1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

احساسِ کمتری کی بنیادیں

'جنرل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏21 جنوری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    احساسِ کمتری کی بنیادیں
    شیر محمد اختر
    تین قسم کے بچے آئندہ زندگی میں کمتری کے احساس سے متاثر ہو کر اس کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ پہلی قسم میںہم ایسے بچوں کو رکھیں گے جن میں جسمانی یا عضوی طور پر کوئی نقص ہو۔ اس میں ہر قسم کا نقص آ جاتا ہے جس سے بچوں کو اپنے نقائص کا احساس ہو یا جسے دوسرے بچے دیکھ کر ان کا تمسخر اڑائیں۔ ایسے نقائص بچوں میں کمتری کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ ماہرنفسیات ڈاکٹر بیران وُلف نے جسمانی یا عضویاتی نقائص میں ذیل کی علامات لکھی ہیں: موٹاپا یا بالکل دبلا پن۔ پیدائشی داغ یا نشانات۔ سرخ بال یا جسم پر بھورے پن کی کیفیت۔ جسم پر زیادہ بالوں کا ہونا۔ غیرمعمولی لمبی ناک۔ آنکھوں کی مختلف رنگت، باہر نکلے ہوئے دانت۔ مڑی ہوئی ٹھوڑی۔ حد سے زیادہ پتلی یا موٹی گردن۔ ٹیڑھے بازو۔ چوڑے یا بھدے کولہے۔ لمبی، ٹیڑھی، چھوٹی یا خمیدہ ٹانگیں۔ لمبے یا چھوٹے پاؤں۔ گنجا سر مردوں کا نسوانی چہرہ اور عورتوں کا مردانہ چہرہ۔ اس قسم کے اور بہت سے عضویاتی نقائص احساس کمتری کا بنیادی باعث بن سکتے ہیں۔ اس سے آپس میں بیزاری، تنہا پسندی اور خوف کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ان جذبات کا پیدا ہونا طبعی لحاظ سے زیادہ سماجی حیثیت کی اہمیت رکھتا ہے۔ ذرا آپ چند بچوں کو کھیلتے دیکھئے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ توانا بچے کمزور بچوں پر غالب نظر آتے ہیں۔ یہ سب کیوں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ کمزور بچہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتا۔ وہ بے چارا اس کے سوا اور کیا کر سکتا ہے کہ اپنی عزت کو بالائے طاق رکھ دے۔ بچپن کی یہ کمزوری اور اس کا احساس اس کی آئندہ زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ذلت کا یہ احساس اس کے لیے زندگی دوبھر کر دیتا ہے۔ اس سے بہت سی ذہنی تکالیف پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس لیے یہ ضرر رساں جذبہ جلد از جلد ذہن سے نکال دینا چاہیے۔ اگر اسے دور نہ کیا گیا تو یہ تحت الشعور میں اپنا تسلط جما لے گا اور قوتِ عمل پر ایک دباؤ سا پڑ جائے گا جو دماغی افعال کو معطل یا محدود کر سکتا ہے۔ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ اس جذبے کو ذہن سے نکال دینا چاہیے۔ اس کا مطلب نفسیات کی روشنی میں یہ ہے ہم بچے کو ذہن نشین کرائیں کہ اس کا یہ جذبہ یا خوف بے معنی ہے۔ اس کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ بچوں سے ان کے استاد، دوست یا والدین خ کھل کر باتیں کریں اور بچہ اپنے دل کا حال ان سے کہتے نہ رکے۔ توانا بچے تو اپنے جذبے پر قابو پا سکتے ہیں۔ ان کے لیے کھیلوں کے سخت مقابلے موزوں علاج ہیں۔ دوسری قسم میں لاڈلے بچے آتے ہیں جنہیں زیادہ پیار نے خراب کر دیا ہو۔ شایہ یہ جملہ آپ کو حیران کر دے گا مگر موجودہ سوسائٹی میں ایسے بچے ایک نہایت المناک حقیقت ہیں۔ موجودہ دور میں خوداعتمادی اور جرأت کی ضرورت ہے۔ ان صفات کے بغیر زمانے کے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ زمانہ کشمکش اور تگ و دو کا ہے۔ اس میں بقا کے لیے یہ دو صفات ضروری ہیں۔ مگر لاڈلے بچے میں یہ صفات کہاں! وہ تو بچپن سے ہی اپنی ناز برداری کرانا چاہتا ہے۔ وہ تو یہی چاہتا ہے کہ اس کی ہر بات کو پورا کیا جائے۔ اپنے گھر میں وہ ایک راجہ اور نواب ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایک حکومت کا صدر اور ایک ملک کا امیر یا ایک ہی وقت میں تینوں۔ مشکلات، مخالفت اس کی خلاف مرضی کام، تکلیف یا سختی، وہ ان باتوں سے ناآشنا ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عملی زندگی میں جب ناموافق حالات پیدا ہو جاتے ہیں تو وہ جذباتی طور پر ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اس کی زندگی ناکام ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں اسے کیا کرنا چاہیے، بچہ نہیں جانتا۔ اس لیے وہ خود بخود مایوسی کے جذبات کو اپنے دل میں دبائے رکھتا ہے۔ یہ دبا ہوا جذبہ اور تذلیل مل کر آئندہ زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ جوانی میں بہت سی ذہنی پریشانیوں کا باعث بچپن کے یہی جذبات اور تاثرات ہوتے ہیں۔ جب لاڈلا بچہ جوان ہو کر حقائق میں قدم رکھتا ہے تو زندگی کی کشمکش میں داخل ہوتا ہے۔ اگر وہ خوش قسمت ہے اور اسے اپنے پیٹ کے لیے تگ و دو نہیں کرنی پڑتی تو اس کے لیے نفسیاتی مسائل پیدا ہونے کا کم امکان ہے۔ لیکن اگر حالات اس کے مخالف ہوں تو ایسے نوجوان ایک بہت بڑی رکاوٹ اپنی راہ میں حائل محسوس کریں گے۔ وہ اس نئی دنیا میں رعایات کے طالب ہوں گے۔ حالات کی ناموافقت انہیں دل برداشتہ کر سکتی ہے۔ بدقسمتی سے ایسے بچے بڑے ہو کر غلط کاموں میں پڑ سکتے ہیں۔ تیسری اور آخری قسم میں ایسے لوگ آتے ہیں جن میں ذلت اور رسوائی کا خیال جڑ پکڑ چکا ہے اور اس خیال کا باعث شاید کوئی مخفی راز یا کوئی ناقابل عفو قصور ہو۔ محبت میں ناکامی، سوسائٹی کی نگاہ میں گر جانا، دولت کا ضائع ہو جانا، کسی غلطی جو ان کے دل و دماغ پر ہر وقت حاوی رہے۔ اس قسم کے خیالات سے انسان میں احساس کمتری پیدا ہوتا اور جڑ پکڑتا ہے۔ اگر کسی فرد کو ذاتی قدروقیمت کا بہت زیادہ احساس ہے تو اس کو یا اس کی انا کو ذرا سی ٹھیس لگنا اس کے جذبات کو بری طرح مجروح کر دیتا ہے۔ جس کا اندمال بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسا شخص جو کسی قسم کے اعلیٰ مدارج تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اگر اس کی راہ میں ذرا سی تحقیر آمیز یا کسی قسم کی معمولی بات حائل ہو جائے تو وہ اس کو اپنی حد سے زیادہ تذلیل سمجھتا ہے۔ ایسا فرد جو بچپن میں ایک مذہبی یا اخلاقی ماحول میں پرورش پاتا ہے، جب کسی ترغیب کی وجہ سے کسی کمزوری کا اظہار کر دیتا ہے اور اس سے کوئی غلط کام سرزد ہو جاتا ہے تو یہ احساس اس کے ذہن پر حاوی ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے آپ کو کمتر سمجھنے لگتا ہے۔ ۔۔۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں