1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

احادیث میں میلاد کی محفل، ذکرِ میلاد اور جلوسِ میلاد کا تصور

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏19 مارچ 2012۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    احادیث میں ذکر و محفل میلاد اور جلوس میلاد کا تصور

    حضور نبی اکرم :drood: نے خود محفل میلاد منعقد فرمائی

    جشنِ میلاد کی شرعی حیثیت کے حوالہ سے دیگر قرآنی دلائل کے ساتھ ساتھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے یومِ ولادت کی بابت بالتخصیص کوئی ہدایت یا تلقین فرمائی ہے؟ اس کا جواب اِثبات میں ہے۔

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خود اپنے میلاد کا ذکر فرمانا۔۔ تذکرہء میلاد ۔ سنتِ نبوی

    الإمام أحمد من حديث العِرْباض بن سَارِيَةَ السُّلَمِي رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم، قال : إنّي عِند اﷲ في أُمّ الکتاب لَخاتمُ النّبِيّين، وإنّ آدم لَمُنجدلٌ في طينتهِ، وَسوف أنبئکم بتأْويل ذلک : دعوة أبي إبراهيم، (1) وبشارة عيسي قومه، (2) ورؤْيا أمّي الّتي رأت أنه خرج منها نورٌ أضاءت له قصور الشام، وکذلک أمهات النببين يَرَيْنَ. (3)

    ’’اَحمد بن حنبل نے حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی تخریج کی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جب کہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ اور میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ میں اپنے جدِ امجد ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی اپنی قوم کو دینے والی بشارت کا نتیجہ ہوں، اور اپنی والدہ ماجدہ کے ان خوابوں کی تعبیر ہوں جس میں انہوں نے دیکھا کہ ان کے جسم اَطہر سے ایسا نور پیدا ہوا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔ اور اسی طرح کے خواب اَنبیاء کی مائیں دیکھتی تھیں۔‘‘

    (1) البقرة، 2 : 129
    (2) الصف، 61 : 6
    (3) 1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 127، 128، رقم : 17190، 17191، 17203
    2. ابن حبان، الصحيح، 14 : 312، رقم : 6404
    3. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 656، رقم : 4174
    4. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 253، رقم : 631
    5. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 340، رقم : 1455
    6. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 149
    7. هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان : 512، الرقم : 2093
    8. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 223
    9. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 583
    10. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 321
    حضور نبی اکرم :drood: کا اپنے یومِ میلاد کو منانا اور صحابہ کو تلقین

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود صحابہ کرام کو اپنے یومِ میلاد پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کی تلقین فرمائی اور ترغیب دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے میلاد کے دن روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِظہارِ تشکر و اِمتنان فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل مبارک درج ذیل روایات سے ثابت ہے :
    اِمام مسلم (206. 261ھ) اپنی الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
    أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم سُئل عن صوم يوم الإثنين؟ قال : ذاک يوم ولدت فيه ويوم بعثت أو أنزل عليّ فيه.
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسی روز میری ولادت ہوئی اور اسی روز میری بعثت ہوئی اور اسی روز میرے اوپر قرآن نازل کیا گیا۔‘‘
    1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحبابِ صيام ثلٰثة أيام من کل شهر، 2 : 819، رقم : 1162
    2. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 286، رقم : 38182
    درج ذیل کتب میں ’’انزلت عليّ فیہ النبوۃ (اسی روز مجھے نبوت سے سرفراز کیا گیا)‘‘ کے الفاظ ہیں :
    3. نسائی، السنن الکبری، 2 : 146، رقم : 2777
    4. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 296، 297، رقم : 22590، 22594
    5. عبد الرزاق، المصنف، 4 : 296، رقم : 7865
    6. أبويعلي، المسند، 1 : 134، رقم : 144
    7. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 300، رقم : 8259
    پیر کے دن کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کا دن ہے۔ بنا بریں یہ دن شرعی طور پر خصوصی اَہمیت و فضیلت اور معنویت کا حامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود روزہ رکھ کر اس دن اظہارِ تشکر فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل امت کے لیے اِظہارِ مسرت کی سنت کا درجہ رکھتا ہے۔ آج بھی حرمین شریفین میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم اہلِ محبت و تصوف پیر کے دن روزہ رکھنے کی سنت پر باقاعدگی سے عمل کرتے ہیں۔
    اِسلام میں ولادت کے دن کو خاص اَہمیت حاصل ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں یومِ ولادت کا کوئی تصور نہیں، انہیں علمِ شریعت سے صحیح آگہی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان . کہ ’’یہ میری ولادت کا دن ہے‘‘. اِسلام میں یوم ولادت کے تصور کی نشان دہی کرتا ہے۔ قرآنِ حکیم انبیاء علیھم السلام کے ایامِ میلاد بیان کرتا ہے۔ اِس کی تفصیل گزشتہ اَبواب میں بیان ہوچکی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنے پیغمبر کے یوم ولادت کی کیا قدر و منزلت ہے۔ اگر اِس تناظر میں دیکھا جائے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام و مرتبہ سب سے اَرفع و اَعلیٰ ہے۔ یہ دن منانے کے مختلف طریقے ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ جیسے مذکورہ بالا حدیث سے عبادات کی ایک قسم روزہ رکھنا ثابت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے حصول کے لیے صدقہ و خیرات کرنا، کھانا کھلانا، شکر بجا لانا اور خوشی منانا میلاد منانے کی مختلف صورتیں ہیں۔

    حضور نبی اکرم :drood:نے اپنا میلاد بکرے ذبح کر کے اور ضیافت کرکےمنایا

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنا میلاد منایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے اپنی ولادت کی خوشی میں بکرے ذبح کیے اور ضیافت کا اہتمام فرمایا۔

    ضیافتِ میلاد ، عقیقہ نہ تھی ۔ ایک شبہے کا ازالہ

    امام بیہقی (384۔ 458ھ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
    إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عن نفسه بعد النبوة.
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔‘‘
    1. بيهقي، السنن الکبري، 9 : 300، رقم : 43
    2. مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1833
    3. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 2 : 557، رقم : 962
    4. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 595
    5. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 5 : 340، رقم : 661
    6. مزي، تهذيب الکمال في أسماء الرجال، 16 : 32، رقم : 3523
    ضیاء مقدسی (569۔ 643ھ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
    أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم عق عن نفسه بعد ما بُعِثَ نببًاَ
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا۔‘‘
    1. مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 205، رقم : 1832
    2. طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 298، رقم : 994
    3. روياني، مسند الصحابة، 2 : 386، رقم : 1371
    3۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا :
    لمّا ولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عقّ عنه عبد المطلب بکبش.
    ’’جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے آپ کی طرف سے ایک مینڈھے کا عقیقہ کیا۔‘‘
    1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 32
    2. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 128
    3. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 134
    2۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما ہی سے روایت ہے :
    أن عبد المطلب جعل له مأدبة يوم سابعة.
    ’’بے شک حضرت عبد المطلب نے ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے عقیقہ) کی دعوت کی۔‘‘
    1. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 21 : 61
    2. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 51
    3. ابن حبان، الثقات، 1 : 42
    4. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 100
    5. ابن قيم، زاد المعاد في هدي خير العباد، 1 : 81
    اِس میں تو اَئمہ کا اختلاف ہی نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے ساتویں دن کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چالیس سال تک اپنا عقیقہ کیسے مؤخر کر سکتے تھے، کیوں کہ حدیث مبارکہ کی رُو سے جب تک عقیقہ نہ کر دیا جائے بچہ گروی رہتا ہے۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :
    الغلام مُرْتَهَنٌ بعقيقته يُذبَحُ عنه يوم السابع.
    ’’بچہ اپنے عقیقہ کے باعث گروی رہتا ہے، اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 101، کتاب الأضاحي، باب من العقيقة، رقم : 1522
    2. أبوداؤد، السنن، 3 : 106، کتاب الضحايا، باب في العقيقة، رقم : 2837
    3. ابن ماجه، السنن، 2 : 1056، کتاب الذبائح، باب العقيقة، رقم : 3165
    سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثتِ مبارکہ کے بعد کون سا عقیقہ کیا تھا؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے بعد اپنی ولادت اور میلاد کی خوشی و مسرت اور شکرانے میں بکرے ذبح کیے اور اِہتمامِ ضیافت کیا تھا کیونکہ عقیقہ دو (2) بار نہیں ہوتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف عقیقہ ہی تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اعلانِ نبوت کے بعد کیا۔ اگر ہم اسے عقیقہ ہی تصور کریں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ’’عقیقہ‘‘ کیا ہے؟ عقیقہ فی نفسہ ولادت پر اِظہار تشکر و اِمتنان ہے۔ اسے ولادت کی خوشی کی تقریب کہہ لیں یا تقریبِ میلاد، مفہوم ایک ہی ہے کہ ولادت کے موقع پر خوشی منائی جاتی ہے۔
    امام سیوطی کا قول
    اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) نے اپنی کتاب ’’حسن المقصد فی عمل المولد (ص : 64، 65)‘‘ میں حافظ ابن حجر عسقلانی (773. 852ھ) کے دلائل کی تائید میں ایک اور استدلال پیش کیا ہے جو جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
    وظهر لي تخريجه علي أصلٍ آخر، وهو ما أخرجه البيهقي، عن أنس رضي الله عنه أن النبي عق عن نفسه بعد النبوة. مع أنه قد ورد أن جده عبد المطلب عق عنه في سابع ولادته، والعقيقة لا تعاد مرة ثانية، فيحمل ذلک علي أن الذي فعله النبي صلي الله عليه وآله وسلم إظهارًا للشکر علي إيجاد اﷲ تعالي إياه، رحمة للعالمين وتشريفًا لأمته، کما کان يصلي علي نفسه، لذلک فيستحب لنا أيضًا إظهار الشکر بمولده باجتماع الإخوان، وإطعام الطعام، ونحو ذلک من وجوه القربات، وإظهار المسرات.
    ’’یوم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے حوالہ سے ایک اور دلیل مجھ پر ظاہر ہوئی ہے۔ وہ ہے جو امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعدخود اپنا عقیقہ کیا باوُجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبد المطلب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے ساتویں روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ کر چکے تھے۔ اورعقیقہ دو (2) بار نہیں کیا جاتا۔ پس یہ واقعہ اِسی پر محمول کیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آپ کو اﷲ کی طرف سے رحمۃً للعالمین اور اپنی اُمت کے مشرف ہونے کی وجہ سے اپنی ولادت کی خوشی کے اظہار کے لیے خود عقیقہ کیا۔ اسی طرح ہمارے لیے مستحب ہے کہ ہم بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت پر خوشی کا اِظہار کریں اور کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات بجا لائیں اور خوشی کا اظہار کریں۔‘‘
    1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 64، 65
    2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
    3. صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 367
    4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263، 264
    5. نبهاني، حجة اﷲ علي العٰلمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237
    اِمام سیوطی خود ہی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا وہ حقیقتاً ایک عقیقہ ہی تھا، اور پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل وہ عقیقہ نہیں تھا۔ اگرچہ ’’عق عن نفسہ‘‘ کے الفاظ جو ولادت کی خوشی میں شکرانے کے طور پر جانور کی قربانی دینے سے عبارت ہیں۔ تکنیکی اِعتبار سے عقیقہ کے آئینہ دار ہیں تاہم وہ معروف معنوں میں روایتی طور پر عقیقہ نہیں تھا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ آپ کی ولادت کے ایک ہفتہ بعد ہی کر چکے تھے۔ پھر امام سیوطی اپنا شرعی موقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عقیقہ زندگی میں صرف ایک بار ہوتا ہے اور اسے دہرایا نہیں جاتا۔
    اگر کوئی کہے کہ ٹھیک ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب کر چکے تھے لیکن عقیقہ کی وہ رسم دورِ جاہلیت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے پہلے ادا کی گئی تھی اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عقیقہ کا اِعادہ مناسب خیال کیا ہوگا۔ یہ سوچ جاہلانہ ہے۔ اگر دورِ جاہلیت سے متعلق اس نقطہ نظر کو درست مان لیا جائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت کے بعد اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے اپنے نکاح کی بھی تجدید کرنی چاہیے تھی۔ عقیقہ تو محض ایک صدقہ ہے جب کہ نکاح عقدِ ازدواج ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح پر مہر کی ادائیگی بھی حضرت ابو طالب نے اپنی جیب سے کی تھی۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو نکاح اور مہر کا اعادہ بھی ہونا چاہئے تھا۔ اِس لیے یہ نقطہ نظر درست نہیں کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے دورِ جاہلیت میں کیے گئے جائز کاموں کو سندِ قبولیت عطا کی ہے اور شرعی اَحکام نزولِ وحی کے بعد نافذ کیے گئے۔ جیسے ’’اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ (سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا)‘‘(1) کے تحت تو قبولِ اسلام کے بعد دورِ جاہلیت کے تمام گناہ بھی معاف ہوتے ہیں، ہر ہر گناہ کی الگ الگ توبہ درکار نہیں ہوتی، چہ جائے کہ اُمورِ صالحہ اور اُمورِ مستحسنہ، نکاح، عقیقہ، معاہدے اور ایسے تمام اُمورِ خیر برقرار رہتے ہیں۔ اس لیے امام سیوطی فرماتے ہیں کہ دوبارہ عقیقہ کرنے کی کوئی ضرورت تھی نہ کوئی شرعی تقاضا تھا۔ پس اس پوری تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے بعد خود اپنا میلاد مناتے ہوئے بکرے ذبح کیے۔
    القرآن، النساء، 4 : 22

    آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اِظہارِ مسرت پر کافر کے عذاب میں تخفیف

    مندرجہ بالا دلائل سے یہ واضح ہوا کہ جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا اﷲ تعالیٰ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت ہے، اس لیے محدثین و اَئمہ کرام اور بزرگانِ دین نے کثیر تعداد میں اس کے فضائل و برکات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ تمام کتبِ فضائل و سیرت اور تاریخ اس پر شاہد ہیں۔ اِس ضمن میں ایک مشہور واقعہ درج ہے جو اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے الصحیح کی کتاب النکاح میں نقل کیا ہے۔ اس واقعہ کو زیربحث لانے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کا مسلمہ اُصول اور اِجماعِ اُمت ہے کہ کافر کی کوئی نیکی اُسے آخرت میں فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ اُس کے اُمورِ خیر کے صلہ میں اُسے جنت دی جائے گی نہ اُس کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ بلکہ اُس کے اچھے اَعمال کے صلہ میں اُسے دنیا میں ہی کشادگی عطا کر دی جاتی ہے۔ (1) آخرت میں نیک کاموں پر جزا کے مستحق صرف مسلمان ہیں کیوں کہ عند اﷲ اَعمال کے اَجر کا باعث اِیمان ہے۔ (2)
    1. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 9 : 145
    2. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے حوالہ سے مشہور واقعہ کتبِ اَحادیث میں مذکور ہے کہ ابو لہب نے اپنی ایک لونڈی ثویبہ کو وقتِ ولادت حضرت سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت کے لیے بھیجا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ثویبہ دوڑتے ہوئے ابولہب کے پاس پہنچی اور اسے بھتیجا پیدا ہونے کی خوش خبری سنائی۔ بھتیجے کی پیدائش کی خبر سن کر ابولہب اتنا خوش ہوا کہ اُس نے وہیں اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا : ’’ثویبہ! جا میں نے تجھے نومولود (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کیا۔‘‘
    ابو لہب جب حالت کفر پر ہی مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ مرنے کے بعد تجھ پر کیا گزر رہی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں دن رات سخت عذاب میں جلتا ہوں لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے اور میری انگلیوں سے پانی جاری ہو جاتا ہے جسے پی کر مجھے سکون ملتا ہے۔ اِس تخفیف کا باعث یہ ہے کہ میں نے پیر کے دن اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش خبری سن کر اپنی خادمہ ثویبہ کو ان انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے آزاد کر دیا تھا۔
    یہ واقعہ حضرت زینب بنت اَبی سلمہ سے مروی ہے جسے محدثین کی کثیر تعدادنے واقعہ میلاد کے تناظر میں نقل کیا ہے۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) کی الصحیح میں مروی حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
    فلما مات أبولهب أريه بعض أهله بشرّ حيبة، قال له : ما ذا لقيت؟ قال أبولهب : لم ألق بعدکم غير أني سقيت في هذه بعتاقتي ثويبة.
    ’’جب ابولہب مر گیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو اُسے خواب میں دکھایا گیا۔ وہ برے حال میں تھا۔ (دیکھنے والے نے) اس سے پوچھا : کیسے ہو؟ ابولہب نے کہا : میں بہت سخت عذاب میں ہوں، اس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ ہاں مجھے (اس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب وأمهاتکم اللاتي أرضعنکم، 5 : 1961، رقم : 4813
    2. عبد الرزاق، المصنف، 7 : 478، رقم : 13955
    3. عبد الرزاق، المصنف، 9 : 26، رقم : 16350
    4. مروزي، السنة : 82، رقم : 290
    5. بيهقي، السنن الکبري، 7 : 162، رقم : 13701
    6. بيهقي، شعب الإيمان، 1 : 261، رقم : 281
    7. بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 149
    8. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 108
    9. ابن ابی دنیا نے ’’کتاب المنامات (ص : 154، رقم : 263)‘‘ میں اسے حسن اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
    10. بغوي، شرح السنة، 9 : 76، رقم : 2282
    11. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 62
    12. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3 : 98، 99
    13. زيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية، 3 : 168
    14. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 67 : 171، 172
    15. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 229، 230
    16. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 145
    17. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
    18. شيباني، حدائق الأنوار، 1 : 134
    19. عامري، شرح بهجة المحافل، 1 : 41
    20. انور شاه کشميري، فيض الباري علي صحيح البخاري، 4 : 278
    یہ روایت اگرچہ مُرسَل(1) ہے لیکن مقبول ہے، اِس لیے کہ اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے اسے اپنی ’’الصحیح‘‘ میں نقل کیا ہے اور اَجل علماء و حفاظِ حدیث نے اِس پر اِعتماد کرتے ہوئے اِس سے اِستشہاد و اِستناد کیا ہے۔ ثانیاً یہ روایت فضائل و مناقب کے باب میں ہے نہ کہ حلال و حرام میں؛ اور مناقب و اَحکام کے مابین حدیث کے اِستدلال میں فرق کو علماء خوب جانتے ہیں۔
    (1) اُصولِ حدیث میں مرسل اُس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سند کا آخری حصہ یعنی تابعی سے اوپر کا کوئی راوی ساقط ہو۔
    (1) اِس کا حکم یہ ہے کہ جب اَجل تابعی تک یہ روایت صحیح ثابت ہوجائے تو قابلِ حجت ہوگی۔ (2) تین فقہی مذاہب کے بانیان. اِمام اَعظم ابو حنیفہ (80۔ 150ھ)، اِمام مالک (93۔ 179ھ) اور اِمام اَحمد بن حنبل (164۔ 241ھ)۔ اور محدّثین کی کثیر جماعت کے نزدیک مرسل روایت قابلِ حجت ہوتی ہے بشرطیکہ ارسال کرنے والا ثقہ ہو اور وہ ثقہ ہی سے ارسال کرتا ہو۔ (3) ان کی دلیل یہ ہے کہ ثقہ تابعی کے متعلق یقینی ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ’’قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کذا او فعل کذا او فعل بحضرتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا، یا یہ کیا یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ کیا گیا)‘‘ تب ہی کہے گا جب وہ ثقہ راوی سے سنے گا۔
    1. ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 38
    2. ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48
    3. ابن حجر عسقلاني، نزهة النظر بشرح نخبة الفکر في مصطلح حديث أهل الأثر : 36، 37
    4. سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 272

    (2) ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 39

    (3) 1. سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 273
    2. ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48
    3. عبد الحق محدث دهلوي، مقدمة في أصول الحديث : 42، 43
    حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) ’’نزھۃ النظر بشرح نخبۃ الفکر فی مصطلح حدیث اھل الاثر (ص : 37)‘‘ میں لکھتے ہیں :
    ’’اِمام اَحمد کے ایک قول اور مالکی و حنفی فقہاء کے مطابق حدیثِ مرسل مطلقاً مقبول ہوتی ہے، اور امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی اور سند (خواہ وہ سند متصل ہو یا مرسل) سے مرسل روایت کی تائید ہو جائے تو وہ مقبول ہے ورنہ نہیں۔‘‘
    ملا علی قاری حنفی (م 1014ھ) شرح شرح نخبۃ الفکر میں لکھتے ہیں کہ ابن جریر نے یہ تصریح کی ہے کہ حدیث مرسل قبول کرنے پر تمام تابعین کا اِجماع ہے اور کسی تابعی سے اس کا انکار منقول نہیں۔ اور نہ اس کے بعد دو سو (200) سال تک اَئمہ میں سے کسی نے اس کا انکار کیا اور یہی وہ قرونِ فاضلہ ہیں جن کے خیر پر برقرار رہنے کی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت دی۔
    اس روایت سے آئمہ و محدثین کا جشنِ میلاد کا استشہاد
    ذیل میں ہم اِس روایت کے بارے میں چند ائمہ کرام کے ملفوظات نقل کریں گے، جنہوں نے اِس واقعہ سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِستشہاد و اِستناد کیا ہے :
    1۔ حافظ شمس الدین محمد بن عبد اﷲ جزری (م 660ھ) اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں :
    فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمه جوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم به، فما حال المسلم الموحد من أمة النبي صلي الله عليه وآله وسلم يسر بمولده، وبذل ما تصل إليه قدرته في محبته صلي الله عليه وآله وسلم ؟ لعمري إنما يکون جزاؤه من اﷲ الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم.
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔‘‘
    1. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
    2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 65، 66
    3. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 147
    4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 260، 261
    5. يوسف صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366، 367
    6. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237، 238
    2۔ حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی (777۔ 842ھ) ’’مورد الصادی فی مولد الہادی‘‘ میں فرماتے ہیں :
    قد صح أن أبالهب يخفّف عنه عذاب النار في مثل يوم الإثنين لإعتاقه ثويبة سرورًا بميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے صلہ میں ہر پیر کے روز ابولہب کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے۔‘‘
    اِس کے بعد محمد بن ناصر الدین دمشقی نے درج ذیل اَشعار پڑھے :
    إذا کان هذا کافر جاء ذمه
    وتبت يداه في الجحيم مخلَّدا

    أتي أنه في يوم الاثنين دائما
    يخفّف عنه للسّرور بأحمدا

    فما الظن بالعبد الذي طولُ عمره
    بأحمد مسروراً ومات موحدا
    ’’جب ابولہب جیسے کافر کے لیے۔ جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں اُس کے ہاتھ ٹوٹتے رہیں گے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو اُس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ تو کتنا خوش نصیب ہوگا وہ مسلمان جس کی ساری زندگی عبادتِ الٰہی اور میلاد کی خوشیوں میں بسر ہوئی اور وہ حالتِ اِیمان پر فوت ہوا۔‘‘
    1. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
    2. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 66
    3. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 238

    3۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) اِسی روایت کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
    در اینجا سند است مراہل موالید را کہ در شبِ میلاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرور کنند و بذل اموال نمایند یعنی ابولہب کہ کافر بود، و قرآن بمذمت وے نازل شدہ، چوں بسرور میلاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و بذل شیر جاریہ وے بجہت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جزا دادہ شد تا حال مسلمان کہ مملوست بمحبت و سرور و بذل مال در وے چہ باشد۔ ولیکن باید کہ از بدعتہا کہ عوام احداث کردہ انداز تغنی وآلات محرمہ ومنکرات خالی باشد تا موجب حرمان اَز طریقہ اِتباع نگردد۔
    عبد الحق، مدارج النبوة، 2 : 19
    ’’یہ روایت موقعِ میلاد پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کے لیے دلیل اور سند ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں ایک مکمل سورتِ قرآنی نازل ہوئی جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کر کے عذاب میں تخفیف حاصل کر لیتا ہے تو اس مسلمان کی خوش نصیبی کا کیا عالم ہوگا جو اپنے دل میں موجزن محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ولادتِ مصطفیٰ کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔ ہاں بدعات مثلاً رقص اور غیر اسلامی اعمال وغیرہ سے اجتناب ضروری ہے کیوں کہ انسان اس کے باعث میلاد کی برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘
    4۔ مولانا محمد عبد الحئ فرنگی محلی لکھنوی (1264۔ 1304ھ) لکھتے ہیں :
    ’’پس جب ابولہب ایسے کافر پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی امتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کرے اور اپنی قدرت کے موافق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خرچ کرے کیوں کر اعلیٰ مرتبہ کو نہ پہنچے گا، جیسا کہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) نے لکھا ہے۔‘‘
    عبد الحئ، مجموعه فتاويٰ، 2 : 282
    5۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی (و 1341ھ) تحریر کرتے ہیں :
    ’’جب ابولہب جیسے بدبخت کافر کے لیے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو جو کوئی اُمتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کرے اور حسبِ وسعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خرچ کرے تو کیوں کر اَعلیٰ مراتب حاصل نہ کرے گا۔‘‘
    لدهيانوي، احسن الفتاويٰ، 1 : 347، 348
    اِن اَئمہ و علماء کا ثویبہ کے واقعہ سے اِستدلال کرنا اس روایت کی صحت و حقانیت پر بھی دلالت کرتا ہے اور جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز کا بھی بيّن ثبوت ہے۔

    میلاد منانے پر کافر کے عذاب میں تخفیف کیوں؟

    مذکورہ بالا تفصیل سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابولہب کے عذاب میں تخفیف کیوں کی گئی جب کہ قرآن و حدیث اور اِجماعِ اُمت کی رُو سے کافر کا کوئی عمل بھی قابلِ اَجر نہیں اور آخرت میں اَجر و ثواب کا مستحق صرف صاحبِ ایمان ہی ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ ابولہب کے اِس عمل کا تعلق چوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس سے تھا اور اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا، اِس لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا جشن منانے پر اُس کافر کے عذاب میں بھی تخفیف کردی جس کی مذمت میں پوری ایک سورۃ نازل فرمائی تھی۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کافر کا وہ عمل جس کا تعلق رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے رائیگاں نہیں جائے گا۔
    ابولہب سے ہفتہ وار تخفیفِ عذاب اِس سبب سے نہیں ہوئی کہ اُس نے اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر خوشی منانا ہی اِس اِنعام کا باعث ہے اور اُس کا یہی عمل کافر ہوتے ہوئے بھی اُس کے عذاب میں رعایت کا سبب بن گیا۔ اﷲ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ عمل کرنے والا کون ہے بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ عمل کس کے لیے کیا گیا ہے۔ اُسے اِس سے غرض نہیں کہ عمل کرنے والا ابو لہب ایک کافر تھا کیوں کہ اُس کی ساری شفقتیں تو اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خاص ہیں۔
    وضاحت کے لیے محدثین کی چندمزید تصریحات درج ذیل ہیں :
    1۔ اِمام بیہقی (384۔ 458ھ) شعب الایمان میں لکھتے ہیں کہ یہ خصائص محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہے کہ کفار کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کا صلہ عطا کیا جاتا ہے :
    وهذا أيضا لأن الإحسان کان مرجعه إلي صاحب النبوة، فلم يضع.
    ’’اور یہ اِس لیے ہے کہ ابو لہب کے اِحسان کا مرجع صاحبِ نبوت ذات تھی، اس لیے اُس کا عمل ضائع نہیں کیا گیا۔‘‘
    بيهقي، شعب الإيمان، 1 : 261، رقم : 281
    2۔ اِمام بغوی (436۔ 516ھ) لکھتے ہیں :
    هذا خاص به إکرامًا له صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’ابو لہب کے عذاب میں تخفیف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِکرام کی وجہ سے ہے۔‘‘
    بغوي، شرح السنة، 9 : 76
    3۔ اِمام سہیلی (508۔ 581ھ) نے بھی یہی نقطہ نظر اِختیار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک روایت میں ہے :
    قال : مالقيت بعدکم راحة، غير أني سُقيت في مثل هذه، وأشار إلي النقرة بين السبابة والإبهام، بعِتقي ثويبة، وفي غير البخاري إن الذي رآه من أهله هو أخوه العباس، قال : مکثت حولا بعد موت أبي لهب لا أراه في نوم، ثم رأيته في شر حال، فقال : ما لقيت بعدکم راحة إلا أن العذاب يخفّف عني کل يوم اثنين. وذلک أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ولد يوم الإثنين، وکانت ثويبة قد بشّرته بمولده، فقالت له : أشعرت أن آمنة ولدت غلامًا لأخيک عبد اﷲ؟ فقل لها : اذهبي، فأنت حرة، فنفعه ذلک.
    ’’ابو لہب نے کہا : میں نے تمہارے بعد آرام نہیں پایا سوائے اس کے کہ ثویبہ لونڈی کے آزاد کرنے پر مجھے اتنا پانی پلایا جاتا ہے، اور (یہ کہتے ہوئے) اُس نے سبابہ (انگشتِ شہادت) اور انگوٹھے کے درمیانی فاصلے کی طرف اشارہ کیا۔ صحیح بخاری کے علاوہ دیگر روایات میں ہے کہ اُس کے اہلِ خانہ میں سے جس فرد نے اُسے دیکھا وہ اُس کے بھائی حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ نے فرمایا : میں ابولہب کی موت کے بعد ایک سال تک اُسے خواب میں دیکھتا رہا، پھر میں نے اُسے بہت بری حالت میں دیکھا تو اُس نے کہا : میں نے تمہارے بعد کوئی آرام نہیں پایا سوائے اِس کے کہ ہر پیر کے روز میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پیر کے دن ہوئی اور ثویبہ نے ابولہب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوش خبری سنائی تھی، اور اسے کہا تھا : کیا تجھے پتہ چلا ہے کہ آمنہ (رضی اﷲ عنھا) کے ہاں تیرے بھائی عبد اﷲ (رضی اللہ عنہ) کا بیٹا پیدا ہوا ہے؟ (اِس پر خوش ہوکر) ابو لہب نے اُس سے کہا : جا، تو آزاد ہے۔ اِس (خوشی منانے) نے اُسے دوزخ کی آگ میں فائدہ پہنچایا۔‘‘
    سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3 : 98، 99
    4۔ رئیس المفسرین اِمام قرطبی (م 671 ھ) فرماتے ہیں :
    هذا التخفيف خاص بهذا وبمن ورد النص فيه.
    ’’جب نصِ صحیح میں آچکا ہے کہ کافر کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کے صلہ میں اَجر ملتا ہے تو ایسے مقام پر اُسے مانا جائے گا۔‘‘
    عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
    5۔ شارِحِ صحیح بخاری اِمام کرمانی (717۔ 786ھ) لکھتے ہیں :
    يحتمل أن يکون العمل الصالح والخير الذي يتعلق بالرسول صلي الله عليه وآله وسلم مخصوصا من ذالک.
    ’’اِس واقعہ کو اِس پر محمول کیا جائے گا کہ کافر کے اُس عمل اور بھلائی پر اَجر و ثواب دیا جاتا ہے جس کا تعلق اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہو۔‘‘
    کرماني، الکواکب الدراري في شرح صحيح البخاري، 19 : 79
    6۔ شارِحِ صحیح بخاری اِمام بدر الدین عینی (762۔ 855ھ) بیان کرتے ہیں :
    يحتمل أن يکون ما يتعلق بالنبي صلي الله عليه وآله وسلم مخصوصا من ذلک.
    ’’اِس واقعہ کو اِس پر محمول کیا جائے گا کہ وہ اَعمال جن کا تعلق ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو اُن کے ذریعے کافر کے عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے۔‘‘
    عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95
    7۔ اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) نے یہ موقف بالصراحت بیان کیا ہے، جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں اُن کی کتب الحاوی للفتاوی اور حسن المقصد فی عمل المولد سے مختلف عبارات نقل کی ہیں۔
    8۔ اِمام عبد الرحمن بن دبیع شیبانی (866۔ 944ھ) لکھتے ہیں :
    فتخفيف العذاب عنه إنما هو کرامة النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’ابولہب کے عذاب میں یہ تخفیف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِکرام کی وجہ سے ہوئی۔‘‘
    شيباني، حدائق الأنوار، 1 : 134
    اِن تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ نادانستہ طور پر آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے والے بدترین کافر کو بھی اﷲ تعالیٰ اِس عمل کی جزا دے رہا ہے اور قیامت تک دیتا رہے گا۔ اور یہ صرف اور صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے کیے جانے والے اَعمال کی خصوصیت ہے کہ اگر کافر بھی کوئی عمل کرے گا تو اس کو جزا دی جائے گی۔
    ایک اِعتراض اور اُس کا جواب
    بعض لوگ اِس روایت پر اِعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ معاملہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ خواب میں پیش آیا اور وہ اُس وقت تک ایمان بھی نہیں لائے تھے۔ لہٰذا اِسے شرعی ضابطہ کیوں کر بنایا جا سکتا ہے؟
    اِس اِعتراض کا جواب یہ ہے کہ :
    1۔ جب ہم اِس واقعہ کو اپنے موقف میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوشی منانا باعثِ اَجر و ثواب ہے۔ کی تائید میں بطور دلیل لیتے ہیں تو ہم ابو لہب کا بیان اپنی دلیل کی بنیاد نہیں بناتے۔ ہمارے اِستدلال کی بنیاد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی روایت پر ہوتی ہے۔
    2۔ اگرچہ یہ واقعہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اِسلام لانے سے پہلے کا ہے لیکن اِسے روایت کرتے وقت اُن کا مشرف بہ اِسلام ہونا شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ یہ روایت اُنہوں نے شرفِ صحابیت حاصل کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں بیان کی تھی۔ لہٰذا آپ کی یہ روایت نورِ اِسلام حاصل ہوجانے کے بعد کی ہے اور ہر طرح سے قابلِ لحاظ و لائق اِستناد ہے۔
    3۔ اس حدیث کی ثقاہت اور قبولیت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ اِس روایت پر اِعتماد کرتے ہوئے اِمام بخاری (194۔ 256ھ) نے اسے الصحیح میں روایت کیا ہے۔ اگر اِمام بخاری کی نظر میں یہ حدیث قابلِ اِستناد نہ ہوتی تو وہ ہرگز اسے اپنی الصحیح میں شامل نہ کرتے بلکہ اِسے مسترد کر دیتے۔ ان کے علاوہ اِمام بخاری کے اُستاد اِمام عبد الرزاق بن ہمام صنعانی (126۔ 211ھ) نے اِسے المصنف میں روایت کیا ہے۔ اِمام مروزی (202۔ 294ھ) نے السنۃ میں درج کیا ہے۔ اِمام بیہقی (384۔ 458ھ) نے یہ روایت اپنی تین کتب. السنن الکبری، شعب الایمان، دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعۃ. میں بیان کی ہے۔ اِمام ابن کثیر (701۔ 774ھ) نے یہ روایت البدایۃ والنہایۃ میں درج کی ہے۔ ابن سعد (168۔ 230ھ) نے الطبقات الکبری میں، اِمام بغوی (436۔ 516ھ) نے شرح السنۃ میں، ابن جوزی (510۔ 579ھ) نے صفوۃ الصفوۃ میں، سہیلی (508۔ 581ھ) نے الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ہشام میں اور ابن عساکر (499۔ 571ھ) نے تاریخ دمشق الکبیر میں اِسے روایت کیا ہے۔ اگر یہ روایت صحیح نہ ہوتی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی منانے کے صلہ میں ابولہب کے عذاب میں تخفیف کا واقعہ درست نہ ہوتا تو مذکورہ بالا اَجل علماء و محدثین سمیت دیگر ائمہ کرام یہ روایت اپنی اپنی کتب میں کیوں بیان فرماتے؟ اِن اَجل ائمہ و محدثین نے نہ صرف اِسے روایت کیا ہے بلکہ اِس سے اِستنباط کرتے ہوئے اِس کی شرح بیان کی ہے جس پر کسی حاشیہ آرائی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
    خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہماری نظر میں اِس حدیث کے قابلِ اِستناد و اِستدلال ہونے کی دلیل حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا اِسے بیان کرنا، اِمام بخاری کا بطورِ حدیث اِسے قبول کرنا اور درجنوں ائمہ حدیث کا اپنی اپنی کتب میں اِسے شرعی قواعد و ضوابط کے طور پر درج کرکے اس سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی شرعی اِباحت کا اِستدلال و اِستنباط کرنا ہے۔

    محافل میلاد اور محافل نعت سنت نبوی :drood: ہے

    حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے نعت سننا

    1۔ ام المؤ منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں :
    کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يضع لحسان منبراً في المسجد يقوم عليه قائماً يفاخر عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أو قالت : ينافح عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد نبوی میں منبر رکھواتے، وہ اس پر کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق (کفار و مشرکین کے مقابلہ میں) فخریہ شعر پڑھتے یا فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرتے۔‘‘
    حدیث شریف میں وارِد لفظ ’’کَانَ‘‘ اس امر کی خبر دیتا ہے کہ یہ واقعہ بار بار ہوا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی میں منبر پر بلاتے اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نعت پڑھتے اور کفار کی ہجو میں لکھا ہوا کلام سناتے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شوکت اور علو مرتبت کا پتہ چلتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا آگے بیان کرتی ہیں کہ حضرت حسان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوکر فرماتے :
    إن اﷲ تعالي يؤيّد حسان بروح القدس ما يفاخر أو ينافح عن رسول اﷲ.
    ’’بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا ہے جب تک وہ اﷲ کے رسول کے متعلق فخریہ اَشعار بیان کرتا ہے یا (اَشعار کی صورت میں) ان کا دفاع کرتا ہے۔‘‘
    1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الأدب، باب في إنشاد الشعر، 5 : 138، رقم : 2846
    2. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 72، رقم : 24481
    3. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 554، رقم : 6058
    4. ابو يعلي، المسند، 8 : 189، رقم : 4746

    حضرت عامر بن اَکوع رضی اللہ عنہ سے مجمع عام میں نعتیہ اَشعار سننا
    حضرت سلمہ بن اَکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک رات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی طرف جا رہے تھے۔ قافلہ میں سے کسی شخص نے میرے بھائی عامر بن اَکوع سے کہا کہ آج آپ ہمیں اپنا کوئی کلام سنائیں۔ وہ اونٹ سے اُترے اور یہ شعر پڑھنے لگے :
    اللّهم! لو لا أنت ما اهتدينا
    ولا تصدّقنا ولا صلّينا

    فاغفر فداء لک ما اتّقينا
    وثبّت الأقدام إن لاقينا​
    (اے ہمارے پروردگار! اگر تو (اپنا محبوب ہمارے درمیان بھیج کر) ہمارے شاملِ حال نہ ہوتا تو ہم ہرگز ہدایت پاسکتے نہ ہم صدقہ و خیرات کرتے اور نہ نماز قائم کرسکتے۔ میں تجھ پر فدا! تو ہماری خطائیں معاف فرما جب تک ہم تقوی اِختیار کیے ہوئے ہیں اور جب دشمن سے ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما۔‘‘
    یہ سن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من هذا السائق؟
    ’’یہ اونٹنی چلانے والا (اور میری نعت کہنے والا) کون ہے؟‘‘
    صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ عامر بن اَکوع ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہوکر دعا دیتے ہوئے فرمایا : يرحمه اﷲ.
    ’’اللہ تعالیٰ اُس پر رحمت نازل فرمائے۔‘‘
    1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4 : 1537، رقم : 3960
    2. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب ما يجوز من الشّعر، 5 : 2277، رقم : 5796
    3. مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد، باب غزوة خيبر، 3 : 1428، رقم : 1802

    حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے ذکرِ میلاد و نعت سننا
    حضرت خریم بن اوس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غزوۂ تبوک سے واپسی پر حاضر ہو کر اسلام قبول کیا تو میں نے عباس بن عبد المطلب کو یہ کہتے ہوئے سنا : یا رسول اللہ! میں آپ کی مدح کرنا چاہتا ہوں۔ اُن کے اِظہارِ خواہش پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قل، لا يفضض اﷲ فاک.
    ’’کہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے منہ کی مہر نہ توڑے (یعنی آپ کے دانت سلامت رہیں)۔‘‘
    پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اَقدس میں درج ذیل نعتیہ اَشعار کہے :
    من قبلها طبت في الظلال وفي
    مستودع حيث يخصف الورق​
    (جب حضرت آدم علیہ السلام (اور حضرت حوا علیہا السلام) اپنے اپنے جسموں کو (جنت میں) پتوں سے ڈھانپ رہے تھے۔ اُس وقت سے بھی بہت پہلے آپ صلی اﷲ علیک وآلک وسلم جنت کے سایوں اور اپنی والدہ ماجدہ کے رحم میں بھی پاکیزہ تھے۔)
    ثم هبطت البلاد لا بشر
    أنت ولا مضغة ولا علق​
    (اُن کے جنت سے زمین پر اتارے جانے کے بعد) آپ صلی اﷲ علیک وآلک وسلم بھی اُن کے ہمراہ زمین پر تشریف لے آئے جب کہ آپ صلی اﷲ علیک وآلک وسلم نہ تو قبل ازیں بشری صورت میں تھے اور نہ ہی گوشت اور علق کی حالت میں۔)
    بل نطفة ترکب السفين وقد
    ألجم نسرا وأهله الغرق​
    (بلکہ حضرت نوح علیہ السلام کی مبارک پشت میں ایک تولیدی قطرہ کی حالت میں کشتی میں سوار تھے جب (دریا کے) غرق نے نسر (بت) اور اس کی پرستش کرنے والوں کو لگام دی تھی (یعنی طوفان کے باعث منکرینِ نوح غرق ہوگئے تھے)۔
    تنقل من صالب إلي رحم
    إذا مضي عالم بدا طبق​
    (آپ صلی اﷲ علیک وآلک وسلم مقدس اَصلاب سے پاکیزہ اَرحام کی جانب منتقل ہوتے رہے۔ جب ایک دور گزرتا تو دوسرا شروع ہوجاتا۔)
    حتي احتوي بيتک المهيمن من
    خندف علياء تحتها النطق​
    (یہاں تک کہ آپ صلی اﷲ علیک وآلک وسلم کا مبارک شرف جو آپ کے فضل پر گواہ ہے قبیلہ خندف (قریش) کے نسب کے اَعلیٰ مقام پر فائز ہوا (جب کہ دوسرے تمام لوگ آپ کے اِس مقام سے نیچے ہیں)۔
    وأنت لما ولدت أشرقت الأ
    رض وضاءت بنورک الأفق

    (اور جب آپ (سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کی گود میں) بزم آرائے جہاں ہوئے تو آپ کی تشریف آوری کے باعث زمین پُر نور ہوگئی اور فضائیں جگمگا اٹھیں۔)

    فنحن في ذلک الضياء وفي
    النور وسبل الرشاد نخترق​
    (ہم آپ صلی اﷲ علیک وآلک وسلم کی ضیاء پاشی اور نورانیت کے صدقے ہی تو راہِ ہدایت پر گامزَن ہیں۔ )
    1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 369، 370، رقم : 5417
    2. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 213، رقم : 4167
    3. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 54
    4. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 2 : 165، 166
    5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 218
    6. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 46
    7. نبهاني، الأنوار المحمدية من المواهب اللدنية : 25

    اَنصار کی بچیوں کی دف پرآمدِ مصطفی پر جلوس ،نعت خوانی اور جلوسِ میلاد

    عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن درود و سلام سے مہکی ہوئی فضا میں جلوس نکالنا بھی تقریباتِ میلاد کا حصہ ہے۔ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کا یہ عمل بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت ہے۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی جلوس نکالے جاتے جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم شریک ہوتے۔ درج ذیل احادیث سے جلوس کا ثبوت فراہم ہوتا ہے :
    کتب سیر و اَحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے :
    ’’اُن دنوں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کسی روز بھی متوقع تھی مدینہ منورہ کے مرد و زن، بچے اور بوڑھے ہر روز جلوس کی شکل میں دیدہ و دل فرشِ راہ کیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِستقبال کے لیے مدینہ سے چند میل کے فاصلے پر قباء کے مقام پر جمع ہو جاتے۔ جب ایک روز سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کی مسافتیں طے کرتے ہوئے نزولِ اِجلال فرمایا تو اس دن اہلِ مدینہ کی خوشی دیدنی تھی۔ اس دن ہر فرد فرطِ مسرت میں گھر سے باہر نکل آیا اور شہرِ مدینہ کے گلی کوچوں میں ایک جلوس کا سا سماں نظر آنے لگا۔‘‘
    حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ہیں :
    فصعد الرجال والنساء فوق البيوت، وتفرق الغلمان والخدم في الطرق، ينادون : يا محمد! يا رسول اﷲ! يا محمد! يا رسول اﷲ!
    ’’مرد و زن گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے، سب بہ آواز بلند کہہ رہے تھے : یا محمد! یا رسول اللہ! یا محمد! یا رسول اللہ!‘‘
    1. مسلم، الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب في حديث الهجرة، 4 : 2311، رقم : 2009
    2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 289، رقم : 68970
    3. أبويعلي، المسند، 1 : 107، رقم : 116
    4. مروزي، مسند أبي بکر : 129، رقم : 65
    اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری دیکھ کر جاں نثاروں پر کیف و مستی کا ایک عجیب سماں طاری ہوگیا۔ اِمام رویانی کے مطابق اہالیانِ مدینہ جلوس کی شکل میں یہ نعرہ لگا رہے تھے :
    جاء محمد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
    ’’اﷲ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔‘‘
    روياني، مسند الصحابة، 1 : 138، رقم : 329
    معصوم بچیاں اور اَوس و خزرج کی عفت شعار دوشیزائیں دف بجا کر دل و جان سے محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو اِن اَشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں :
    طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا
    مِنْ ثَنِياتِ الْودَاعِ

    وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا
    مَا دَعَاِﷲِ دَاعٍ

    أيُّهَا الْمَبْعُوْثُ فِيْنَا
    جِئْتَ بِالْأمْرِ الْمَطَاعِ​
    (ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اللہ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔)
    1. ابن ابي حاتم رازي، الثقات، 1 : 131
    2. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 14 : 82
    3. أبو عبيد اندلسي، معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، 4 : 1373
    4. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشرة، 1 : 480
    5. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2 : 507
    6. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 583
    7. ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 620
    8. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 7 : 261
    9. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 8 : 129
    10. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 634
    11. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 4 : 100، 101
    12. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 323

    کیا مندرجہ بالا ساری روایات سب محافلِ میلاد نہیں ہیں ؟

    غور طلب مقام یہ ہے کہ ہر روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، نعت خوان صحابی اور انکے ہمراہ دیگر صحابہ کا ذکر ہے۔ مثلا راوی صحابی وغیرہ ۔ بالخصوص آخری روایت میں انصار کی بچیاں تو باقاعدہ جلوس کی شکل میں اجتماعی طور پر خوشی مناکر نعتیں پڑھتی نظر آتی ہیں۔ جو کہ سب کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وقوع پذیر ہوا اور آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا۔ بلکہ میلاد کی نعتیں پڑھنے والوں کو انعام و اکرام سے نوازا۔

    اوپر بیان کردہ محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَجزائے تشکیلی سے واضح ہوگیا ہے کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے یہی طریقے جائز اور مسلمہ ہیں۔ دنیا بھر میں اِسلامی معاشرے اِنہی طریقوں سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سے ایک عمل بھی ایسا نہیں جس کی اَصل عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دورِ صحابہ میں موجود نہ ہو یا قرآن و سنت سے متصادم ہو۔ جس طرح یہ اَجزاء الگ الگ طور پر جائز بلکہ مسلمہ ہیں اُسی طرح مجموعی طور بھی محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں اِن کو شرعی جواز حاصل ہے۔

    حوالہ جاتی کتاب ۔ میلاد النبی :drood:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں