکھ کر چلو

    آذر کدے کی آنچ سے شہ پا کے یک بیک
    صر صر بنی ہوئی ہے صبا دیکھ کر چلو

    امسال دیدنی ہے چمن میں جنوں کا رنگ
    گُل چاک کر رہے ہیں قبا دیکھ کر چلو

    گُلچیں کے سدّباب سے انکار ہے کسے
    لیکن اصولِ نشو و نما دیکھ کر چلو

    کچھ سرپھروں کو ذکرِ وفا بھی ہے ناگوار
    یہ انحطاطِ مہر و وفا دیکھ کر چلو

    ہاں انفرادیت بھی بُری چیز تو نہیں
    چلنا اگر ہے سب سے جدا دیکھ کر چلو

    آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو ہر شے ہے بے نقاب
    اے بندگانِ حرص و ہوا دیکھ کر چلو

    ذوقِ عبودیت ہو کہ گستاخیِ نگاہ
    تخمینۂ جزا و سزا دیکھ کر چلو

    ناموسِ زندگی بھی بڑی شے ہے دوستو
    دیکھو بلند و پست فضا دیکھ کر چلو

    یہ تو بجا کہ ذوقِ سفر ہے ثبوتِ زیست
    اس دشت میں سموم و صبا دیکھ کر چلو

    عرفان و آگہی بھی عبادت سہی مگر
    طرز و طریقِ اہلِ وفا دیکھ کر چلو

    اسبابِ ظاہری پہ بھی درکار ہے نظر
    باوصف اعتمادِ خدا دیکھ کر چلو

    ممکن ہے روحِ سرو و سمن سے ہو ساز باز
    کیا دے گئی گلوں کو صبا دیکھ کر چلو

    ہر کشمکش نہیں ہے امینِ سکونِ دل
    ہر موت میں نہیں ہے بقا دیکھ کر چلو

    ہر لحظہ ہے پیمبرِ اندیشہ و عمل
    کیا چاہتا ہے رنگِ فضا دیکھ کر چلو

    یہ بھی روش نہ ہو رہِ مقصود کے خلاف
    آئی ہے یہ کدھر سے صدا "دیکھ کر چلو"

    ہمدرد بن کے دشمنِ دانش ہوئے ہیں لوگ
    یہ بھی ہے دوستی کی ادا دیکھ کر چلو

    (احسان دانش)
     
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    توبہ کی نازشوں پہ ستم ڈھا کے پی گیا

    ''پی''! اس نے جب کہا تو میں گھبرا کے پی گیا

    دل ہی تو ہے اٹھائے کہاں تک غم و الم

    میں روز کے ملال سے اکتا کے پی گیا

    تھیں لاکھ گرچہ محشر و مرقد کی الجھنیں

    گتھی کو ضبط شوق کی سلجھا کے پی گیا

    مے خانۂ بہار میں مدت کا تشنہ لب

    ساقی خطا معاف! خطا کھا کے پی گیا

    نیت نہیں خراب نہ عادی ہوں اے ندیم!

    ''آلام روزگار سے تنگ آ کے پی گیا''!

    ساقی کے حسن دیدۂ میگوں کے سامنے

    میں جلوۂ بہشت کو ٹھکرا کے پی گیا

    اٹھا جو ابر دل کی امنگیں چمک اٹھیں

    لہرائیں بجلیاں تو میں لہرا کے پی گیا

    دل کچھ ثبوت حفظ شریعت نہ دے سکا

    ساقی کے لطف خاص پہ اترا کے پی گیا
     
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    کل رات کچھ عجیب سماں غم کدے میں تھا

    میں جس کو ڈھونڈھتا تھا مرے آئنے میں تھا

    جس کی نگاہ میں تھیں ستاروں کی منزلیں

    وہ میر کائنات اسی قافلے میں تھا

    رہ گیر سن رہے تھے یہ کس جشن‌ نو کا شور

    کل رات میرا ذکر یہ کس سلسلے میں تھا

    رقصاں تھے رند جیسے بھنور میں شفق کے پھول

    جو پاؤں پڑ رہا تھا بڑے قاعدے میں تھا

    چھڑکا جسے عدم کے سمندر پہ آپ نے

    صحرا تمام خاک کے اس بلبلے میں تھا

    منت گزار اہل ہوس ہو سکا نہ دل

    حائل مرا ضمیر مرے راستے میں تھا

    ہے فرض اس عطائے جنوں کا بھی شکریہ

    لیکن یہ بے شمار کرم کس صلے میں تھا

    اب آ کے کہہ رہے ہو کہ رسوائی سے ڈرو

    یہ بال تو کبھی کا مرے آئینے میں تھا

    سنتا ہوں سرنگوں تھے فرشتے مرے حضور

    میں جانے اپنی ذات کے کس مرحلے میں تھا

    ہیں ثبت میرے دل پہ زمانے کی ٹھوکریں

    میں ایک سنگ راہ تھا جس راستے میں تھا

    کچھ بھی نہ تھا ازل میں بجز شعلۂ وجود

    ہاں دور تک عدم کا دھواں حاشیے میں تھا

    میں نے جو اپنا نام پکارا تو ہنس پڑا

    یہ مجھ سا کون شخص مرے راستے میں تھا

    تھی نقطۂ نگاہ تک آزادئ عمل

    پرکار کی طرح میں رواں دائرے میں تھا

    زنجیر کی صدا تھی نہ موج شمیم زلف

    یہ کیا طلسم ان کے مرے فاصلے میں تھا

    اب روح اعتراف بدن سے ہے منحرف

    اک یہ بھی سنگ میل مرے راستے میں تھا

    دانشؔ کئی نشیب نظر سے گزر گئے

    ہر رند آئنے کی طرح میکدے میں تھا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں